اب تک کے مباحث کا خلاصہ اب آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ اس سلسلۂ مضامین کی کڑیوں کو ذہن میں جوڑ لیا جائے جو اس سے قبل بیان ہو چکے ہیں. ان کا نقطۂ آغاز ایک ایسا خیال تھا جو ؏ ’’آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں!‘‘ کے مصداق اپنے بیرونی سفر کے دوران ایک روز اچانک ذہن میں بجلی کی مانند کوند گیا تھا. یعنی یہ کہ ہم قرآن مجید میں ضُرِبَتۡ عَلَیۡہِمُ الذِّلَّۃُ وَ الۡمَسۡکَنَۃُ ٭ وَ بَآءُوۡ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ ؕ (البقرۃ:۶۱’’ان پر ذلت و مسکنت مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے عذاب میں گھر گئے‘‘ کے الفاظ پڑھتے ہوئے آرام کے ساتھ یہ سمجھتے ہوئے گزر جاتے ہیں کہ یہ یہود کا ذکر ہے‘ حالانکہ موجودہ معروضی صورت حال میں ان الفاظ کا مصداقِ کامل یہود نہیں ‘ہم ہیں! پھر اس پر راقم اپنے قیامِ حرمین شریفین کے دوران بھی مسلسل غور کرتا رہا کہ اس کا سبب کیا ہے؟ اور اسی غور و فکر کا حاصل تھا جو پہلے ۲۵ مارچ ۱۹۹۳ء کو خطابِ عیدالفطر میں بیان ہوا اور اس کے بعد سے زیرِ نظر مضامین کی صورت میں پیش ہو رہا ہے جو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوئے.

اس سلسلے کا پہلا مضمون ’’ہیں آج کیوں ذلیل؟‘‘ کے عنوان سے ۱۶/ اپریل کو شائع ہوا تھا جو متذکرہ بالا خیال ہی کی وضاحت پر مشتمل تھا کہ آج یہودی تو دنیا میں کل چودہ ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ سے بھی کم ہونے کے باوجود بالفعل دولت و ثروت اور عزت و وجاہت کی چوٹی پر متمکن ہیں‘ یہاں تک کہ علامہ اقبال کے اس قول کے عین مطابق کہ ؏ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجہ ٔ یہود میں ہے!‘‘وہ دنیا کی عظیم ترین اور وقت کی واحد سپریم پاور یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو کنٹرول کر رہے ہیں‘ جب کہ ہم مسلمان ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ ہونے کے باوجود ؏ ’’کس نمی پُرسد کہ بھیا کیستی؟‘‘ کی سی کیفیت سے دو چارہیں. البتہ یہ وضاحت اسی وقت کر دی گئی تھی کہ یہ صورتِ حال مستقل نہیں‘ عارضی ہے 
اور بہت جلد بالکل برعکس ہو جانے والی ہے. پھر ۲۳/ اپریل کو شائع ہوئی تھی راقم کی وہ تحریر جس کے بارے میں راقم کو اپنی کم علمی کے باوصف یہ ’’زعم‘‘ ہے کہ اس اچھوتے موضوع پر شاید ہی کبھی کسی نے اس وضاحت کے ساتھ لکھا ہو‘ یعنی ’’قرآن کا قانونِ عذاب‘‘. اور اب ہمیں اپنے موضوع کے جس حصے کی جانب پیش قدمی کرنی ہے‘ یعنی وہ عظیم حوادث اور تباہ کن واقعات جو حدیث نبوی ؑ میں وارد شدہ پیشین گوئیوں کے مطابق مستقبل قریب میں پیش آنے والے ہیں‘ ان کے پس پردہ کار فرما حکمت خداوندی کے فہم کے لیے ضروری ہے کہ اس قانونِ عذابِ الٰہی کی بعض دفعات کو پھر سے ذہن میں تازہ کر لیا جائے. یعنی (۱) اوّلاً یہ کہ یہ دنیا اصلاً دارالامتحان ہے دارالجزاء نہیں! لیکن (۲) یہ قاعدۂ کلیہ پوری طرح صرف افراد پر منطبق ہوتا ہے‘ قوموں اور ملتوں پر نہیں! (بقول اقبال: ؎
