موجودہ اُمت مسلمہ کی چودہ سو سالہ تاریخ کے چار اَدوار

امام ترمذیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا کہ:
لَیَاْتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِیْ مَا اَتٰی عَلٰی بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ حَذْوَ النَّعْلِ بِالنَّعْلِ
’’میری اُمت پر بھی لازماً وہ تمام حالات وارد ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر واقع ہوئے‘ ہو بہو بالکل ایسے جیسے (ایک جوڑے کی) ایک جوتی دوسری جوتی سے مشابہ ہوتی ہے.‘‘

اب سے لگ بھگ اٹھارہ برس قبل ان سطور کا راقم مسجد خضراء سمن آباد میں اعتکاف کی حالت میں اُمت مسلمہ کے ماضی‘ حال اور مستقبل کے بارے میں غور کر رہا تھا کہ اچانک یہ حدیث مبارک ذہن میں بجلی کی طرح کوند گئی اور اس نے بعینہٖ وہ کام کیا جو ایک بہت بڑے خزانے کو کھولنے کے لیے ایک چھوٹی سی کنجی کرتی ہے. چنانچہ فوراً اُمت کی چودہ سو سالہ تاریخ کا ایک خاکہ نوشتۂ دیوار کی طرح نگاہوں کے سامنے آ گیا اور یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ سابقہ اُمت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی دو ہزار سالہ تاریخ کے جن چار اَدوار کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدائی چند آیات میں ہوا ہے وہ ایک اعتبار سے ؎

’’خوشتر آں باشد کہ سرّ دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں!‘‘

کے مصداق خود اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ کا پیشگی بیان ہے. اس سے جہاں اس حدیث مبارکہ کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہوا وہاں اس حدیث نبویؐ کی حقانیت بھی مزید منکشف ہوئی جس میں آنحضور  نے قرآن حکیم کے بارے میں فرمایا ہے کہ:

فِیْہِ نَبأُ مَا قَبْلَـکُمْ وَخَبَرُ مَا بَعْدَکُمْ وَحُکْمُ مَا بَیْنَـکُمْ
’’اس میں تم سے پہلے کے لوگوں کے حالات بھی درج ہیں اور تمہارے بعد آنے والوں کے حالات کا ذکر بھی موجود ہے اور تمہارے مابین رونما ہونے والے جملہ نزاعات کا فیصلہ بھی موجود ہے.‘‘ (ترمذی و بیہقی ‘عن علی ؓ بن ابی طالب)

بہرحال ذیل میں اُمتِ مسلمہ کے عروج و زوال کا ایک اجمالی خاکہ تاریخی ترتیب کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ تاکہ ایک طرف ’’عروج‘‘ کے ضمن میں ملتِ اسلامی کی عظمت و سطوتِ گزشتہ کی ایک جھلک سامنے آئے اور علامہ اقبال کے اس شعر کے مطابق کہ ؎

’’کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا!‘‘

مسلمان نوجوان کو معلوم ہو کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب عرب افواج جبر الٹر (جبل الطارق) سے شمال مشرق کی جانب بڑھتی ہوئی فرانس کے عین قلب تک جا پہنچی تھیں‘ اور پھر ایک وقت وہ بھی آیا جب ترک افواج پورے مشرقی یورپ کو روندتی ہوئی ویانا کے دروازوں تک جا پہنچی تھیں. شاید کہ اسی طرح کچھ نوجوانوں کے دلوں میں ملت اسلامی کی تجدید اور اس کی عظمت و سطوتِ گزشتہ کی بازیافت کا جذبہ پیدا ہو جائے! اور دوسری طرف ’’زوال‘‘ کے ضمن میں یہ حقیقت واضح ہو جائے کہ خدا کا عدل بے لاگ ہے اور اس کا قانون اٹل اور غیر مبدل. اس نے جو معاملہ سابقہ اُمت ِمسلمہ یعنی بنی اسرائیل کے ساتھ کیا بعینہٖ وہی ہمارے ساتھ کیا‘ حتیٰ کہ ہماری اور ان کی تاریخ میں ایک حد درجہ حیرت انگیز مشابہت موجود ہے اس پہلو سے کہ یہود پر بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کے دو دَور آئے اور ہم پر بھی دو ہی دَور آئے. اگرچہ اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی وسعت کی نسبت سے ہمارے نکبت و اِدبار کے یہ دَور بھی یہود کے مقابلے میں بہت طویل رہے ‘اور جس طرح بنی اسرائیل کی تولیت کے زمانے میں بیت المقدس کے ناموس کا پردہ ؎
’’اِسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرتِ انساں کی قبا چاک!‘‘

