پندرہویں صدی ہجری: توقعات اور اندیشے 

بارہ سال قبل کی گزارشات


۲جون کو نماز عیدالاضحی سے فراغت کے بعد باغ جناح لاہور سے واپس آ کر اپنے پڑھنے لکھنے کے کمرے میں کسی قدر خالی الذہن بیٹھا تھا کہ اچانک ذہن اس الجھن میں مبتلا ہو گیا کہ غلبۂ اسلام سے قبل کے حوادث یعنی سلسلۂ ملاحم‘بیعت حضرتِ مہدی‘خروجِ دجال‘نزولِ مسیحؑ‘اِستیصالِ یہود اور عیسائیت کے اسلام میں مدغم ہونے کو کس ترتیب اور اسلوب سے ضبط تحریر میں لایا جائے. اس لیے کہ احادیث ِ صحیحہ میں وارد شدہ خبریں بھی اپنے مقام پر‘اور میرا ایمان و یقین اور وثوق و اعتماد بھی اپنی جگہ‘لیکن آج کا جدید تعلیم یافتہ انسان ان مباحث سے طبعاً الرجک واقع ہوا ہے اور ان پر گفتگو کو ضعیف الاعتقادی کا مظہر اور وقت کا ضیاع سمجھتا ہے. اس پر مستزادیہ کہ ان میں سے بعض مباحث بہت تفصیل طلب ہیں‘جب کہ ایک روز نامے کے ’’کالم‘‘ کا مزاج اور اس کی محدودیت دونوں ان تفاصیل کی متحمل نہیں ہو سکتیں. میں کچھ دیر اسی ادھیڑ بُن میں رہا‘ لیکن پھر اچانک خیال آیا کہ اب سے دس بارہ سال قبل میں نے اس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی تھی جو ماہنامہ ’’میثاق‘‘ میں شائع بھی ہو گئی تھی‘کیوں نہ اسے دیکھا جائے‘ شاید کہ معاملہ آسان ہو جائے. چنانچہ اسے نکال کر پڑھا تو ایک تو میں خود ورطۂ حیرت میں ڈوب کر رہ گیا کہ اب سے ساڑھے بارہ سال قبل جو باتیں بہت دور و دراز نظر آتی تھیں‘اس عرصے کے دوران نوشتۂ دیوار کی طرح عالم واقعہ میں رونما ہو چکی ہیں. اور دوسری طرف میری مشکل واقعتا آسان ہو گئی اور دل نے یہی رائے دی کہ پہلے اس کے متعلقہ حصے قارئین ’’نوائے وقت‘‘ کی خدمت میں پیش کر دیے جائیں. اس سے ایک اجمالی نقشہ قارئین کے سامنے آ جائے گا. پھر بعض معاملات کی کسی قدر وضاحت اور اس عرصے کے دوران پیش آمدہ واقعات سے استشہاد کے ذریعے پورا مرحلہ بآسانی طے ہو جائے گا‘ اور اس طرح ان آراء میں اضافی وزن اس بنا پر پیدا ہو جائے گا کہ یہ خیالات ’’مشتے کہ بعد از جنگ یاد آید‘‘ کے مصداق خلیج کی جنگ کے بعد پیدا نہیں ہوئے‘بلکہ اس سے لگ بھگ دس سال قبل وضاحت کے ساتھ بیان ہو چکے تھے.

واضح رہے کہ یہ تقریر میں نے ۲۴/ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو اپنے دوسرے سفر امریکہ سے واپسی پر مسجد شہداء‘ریگل چوک‘لاہور میں کی تھی. پھر اسے ٹیپ سے صفحۂ قرطاس پر منتقل کر کے جوں کا توں ماہنامہ ’’میثاق‘‘ لاہور کی اشاعت بابت جنوری فروری ۱۹۸۱ء میں شائع کر دیا گیا تھا. سفر امریکہ کے دوران اس موضوع کی جانب میرا ذہن جن اسباب کی بنا پر منتقل ہوا اُن میں سے بعض کا ذکر تو اس تقریر کے آغاز میں موجود ہے ‘لیکن ایک اہم بات جو اُس وقت بیان ہونے سے رہ گئی تھی‘یہ تھی کہ میں نے اپنے ۱۹۷۹ء اور ۱۹۸۰ء کے امریکہ کے سفر کے دوران کثرت کے ساتھ یہ سٹکرز کاروں کے پچھلے شیشوں یا بمپرز پر چسپاں دیکھے کہ ’’یسوع مسیحؑ تشریف لا رہے ہیں!‘‘ 
(Jesus is Coming) جس سے شدت کے ساتھ احساس ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی شخصیت اور ان کے ورودِ ثانی کو ہمارے اور عیسائیوں کے مابین ایک بہت بڑی قدرِ مشترک کی حیثیت حاصل ہے. بہرحال اب اس تمہید کے بعدمیری اس تقریر کے متعلقہ حصے ملاحظہ ہوں. میں نے اب اس میں تقریر کو تحریر کا انداز دینے کے لیے صرف کچھ لفظی تبدیلی اور تقدیم و تأخیر کا فرق کیا ہے اور بعض غیر ضروری تفاصیل حذف کر دی ہیں‘ورنہ اصلاً یہ آج سے ساڑھے بارہ سال قبل ہی کی تقریر ہے.

(اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء‘نبی اکرم  پر درود و سلام اور ماثورہ دعاؤں کے بعد عرض کیا گیا)
حضرات! میری آج کی گفتگو کا عجیب پہلو یہ ہے کہ مجھے اعلان کے مطابق ایک ہی نشست میں دو موضوعات پر گفتگو کرنی ہے‘ایک موضوع تو میرے شمالی 
امریکہ کے حالیہ دورے کے تأثرات و مشاہدات سے متعلق ہے (تقریر کا یہ حصہ اِس وقت تو بالکلیہ حذف کیا جا رہا ہے‘لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اگر کسی موقع پر اسے بھی ہدیۂ قارئین کیا جائے تو اِن شاء اللہ مفید بھی ہو گا اور موجب دلچسپی بھی!) اور دوسرا پندرہویں صدی سے تعلق رکھتا ہے‘جس کا آغاز ہو رہا ہے اور جس کو دوسرے مسلمان ممالک کی طرح ہمارے ملک میں بھی سرکاری سطح پر منایا جا رہا ہے‘بلکہ اس کے استقبال کے لیے کافی پہلے سے مختلف تقاریب منعقد ہو رہی ہیں. اس موضوع پر گفتگو کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوئی کہ عوام الناس ہی نہیں ہمارے خواص کے بھی قابل ذکر حصے میں چودہویں اور پندرہویں صدی کے متعلق عجیب و غریب باتیں پھیلی ہوئی ہیں. یہ باتیں کچھ تو ہمارے اُن واعظین کے باعث پھیلی ہیں جن کا مبلغ علم صرف سنی سنائی باتوں اور سینہ بہ سینہ حاصل ہونے والی معلومات تک محدود ہوتا ہے‘پھر اس میں کافی دخل عوام الناس کی اس عادت کا بھی ہے کہ وہ سنی سنائی باتوں میں اپنی طرف سے اضافے بھی کرتے رہتے ہیں اور اس طرح بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے.

اس موضوع پر کہ اُمت مسلمہ اور ملت اسلامیہ چودہ سو سال میں عروج و زوال کے مختلف اَدو
ار سے گزرتی ہوئی کہاں سے کہاں پہنچی ہے اور فی الوقت ہم کس صورتِ حال سے دو چار ہیں‘میں پہلے بھی مفصل تقریریں کر چکا ہوں اور اُمت مسلمہ کے عروج و زوال کے دو دو اَدوار کے متعلق میرے تجزیے اور میرے مطالعے کا حاصل تحریری شکل میں بھی آ چکا ہے‘لیکن علم‘مطالعہ اور مشاہدہ کی کوئی آخری حد نہیں ہوتی. اس ضمن میں بعض نئی باتیں حال ہی میں میرے سامنے آئی ہیں جن کو میں آج آپ کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کروں گا. ان نئی باتوں کی جانب ذہن منتقل ہونے کا سبب یہ حسنِ اتفاق ہوا کہ شمالی امریکہ میں کافی عرصہ سے ایک اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن قائم ہے جس کا امریکہ کے مختلف شہروں میں ہر سال ایک کنونشن منعقد ہوتاہے. پچھلے سال جب میں پہلی بار امریکہ گیا تھا تو ڈیلاس میں ان کے سالانہ کنونشن کا انعقاد ہو رہا تھا‘جس میں ایسوسی ایشن کی جانب سے مجھے مہمان مقرر کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا اور میں نے وہاں تقریر بھی کی تھی. امسال میں جب دوسری مرتبہ دعوتی دورے پر شمالی امریکہ گیا تو ان کا سالانہ کنونشن مشہورِ عالم آبشار نیاگرا کے سامنے نیاگراسٹی میں منعقد ہونے والا تھا‘جس میں شریک ہونے اور آخری اجلاس میں ’’پندرھویں صدی ہجری کے چیلنج‘خطرات اور توقعات‘‘ کے عنوان پر ایک مقالہ پڑھنے کے لیے مجھے دعوت دی گئی تھی. میں نے اللہ تعالیٰ کی نصرت و توفیق سے اس موضوع پر انگریزی میں ایک مقالہ لکھا جس کے دوران کچھ پہلو اور نکات ایسے ذہن میں آئے کہ میں نے چاہا کہ ان کو آپ کے سامنے بھی بیان کروں. (یہ مقالہ پاکستان میں روز نامہ ’’مسلم‘‘ اسلام آباد‘اور بھارت میں ہفت روزہ ’’Radiance‘‘ دہلی میں شائع ہو چکا ہے)

احادیث شریفہ میں قیامت کی جو علامات بتائی گئی ہیں ان کا مفاد یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے رہنمائی کا ذریعہ بنیں اور ہم چوکس و ہوشیار رہیں. البتہ یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لیجیے اور اس معاملے میں کوئی مغالطہ لاحق ہو تو اس کو دور کر لیجیے کہ کسی صدی کے تعین کے ساتھ‘خواہ وہ چودہویں صدی ہو خواہ پندرہویں صدی‘کوئی خبر نہ قرآن مجید میں بیان ہوئی ہے نہ احادیث شریفہ میں. علاماتِ قیامت کے باب میں احادیث ِ نبویہ ؑ میں غور و فکر کرنے سے البتہ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا کا ڈرامہ اپنے ڈراپ سین یعنی اختتام سے زیادہ دور نہیں ہے. اس لیے کہ دنیا میں وہ نقشہ اور وہ حالات تیار ہوتے نظر آ رہے ہیں جن کی خبریں الصادق المصدوق جناب محمد  نے دی تھیں. میں ان حالات کا جن سے اس کرۂ ارض کو مستقبل قریب میں سابقہ پیش آنے والا ہے‘ایک اجمالی نقشہ آپ کے سامنے آج کی اس گفتگو میں پیش کرنا چاہتا ہوں. مجھے اس ضمن میں جامعہ مدنیہ لاہور کے مہتمم اور شیخ الحدیث حضرت مولانا سید حامد میاں مدظلہٗ (افسوس کہ مولانا موصوف کا انتقال ۳ مارچ ۱۹۸۸ء کو بالکل اچانک انداز میں ہوگیا. غَفَراللّٰہ لَنَا وَلَـہٗ اَدخِلہ فی اعلٰی عِلِّیّین… آمین!)سے بہت مدد ملی ہے. مولانا موصوف نے اسی موضوع پر عیدالاضحی کے موقع پر تقریر بھی کی تھی‘پھر میرا اس موضوع پر ان سے آج ہی تبادلۂ خیالات بھی ہوا ہے اور اس گفتگو سے میری اپنی سوچ میں مزید پختگی پیدا ہوئی ہے‘اور میری ان گزارشات میں ان سے استفادہ بھی شامل ہے.

قربِ قیامت کی علامات کے بارے میں احادیث نبویہ ؑ میں جو کچھ بیان ہوا ہے ان سے ذہن میں آنے والے واقعات و حالات کی ایک ترتیب بھی بنتی ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ واقعات مختلف مراحل میں رونما ہوں گے. ہر مرحلے میں کتنی مدت صرف ہو گی اور کتنا عرصہ لگے گا ‘اس کا تعین ممکن نہیں‘لیکن مختلف احادیث نبویہ ؑ‘ کو جمع کر کے غور و تدبر کیا جائے تو ایک اجمالی نقشہ اور خاکہ ذہن میں ضرور مرتب ہو جاتاہے. بہرحال اس طرح جو نقشہ میرے ذہن میں مرتب ہوا ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.

احادیث شریفہ سے ایک بات تو پورے جزم اور یقین کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ وقوعِ قیامت کے قریب کچھ جنگیں ہوں گی جن کی ہولناکیاں اور تباہ کاریاں ایسی وسعت کی حامل ہوں گی کہ ان کے سامنے سابقہ تمام جنگوں کی ہولناکیاں اور تباہ کاریاں ماند پڑ جائیں گی. احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے کی پہلی جنگ میں مسلمان اور عیسائی ایک تیسری طاقت کے خلاف متحد ہوں گے‘اس جنگ میں بے پناہ خونریزی ہو گی اور نتیجے کے طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کی متحدہ قوت کو فتح و کامیابی حاصل ہو گی. یہ پہلا مرحلہ ہے. اس کے بعد دوسرے مرحلے کے بارے میں احادیث شریفہ سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ اس فتح کے بعد مسلمانوں اور عیسائیوں میں سخت تفرقہ اور اختلافات پیدا ہوں گے‘عیسائی اس فتح کو اپنے مذہب‘اپنے عقائد اور اپنی صلیب کی طرف منسوب کریں گے اور اس کو اپنے مذہب کی حقانیت کی دلیل بنائیں گے. چنانچہ اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا اور یہ تفرقہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے مابین مسلح معرکہ آرائی اور ایک شدید جنگ کی صورت اختیار کر لے گاجس میں مسلمانوں کو زبردست ہزیمت اور نقصانات اٹھانے پڑیں گے. چنانچہ ترکی‘لبنان‘شام اور عراق مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے‘حتیٰ کہ عیسائی مسلمانوں کو شکست پر شکست دیتے اور دباتے ہوئے حجاز میں خیبر کے مقام تک پہنچ جائیں گے. اس 
جنگ میں یہودیوں کی تمام دلی ہمدردیاں اور عملی تعاون عیسائیوں کو حاصل ہو گااور ان کا سرمایہ‘ ان کی ٹیکنیکل مہارت‘ان کے کارخانوں میں تیار ہونے والا مہیب و مہلک اسلحہ اور ان کے پراپیگنڈے کے ہتھیار سب عیسائیوں کی پشت پر ہوں گے‘لیکن خود وہ براہِ راست جنگ میں شریک نہیں ہوں گے.