’’فطرت افراد سے اِغماض بھی کر لیتی ہے نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف!‘‘)

چنانچہ قوموں اور اُمتوں کا مجموعی حساب دنیا ہی میں چکا دیا جاتا ہے. (۳) دنیا میں ’’عذابِ اکبر‘‘ یعنی اللہ کے اجتماعی عذاب کی عظیم ترین صورت ’’عذابِ استیصال‘‘ کی ہے جس کے ذریعے پوری پوری قوموں کو نسیاً منسیاً کر دیا گیا‘ اور انہیں بیخ و بن سے اکھاڑ کر اُن کا نام و نشان تک مٹا دیا گیا. اور یہ صورت ان قوموں کے ساتھ پیش آئی جن کی جانب کوئی رسول ؑ مبعوث کیا گیا اور اُس نے اپنی دعوت و تبلیغ اور قولی و عملی شہادت کے ذریعے اتمامِ حجت کا حق بدرجۂ تمام و کمال پورا کر دیا‘ لیکن اس کے باوجود قوم نے بحیثیت مجموعی کفر اور انکار کی روش پر اصرار کیا‘ جیسے قومِ نوح علیہ السلام‘ قوم ہود علیہ السلام‘ قومِ صالح علیہ السلام‘قومِ لوط علیہ السلام‘ قومِ شعیب علیہ السلام اور آلِ فرعون. (۴) اس سے کمتر لیکن پیہم اور متواتر عذاب ان لوگوں پر آتا رہا جنہوں نے رسولوںؑ کی دعوت پر لبیک کہہ کر اُمتِ مسلمہ کی حیثیت اختیار کی اور اس حیثیت میں اللہ کے ساتھ عہد و میثاق کا رشتہ استوار کیا‘ لیکن پھر امتدادِ زمانہ کے باعث اپنے قول و قرار سے انحراف کرتے ہوئے شریعت کی حدود کو پامال کرنے اور اللہ کی کتاب کو پس پشت پھینک دینے کی روش اختیار کر لی. چنانچہ یہ ہے عذابِ اجتماعی کی وہ دوسری شکل جس کے کوڑے سابقہ اُمت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی پیٹہ پر بھی پیہم پڑتے رہے‘ اور موجودہ اُمتِ مسلمہ یعنی ہم مسلمانوں پر بھی متواتر برس رہے ہیں. اس کے بعد جو مضمون جمعہ ۳۰/ اپریل اور ہفتہ یکم مئی کو دو قسطوں میں شائع ہوا اس میں دو نکات کی وضاحت کی گئی. یعنی: (۱) یہ کہ اگرچہ دنیا میں انبیاء اور رسول علیہم السلام تو بہت سے گزرے ہیں‘ لیکن صاحب کتاب اور حامل شریعت اُمتیں پوری انسانی تاریخ کے دوران دو ہی ہوئی ہیں: سابقہ اُمتِ مسلمہ یعنی بنی اسرائیل اور موجودہ اُمتِ مسلمہ یعنی امت محمد  . اور (۲) بیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک بنی اسرائیل کی لگ بھگ ساڑھے تین ہزار سال کی تاریخ اور اُمت مسلمہ کی تیرہ سو سالہ تاریخ کے مابین نبی اکرم کے اس قولِ مبارک کے مطابق حد درجہ مشابہت اور مماثلت پائی جاتی ہے کہ: ’’میری اُمت پر بھی لازماً وہ سارے احوال واقع ہو کر رہیں گے جو بنی اسرائیل پر ہوئے‘ بالکل ایسی مشابہت کے ساتھ جو ایک جوڑی کی ایک جوتی کو دوسری جوتی سے ہوتی ہے!‘‘ (ترمذی عن عبداللہ ؓ بن عمروؓ بن العاص) چنانچہ اس عرصے کے دوران سابقہ اُمت مسلمہ بھی دو بار عروج سے ہمکنار ہوئی اور دو مرتبہ زوال سے دو چار ہوئی ‘اور موجودہ اُمت مسلمہ یعنی مسلمان بھی دو ہی بار عزت ووجاہت اور قوت و سطوت کی انتہائی بلندیوں پر فائز ہوئے اور دو ہی مرتبہ ذلت و مسکنت کے قعر مذلت کی انتہائی پستیوں میں گرے. (بقول اقبال: ؎

