دو شبہات اور اُن کے جواب ان صفحات میں جو بحث چل رہی ہے اس کے ضمن میں جو مسائل زیر بحث آ رہے ہیں ان کے بارے میں مَیں اپنی یہ تشویش بیان کر چکا ہوں کہ ان سے جدید تعلیم یافتہ طبقہ طبعاً ’’الرجک‘‘ ہے اور ان پر بحث و گفتگو کو ضعیف الاعتقادی کا مظہر اور وقت کا ضیاع سمجھتا ہے. اس سے قبل یہ بھی عرض کیا جا چکا ہے کہ فتنۂ انکارِ سنت اور استخفافِ حدیث کے زیر اثر نہ صرف جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد بلکہ بہت سے نوجوان ’’علماء‘‘ بھی ان مسائل سے ’’غض بصر‘‘ اور صرفِ نظر ہی کو مناسب خیال کرتے ہیں. اس کے علاوہ ان موضوعات پر گفتگو کے سلسلے میں راقم کو کچھ اور ’’اندیشے‘‘ بھی تھے کہ اس گفتگو سے کوئی منفی تأثرات نہ لے لیے جائیں !

حال ہی میں راقم کو اپنی متذکرہ بالا تشویش اور اندیشوں کے دو شواہد موصول ہوئے. چنانچہ ایک تو خط ہے جو نیویارک سے موصول ہوا. مراسلہ نگار پروفیسر میاں ابراہیم ہیں 
(۲۸۸. ایسٹ‘سٹریٹ ۸‘بروکلن‘نیویارک. ۱۱۲۱۸اور اس کے آغاز اور اختتام کے یہ جملے پورے مکتوب کا حاصل اور لب لباب ہیں: ’’امید ہے کہ مزاج خوشگوار ہوں گے. روزنامہ نوائے وقت میں آپ کے مضامین ’’ابراہیمی مذاہبؑ کا ثالث ثلاثہ‘‘اور ’’آنے والے دور کی واضح تصویر ‘‘کا مطالعہ کیا. آپ نے تحریر کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب دوبارہ زمین پر نازل ہوں گے… ان مضامین کے لکھنے سے آپ کا مقصد جو کچھ بھی ہو‘آپ ہی بہتر جانتے ہیں‘لیکن قاری صرف یہ نتیجہ اخذ کرے گا کہ آپ مسلمانوں خصوصاً بوسنیا اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بشارت دے رہے ہیں کہ ظلم و ستم کا ہر وار نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ شکر الحمد للہ پڑھ کر برداشت کیے جاؤ. قیامت سے قبل ابن مریم ؑ تشریف لائیں گے اور ظالموں سے انتقام لے لیں گے!‘‘دوسرا منفی ردّ عمل ’’بالمشافہ‘‘ موصول ہوا. اور وہ اس طرح کہ ملتان سے دو نوجوان علماء نے شدّ رحال فرما کر لاہور تشریف لانے کی زحمت گوارا کی‘تاکہ مجھے ’’مطلع‘‘ کریں کہ میری ان تحریروں سے یہ تأثر عام ہو رہا ہے کہ میں خود ’’مہدی ٔموعود‘‘ ہونے کا دعویٰ کرنے والا ہوں. لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے سے قبل کچھ وضاحتیں ان دو امور کے بارے میں پیش کر دی جائیں.

ان میں سے جہاں تک مؤخر الذکر بات کا تعلق ہے ‘اگرچہ اس پر صرف 
’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَـیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘ پڑھ دینا بھی کافی ہے. تاہم شاید اس پر مستزادیہ وضاحت مفید ہو کہ جن احادیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ جب مسلمانانِ عرب پر شدید مصائب کا دَور آئے گاتواللہ تعالیٰ انہیں ایک مؤمن و متقی اور باہمت و باصلاحیت قائد عطا فرمائے گا‘جو دشمنوں کے مقابلے میں ان کی سپہ سالاری کے فرائض باحسن وجوہ سر انجام دے گا‘ ان ہی میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ وہ قائد موعود نبی اکرم  کی عترت یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی اولاد میں سے ہوگا. جب کہ میں تو اپنے بارے میں اب سے چھ سات سال قبل اپنی تالیف ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ (صفحات ۱۰۹.۱۱۲) میں صراحت کر چکا ہوں کہ اگرچہ میری والدہ مرحومہ صدیقی یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھیں‘لیکن میرا ددھیال خالص ہندی ٔالاصل ہے. چنانچہ میں نے اپنے بارے میں علامہ اقبال کا وہ شعر بھی نقل کیا تھا جو انہوں نے ’’ایک فلسفہ زدہ سید زادے‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا. یعنی: ؎ 

