’’آنے والے دَور‘‘کی ایک واضح تصویر 

علامہ اقبال نبوت تو درکنار‘ ولایت تک کے مدعی نہیں تھے.( ؏ ’’میں نہ عارف‘ نہ مجدد‘ نہ محدث‘ نہ فقیہہ!‘‘) گویا وہ صرف ایک نابغہ انسان تھے. اس کے باوجود ایک جانب ؏ ’’گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود!‘‘کے مصداق ان کی ژرف نگاہی اور حقیقت بینی کا عالَم یہ تھا کہ انہوں نے تقریباً پون صدی قبل اس حقیقت کا مشاہدہ کہ ؏ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔ یہود میں ہے!‘‘ بچشم قلب کر لیا تھا جو آج پوری دنیا کو بچشم سر نظر آ رہی ہے‘ اور دوسری جانب وہ ایک وِژنری بھی تھے اور اپنے مستقبل کے وِژن پر انہیں جو اعتماد اور یقین حاصل تھا وہ ان کے ان اشعار سے عیاں ہے کہ: ؎

کھول کر آنکھیں مرے آئینۂ افکار میں
آنے والے دَور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ!

اور : ؎

پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب!

مزید برآں اپنی اس مستقبل اندیشی اور ’’عاقبت بینی‘‘ میں انہیں جس قدر جذب اور انہماک حاصل تھا وہ ان کے اس شعر سے ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے ہسپانیہ میں دریائے وادی الکبیر کے کنارے واقع جامع قرطبہ میں کہا تھا‘ یعنی: ؎

آبِ روانِ کبیر تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کے خواب!

اور ان کی اس ’’دُور بینی‘‘نے انہیں ’’آنے والے دَور‘‘ کے جو منظر دکھائے اس پر خود اپنی حیرت اور استعجاب کا اظہار انہوں نے یوں کیا کہ: ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!

تو جب ایک غیر نبی نابغہ انسان کا عالم یہ ہے تو اس پر قیاس کرتے ہوئے غور کیجیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ (الانعام:۷۵کے جومشاہدات کراتا رہا ہے‘ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ (النساء:۱۰۵اور اَرَیۡنٰکَ (بنی اسرائیل :۶۰کا جو معاملہ نبی اکرم کے ساتھ رہا اس کی بنا پر جو پیشین گوئیاں آپ ؐ نے مستقبل کے حوادث و واقعات کے ضمن میں کی ہیں ان کے حتمی اور قطعی ہونے میں کسی شک کا کوئی امکان کسی مدعی ٔ ایمان کے لیے کیسے ممکن ہے؟ لیکن افسوس کہ عہدِ حاضر میں مادّیت اور مادّہ پرستی کی جو ہوائیں چلیں اور ان کے باعث جو نظریاتی اور اعتقادی فتنے خود مسلمانوں میں پروان چڑھے ان کے زیر اثر جدید تعلیم یافتہ نسل کا ایک معتدبہ حصہ ان پیشین گوئیوں کو توجہ اور اعتناء کے لائق نہیں سمجھتا‘ اور اس ’’مفتونیت‘‘ کی شدت کا عالم یہ ہے کہ اب بھی جب کہ وہ حوادث وواقعات جن کی خبر دی گئی تھی ‘نوشتۂ دیوار کے مانند نگاہوں کے سامنے آ چکے ہیں‘ ان کو تسلیم کرنے سے اعراض ہی کی روش پر اصرار کیا جا رہا ہے.