’’پیش مایک عالم فرسودہ است ملت اندر خاکِ اُو ’آسودہ‘ است!‘‘)

اس کے بعد ۷ اور ۸ مئی کو دو ہی قسطوں میں ’’بیسویں صدی عیسوی اور سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتیں‘‘ کے عنوان سے مضمون شائع ہوا‘جس میں واضح کیا گیا کہ بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بہت عجیب و غریب منظر پیش کرتی ہے کہ اس کے دوران ایک جانب دونوں اُمتوں پر حسب سابق عذابِ الٰہی کے کوڑے بھی برستے رہے‘ چنانچہ یہودیوں پر ’’ہالوکاسٹ‘‘ کی صورت میں ہٹلر کے ہاتھوں عذابِ الٰہی کا شدید ترین کوڑا پڑا اور مسلمانوں میں سے افضل تر حصے یعنی عربوں کے سینے میں اسرائیل کا خنجر پیوست ہوا‘ اور اس پر مستزاد اس کے ہاتھوں انہیں پہلے ۱۹۴۸ء میں اور پھر۱۹۶۷ء میں عبرتناک ہی نہیں نہایت شرمناک ہزیمت کا مزہ چکھنا پڑا‘ یہاں تک کہ مسجد اقصیٰ کی بے حرمتی ہوئی اور وہ اس کی تولیت سے محروم ہوگئے‘ اور غیر عرب مسلمانوں میں سے بھی پاکستانی قوم کو ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ اور المیۂ مشرقی پاکستان کی صورت میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑا. لیکن دوسری جانب اس صدی کے دوران دونوں ہی اُمتوں میں احیاء اور نشأۃِ ثانیہ کا عمل بھی شروع ہوا‘ اگرچہ اس کی ترقی اور پیش قدمی کی رفتار سابقہ اُمت یعنی یہود میں بہت تیز رہی‘ جب کہ اس کے مقابلے میں اُمتِ مسلمہ کا احیائی عمل نہایت سست رفتار رہا. چنانچہ یہود کی ترقی کی سرعتِ رفتار کا عالم تو یہ ہے کہ ۱۸۹۷ء میں ان کے چند ’’بزرگوں‘‘ (Elders of the Zion) نے جو سکیم تیار کی تھی اس کا پہلا ثمرہ کل بیس ہی برس بعد ۲ نومبر ۱۹۱۷ء کے ’’اعلانِ بالفور‘‘ کی صورت میں سامنے آگیا‘ اور پھر کل تیس برس بعد ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کا قیام عمل میں آ گیا. اور اِس وقت واقعی صورت حال یہ ہے کہ جہاں ایک جانب اسرائیل بذاتِ خود بھی ایک بہت بڑی عسکری قوت ہے‘ اور اس پر مستزاد اسے پوری عیسائی دنیا کی حمایت و نصرت بھی حاصل ہے‘ وہاں دوسری جانب وقت کی واحد سپریم پاور تو یہود کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے ہی‘ پوری دنیا کے مالیاتی نظام پر بھی ان کا کامل تسلط ہے اور عالمی معیشت کا لیور تو اس طرح ان کے ہاتھ میں ہے کہ جب چاہیں ذرا سی جنبش کے ذریعے عظیم ترین سلطنتوں کو تہہ وبالا اور ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیں. (جس کی ایک نمایاں مثال سوویت یونین کا حالیہ حشر ہے!) چنانچہ اِس وقت حقیقی اور واقعی صورت حال یہ ہے کہ ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کے قیام کے لیے عملی اقدام میں کوئی تأخیر یہود اور اسرائیل کی اپنی حکمت عملی ہی کے تحت تو ہو سکتی ہے‘ دنیا میں کوئی دوسری ایسی طاقت بالفعل موجود نہیں ہے جو اس کی راہ میں مزاحم ہوسکے! دوسری طرف مسلمانانِ عالم بھی نہ صرف یہ کہ مغربی استعمار کی براہِ راست غلامی سے نجات حاصل کر چکے ہیں‘ بلکہ ان میں اپنے اصل تشخص کی بازیافت اور اپنی تہذیب و تمدن کے احیاء اور اسلام کو ایک ’’دین‘‘ یعنی نظامِ زندگی اور سسٹم آف سوشل جسٹس کی حیثیت سے قائم و نافذ کرنے کی شدید اُمنگ پیدا ہو چکی ہے‘ جس کی لہر مشرق سے مغرب تک پورے عالم اسلام میں ؎ ’’ہے ایک ہی نغمہ ‘کہیں اونچا کہیں مدھم!‘‘ اور ’’ہے ایک ہی جذبہ ‘کہیں واضح کہیں مبہم!‘‘ کی شان کے ساتھ روز بروز شدید سے شدید تر ہوتی چلی جا رہی ہے. تاہم واقعہ یہ ہے کہ اس ’’احیائی دور‘‘ میں یہودی مسلمانوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں. اور دراصل اسی معروضی حقیقت میں آئندہ پیش آنے والے عظیم حوادث اور ہولناک واقعات کا راز مضمر ہے‘ جس پر مفصل گفتگو آئندہ ہو گی.

اس کے بعد دو ہی اقساط میں‘ یعنی ۱۴ اور ۱۶ مئی کو وہ تحریر شائع ہوئی جس میں ’’ابراہیمی مذاہب کا ثالثُ ثلاثہ‘‘ کے عنوان سے یہ حقائق واضح کیے گئے کہ: (۱)عیسائیت اپنی اصل اور آغاز کے اعتبار سے تو یقینا ابراہیمی ؑمذاہب ہی کے سلسلے کی ایک کڑی تھی. چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیرو کار سابقہ اُمت مسلمہ ہی کا ’’فرقہ‘‘ سمجھے جاتے تھے‘ لیکن سینٹ پال کی ترمیمات کے نتیجے میں موجودہ عیسائیت ایک بالکل جداگانہ مذہب کی صورت اختیار کر چکی ہے‘ جس کا کوئی حقیقی اور معنوی تعلق ابراہیمی ؑمذاہب کے ساتھ باقی نہیں رہا. (۲) یہودیوں اور مسلمانوں دونوں پر عذاب ِ الٰہی کے دوسرے دَور کے ضمن میں یورپ کی عیسائی اقوام ہی ’’کوڑے‘‘ کے طور پر استعمال ہوتی رہیں. چنانچہ یہودیوں پر بھی چوتھی صدی عیسوی کے بعد سے آج تک سارا تشدد اور کُل تعذیب عیسائیوں ہی کے ہاتھوں ہوئی اور مسلمانوں پر بھی پہلے دورِ عذاب کی ابتدا بھی صلیبیوں ہی کے ہاتھوں ہوئی تھی. اگرچہ اُس وقت اصل عذاب تاتاریوں کے ہاتھوں آیا تھا‘ لیکن دوسرے دورِ عذاب کے دوران تو‘ جو چودہویں اور پندرہویں صدی میں ہسپانیہ سے اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے سے لے کر بیسویں صدی کے اوائل میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے تک جاری رہا‘ عذاب ِ الٰہی کے تمام کوڑے یورپ کی عیسائی اقوام ہی کے ہاتھوں پڑے. (چنانچہ آئندہ پیش آنے والے واقعات کے ضمن میں یہ حقیقت بھی بہت اہم رول ادا کرنے والی ہے!) (۳) یہودیوں نے نہایت ہوشیاری اور چابک دستی سے اپنے ازلی اور جانی دشمنوں یعنی عیسائیوں کو پہلے رام کیا اور پھر باقاعدہ زیر کر لیا. اس کے لیے انہوں