اسلام کا عالمی غلبہ یا عالمی نظام ِخلافت قیامت سے قبل کے چار عظیم واقعات میں سے جہاں تک آخری یعنی اسلام کے عالمی غلبے کا تعلق ہے‘ اگرچہ اس کی کوئی قطعی نص تو کم از کم راقم کے علم کی حد تک قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے‘ تاہم منطق کے اس قضیے کے صغریٰ اور کبریٰ دونوں قرآن مجید میں بتکرار و اعادہ وارد ہوئے ہیں‘ جس کا لازمی نتیجہ دین حق کا عالمی غلبہ ہے. چنانچہ تین بار قرآن حکیم میں یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں کہ: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰۦ وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ (التوبۃ:۳۳‘الفتح:۲۸‘الصف:۹یعنی ’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسول (محمد ) کو الہدیٰ (قرآن حکیم) اور دین حق (اسلام) دے کر تاکہ غالب کر دے اسے کل کے کل دین (نظامِ زندگی ) پر!‘‘ اور دو مرتبہ ذرا سے لفظی فرق کے ساتھ (التوبۃ:۳۲‘ الصف:۸ ) یہ الفاظ بھی وارد ہوئے کہ: ’’یہ لوگ (اور یہاں اصلاً مراد یہود ہیں‘ اس لیے کہ دونوں مقامات پر متصلاً قبل یہود ہی کا ذکر ہے) چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں (کی پھونکوں) سے بجھا دیں جب کہ اللہ اپنے نور کو لازماً مکمل فرما کر رہے گا‘ خواہ یہ ان کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘ گویا ان پانچ آیات پر مشتمل تو صغریٰ ہے‘ اور کبریٰ یہ ہے کہ آنحضور کی بعثت پوری نوعِ انسانی اور کل عالم انسانیت کی جانب ہے‘ اور حسن اتفاق سے یہ مضمون بھی قرآن حکیم میں قدرے مختلف الفاظ میں پانچ ہی بار وارد ہوا ہے. یعنی : (۱) ’’ہم نے نہیں بھیجا ہے (اے نبی !) آپؐ کو مگر تمام انسانوں کے لیے بشیر اور نذیر بنا کر!‘‘ ۱؎ (۲) ’’ہم نے (۱) وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیۡرًا وَّ نَذِیۡرًا (سبا :۲۸نہیں بھیجا ہے آپ ؐ ‘کو مگر تمام جہان والوں کے لیے رحمت بنا کر!‘‘ ۲؎ (۳) ’’بڑی بابرکت ہے وہ ہستی جس نے اپنے بندے پر الفرقان نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو خبردار کرنے والا بن جائے!‘‘ ۳؎ (۴) سورۃ الجمعہ کی آیات ۲ اور ۳ میں فرمایاکہ آپؐ ‘کی بعثت صرف ’’اُمّیّین‘‘ یعنی عربوں ہی کے لیے نہیں ’’آخرین‘‘ یعنی دوسروں کے لیے بھی ہے! اور (۵) سورۃ الاعراف کی آیت ۱۵۸ میں آپ ؐ ‘ کو حکم دیا گیا:’’کہہ دیجیے کہ لوگو! میں تم سب کی جانب اللہ کا رسول ہوں!‘‘ ۴؎ اب صغریٰ اور کبریٰ کوجمع کر لیجیے تو یہ لازمی منطقی نتیجہ برآمد ہو جاتا ہے کہ آپؐ ‘کی بعثت کا مقصد بتمام و کمال اُسی وقت پورا ہو گا جب پورے عالم انسانی یعنی کل روئے ارضی پر آپ  کے لائے ہوئے دین کا حتمی غلبہ ہو جائے گا. گویا بقول اقبال: ؎

وقتِ فرصت ہے کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اِتمام ابھی باقی ہے!