احادیث کے مطابق اس مرحلہ پر حضرت مہدیؒ کے ہاتھ پر بیعت ہو گی.لیکن اسی موقع پر یہ بات بھی جان لیجیے کہ حضرت مہدی کی حدیثِ نبوی ؐ میں بیان شدہ شخصیت اور اہل تشیع کی اعتقادی شخصیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور ان دونوں کے مابین سوائے لفظ اور نام کے اشتراک کے کوئی اور چیز مشترک نہیں ہے. وہ جس مہدی کے ماننے والے ہیںوہ ان کے بارہویں امام ہیں جو اِن کے عقیدے کے مطابق روپوش ہو گئے تھے اور کسی غار میں مقیم ہیں اور اُس وقت وہی ظاہر ہوں گے ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے. احادیث نبویہ ؑ سے ہمارے سامنے حضرت مہدیؒ کی شخصیت اور ان کے ظہور کا جو نقشہ آتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ عرب کے ایک قائد اور ایک راہنما کی حیثیت سے ابھریں گے. ان کا نام محمد ہو گا اور ان کے والد کا نام عبداللہ. وہ بیت اللہ شریف میں کعبہ کا طواف کر رہے ہوں گے کہ لوگ ان کو پہچانیں گے کہ یہی مہدیٔ موعود ہیں. وہ خودمہدی ہونے کے دعوے دار نہیں ہوں گے‘بلکہ لوگ ان کو از خود پہچانیں گے اور کوئی ندائے غیبی اس امر کی تائید کرے گی. مسلمان ان کی قیادت میں متحد اور مجتمع ہو کر عیسائی قوتوں سے جنگ و قتال کریں گے اور ان کو پیچھے ہٹاتے ہوئے قسطنطنیہ تک پہنچ جائیں گے. اور جب قسطنطنیہ کو عیسائیوں کے چنگل سے آزاد کرا رہے ہوں گے تو پھر ایک اور مرحلہ شروع ہو جائے گا جس کو ہم تیسرا مرحلہ کہہ سکتے ہیں. وہ وقت دجالِ اکبر کے ظہور کا ہو گا. اس کے ظہور کی خبراس کے قبضے میں غیر معمولی اسلحہ اور عجیب و غریب کرشمے ہونے کے باعث تمام عالم میں آناًفاناً پھیل جائے گی. بعض احادیث میں اگرچہ اس کے خروج کی جگہ اصفہان (ایران کا شہر) بتائی گئی ہے‘لیکن وہ خود بھی یہودی النسل ہو گا اور یہودیوں کی مسلح اور بظاہر ناقابل تسخیر قوت اس کی پشت پر ہو گی. وہ پوری قوت کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہو گا. عیسائی قوتیں بھی اس کے ساتھ مل جائیں گی اور مسلمانوں کو دوبارہ شدید ہزیمت و شکست سے دو چار ہونا پڑے گا اور وہ شدید نقصانات اٹھاتے ہوئے حضرت مہدی کی قیادت میں دمشق کی طرف پلٹیں گے احادیثِ نبویہ ؑ کی رو سے یہ وقت ہو گا عیسیٰ ابن مریم یعنی مسیح علیہ السلام کے آسمان سے نزول کا‘جس کا ذکرمیں آگے چل کر کروں گا.

یہاں تھوڑا سا توقف کر کے اس بات کو سمجھئے کہ احادیث کی روشنی میں مسلمانوں کے لیے کیسے کیسے سخت مراحل اور صبر آزما امتحانات آنے والے ہیں‘اور ان کے جلو میں تباہی‘ہلاکت اور خون ریزی کے کیسے کیسے طوفان اٹھنے والے ہیں. ہمیں بالعموم یہ کہہ کر تھپکی اور لوری دے دی جاتی ہے کہ بس اب پندرہویں صدی غلبۂ اسلام کی صدی ہے اور روشن مستقبل ہمارا منتظر ہے ‘اور ہم خوش ہو جاتے ہیں اور ان ’’امانی‘‘ سے بہل جاتے ہیں اور ہمیں ان فرائض کا احساس نہیں ہوتا جو اعلائے کلمۃ اللہ‘احقاقِ حق‘ ابطالِ باطل اور غلبۂ دین متین کی سعی و جہد کے ضمن میں ہر کلمہ گو کے ذمے ہیں. حالانکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کن انتہائی کٹھن مراحل سے سابقہ پیش آنے والا ہے اور قطرے کے گہر ہونے تک اس پر کیا کچھ بیتنے والی ہے او ران امتحانوں سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے لیے ہمیں حقیقی ایمان کی کتنی ضرورت ہے. مشرقِ وسطیٰ میں سلطنت اسرائیل کے قیام اور دنیا بھر سے لا تعداد یہودیوں کی وہاں منتقلی‘پھر ان ممالک کی طرف سے جو عظیم اکثریت کے لحاظ سے عقیدۃً عیسائی ہیں ’’اسرائیل‘‘ کی سرپرستی اور معاونت او راس کی جارحانہ اور توسیع پسندانہ پالیسی کو پیش نظر رکھئے اور غور کیجیے کہ مستقبل میں کون کون سے علاقے محاذِ جنگ بننے والے ہیں.