کے مصداق دو بار چاک ہوا اسی طرح ہمارے عہد تولیت میں بھی مسجد اقصیٰ کی حرمت دو ہی مرتبہ پامال ہوئی.
اُمت مسلمہ کے عروج و زوال کے تاریخی خاکے کے ضمن میں دو باتیں پیشگی سمجھ لینی چاہئیں: ایک یہ کہ‘ جیسے کہ پہلے بھی عرض کیا چکا ہے‘ اپنی ہیئت تشکیلی کے اعتبار سے اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے دو حصے ہیں. پہلا ’’اُمیین‘‘ یعنی بنی اسماعیل پر مشتمل ہے اور اسے اس اُمت کے قلب یا مرکزکی حیثیت حاصل ہے‘ اور دوسرا ’’آخرین‘‘ یعنی دیگر اقوام پر مشتمل ہے ‘خواہ وہ کردہوں یا ترک‘ اہل فارس ہوں یا اہل ہند‘ افغان ہوں یا مغل‘ اہل حبش ہوں یا بربر‘ شرقِ بعید یعنی ملایا اور انڈونیشیا سے تعلق رکھتے ہوں یا مغربِ بعید یعنی مراکو اور موریطانیہ سے.

دوسرے یہ کہ جغرافیائی اعتبار سے بھی
 عالم اسلام کو تین حصوں میں منقسم سمجھنا چاہیے‘ یعنی ایک قلب‘ دوسرے میمنہ اور تیسرے میسرہ. اگر دنیا کے نقشے کو سامنے رکھ کر عالم اسلام پر نگاہ جمائی جائے تو وہ ایک ایسے عقاب کے مانند نظر آئے گا جو اپنے دونوں بازوئوں کو پوری طرح پھیلائے محو پروا زہو. جزیرہ نمائے عرب‘ عراق‘ فلسطین‘ شام اور ایشیائے کوچک جو عالم اسلام کے قلب کی حیثیت رکھتے ہیں‘ اس عقاب کے جسم کے مانند نظر آئیں گے جن میں سے ایشیائے کوچک کو اس کے سر اور چونچ سے مشابہت ہے اور جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی حصے کو اس کے دُم کے پھیلے ہوئے پروں سے. اس عقاب کا دایاں بازو (میمنہ) ایران‘ ترکستان‘ افغانستان اور برصغیر پاک و ہندسے ہوتا ہوا ملایا اور انڈونیشیا تک پھیلا ہوا ہے ‘اور بایاں بازو (میسرہ) پورے شمالی افریقہ کو لپیٹ میں لیتا ہوا سپین تک چلا گیاہے. اب آیئے تاریخی خاکے کی طرف:

سن عیسوی کے حساب سے اُمتِ مسلمہ کی تاریخ کا آغاز ساتویں صدی سے ہوتا ہے‘ اس لیے کہ آنحضور  کی ولادت باسعادت ۵۷۱ء میں ہوئی. ۶۱۰ء میں آپؐ ؐ نے اپنی دعوت کا آغاز فرمایا اور محتاط ترین حساب کے مطابق اپریل ۶۳۲ء میں آپ ؐ جزیرہ نمائے عرب کی حد تک اسلامی انقلاب کی تکمیل فرما کر’’رفیق اعلیٰ‘‘ سے جاملے‘ فَصَلّی اللّٰہ علیہ وبارک وسلّم تسلیمًا کثیرًا. خلفاءِ ثلاثہ یعنی حضراتِ ابوبکر صدیق‘ عمر فاروق اور عثمان غنی رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عہدِ خلافت کے دوران ’’اُمیین‘‘ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر ایک سیلاب کے مانند جزیرہ نمائے عرب سے نکلے اور انہوں نے ایک ربع صدی سے بھی کم میں ایران و عراق‘ شام و فلسطین اور مصر کے علاوہ شمالی افریقہ کے بڑے رقبے پر اسلام کا پرچم لہرا دیا. حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں تو یہ عمل رُکا رہا‘ لیکن بنو اُمیہ کے دَور کے آغاز کے ساتھ ہی اس سیلاب نے دوبارہ آگے بڑھنا شروع کر دیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ایک طرف مشرق میں ترکستان‘ افغانستان اور سندھ تک اور دوسری طرف مغرب میں پورے شمالی افریقہ کے علاوہ سپین سمیت مغربی یورپ کا وسیع علاقہ ’’اُمیین‘‘ کے زیر نگیں آ گیا اور عالمِ اسلام کی سرحدیں تین براعظموں تک وسیع ہو گئیں. یہی وہ زمانہ تھا جب عرب افواج اندلس سے پیش قدمی کرتے ہوئے فرانس کے عین قلب تک جا پہنچی تھیں.