نے پہلے ہسپانیہ کی فتح میں مسلمانوں کی مدد کی‘ پھر مسلم اسپین کو اپنے مورچے اور کمین گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے عیسائی یورپ کی فصیل میں نقب لگائی‘ اور علم و حکمت کے جو سوتے قرطبہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیوں سے پھوٹ کر یورپ کی جانب بہہ رہے تھے ان میں ’’لبرلزم‘‘ کے عنوان سے فکری آوارگی اور اخلاقی بے راہ روی کا زہر شامل کر کے ایک جانب یورپ کے معاشرے کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیا اور 
دوسری جانب ’’پروٹسٹنٹ ازم‘‘ کی راہ سے کلیسا کی گرفت کو کمزور کر کے سودی کاروبار کی اجازت حاصل کر لی اور اس طرح یورپ کو اپنے اقتصادی شکنجے میں جکڑ لیا. چنانچہ اس وقت حقیقی اور معروضی صورت حال یہ ہے کہ پوری عیسائی دنیا پر فیصلہ کن غلبہ حاصل ہے ’’واسپ‘‘ (White Anglo Saxon Protestants) کو‘ جن کے سرخیل ہیں امریکہ اوربرطانیہ‘ اور ان کے سر اور شانوں پر سوار ہے ’’صیہونیت‘‘ کا سازشی ٹولہ!
اور بالآخر جمعہ ۲۱ مئی اور اتوار ۲۳ مئی کو دو قسطوں میں شائع ہوئی ’’آنے والے دَور کی ایک واضح تصویر‘‘ کے عنوان والی تحریر‘ جس کی پہلی قسط میں سب سے زیادہ حتمی و یقینی اور قطعی و شدنی بات کا تذکرہ ہوا‘ یعنی قرآنی اصطلاح میں 
الواقعہ‘ القارعہ‘ الحاقّہ اور السّاعہ کا ذکر‘ جسے عرفِ عام میں ’’قیامت‘‘ کہہ دیا جاتا ہے (حالانکہ اصل قرآنی اصطلاح کے مطابق قیامت کے لفظ کا اطلاق بعث بعد الموت کے بعد حساب کتاب اور جزا و سزا کے فیصلے کے دن یعنی ’’یوم الدین‘‘ پر کیا جاتا ہے) اور دوسری قسط میں اس سے قبل کے اتنے ہی حتمی اور یقینی واقعے کا تذکرہ ہوا جو قرآن حکیم سے ’’دلالت النص‘‘ اور احادیث نبویہؐ سے ’’صراحت النص‘‘ کے طریق پر تو ثابت ہے ہی‘ فلسفۂ اقبال کے شارح ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم کی رائے میں نظریۂ ارتقاء کے بھی منطقی اور لازمی نتیجے کی حیثیت رکھتا ہے‘ یعنی اسلام کا عالمی غلبہ اور عالمی خلافت علیٰ منہاج النبوت کا قیام!

اب آئندہ ہمیں ان عظیم واقعات و حوادث پر گفتگو کرنی ہے جن کی تفصیلی خبریں احادیث نبویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں وارد ہوئی ہیں‘ یعنی سلسلۂ ملاحم اور 
الملحمۃ الکبریٰ‘ بیعت مہدی‘ خروجِ دجال‘ نزولِ مسیحؑ‘ استیصالِ یہودا ور خاتمۂ عیسائیت‘ جن کے بارے میں ہم اپنی یہ حتمی اور سوچی سمجھی رائے پیش کر چکے ہیں کہ ان کی واقعاتی تفاصیل اور ان کے وقوع کے ٹائم ٹیبل سے قطع نظر‘ جہاں تک ان کے مجموعی نقشے کا تعلق ہے وہ دونوں مسلمان اُمتوں کی تاریخ اور قرآن کے اس قانونِ عذاب کے فریم میں بالکل فٹ بیٹھتا ہے جس کا اجمالی ذکر آج کی صحبت میں بھی ہو گیا ہے. آئندہ ہم ان میں سے ایک ایک کے بارے میں مختصر گزارشات پیش کریں گے. ان شاء اللہ العزیز!
۳۱؍مئی ۱۹۹۳ء