بہرحال صحاح ِستہ جیسی بلند پایہ کتب احادیث کے علاوہ دوسرے بہت سے مجموعوں کے ذریعے جو روایات ہم تک پہنچی ہیں‘ان میں قطعیت اور صراحت کے ساتھ دجال اکبر کے ظہور اور حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کی سال وسن اور صدی کے تعین کے بغیر خبریں دی گئی ہیں. ان احادیثِ صحیحہ کی روشنی میں ہمارا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام بنفس نفیس آسمان سے نزول 
فرمائیں گے صحیح مسلم‘ جامع ترمذی‘سنن ابوداؤ داور سنن ابن ماجہ میں نزول مسیحؑ کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے کہ ’’دجال جب مسلمانوں کو پامال کرتاہوا دمشق کا محاصرہ کر لے گا تو اللہ تعالیٰ مسیح ابن مریمؑ کو بھیج دے گااور وہ دِمشق کے مشرقی حصے میں سفید مینار کے پاس زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے دو فرشتوں کے بازوؤں پر اپنے ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے. جب وہ سر جھکائیں گے تو ایسا محسوس ہوگا کہ قطرے ٹپک رہے ہیں اور جب سر اٹھائیں گے تو موتی کی طرح قطرے ڈھلکتے نظر آئیں گے‘ان کے سانس کی ہوا جس کافر تک پہنچے گی‘اور وہ حد نظر تک جائے گی‘وہ کافر زندہ نہ بچے گا. پھر ابن مریم ؑدجال کا پیچھا کریں گے اور لُدّ کے دروازے پر اسے جا پکڑیں گے اور قتل کر دیں گے.‘‘ ایک اور حدیث میں دجال کے ظہور کے سلسلہ میں آتا ہے کہ ’’پھر عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے اور اللہ تعالیٰ دجال کو افیق کی گھاٹی کے قریب ہلاک کر دے گا.‘‘ ان احادیث میں دجال کے قتل کا مقام لُد اور افیق کی گھاٹی کا قرب بیان کیا گیا ہے‘تو جان لیجیے کہ لُد (لِڈّا) فلسطین میں اسرائیل کے دارالسلطنت تل ابیب سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ اسرائیل کا سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے. افیق آج کل فیق کے نام سے موسوم ہے. یہ شام اور اسرائیل کی سرحد کے قریب شام کا آخری شہر ہے‘جس سے آگے اسرائیل کی سرحد شروع ہو جاتی ہے اور لُد کے ہوائی اڈے کی طرف جاتی ہے. ان واضح احادیث اور تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اسی مضمون کی بہت سی احادیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نزول فرمانے والے بنفس نفیس وہی حضرت مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام ہوں گے.

 احادیث ِ صحیحہ میں یہ وضاحت و صراحت بھی ملتی ہے کہ حضرت مسیح عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام دوبارہ اس دنیا میں بحیثیت نبی تشریف نہیں لائیں گے‘بلکہ اُس وقت ان کی حیثیت خاتم النبیین آخر الرسل جناب محمدٌ رسول اللہ کے ایک اُمتی کی ہو گی. احادیث میں ان کے نزول کا وقت نمازِ فجر کے قریب بیان ہوا ہے اور یہ بات بھی مذکور ہے کہ ان سے کہا جائے گا کہ آپ آگے بڑھئے اور نماز کی امامت فرمایئے‘لیکن آنجناب ؑ انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ تمہارے امام ہی کو آگے بڑھنا چاہیے. چنانچہ وہ حضرت مہدی ؒ کی اقتداء ہی میں نماز ادا کریں گے. صحیحین میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے فرمایا: ’’کیسے ہو گے تم لوگ جب کہ تمہارے درمیان ابن مریم ؑ اتریں گے اور تمہارا امام اُس وقت تم ہی میں سے ہوگا!‘‘ اس مضمون کی بکثرت احادیث ہیں یہ علامت ہو گی اس بات کی کہ ان کی حیثیت اُمت محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کے ایک اُمتی کی ہو گی اور اُمت مسلمہ کا نظم برقرار رہے گا.

نزولِ مسیح علیہ السلام کے سلسلے کی جملہ احادیث پر غور و تدبر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے نزول کا اصل مشن دجال کا قتل اور یہود کو کیفرکردار تک پہنچانا ہے. چونکہ قرآن حکیم میں رسولوں کے باب میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت تواتر کے ساتھ سامنے آتی ہے کہ جن قوموں کی طرف رسولوں کی براہِ راست بعثت ہوتی ہے وہ اگر بحیثیت مجموعی رسول پر ایمان لانے سے انکار کر دیں تو ہلاک کر دی جاتی ہیں. جیسے قومِ نوح‘قومِ لوط‘قومِ صالح اور قومِ شعیب علیہم السلام پر عذابِ استیصال کے نزول اور ان کی ہلاکت و بربادی کا قرآن حکیم میں تفصیل سے متعدد بار ذکر ہے. از روئے قرآن مجید حضرت مسیح علیہ السلام کی بعثت اصلاً بنی اسرائیل کی طرف ہوئی تھی‘جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت ۴۹ کے آغاز میں فرمایا 
’’وَ رَسُوۡلًا اِلٰی بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ‘‘ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ بنی اسرائیل کو حضرت مسیح علیہ السلام کی تکذیب کے جرم کی پاداش میں ہلاک نہیں کیا گیا‘ان پر عذابِ استیصال نہیں آیا‘لہذا ان کی ہلاکت کا مرحلہ سنت اللہ کے مطابق ابھی آنا ہے.