میں اصل کا خاص سومناتی
آباء مرے لاتی و مناتی

لہذا میرے لیے تو یہ دروازہ بند ہے ہی‘میرے نزدیک تو آج تک جس ’’غیرفاطمی‘‘ نے کبھی مہدیٔ موعود ہونے کے خواب دیکھے یا دعویٰ کیا وہ صریح تضاد کا شکار ہوا کہ اس نے حضرت مہدی کی بشارت تو احادیث نبوی ؑسے اخذ کی‘لیکن ان کے خصائص اور حسب نسب کی ان تفاصیل کو سرے سے نظر انداز کر دیا جو خود اُن احادیث ہی میں وارد ہوئی ہیں. رہا عقل و منطق کا معاملہ تو حضرت مہدی کے بارے میں جو خیالات اہل سنت کے ہیں کم ا زکم ان میں تو کوئی بات نہ عقل کے نزدیک محال ہے‘نہ عام قوانین طبعی کے خلاف‘بلکہ اس قانونِ فطرت کے عین مطابق ہے کہ جب فتنہ و فساد حد سے بڑھ جاتا ہے تو بالآخر وہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ؎

خونِ اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ ؑطلسم سامری!

اس لیے کہ اگر خونِ اسرائیل ؑ میں اتنی حرارت تھی تو خونِ اسماعیل ؑ اتنا سرد‘اور عترتِ محمد اتنی بانجھ کیوں ہو جائے گی کہ عظیم فتنہ و فساد کے وقت کوئی ہادی ومہدی پیدانہ‘کر سکے!

بہرحال ‘راقم کے نزدیک تو ایمان بالرسالت کا تقاضا یہ ہے کہ احادیث ِ صحیحہ میں وارد شدہ تمام خبروں کو تسلیم کیا جائے‘خواہ وہ عام عقل انسانی اور اب تک کے دریافت شدہ قوانین طبعی کے خلاف ہی کیوں نہ ہوں‘لہذا حضرت مہدی کے بارے میں کسی شک یا شبہ کا کیا سوال ‘جب کہ ان کے ضمن میں تو کوئی خلافِ عقل یا مخالف ِ قوانین طبعی بات کم از کم احادیث ِ نبویہ ؑ میں موجود نہیں ہے… تاہم حضرت مہدی کے معاملے میں راقم کی اصل دلچسپی اس حدیث کی بنا پر ہے جس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ بلادِ مشرق سے ان کی مدد کے لیے فوجیں جائیں گی. 
(’’یخرُج ناسٌ من المشرق یوطئون للمہدی یعنی سلطانہ‘‘ رواہ ابن ماجہ عن عبداللّٰہ بن الحارث ؓ )… تو کاش کہ راقم اور اس کے ساتھی اور جمیع مسلمانانِ پاکستان اپنا تن من دھن اس ارضِ پاکستان میں جو بلادِ عرب کے مشرق میں واقع ہے‘ اسلامی انقلاب برپا کرنے میں کھپا دیں‘تاکہ نہ صرف اس سر زمین میں جہاں سے ’’میر عرب‘‘  کو بقولِ اقبال ٹھنڈی ہوا آئی تھی‘خلافت علیٰ منہاج النبوت کا نظام قائم ہو جائے‘بلکہ پھر یہیں سے مسلمانانِ عرب کی مدد کا سامان فراہم ہو سکے… اور اس طرح اگر ہماری مساعی ان لشکروں کا راستہ صاف کرنے میں کام آ جائیں جو حضرت مہدی کی مدد کے لیے جائیں گے تو ہماری سعادت اور فوز و فلاح کے لیے یہی کافی ہے… اور جیسا کہ بعد میں تفصیل سے واضح کیا جائے گا‘اسرائیل کے وجود میں آنے سے ایک سال قبل پاکستان کا خالص معجزانہ طور پر قیام مشیت ایزدی میں یقینا اسی کی تمہید ہے…!!