مستقبل میں پیش آنے والے واقعات میں سے سب سے یقینی اور قطعی معاملہ تو اس دنیا کے خاتمے یعنی قیامِ قیامت کا ہے‘ جسے قرآن حکیم 
السَّاعَۃُ ،اَلْوَاقعۃُ ، القارِعَۃ اور الحَاقّۃ ایسے ناموں سے موسوم کرتا ہے‘ اور جس کا کسی نہ کسی انداز میں ذکر قرآن مجید کے ہر صفحے پر موجود ہے. چنانچہ اس کی تصدیق تو اسلام اور ایمان کے بنیادی لو ازم میں شامل ہے. تاہم اب سے تقریباً سوا سو برس قبل جو نئی ’’سائنٹیفک عقلیت‘‘ عالم اسلام پر حملہ آور ہوئی تھی‘ جس کی اساس نیوٹن کی فزکس پر تھی‘ اس نے قیامِ قیامت کو بھی موہوم اور مشکوک بنا دیا تھا. اس لیے کہ اُس دَور کی فزکس کے مطابق مادہ حقیقی بھی تھا اور دائمی و غیر فانی بھی‘ چنانچہ یہ تصور عام تھا کہ کائنات ہمیشہ سے قائم ہے اور ہمیشہ باقی رہے گی. یہ تو بھلا ہو آئن سٹائن اور اس کے بعد کے علماءِ طبیعیات کا جن کے انقلاب آفریں انکشافات کے نتیجے میں مادہ بھی تحلیل ہو کر صرف انرجی کی صورت اختیار کر گیا اور کائنات کے بارے میں بھی یہ حقائق تسلیم کر لیے گئے کہ یہ ایک خاص لمحے میں ایک’’عظیم دھماکے‘‘ (Big Bang) کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی (جو گویا اللہ تعالیٰ کے امر’’کن‘‘ کی تعبیر ہے) او ر ایک پھلجھڑی کے مانند چکر لگاتی ہوئی مسلسل کھل اور پھیل رہی ہے‘ اور ایک خاص مدت کے بعد واپس برعکس سمت میں چکر لگاتی ہوئی تنگ ہوتے ہوئے بالآخر ایک نقطہ کی صورت اختیار کر لے گی‘ جیسے کہ متعدد کہکشائیں پہلے ہی ’’سیاہ سوراخوں‘‘ (Black Holes) کی صورت اختیار کر چکی ہیں. چنانچہ چند ہی سال قبل ایک پاکستانی ماہر طبیعیات چوہدری بشیر الدین نے ایک کتاب بھی طبیعیاتِ قیامت کے موضوع پر "Mechanics of the Doomsday" کے نام سے تصنیف کر دی ہے (شائع کردہ:’’ہولی قرآن ریسرچ فائونڈیشن‘‘ ۶۰.بی ناظم الدین روڈ‘ اسلام آباد)‘ جس میں واضح کر دیاہے کہ پوری کائنات کی بڑی اور آخری قیامت سے قبل‘ جو ہو سکتا ہے کہ ابھی کافی دور ہو‘ اس کے جس حصے میں ہماری زمین واقع ہوئی ہے اس کی چھوٹی اور محدود قیامت واقع ہو سکتی ہے اور کوئی عجب نہیں کہ وہ قریب ہی ہو. (جگر مراد آبادی نے تو نہ معلوم کس کیفیت میں یہ شعر کہا تھا: ؎ 

اربابِ ستم کی خدمت میں اتنی ہی گزارش ہے میری
دنیا سے قیامت دُور سہی‘ دُنیا کی قیامت دُور نہیں!