اسی سنت اللہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا جن کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا تھا اور ان ہی کے ہاتھوں سے یہود سنت اللہ کے مطابق برباد‘ہلاک اور نیست و نابود کر دیے جائیں گے اور ان کا بالکلیہ استیصال ہو گا. یہودیوں کے استیصال کے ساتھ ساتھ نزولِ مسیحؑ کے بعد عیسائیت کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور تمام عیسائی حلقہ بگوشِ اسلام ہو جائیں گے او رتمام دنیا پر دین الحق کی حکمرانی ہو گی‘اور اس طرح ’’ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ‘‘ کی شان بکمال و تمام سارے عالم پر ظاہر ہو جائے گی. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بخاری و مسلم اور ترمذی و مسند احمد میں مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!ضرور اُتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر‘پھر وہ صلیب کو توڑ دیں گے (فیکسر الصلیب) اور خنزیر کو ہلاک کریں گے (ویقتل الخنزیر)اورجنگ کا خاتمہ کر دیں گے.

دوسری روایت میں جزیے کا لفظ ہے. یعنی جزیہ ختم کر دیں گے (ویضع الحرب او یضع الجزیۃ) اور مال کی وہ کثرت ہوگی کہ اس کو قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا‘اور حالت یہ ہو جائے گی کہ لوگوں کے نزدیک خدا کے حضور ایک سجدہ کر لینا دنیا ومافیہا سے بہتر ہوگا.‘‘ تھوڑے سے لفظی اختلاف کے ساتھ اس مضمون کی متعدد احادیث صحیح سند کے ساتھ مختلف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہیں. ان تمام احادیث میں ’’یکسر الصلیب‘‘ اور ’’یقتل الخنزیر‘‘ اور ’’یضع الجزیۃ‘‘ کے جو الفاظ آئے ہیں اس کامفہوم تھوڑے سے غور و فکر سے سمجھ میں آ جاتا ہے. صلیب کو توڑنے اور خنزیر کو ہلاک کر دینے کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ عیسائیت ایک الگ مذہب کی حیثیت سے ختم ہو جائے گی… حضرت مسیح علیہ السلام اپنے نزول کے بعد خود اعلان فرمائیں گے کہ میں خدا کا بیٹا نہیں‘بلکہ اس کا بندہ ہوں ’’اِنِّی عَبْدُ اللّٰہِ‘‘… نہ ہی مجھے صلیب پر چڑھایا گیا تھا ‘بلکہ مجھے میرے ربّ نے آسمان پر زندہ اُٹھا لیا تھا‘ نہ میں نے خنزیر کو حلال کیا تھا اور نہ ہی میں نے شریعت کو ساقط کیا تھا .اور ساتھ ہی وہ نبی اکرم  کی تصدیق فرمائیں گے. نتیجتاً عیسائیت ختم ہو جائے گی. اور ’’یضع الجزیۃ‘‘ یعنی جنگ یا جزیہ کو ختم کر دینے کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ نزولِ مسیح علیہ السلام کے بعد اُمتوں کا اختلاف ختم ہو جائے گا‘دوسرے تمام مذاہب واَدیان بھی مٹ جائیں گے اور سب لوگ ملت ِ اسلام میں شامل ہو کر ایک اُمتِ واحدہ بن جائیں گے. اس طرح نہ جنگ و قتال کی ضرورت باقی رہے گی اور نہ کسی پر جزیہ عائد کیا جائے گا. پورے کرۂ ارض پر اللہ کا دین غالب ہو جائے گا اور الصادق المصدوق  کی پیشین گوئی کے مطابق آسمان سے رحمتیں نازل ہوں گی اور زمین اپنے تمام پوشیدہ خزانے اور برکتیں اُگل دے گی. متعدد احادیث کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فتنۂ دجال کے فرو کرنے، یہودیوں کا استیصال کرنے‘تمام باطل ادیان کو محو اور تمام ملل و اُمم کو ملتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں ضم کرنے کے بعد چالیس سال تک اس دنیا میں رہیں گے. چنانچہ مسند احمد میں ایک روایت آتی ہے جس میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دجال کے قصے میں بیان کرتی ہیں کہ ’’پھرعیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے. اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام چالیس سال تک زمین میں ایک امامِ عادل اور حاکم منصف کی حیثیت سے رہیں گے.‘‘ بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شادی بھی ہوگی‘وہ صاحب اولاد ہوں گے‘پھر ان کا انتقال ہو گااور وہ ’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘کے اٹل قانونِ قدرت سے دو چار ہوں گے ‘یعنی ان پر بھی طبعی موت واقع ہو گی جیسے ہر ذی نفس پر واقع ہوتی ہے. پھر ان کی تدفین بھی اس حجرہ شریف میں ہوگی جس میں نبی اکرم  اور حضور ؐ کے دو جاں نثار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ مدفون ہیں.