آٹھویں‘ نویں اور دسویں صدی عیسوی کا زمانہ عربوں کے عروج کا دَور ہے‘ جس کے دوران اسلام کی علمبرداری اور عالمِ اسلام کی سیادت دونوں ’’اُمیین‘‘ کی دو اہم شاخوں یعنی بنو اُمیہ اور بنو عباس کے پاس رہیں‘ او رروئے ارضی کے ایک بڑے حصے پر اُن کے دین و مذہب‘ ان کے تہذیب و تمدن‘ ان کے علوم و فنون اور اُن کی شان و شوکت کا سکّہ رواں رہا. لیکن جیسے جیسے دُنیوی جاہ و جلال میں اضافہ ہوا‘ جذباتِ دینی اور حرارتِ ایمانی میں کمی آتی چلی گئی اور اس طرح یہ تناور درخت اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا گیا. اس اندرونی اضمحلال کے اثرات کے ظاہر ہونے میں کچھ مدت ضرور صرف ہوئی‘ لیکن دسویں صدی عیسوی ہی کے دوران واضح ہو گیا تھا کہ عرب اپنے عالمِ پیری میں قدم رکھ چکے ہیں. گیارہویں صدی عیسوی کے دوران ’’اُمیین‘‘ کا انحطاط اور زوال اپنی آخری حدوں کو پہنچ گیا اور اس طرح عالم اسلام کے قلب میں قوت کا ایک خلا پیدا ہو گیا.

خوش قسمتی سے قوت کے دباؤ میں اس کمی کے نتیجے میں عالم اسلام کی شمال مشرقی سرحدوں سے جو قبائل قلب اسلام کی طرف کھنچ کر آئے وہ پہلے ہی سے مسلمان ہو چکے تھے‘ یعنی کرد اور ترکانِ سلجوقی‘ جنہوں نے گیارہویں صدی عیسوی کے دوران شام‘ فلسطین اور مصر میں مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے اور اس طرح عالم اسلام کے قلب کی حفاظت اور مدافعت کے لیے کسی قدر تازہ دم قوت فراہم ہو گئی.
بارہویں اور تیرہویں صدی عیسوی کے دوران میں اُمتِ مسلمہ پر گویا عذابِ خداوندی کے ’’وعدۂ اولیٰ‘‘ کا ظہور ہوا اور ہو بہو وہی نقشہ کھنچ گیا جس کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۵ میں تاریخ بنی اسرائیل کے پہلے دورِ عذاب کے ضمن میں آیا ہے. چنانچہ پہلے شمال سے صلیبی طوفان کے ریلے آنے شروع ہوئے‘ اور ۱۰۹۹ء میں نہ صرف یہ کہ مسجد اقصیٰ کے ناموس کا پردہ چاک ہوا‘ بلکہ بیت المقدس میں وہ قتل عام ہوا جس کا تذکرہ کرتے ہوئے مغربی مؤرخین بھی کانپ جاتے ہیں. پورے اٹھاسی برس تک بیت‘المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ رہا. اس لیے کہ دولت عباسی تو ’’مرنے والی اُمتوں کے عالم پیری‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی تھی‘ گویا ’’ا ُمیین‘‘ میں تو سرے سے دم خم باقی ہی نہ رہا تھا. بالآخر ’’آخرین‘‘ کے تازہ و گرم خون نے مجاہد کبیر صلاح الدین ایوبی رحمۃ اللہ علیہ کی سرکردگی میں ۱۱۸۷ء میں بیت المقدس کو صلیبیوں کے قبضے سے نجات دلائی اور اس طوفان کا رُخ موڑا اورپھر مشرق کی جانب سے آیا فتنۂ تاتار کا وہ طوفانِ عظیم جس نے پہلے افغانستان اور ایران کو پامال کیا اور ہر جگہ کشتوں کے پشتے لگا دیے اور بالآخر ۱۲۵۸ء میں بغداد میں وہ تباہی مچائی کہ رہے نام اللہ کا. لاکھوں مسلمان تہ تیغ ہوئے‘ بغداد کی گلیاں خون کی ندیاں بن گئیں اور الف لیلہ کے اس رومانوی شہر کی اینٹ سے اینٹ بج گئی ‘اور بعینہٖ وہ کیفیت پیدا ہو گئی جو کم و بیش دو ہزار سال قبل بخت نصر کے حملے 
سے بیت المقدس کی ہوئی تھی. نتیجتاً زوالِ ملکِ مستعصم امیر المؤمنین کے ساتھ ہی خلافت عباسی کا ٹمٹما تا ہوا چراغ بالکل گل ہو گیا ‘اور نہ صرف یہ کہ اُمت ِمسلمہ پر عذابِ خداوندی کا یہ پہلا دَور تکمیل کو پہنچا بلکہ کم از کم ’’اُمیین‘ ‘کی حد تک تو وہ وعید بھی پوری ہو گئی جو سورۂ محمد( )‘ آیت ۳۸ میں وارد ہوئی تھی کہ وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ’’اوراگر تم پیٹہ موڑ لو گے تو (اللہ) تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو کھڑا کر دے گا!‘‘ چنانچہ وہ عالمِ اسلام کی سیادت و قیادت کے منصب سے معزول کر دیے گئے. دو سال بعد یعنی ۱۲۶۰ء میں اس طوفان کا رُخ بھی ’’آخرین‘‘ ہی نے پھیراجس سے کم از کم اسلام کا مغربی بازو اس کی تاخت و تاراج سے محفوظ رہ گیا.