لیکن اس میں ہو سکتا ہے کہ کچھ ’’توارد‘‘ متذکرہ بالا نظریے کے ساتھ بھی ہو گیا ہو.)
بہرحال ایمان کے نقطۂ نظر سے تواصل اہمیت قیامت کے قُرب یا بُعد اور اس کی ’’مکینکس‘‘ اور جزوی یا کلی ہونے کی نہیں اس کے ’’یقینی‘‘ ہونے کی ہے‘ اور انسان کی فوز و فلاح کے نقطۂ نظر سے اس سے بھی زیادہ اہمیت کا معاملہ ’’بعث بعدالموت‘‘ یعنی موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے اور جزا و سزا پر یقین کا ہے. اسی طرح ہماری اس وقت کی بحث اور گفتگو کے اعتبار سے اصل اہمیت اس امر کی ہے کہ نبی اکرم  نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں ان کے اعتبار سے اب یہ معاملہ زیادہ دیر اور دور کا نظر نہیں آتا. چنانچہ 
سب سے پہلے تو آپؐ نے خود اپنی بعثت کو قربِ قیامت کی علامت قرار دیا‘ اس لیے کہ آپؐ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں اور آپ کے بعداب کسی نبی یا رسول کو نہیں‘ قیامت ہی کو آنا ہے. چنانچہ بخاری ؒ اور مسلم ؒ دونوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی اکرم  نے اپنی دونوں انگلیوں کو جوڑ کر فرمایا: ’’میری بعثت اور قیامت آپس میں ایسے ملی ہوئی ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں!‘‘ اور اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں آپ  نے یہی بات ان الفاظ میں فرمائی جو ترمذی ؒ نے مستوربن شداد رضی اللہ عنہ سے روایت کیے ہیں‘ یعنی: ’’میں تو گویا عین قیامت ہی میں مبعوث کیا گیا ہوں‘ اور میں نے اس سے صرف اتنی ہی سبقت کی ہے جتنی درمیانی انگلی انگشت شہادت سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے‘‘ اور سردست ان خالص معجزانہ اور خرقِ عادت واقعات سے قطع نظر جو عین وقوعِ قیامت سے متصلاً قبل پیش آئیں گے‘ قربِ قیامت کی بعض اہم علامات کا تعلق صحرائے عرب اور اس کے بادیہ نشینوں کی اس حیرت ناک خوشحالی سے ہے جو آج سے سو سال قبل کسی کے وہم و گمان میں بھی آنی ممکن نہیں تھی.

چنانچہ (۱) اس ’’حدیث جبرائیل ؑ‘‘ میں جو 
’’اُمُّ السُّنَّۃ‘‘ یعنی حدیث رسول  کے ذخیرے میں اسی مقام و مرتبے کی حامل قرار دی جاتی ہے جو قرآن حکیم میں سورۃ الفاتحہ کا ہے‘ اور جو صحیح بخاری ؒ اور صحیح مسلمؒ کے علاوہ جملہ کتب حدیث میں متعدد جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے‘ قربِ قیامت کی ایک اہم علامت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے کہ: ’’تم دیکھو کہ وہ مفلوک الحال چرواہے جو کبھی ننگے پیر اور ننگے بدن ہوا کرتے تھے‘ عالی شان عمارتوں کی بلندی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہے ہوں!‘‘ (۲) امام مسلم ؒ نے جو حدیث حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے اس میں قربِ قیامت کی علامت ان الفاظ میں وارد ہوئی ہے کہ:’ ’دولت اتنی کثیر اور عام ہو جائے گی کہ ایک شخص اپنی زکوٰۃنکالے گا لیکن اس کا قبول کرنے والا کوئی نہ ہو گا (سعودی عرب‘ کویت اور متحدہ عرب امارات کے مقامی باشندوں کی حد تک یہ صورت حال فی الواقع پیدا ہو چکی ہے) اور عرب کی زمین سبزہ زاروں اور چشموں کا منظر پیش کرنے لگے گی!‘‘ اور (۳) سب سے بڑھ کر وہ حدیث جو امام مسلمؒ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت کی ہے‘ جس کی رُو سے نبی ا کرم  نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد نہ ہو جائے جس پر لوگ ایک دوسرے سے جنگ کریں گے‘ یہاں تک کہ ننانوے فیصد لوگ مارے جائیں گے.‘‘