رہیں احادیث نبویہؑ تو ان میں تو یہ خبر نہایت وضاحت اور صراحت کے ساتھ دی گئی ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا. چنانچہ ان میں سے ایک حدیث مبارک تو وہ ہے جس کی رُو سے دنیا میں وہ نظام ایک بار پھر قائم ہو کر رہے گا جو نبی اکرم کے زمانے میں قائم ہوا تھا اور آپ ؐ کے انتقال کے بعد بھی کم از کم تیس برس تک اپنی کامل اور آئیڈیل صورت میں برقرار رہا. اسے امام احمد بن حنبل ؒ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور اس کے مطابق آنحضور  نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’تمہارے مابین نبوت موجود رہے گی‘ (آپ ؐ کا اشارہ خود اپنی ذاتِ اقدس کی جانب تھا) جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا. اس کے بعد نبوت کے طریقے پر خلافت قائم ہو گی اوریہ بھی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا کہ قائم رہے‘ پھر جب اللہ چاہے گا

(۲) وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۰۷﴾ (الانبیاء )
(۳) تَبٰرَکَ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡفُرۡقَانَ عَلٰی عَبۡدِہٖ لِیَکُوۡنَ لِلۡعٰلَمِیۡنَ نَذِیۡرَا ۙ﴿۱﴾ (الفرقان)
(۴) قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَا (الاعراف : ۱۵۸)

اسے بھی اٹھا لے گا. پھر کاٹ کھانے والی (یعنی ظالم) ملوکیت آئے گی اور وہ بھی رہے گی جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا. پھر مجبوری کی ملوکیت (غالباً مراد ہے مغربی استعمار کی غلامی) کا دور آئے گا اور وہ بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا‘ پھر جب اللہ چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا اور پھر دوبارہ نبوت کے طریق پر خلافت قائم ہو گی!‘‘ راوی کے قول کے مطابق اس کے بعد آپ ؐ نے خاموشی اختیار فرمالی. (اور آپ ؐ کی یہ خاموشی بھی بلا سبب نہ تھی‘ تاہم اس کا بیان بعد میں ہوگا). اس حدیث کی ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ جب وہ نظام دنیا میں دوبارہ قائم ہو جائے گا تو آسمان بھی اپنی ساری برکات نازل فرمادے گا اور زمین بھی اپنی تمام برکتیں باہر نکال کر رکھ دے گی. (چنانچہ بعض دوسری احادیث میں ان برکات کی تفصیلات بھی بیان ہوئی ہیں)