جہاں تک پہلے منفی تأثر کا تعلق ہے تو مختصر ترین الفاظ میں گزارش ہے کہ پیشین گوئیاں صرف احادیث نبوی ؑ ہی میں بیان نہیں ہوئیں ‘خود قرآن میں بھی وارد ہوئی ہیں‘لیکن ان سے وہ مطلب نکالنا جو پروفیسر ابراہیم صاحب نے نکالا ہے‘ کسی طرح درست نہیں ہے. چنانچہ قرآن حکیم کی اہم ترین اور نمایاں ترین پیشین گوئی وہ تھی جو سورۃ الروم کے آغاز میں وارد ہوئی‘یعنی:

الٓـمّٓ ۚ﴿۱﴾غُلِبَتِ الرُّوۡمُ ۙ﴿۲﴾فِیۡۤ اَدۡنَی الۡاَرۡضِ وَ ہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ غَلَبِہِمۡ سَیَغۡلِبُوۡنَ ۙ﴿۳﴾فِیۡ بِضۡعِ سِنِیۡنَ ۬ؕ لِلّٰہِ الۡاَمۡرُ مِنۡ قَبۡلُ وَ مِنۡۢ بَعۡدُ ؕ وَ یَوۡمَئِذٍ یَّفۡرَحُ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۴﴾بِنَصۡرِ اللّٰہِ ؕ یَنۡصُرُ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الرَّحِیۡمُ ۙ﴿۵

’’ال م. قریب کی سرزمین (یعنی شام) میں رومی مغلوب ہو گئے ہیں‘اور وہ اس مغلوبیت کے بعد چند ہی سالوں کے اندر اندر دوبارہ غالب آ جائیں گے. اللہ ہی کے اختیار میں ہے کل معاملہ پہلے بھی اور بعد میں بھی. اور اُس روز اہل ایمان بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کے طفیل فرحاں وشاداں ہوں گے. اللہ مدد کرتا ہے جس کی چاہتا ہے اور وہ زبردست (اور) رحم فرمانے والا ہے.‘‘ (آیات ۱ تا ۵‘ زمانۂ نزول لگ بھگ ۶۱۴ء)
چنانچہ یہ اعجازِ قرآنی کا بہت عظیم مظہر ہے کہ نو ہی سال بعد یعنی ۶۲۳ء میں ایک جانب قیصر روم ہرقل کو ایرانیوں پر فیصلہ کن فتح حاصل ہوئی اور دوسری جانب اہل ایمان کو بھی بدر میں کفارِ مکہ پر عظیم فتح حاصل ہوئی اور اس طرح یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوگئی. لیکن ذرا پروفیسر ابراہیم صاحب غور فرمائیں کہ کیا آج سے چودہ سو سال قبل بھی کسی شخص نے قرآن کی ان آیات سے یہ مطلب نکالا ہو گا کہ ان کے ذریعے قرآن ایک جانب رومیوں کو یہ درس دے رہا ہے کہ نہ صرف یہ کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہو‘بلکہ ایرانیوں کی خدمت میں دست بستہ ’’سر تسلیم خم‘‘ کیے رکھو؟ اور دوسری جانب اہل ایمان کو بھی یہ نصیحت کر رہا ہے کہ کفر اور اہل کفر کے مقابلے کی کوئی سعی کرونہ جانفشانی اور سرفروشی سے کام لو‘بلکہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہو اورصرف اللہ کی مدد کا انتظار کرتے رہو؟ اور اگر بفرضِ محال کسی نے ان آیاتِ مبارکہ سے یہ مطلب اخذ کیا ہو تو کیا اس کا کوئی الزام قرآن پر آئے گا؟

اسی طرح اگر نبی اکرم  نے مکی دور کے بھی آغاز ہی میں یہ ’’خوش خبری‘‘ دے دی تھی کہ اے مسلمانو! عنقریب قیصر و کسریٰ کے خزانے تمہارے قدموں تلے ہوں گے‘تو کیا اس سے مراد یہ تھی کہ تم آرام سے گھروں میں بیٹھے رہو‘یہ انقلاب ِ عظیم ازخود اور خود بخود رونما ہو جائے گا؟ ظاہر ہے کہ اس ’’پیشین گوئی‘‘ سے یہ مطلب اخذ کرنا نہ اُس وقت درست تھانہ آج درست ہے!