میں نے عرض کیا تھا کہ احادیث نبویہ ؑ میں قربِ قیامت کے متعلق جو علامات اور پیشین گوئیاں بیان ہوئی ہیں وہ ظاہر ہونی شروع ہو گئی ہیں. گویا آخری سین کے لیے اسٹیج تیار ہو رہاہے. یہودی جو دنیا کے مختلف ممالک میں منتشر تھے ان کی اسرائیل کے نام سے فلسطین میں ایک آزاد وخود مختار ریاست آج سے تقریباً تینتیس سال قبل قائم ہو چکی ہے (اب اسرائیل کے قیام پر پینتالیس سال بیت چکے ہیں) جہاں تمام دنیا سے سمٹ سمٹ کر یہودی جمع ہو رہے ہیں. ان کا سرمایہ‘ان کی قابلیت‘ذہانت اور مہارت مجتمع ہو کر عالم اسلام کے لیے ایک خطرہ بن چکی ہے. اس خطرے کا عملی مظاہرہ ۱۹۶۷ء کی جنگ میں ہو چکا ہے‘جس کے نتیجے میں شام‘اردن‘لبنان اور مصر کے بہت سے علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ ہوا جو آج تک برقرار ہے. سب سے بڑھ کر یہ کہ بیت المقدس پر بھی وہ قابض ہے اور ا س کی حرمت اس کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہے. ظہورِ اسلام کے وقت ان کے دلوں میں اللہ کے آخری رسول  ‘آخری 
کتاب‘آخری اور مکمل دین و شریعت سے جو بغض و عداوت اور حسد پیدا ہوا تھا اس میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا آ رہا ہے‘حالانکہ یہ اُمویوں‘عباسیوں‘ فاطمیوں اور عثمانیوں کی مسلم حکومتیں ہی تھیں جنہوں نے یورپ کے متعصب عیسائی حکمرانوں کے جو رو ستم اور ظلم و تعدّی سے یہودیوں کو نجات دلائی تھی اور جن کی زیر عافیت یہ باقی بھی رہے اور پھلتے پھولتے بھی رہے‘لیکن ان کا سازشی اور انتقامی ذہن اسلام کی سلامت روی اور انسان دوستی سے بالکل متأثر نہیں ہوا… اسی یہودی ذہن کی کرشمہ سازیاں ہیں جو آج دنیا میں مادہ پرستانہ فکر و نظر کی شدت کی صورت میں ظاہر ہیں. عریانی‘فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جو مناظر آج دنیا دیکھ رہی ہے اس کی ترویج میں بہت بڑا حصہ ان ہی یہودی دانشوروں اور سرمایہ د اروں کا ہے. یورپ کے متعدد ممالک اور خاص طور پر امریکہ کے ذرائع ابلاغ‘اخبارات و رسائل‘ریڈیو‘ٹی وی اور فلمی صنعت پر زیادہ تر ان ہی کا قبضہ ہے. یہی حال بڑی بڑی صنعتوں اوربینکاری کا ہے. جن اداروں پر ان کا براہِ راست قبضہ نہیں ہے وہ ان کے زیر اثر ہیں. ایوانِ حکومت میں بھی وہ بہت بااثر ہیں. کتنے کلیدی عہدے ان کے پاس ہیں. علامہ اقبال نے آج سے تقریباً پچاس ساٹھ سال پہلے کہا تھا کہ ؏ ’’فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے‘‘ تو آج یہ صورت حال زیادہ روشن اور واضح طور پر دنیا کے افق پر نظر آ رہی ہے. سود خوری یہود کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے اور ان کا گوشت پوست اور خمیر اسی حرام کی غذا سے بنا ہے. آج اسی یہودی ذہن کی سازش کے باعث دنیا کی تمام معیشت سودی لین دین کی لعنت میں گرفتار ہے‘پھر اس کو فریب اور پُرکاری کا ایسا جامہ پہنا دیا گیا ہے کہ لوگ اس کی مضرتوں کا ادراک کرنے سے یکسر قاصر ہیں.