پھر دو نہایت اہم احادیث وہ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اب جو خلافت علیٰ منہاج النبوت کا نظام قائم ہو گا وہ پورے عالم انسانیت اور کل روئے ارضی کو محیط ہو گا. چنانچہ (۱) صحیح مسلمؒ میں حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ (جو آنحضور کے آزاد کردہ غلام تھے) سے مروی ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ نے میرے لیے پوری زمین کو سمیٹ یا سکیڑ دیا. چنانچہ میں نے اس کے سارے مشرق بھی دیکھ لیے اور تمام مغرب بھی‘ اور سن رکھو کہ میری اُمت کی حکومت ان تمام علاقوں پر قائم ہو کر رہے گی جو مجھے سکیڑ یا لپیٹ کر دکھا دیے گئے!‘‘ او ر(۲) مسند احمد بن حنبل ؒ میں حضرت مقداد بن الاسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضور  نے فرمایا: ’’کل روئے ارضی پر نہ کوئی اینٹ گارے کا بنا ہوا گھر باقی رہے گا نہ اونٹ کے بالوں کے کمبلوں سے بنا ہوا خیمہ جس میں اللہ کلمۂ اسلام کو داخل نہ کر دے‘ خواہ کسی عزت کے مستحق کے اعزاز کے ساتھ اور خواہ کسی مغلوب کی مغلوبیت کے ذریعے. یعنی یا تو اللہ انہیں عزت دے گااور اہل اسلام میں شامل کر دے گا یا انہیں مغلوب کر دے گا‘ چنانچہ وہ اسلام کی بالادستی قبول کر لیں گے!‘‘ حضرت مقداد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس پر میں نے (اپنے دل میں) کہا کہ ’’تب وہ بات پوری ہو گی (جو سورۃ الانفال کی آیت ۳۹
میں وارد ہوئی ہے) کہ دین کل کا کل اللہ ہی کے لیے ہو جائے!‘‘
الغرض‘ قیامِ قیامت اور دنیا کے خاتمے سے قبل کل روئے ارضی پر وہ دورِ سعادت یقینا آ کر رہے گاجس میں ’’اللہ ایمان اور عمل صالح کی شرائط پوری کرنے والے مسلمانوں کو لازماً زمین کی خلافت اسی طرح عطا فرمائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو (مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو) عطا کی تھی‘ اور ان کے لیے ان کے اس دین کو زمین میں لازماً تمکن عطا فرما دے گا جسے اس نے ان کے لیے پسند فرما لیا ہے‘ اور ان کی خوف زدگی کی کیفیت کو لازماً امن و سکون کی حالت سے تبدیل کر دے گا!‘‘ 
۱؎ چنانچہ اسی کی کوئی جھلک دیکھ لی تھی عہد حاضر کے وِژنری‘ عبقری اور نابغہ انسان علامہ اقبال کی ’’نگاہِ تیز‘‘ نے‘ جب انہوں نے کہا تھا: ؎

آسماں ہو گا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے

اور اس میں بھی ہرگز کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ اس دورِ سعادت کی نوید ہندو دھرم کی کتابوں میں بھی موجود ہے‘ اس لیے کہ جیسے کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے‘ دنیا کے تمام مذاہب اسلام ہی کی بدلی اور بگڑی ہوئی صورتیں ہیں اور ان سب میں مشکوٰۃِ نبوت کے انوار کا کچھ نہ کچھ حصہ موجود اور برقرار ہے. چنانچہ پنڈت شری رام اچاریہ اپنی تحریر شائع (۱) وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ (النور :۵۵شدہ ’’اکھنڈ جیوتی‘‘ بابت مارچ ۱۹۸۱ء میں لکھتے ہیں: ’’ایسے ثبوت موجود ہیں کہ یُگ بدلنے کا وقت آ گیا ہے.کل یُگ (جسے عرفِ عام میں کلجگ کہہ دیا جاتا ہے) اب وداع ہو رہا ہے اوراس کی جگہ پر ایسا دور آ رہا ہے جسے ست یُگ (یعنی سچا زمانہ یا برحق زمانہ) کہا جا سکے. منو سمرتی‘ لنگ پران اور بھاگوت میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق حساب پھیلانے سے پتا چلتا ہے کہ موجودہ دور بحران کا دور ہے… ان سب اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے وہ وقت ٹھیک ان ہی دنوں میں ہے جس میں یُگ بدلنا چاہیے… یعنی ۱۹۸۰ء سے ۲۰۰۰ء تک بیس سال کا عرصہ.‘‘ (بحوالہ ’’اگر اب بھی نہ جاگے تو…‘‘ تالیف مولانا شمس نوید عثمانی‘ شائع کردہ روشنی پبلشنگ ہاؤ س‘ بازار نصر اللہ خاں‘ رام پور. یوپی. بھارت). تو اس وقت اِس امر سے تو بحث نہیں ہے کہ پنڈت جی کا حساب کتاب صحیح ہے یا نہیں‘ لیکن اس میں بھی ہرگز کوئی شک نہیں ہے کہ دورِسعادت کی یہ نوید اور خوشخبری قرآن حکیم کے اشارات (گویا دلالۃ النص) اور حدیث نبوی ؐ کی تصریحات (گویا عبارۃ النص) کے عین مطابق ہے. اس پر مزید اضافہ فرما لیجیے اس کا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی‘ جو عیسائیوں کے جملہ فرقوں کا متفق علیہ عقیدہ ہے‘ زمین پر ’’آسمانی بادشاہت‘‘ اور ’’خدائی عدالت‘‘ کے قیام ہی کے لیے ہو گی. گویا ؏ ’’متفق گردید رائے بو علی بارائے من!‘‘ کے مصداق اسلام کے نظامِ عدل و قسط یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوت کا عالمی سطح پر قیام اپنوں اور بیگانوں سب کے نزدیک مسلّم ہے اور گویا تقدیر مبرم کی حیثیت رکھتا ہے.