ان میں سے جہاں تک پہلی دو حدیثوں کا تعلق ہے ان کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے‘ اس لیے کہ وہ تو خود ہی ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ کی مصداقِ کامل ہیں‘ البتہ تیسری حدیث پر غور کے ضمن میں یہ چند امور پیش نظر رکھنے ضروری ہیں: (i) قدیم زمانے میں ملکوں کو دریاؤ ں کے نام سے موسوم کرنے کا رواج تھا‘ چنانچہ یہاں فرات سے مراد عراق اور کویت ہیں. (ii) آج کے صنعتی دَور میں سب سے زیادہ قیمتی متاع تیل ہے‘ جسے بجا طور پر ’’سیال سونا‘‘ کہاجاتا ہے. (iii)کوئی عجب نہیں کہ تیل کے وہ زیر زمین اور زیر سمندر سوتے بھی‘ جن سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات تیل نکال رہے ہیں‘ وادیٔ فرات ہی کی جانب سے آتے ہوں. (iv) اس تیل کی دولت پر جو ’’جنگ عظیم‘‘ شروع ہوئی ہے دو سال قبل کی خلیج کی جنگ کو اس کے صرف نقطۂ آغاز کی حیثیت حاصل ہے. چنانچہ یاد ہو گا کہ اسے صدام حسین نے ’’اُمُّ المَحَارِب‘‘ یعنی جنگوں کی ماں قرار دیا تھا. اور (v) اس چند روزہ ’’نقطۂ آغاز‘‘ کے دوران جونا قابل تصور حد تک وحشیانہ بمباری عراق پر ہوئی تھی اس کے پیش نظر کون سے تعجب کی بات ہے کہ اگر جنگوں کا یہ سلسلہ آگے بڑھے تو عراق اور کویت کی تباہی اسی درجہ کی ہو جائے جو اِس حدیث میں بیان ہوا ہے. ؏ ’’حذر اے چیرہ دستاں‘ سخت ہیں فطرت کی تعزیریں!‘‘

الغرض‘ راقم کو اگرچہ ان نجومیوں کی پیشین گوئیوں او رماہرین فلکیات کی دی ہوئی خبروں سے تو کوئی دلچسپی نہیں ہے جو دنیا کے خاتمے کو صرف قریب ہی نہیں قرار دے رہے ہیں بلکہ اس کا وقت بھی معین کر رہے ہیں (اگرچہ ’’قرائن کی شہادت‘‘ کے درجے میں وہ بھی قابل اعتناء ہیں!) لیکن ان احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی بنا پر ‘جن میں 
سے چندکا حوالہ اوپر دیا گیا‘ راقم کو یہ یقین حاصل ہے کہ دنیا نہایت تیز رفتاری کے ساتھ (گویا ؏ ’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!‘‘ کے سے انداز میں) اپنے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے. لطف یہ ہے کہ زمانہ اور وقت اور واقعات و حوادث کی اس تیز رفتاری کا نقشہ بھی ایک حدیث میں نہایت خوبصورت استعاراتی زبان میں کھینچ دیا گیا ہے‘ جسے امام ترمذیؒ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے‘ جس کی رو سے آنحضور  نے فرمایا: ’’قیامت قائم نہیں ہو گی جب تک زمانہ مختصر نہ ہو جائے‘ جس کے نتیجے میں سال مہینے کے برابر نظر آنے لگے‘ مہینہ جمعہ (تا جمعہ یعنی ایک ہفتہ) محسوس ہونے لگے‘ جمعہ (یعنی ہفتہ) ایک دن کی طرح ہو جائے‘ دن ایک گھنٹے کے برابر محسوس ہو او رایک گھنٹہ آگ کے ایک شعلے کی بھڑک کے مانند مختصر ہو جائے!‘‘