اس وقت مشرقِ وسطیٰ جس نازک صورت حال سے دو چار ہے اس پر غور کیجیے. بہت سے مسلم ممالک جن میں مصر خاص طور پر قابل ذکر ہے ‘چارو ناچار امریکہ کی طرف جھکتے چلے جا رہے ہیں‘اور کچھ ایسا نقشہ جمتا نظر آ رہا ہے کہ تیسری عالمی جنگ چھڑنے کا وقت دور نہیں… اور اگر یہ جنگ چھڑی تو سب سے بڑا 
میدانِ جنگ مشرقِ وسطیٰ ہی ہو گا‘ اور عجب نہیں کہ بیشتر مسلم ممالک خواہی نخواہی امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے دوش بدوش اس جنگ میں شامل ہوں.اور دنیا جانتی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی نوے فیصد سے زیادہ آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے. گویا احادیث نبویہ ؑ میں جس عظیم جنگ کی خبر دی گئی تھی کہ ایک زبردست اور خون ریز وتباہ کن جنگ ہو گی جس میں مسلمان اور عیسائی ایک تیسری طاقت کے خلاف متحد ہوں گے‘اس کے آثار سامنے نظر آ رہے ہیں. ہو سکتا ہے کہ اس متوقع ہولناک تباہی کے ظہور میں آنے میں کچھ اور وقت لگے‘لیکن موجودہ حالات کی سنگینی بتا رہی ہے کہ یہ جنگ اور ٹکراؤ نا گزیر اور اٹل ہے. یہودی اس جنگ میں یقینا امریکہ ہی کے حلیف ہوں گے‘کیونکہ امریکہ کی حمایت ہی میں اس سرطان نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے پنجے گاڑے ہیں اور امریکہ ہی اس وقت ان کا سب سے بڑا حامی ومددگار ہے. ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے دلوں میں متوقع جنگ کے بعد یہودی ہی نفرت کا بیج بونے کا کردار ادا کریں گے اور پھر دجال کی قیادت میں عیسائی مملکتوں کی تائید و اعانت حاصل کر کے مسلمانوں پر یلغار کریں گے اور مسلمان شکست و ہزیمت سے دو چار ہوں گے. یہی وقت ہو گا حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کا اور یہی دور ہو گا جب یہودیت کا بالکلیہ استیصال ہو گا اور عیسائی دین اسلام میں داخل ہو جائیں گے اور ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہو گا اور اللہ ہی کا کلمہ سب سے بلند ہو جائے گا. کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ امن و سلامتی کا دور کتنے سال اور کتنی صدیوں تک رہے گا‘لیکن بعض دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد انسانیت کا قافلہ پھر صراطِ مستقیم اور جادۂ حق سے ہٹ کر شیطان کی بتائی ہوئی پگڈنڈیوں میں بھٹک جائے گا‘ حتیٰ کہ زمین اللہ تعالیٰ سے بغاوت و سرکشی کی وجہ سے ظلم و ستم اور جور و تعدی سے معمور ہو جائے گی‘شرغالب ہو گا اور خیرمغلوب ہی نہیں‘ناپید اور معدوم ہو جائے گا. یہ زوال دنیا کا خاتمہ لے کر آئے گا اور وہ ساعت جس کو ہم قیامت کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جس کی خبر قرآن مجید میں مختلف اسالیب سے دی گئی ہے‘آئے گی اور یہ دنیا تہہ و بالا اور ملیا میٹ کر دی جائے گی. نظامِ ثقل درہم برہم ہو جائے گا‘اس وسیع و عریض کائنات میں پھیلے ہوئے عظیم الشان ستارے اور کُرے ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور یہ عالم تہس نہس ہو جائے گا.

حاصل کلام یہ کہ یہ کائنات مشیت و حکمت خداوندی کے تحت اپنی اجل مسمّٰی یعنی قیامت کی طرف گامزن ہے اور اس انجام سے لازماً دو چار ہو گی جو اس کا مقدر ہے‘لیکن اس انجام کے وقت ‘سال‘سن یا صدی کا تعین کرنا کسی کے لیے ممکن نہیں. اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے‘جیسا کہ سورۂ لقمان کی آخری آیت اور حدیثِ جبریل ؑسے صراحت کے ساتھ ثابت ہے. البتہ یہ گھڑی آ کر رہے گی‘اس میںشک کرنا کفر ہے. پھر اس آخری گھڑی کے آنے تک امت مسلمہ اور بنی نوعِ انسان جن حالات سے دو چار ہوں گے اس کا جو نقشہ احادیث نبویہ ؑ سے سامنے آتا ہے‘اس کو بھی میں نے بیان کر دیا ہے. اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اگرچہ قرآن و حدیث میں کسی صدی کے تعین کے ساتھ کوئی خبر نہیں دی گئی ہے‘لیکن احادیث میں جو علامات بیان ہوئی ہیں وہ ہم کو چشم سر سے نظر آ رہی ہیں اور صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمیں بہت کٹھن مراحل اور سخت امتحانات سے گزرنا ہے‘اور یہ محض خام خیالی ہے کہ پندرھویں صدی ازخود ہمارے لیے غلبۂ اسلام کی نوید لے کر آ رہی ہے. خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ابھی اُمت مسلمہ کو کن کن صدموں اور حادثوں سے دو چار ہونا ہے‘البتہ اس میں شک نہیں کہ ایک دور لازماً آئے گا جس میں اسلام کا غلبہ ہو گا… بڑے نصیبے والے ہوں گے وہ لوگ جو اس غلبۂ اسلام میں حضرت مہدی ؒ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زیر قیادت فی سبیل اللہ اور غلبۂ دین حق کے لیے جہاد و قتال میں اپنے جان و مال کی قربانیاں پیش کریں گے‘ اور بڑے ہی خوش نصیب ہوں گے جو غلبۂ اسلام کے اس دور کا نظارہ بھی سر کی آنکھوں سے کریں گے اور اس کی سعادتوں سے متمتع اور مستفیض بھی ہوں گے.

(نوٹ: یہاں اب سے بارہ سال قبل کی گزارشات اختتام کو پہنچیں!)
۷؍جون ۱۹۹۳ء