اس موقع پر اس امر کا تذکرہ بھی یقینامفید ہو گاکہ اپنی معرکۃ الآراء تصنیف ’’آئیڈیالوجی آف دی فیوچر‘‘ میں علامہ اقبال کے نظریۂ خودی کی خالص فلسفیانہ سطح پر مدلل ترین اور مبسوط ترین تشریح کرنے والے ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم نے قیامت سے قبل اسلام کے نظامِ عدل و قسط کے عالمی سطح پر قیام کو نظریۂ ارتقاء کا لازمی اور منطقی نتیجہ قرار دیا ہے. ان کے نزدیک ارتقاء کی پہلی منزل خالص کیمیائی اور طبیعیاتی ارتقاء کی تھی جس کے نتیجے میں سادہ کیمیاوی عناصر نے ان پیچیدہ حیاتیاتی مرکبات کی صورت اختیار کی جن میں حیات کا ظہور ممکن ہوا. اس کے بعد حیاتیاتی ارتقاء کا عمل شروع ہوا جو حضرت 
آدم علیہ سلام کی تخلیق پر اپنے مرتبۂ کمال کو پہنچ گیا. پھر ذہنی اور نفسیاتی ارتقاء کا سفر شروع ہوا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گیا. پھر سماجی اور تمدنی ارتقاء کا آغاز ہوا جو نبی اکرم  کی ذاتِ مبارکہ اور آپ ؐ پر ’’دین حق‘‘ کی تکمیل اور سماجی اور تمدنی عدل و قسط کے نظام کے بالفعل قیام پر اپنے منتہائے کمال کو پہنچ گیا. اب ارتقاء کے اس طویل سفر کا صرف ایک ہی مرحلہ باقی ہے اور وہ ہے اس نظام کے عالمی سطح پر قیام کا اس کے بعد چونکہ موجودہ تخلیق جن اصول و قواعد اور حدود و قیود کے ساتھ ہوئی ہے ان میں ارتقاء کی کوئی اور جہت اور سمت ممکن نہیں ہے‘ لہذا اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور اسی کا نام قیامت ہے. گویا قیامت سے قبل محمد  پر کامل ہونے والے دین حق کا پورے عالم انسانی اور کل روئے ارضی پر غلبہ سفر ارتقاء کی وہ آخری اور لازمی منزل ہے جس کی جانب وہ کاروانِ انسانیت کشاں کشاں رواں ہے جس کے بارے میں علامہ اقبال نے بالکل بجا طور پر کہا تھا: ؎

یا ز نورِ مصطفی ؐ اُو را بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی ؐ ست!