بارہویں اور تیرھویں صدی عیسوی کے دوران عالم اسلام کا قلب بعینہٖ وہی نقشہ پیش کر رہا تھا جسے دیکھ کر کبھی حضرت عزیر علیہ السلام کی زبان سے بے اختیار یہ الفاظ نکل گئے تھے کہ 
اَنّٰی یُحۡیٖ ہٰذِہِ اللّٰہُ بَعۡدَ مَوۡتِہَا (البقرۃ:۲۵۹’’کیسے زندہ کرے گا اللہ اسے اس کی موت کے بعد!‘‘ لیکن پھر اُمت مسلمہ کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی وہی شان ظاہر ہوئی جس کا ظہور بنی اسرائیل کے حق میں ہوا تھا ‘صرف اس فرق کے ساتھ کہ چونکہ سابقہ اُمت ِمسلمہ ایک ہی نسل پر مشتمل تھی لہٰذا اس کی نشاۃِ ثانیہ کا یہ عمل بھی لا محالہ اسی نسل کے اندر واقع ہوا‘ لیکن اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے معاملے میں یہ مجبوری نہ تھی‘ لہذا یہاں تجدید ملت کا یہ کام ’’آخرین‘‘ کی مختلف اقوام سے لے لیا گیا. چنانچہ ؎