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ وقوعِ قیامت تو چونکہ قرآن مجید کا سب سے زیادہ کثیر الذکر موضوع ہے‘ لہذا اس سے تو کسی مسلمان کو مجالِ انکار ہو ہی نہیں سکتی‘ قربِ قیامت کی ان علامات سے بھی جو متذکرہ بالا احادیث میں بیان ہوئی ہیں‘ شاید ہی کوئی مسلمان اختلاف کرے‘ اِلاّ یہ کہ ان کے بعض الفاظ کی تعبیر و تأویل میں کسی جزوی اختلاف کی گنجائش ہو. اسی طرح عین وقوعِ قیامت کے وقت جن واقعات و حوادث کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ بھی جدید سائنسی نظریات کے پیش نظر کچھ ایسے مستبعد اور’’اَن ہونے‘‘ نظرنہیں آتے‘ جیسے مثلاً سورج کا مغرب سے طلوع ہونا‘ یا زمین کا تین مقامات پر ’’خسف‘‘ یعنی بری طرح دھنس جانا‘ یا بہت عظیم آگ‘ یا بے پناہ دھواں! اس لیے کہ جدید طبیعیات کے نزدیک جس طرح اِس وقت کل کائنات ایک عظیم پھلجھڑی کے مانند اپنے محور پر تیزی کے ساتھ گردش کرتے ہوئے کھلتی اور پھیلتی جا رہی ہے‘ اسی طرح ایک وقت آئے گاکہ وہ برعکس رُخ پر چکر کھاتی ہوئی سکڑتی اور سمٹتی چلی جائے گی‘ تو یہ کیا بعید ہے کہ اس بڑی قیامت سے قبل کی چھوٹی قیامت کے موقع پر نظامِ شمسی میں وہ اختلال پیدا ہو جائے اور زمین کی گردش ؏ ’’لوٹ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو!‘‘ کے انداز میں مغرب سے مشرق کی بجائے مشرق سے مغرب کی جانب ہو جائے‘ جس کے نتیجے 
میں سورج مغرب سے طلوع ہونے لگے. مزید برآں ‘جیسے کہ سورۃ القیامۃ کی آیات ۸ اور ۹ میں وارد ہوا ہے‘ چاند اور سورج یکجا ہو جائیں (۱اور چاند سورج میں دھنس جائے اور خود زمین پر بھی اتنے بڑے بڑے شہاب گریں کہ وہ تین جگہ سے بری طرح دھنس جائے اور اس دھنسنے کے باعث اس کے اندر کی گیس اور آگ کا طوفان ابل پڑے.

البتہ درمیانی عرصہ کے چار عظیم واقعات کے بارے میں مسلمانوں کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کا تو ایک معتدبہ حصہ شکوک و شبہات میں مبتلا ہے ہی‘ بہت سے ایسے علماء و مفسرین بھی مذبذب اور متردّد ہیں جو عہدِ حاضر (بلکہ صحیح تر الفاظ میں ماضی قریب) کی نیوٹن کی سائنس پر مبنی ’’عقلیت پرستی‘‘ کا شکار ہو گئے. ان چار عظیم واقعات کی جانب اشارات تو اگرچہ قرآن مجید میں بھی موجود ہیں لیکن ان کی تفصیلی خبریں اور پیشین گوئیاں ان احادیث نبویہؐ میں وارد ہوئی ہیں جو کتاب الفتن کے مختلف ابواب میں شامل ہیں. ان عظیم واقعات کے مابین زمانی ترتیب یہ ہے: (۱) سب سے پہلے 
’’اَلْمَلْحَمَۃُ الْکُبْرٰی‘‘یعنی تاریخ انسانی کی ’’عظیم ترین جنگ‘‘جس کی جانب اشارہ سورۃ الکہف کی دوسری آیت میں بَاْسًا شَدِیْدًا کے الفاظ میں وارد ہوا ہے‘ لیکن جس کی تفاصیل کتبِ حدیث کے ’’باب الملاحم‘‘ میں بیان ہوئی ہیں. (۲’’المسیح الدَّجّال‘‘ کا خروج اور اس کے ہاتھوں مشرقِ وسطیٰ کے مسلمانوں کی عظیم تباہی یا بالفاظِ دیگر اس کے ذریعے ’’اُمّیین‘‘ پر اللہ کے عذاب کے دورِ ثانی کی تکمیل. (۳) حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کانزول اور ان کے ہاتھوں دجال کا قتل اور یہودیوں کا آخری قلع قمع‘ یا بالفاظِ دیگر اللہ کا عذابِ استیصال ‘چنانچہ جہاں تک نزولِ عیسٰی ؑ کا تعلق ہے اس کا بھی واضح اشارہ سورۃ الزخرف کی آیت ۶۰ میں ان الفاظ میں موجود ہے کہ : وَاِنَّـہٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَۃِ ’’اوروہ (یعنی عیسیٰ ؑ) ایک نشانی ہیں قیامت کی!‘‘ اور بالآخر (۴) اسلام کا عالمی غلبہ اور پورے کرۂ ارضی پر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے نظام کا قیام!

۱۷؍مئی۱۹۹۳ء

(۱) وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۸﴾وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹﴾ (القیٰمۃ)
ترجمہ : ’’اور چاند بے نور ہو جائے گا . اور سورج اور چاند یکجا ہو جائیں گے‘‘.