البتہ ایک اور خبر جو بعض دوسری احادیث میں وارد ہوئی ہے‘ یہ ہے کہ ’’ہر کمالے را زوالے‘‘ کے مطابق اس دورِ سعادت کے بعد بھی ایک ایسا دور آئے گا جس میں پوری زمین پر ایک انسان بھی اللہ اللہ کہنے والا باقی نہیں رہے گا (مسلم ؒ عن انس رضی اللہ عنہ) اور دنیا میں صرف ’’بدترین خلائق‘‘ ہی رہ جائیں گے (مسلم ؒ عن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ). چنانچہ قیامت ان ہی پر قائم ہو گی. یہ غالباً اس لیے ہو گا کہ صاحب ایمان اور نیک بندوں کو قیامت کی ہولناکیوں اور سختیوں سے بچا لیا جائے. صحیح مسلمؒ ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہااور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے اس مضمون کی احادیث مروی ہیں کہ جب خلافت علیٰ منہاج النبوت کا وہ دورِ سعادت جتنا عرصہ اللہ چاہے گا قائم رہ چکے گا تو دفعۃً ایک پاک اور ٹھنڈی ہوا ایسی چلے گی جس سے ہر وہ شخص موت کی نیند سو جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا… چنانچہ اس کے بعد دنیا میں صرف بے ایمان اور بدکار لوگ ہی باقی رہ جائیں گے‘ اور وہی جہنم کے اُخروی عذاب سے قبل ہولناک زلزلۂ قیامت ۱؎ کی سختیاں بھی جھیلیں گے! اور یہی سبب معلوم ہوتا ہے اس سکوت اور توقف کا جو حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق آنحضور  نے دوسری بار ’’خلافت علیٰ منہاج النبوت‘‘ کے قیام کی نوید کے بعد اختیار فرمایا تھا. یعنی اس دورِ سعادت کے تذکرے کے فوراً بعد آپ نے اس دورِ نحوست کا ذکر مناسب نہیں خیال فرمایا. واللہ اعلم! اب جہاں تک ان عظیم حوادث و واقعات کا تعلق ہے جو اسلام کے عالمی غلبہ سے قبل پیش آنے والے ہیں‘یعنی ایک عظیم ‘ نہایت ہولناک اور تباہ کن جنگ‘ دجال کا خروج‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول اور اُن کے ہاتھوں دجال کا قتل اور یہودیوں کا استیصال‘ جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے ‘اور ان کے علاوہ‘ بلکہ ان ہی کے ذیل میں یاجوج وماجوج کا سیلاب‘ بیعت مہدی ؒ اور’’دَابَّۃ الاَرض‘‘ کا ظہور وغیرہ‘ تو واقعہ یہ ہے کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں کی اکثریت تو ان کا ذکر بھی پسند نہیں کرتی.رہے علماء دین تو ظاہر ہے کہ ان میں سے کسی کے لیے ان کا انکار تو ممکن نہیں ہے‘ تاہم ماضی قریب کے بعض نامور علماء اور مفسرین بھی ان کے بارے میں کم از کم مذبذب اور متردّد ضرور رہے ہیں‘ اور موجودہ علماء میں سے بھی بہت سے ان کی عقلی اور سائنسی توجیہہ یا استعاراتی تأویل کی جانب رجحان رکھتے ہیں.

اس صورت حال کے بعض اسباب تو عمومی ہیں اور بعض خصوصی. عمومی اسباب میں سے چند یہ ہیں:
۱) اگرچہ خالص سائنس کی دنیا میں تو نیوٹن کی طبیعیات کا دَور ختم ہو چکا ہے‘ لیکن عوامی سطح پر یورپ اور امریکہ تک میں تاحال اسی کے جامد نظریات و تصورات کا سکہ رواں ہے‘ لہٰذاعام طبعی قوانین کے خلاف کسی بات کو تسلیم کرنے کے لیے ذہن بالعموم 
(۱) اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱﴾ (الحج) تیار نہیں ہیں. (گزشتہ سال مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور نے اپنے سالانہ محاضراتِ قرآنی کے لیے انگلستان کے نو مسلم سکالر جناب عبدالحکیم کو دعوت دی تھی جو حکمت تبلیغ کے تحت مغرب میں اپنا سابق نام گائی ایٹن ہی استعمال کرتے ہیں‘ اور انہوں نے بھی اپنے ایک خطبے میں اسی بات کی گواہی دی تھی کہ یورپ اور امریکہ کے اکثر لوگ تا حال ذہنی اعتبار سے نیوٹونین فزکس ہی کے دور میں جی رہے ہیں.)