’’ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘

کے مطابق نہ صرف یہ کہ خود انہی ترکانِ چنگیزی کا بڑا حصہ اسلام لے آیا جن کے ہاتھوں عالم اسلام پر ہولناک تباہی آئی تھی‘ بلکہ انہی کے قبیل کے وحشی قبائل میں سے دو قبیلوں کو یہ توفیق ارزانی ہوئی کہ وہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوئے اور ان میں سے ایک یعنی ترکانِ تیموری نے ہندوستان میں ایک عظیم الشان مسلم سلطنت کی بنیاد رکھ کر عالم اسلام کے دائیں بازو کی توسیع کی‘ اور دوسرے یعنی ترکانِ عثمانی نے ابتداء ً ایشیائے کوچک میں قدم جمائے اور پھر رفتہ رفتہ اس عظیم الشان مسلمان مملکت کی بنیاد رکھی جس نے ایک طرف پورے مشرقی یورپ پر اپنی بالادستی کا سکہ جمایا‘ یہاں تک کہ ایک موقع پر اٹلی کے دروازوں تک پر دستک دی اور دوسری طرف شمالی افریقہ سمیت پورے عالم اسلام کے قلب کی حفاظت و سیادت کی ذمہ داری سنبھالی ‘تاآنکہ خلافت کا بھی احیاء کیا اور اس طرح گویا عالم اسلام کے قلب کی عظمت و سطوتِ گزشتہ پھر پوری طرح لوٹ آئی‘ اگرچہ عربوں کے ذریعے نہیں بلکہ ترکوں کے واسطے سے.
قسمت کے کھیل بھی عجیب ہیں. اِدھر تو خلافت ِ عثمانی کے استحکام کے ذریعے عالمِ اسلام کے قلب میں گویا ملت کی نشأۃِ ثانیہ ہوئی اور اُدھر یورپی استعمار کے سیلاب کی صورت میں اُمتِ مسلمہ پر عذابِ الٰہی کے دوسرے اور نہایت طویل دَور کا آغاز ہو گیا‘ جس کا اصل زور عالمِ اسلام کے میسرہ اور میمنہ کی جانب رہا.

یہ ایک ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے کہ یورپ میں احیاء العلوم کا پورا عمل اسلام ہی کے زیر اثر شروع ہوا ‘اور یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے یورپ کو مشرق و مغرب کے علوم و فنون سے روشناس کرایا. لیکن جیسے ہی یورپ میں بیداری ہوئی اور وہاں قوت کا دباؤ بڑھا‘ گویا عالم اسلام کی شامت آگئی.

یورپ مشرق و مغرب دونوں اطراف سے مسلمانوں کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا‘ لیکن مشرق میں عذاب کے وعدۂ اولیٰ کے بعد نشأۃِ ثانیہ کا عمل ظاہر ہو چکا تھا اور عظیم سلطنت عثمانیہ عالمِ اسلام کے قلب کے محافظ سنتری کی حیثیت سے کھڑی تھی‘ البتہ مغرب میں اب دولت ہسپانیہ ’’مرنے والی اُمتوں کے عالم پیری‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی تھی. لہذا ؏ ’’ہے جرمِ ضعیفی کی سز امرگِ مفاجات‘‘ کے مصداق یورپی استعمار کا اوّلین شکار وہی بنی اور پندرہویں صدی عیسوی کے دوران اس عظیم سلطنت کا قلع قمع ہو گیا. یہاں تک کہ ۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد تو بعینہٖ وہ صورت پیدا ہو گئی جس کا نقشہ قرآن مجید میں عذابِ استیصال کا نوالہ بننے والی قوموں کے بیان میں کھینچا جاتا ہے‘ یعنی:

کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ؕ (ھود:۶۸ و ۹۵)
’’جیسے کہ وہ کبھی وہاں آباد ہی نہ تھے‘‘

اور:
لَا یُرٰۤی اِلَّا مَسٰکِنُہُمۡ ؕ (الاحقاف:۲۵)
’’اب ان کے ویران مسکنوں کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا!‘‘ 

۱۴۹۸ء میں واسکوڈی گاما نے نیا بحری راستہ تلاش کیا اور اس کے فوراً بعد یورپی استعمار کا سیلاب عالم اسلام کے میمنہ پر ٹوٹ پڑا اور انڈونیشیا‘ ملایا اور ہندوستان مختلف یورپی اقوام کے استبدادی پنجوں میں جکڑے گئے‘ اور یہ عمل جس کا آغاز سولہویں صدی عیسوی سے ہوا‘ اٹھارہویں اور انیسویں صدی عیسوی میں عالم اسلام کے دائیں بازو کی حد تک اپنے عروج کو پہنچ گیا.

اسی اثناء میں دولت عثمانی بھی اپنے شباب کے دَور سے گزر آئی تھی اور اب اس نے بھی ’’مردِ بیمار‘‘ کی حیثیت اختیار کر لی تھی. گویا عالم اسلام کے قلب میں آٹھ صدیوں کے بعد پھر وہی قوت کا خلا پیدا ہو گیا جو گیارہویں صدی عیسوی میں دولتِ عباسیہ کے اضمحلال کے باعث پیدا ہوا تھا‘ اور قوت کے دبائو کی اس کمی کے باعث مغربی استعمار کا رُخ عالم اسلام کے قلب کی جانب مڑ گیا.

عالم اسلام کے قلب پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے اس دوسرے دَور کا آغاز بیسویں صدی کے شروع میں ہو گیا تھا. چنانچہ پہلی عالمگیر جنگ کے خاتمے پر جب دنیا کا نیا نقشہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ عظیم دولت عثمانیہ سمٹ سمٹا کر ایشیائے کوچک میں محدود ہو گئی اور شمالی افریقہ سمیت پورا عالم عرب چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں منقسم ہو کر مختلف یورپی اقوام کے براہِ راست زیر نگیں ہو گیا یا بالواسطہ محکومی میں آ گیا اور ہو بہو وہی کیفیت پیدا ہو گئی جس کی خبر مخبر صادق  نے ان الفاظ میں دی تھی کہ : 
یُوشِکُ الْاُمَمُ اَن تَداعٰی عَلَیْکُمْ کَمَا تَدَاعَی الاَ کَلَۃُ اِلٰی قَصْعَتِھا یعنی ’’ایک زمانہ آئے گا کہ اقوامِ عالم ایک دوسرے کو تم پر ٹوٹ پڑنے کی اس طرح دعوت دیں گی جیسے (کسی دعوتِ طعام میں) کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان کی طرف بلاتے ہیں.‘‘

اس طرح بحیثیت مجموعی اُمتِ مسلمہ پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا دَورِ ثانی اس صدی کے رُبع اوّل میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا تھا جب کہ پورا عالم اسلام مغربی استعمار کے ناپاک 
شکنجے میں جکڑا گیا‘ اگرچہ خاص ’’اُمّیین‘‘ کے حق میں ’’وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ‘‘ کی وہ مکمل صورت جو سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۷ میں بیان ہوئی تھی‘ تقریباً نصف صدی بعد ۱۹۶۷ء میں ظاہر ہوئی جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ایک مغضوب وملعون قوم کے ہاتھوں ایک شرمناک اور ذلت‘ آمیز شکست دلوائی ‘اور عربوں کے عہد تولیت کے دوران ایک بار پھر مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال ہوئی اوربیت المقدس ان کے ہاتھوں سے نکل کر یہود کے قبضے میں چلا گیا ‘اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس بار یہ قبضہ کتنا طویل ہو گا. اس داستان کا المناک ترین باب یہ ہے کہ مغربی استعمار نے اُمتِ مسلمہ کی وحدتِ ملّی کو پارہ پارہ کر دیا‘ اور اس صدی کے آغاز ہی میں نسلی اور علاقائی عصبیتوں کے وہ بیج مسلمان اقوام کے دلوں میں بو دیے جو ابھی تک برگ و بارلا رہے ہیں. چنانچہ پہلے انہوں نے عربوں کو ترکوں کے خلاف ابھارا‘ نتیجتاً عالم اسلام کا قلب دو لخت ہو گیا اور وحدتِ ملّی کی علامت یعنی خلافت کا بھی خاتمہ ہو گیا. پھر عالم عرب کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں اس طرح تقسیم کیا کہ نسلی اور لسانی اشتراک کے باوجود عالم عرب کے کامل اتحاد کا امکان تا حال دُور دُور تک نظر نہیں آتا.
اسی نسلی تعصب کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے اس عذاب کا مزہ بھی اُمتِ مسلمہ کو چکھنا پڑا جو قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان ہوا ہے کہ 
یَلۡبِسَکُمۡ شِیَعًا وَّ یُذِیۡقَ بَعۡضَکُمۡ بَاۡسَ بَعۡضٍ ؕ (الانعام:۶۵’’تمہیں (اللہ تعالیٰ)گروہوں میں تقسیم کر دے اور پھر چکھائے ایک کو دوسرے کی جنگی قوت کا مزہ‘‘. چنانچہ اس صدی کے آغاز میں عربوں کے ہاتھوں ترکوں کا خون بہا اور پھر ۱۹۷۱ء میں بنگالی مسلمان کے ہاتھوں غیر بنگالی مسلمان کے خون کی ہولی اور جان و مال اور عزت و آبرو کی دھجیاں بکھرنے کا منظر چشم فلک نے دیکھا. فَاعْتَبِرُوْا یَا اُوْلِی الْاَبْصَارِo 
۲۸؍ اپریل ۱۹۹۳ء