۲) عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ اس قسم کی باتوں پر توجہ سے جذبۂ عمل کمزور پڑ جاتا ہے‘ اور ذہنی اور نفسیاتی طو رپر لوگ کسی ’’مَردے ازغیب‘‘ کے انتظار کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں. اور یہ بات خام اور نیم پختہ اذہان کے اعتبار سے درست بھی ہے!
۳) اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان ہی چیزوں کا سہارا لے کر اُمت کی تاریخ کے دوران مختلف مواقع پر شہرت و عزت اور نام و نمود کے خواہاں حوصلہ مند لوگ مختلف دعوے کر کے عوام کے دین و ایمان کے لیے فتنہ کا سامان فراہم کرتے رہے ہیں‘ اور کون کہہ سکتا ہے کہ تاریخی اعتبار سے یہ بات درست نہیں!

ان پر مستزاد ہیں وہ دو خصوصی اسباب جن کا تعلق ان دو فتنوں سے ہے جو گزشتہ صدی کے اواخر میں سائنسی عقلیت کے دور کے آغاز کے ساتھ ہی پیدا ہوئے اور تا حال پروان چڑھ رہے ہیں. یعنی (۱) فتنۂ قادیانیت اور (۲) فتنۂ استخفاف و انکارِ حدیث. ان میں سے مؤخر الذکرنے جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت کے ذہنوں میں حدیث نبوی ؐ کی وقعت و اہمیت کو کم کر دیا ہے. چنانچہ جن لوگوں کے اَذہان اس فتنے سے زیادہ مسموم ہیں وہ تو حدیث نبویؐ کی حجیت کا صریح انکار کر دیتے ہیں‘ باقی بھی عملاً اس کی جانب سے ’’غض بصر‘‘ اور صرفِ نظر کی روش اختیار کیے ہوئے ہیں. رہا مقدم الذکر فتنہ تو اس کے بانی اور مؤسس نے تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ غضب ڈھایا کہ نہ صرف خود مجدّد اور مہدی ہونے کا دعویٰ کر دیا‘ بلکہ ؎

’’آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کی صفات!‘‘

کی بحث چھیڑ کر اور پھر خود ہی کو مثیلِ مسیحؑ اور مسیح موعودؑ قرار دے کر نزولِ مسیحؑ کا باب ہی بند کر دیا (جس کے لیے ’’رفع مسیح ؑ‘‘ کا انکار بھی لا محالہ ضروری تھا!)

لیکن اس حقیقت سے قطع نظر کہ ان واقعات و حوادث کے سلسلے کی پہلی کڑی‘ یعنی ایسی ہولناک اور تباہ کن جنگ جس کا میدان مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک بنیں گے‘ اب بالکل نوشتۂ دیوار کے مانند سامنے کی بات ہے‘ اور ساتھ ہی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ جہاں تک ان واقعات و حوادث کی ان تفاصیل کا تعلق ہے جو احادیث میں وارد ہوئی ہیں‘ ان میں یقینا استعاراتی زبان بھی استعمال ہوئی ہے. اس لیے کہ اب سے چودہ سو برس قبل آج کے سلاحِ جنگ اور ذرائع رسل و رسائل کا بیان اسی طور سے ممکن تھا‘ اور مختلف راویوں کی روایات میں لفظی فرق اور زمانی ترتیب کا گڈ مڈ ہو جانا بھی عین قرین قیاس ہے. جہاں تک ان کے مجموعی خاکے کا تعلق ہے‘ راقم اپنے مطالعہ اور فہم القرآن کی بنا پر پورے انشراحِ صدر کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ وہ قرآن کے فلسفہ و حکمت کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ اور بالخصوص قرآن کے اس قانونِ عذاب کے عین مطابق ہے جو صفحاتِ گزشتہ میں بیان ہو چکا ہے.

۱۸؍مئی ۱۹۹۳ء