کاش کہ پروفیسر ابراہیم صاحب اور ان کی طرز پر سوچنے والے تمام حضرات کو معلوم ہو کہ ؏ ’’میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو‘‘ کے مصداق راقم کی تو پوری زندگی کی سعی و جہد کا مرکزی نقطہ ہی یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو ؎ 

’’خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا!‘‘

کے مصداق اپنی حالت بدلنے پر آمادہ کرے‘لیکن اس کے لیے ظاہر ہے کہ یہ لازم ہے کہ موجودہ حالات کا صحیح اور حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے اور ملت کے امراض کی صحیح تشخیص کی جائے‘تاکہ صحیح اور مفید و مؤثر علاج تجویز کیا جا سکے. اور ایسا نہ ہو کہ پوری توجہ کو صرف ظاہری علامات ہی کے ازالے پر صرف کر کے قیمتی وقت ضائع کردیا جائے اور اس طرح مہلت اصلاح ختم ہو جائے اور بالآخر سوائے ناکامی و نامرادی کے کچھ ہاتھ نہ آ سکے. چنانچہ جس طرح کبھی علامہ اقبال نے فرمایا تھا: ؎

خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی 

اور:

اے چوں شبنم بر زمیں افتندۂ
در بغل داری کتابِ زندۂ! 

یعنی ’’اے اُمت مسلمہ! تو ذلیل و خوار تو اس سبب سے ہوئی ہے کہ تو نے قرآن سے منہ موڑ لیا ہے‘لیکن تو شکوہ گردشِ دوراں کا کر رہی ہے!‘‘ اور ’’اے وہ قوم جو شبنم کے مانند زمین پر پڑی ہوئی ہے! (اور دشمن تجھے پاؤں تلے روند رہے ہیں) تیری بغل میں وہ کتابِ زندہ موجود ہے (جو تجھے اس ذلت و رسوائی سے رستگاری عطا کر سکتی ہے!)‘‘… اسی طرح ان گزارشات کے ذریعے اُمت ِ مسلمہ کو اس حقیقت کی جانب متوجہ کرنا مقصود ہے کہ ہم اِس وقت در حقیقت اس جرم کی پاداش میں عذابِ الٰہی میں گرفتار ہیں کہ ہم دنیا میں اللہ اور اس کے رسول  کے نمائندے اور اس کے دینِ حق کے علمبردار ہونے کے مدعی ہو کر اپنے عمل کے ذریعے ان سب کی تکذیب کر رہے ہیں. اور ؎

’’فلک کا جورِ مسلسل جواب دے اس کا
ہم اپنے حال میں کب انقلاب دیکھیں گے؟‘‘
ْ
کے سوال کا صرف ایک جواب ہے اور وہ یہ کہ اس عذابِ الٰہی سے نجات کے حصول کا راستہ صرف یہ ہے کہ ہم ابتداء ً کم از کم کسی ایک خطۂ ارضی میں اللہ کے کامل دین حق اور اس کے معتدل اور متوازن نظامِ عدلِ اجتماعی کو بلا کم و کاست قائم کر کے اللہ کی نمائندگی کا حق ادا کر دیں اور اس طرح شہادت علی الناس کی اس ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہوں جس کے لیے ہمیں بحیثیت اُمت برپا کیا گیا تھا. اور ؏ ’’گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!‘‘ کے مصداق اگر ہم اس بنیادی جرم سے باز نہیں آتے اور اس اصل کوتاہی کی تلافی نہیں کرتے تو نہ امریکہ کی کاسہ لیسی ہمارے امراض کا ازالہ کر سکتی ہے نہ کوریا کی نقالی ہماری ترقی اور استحکام کی ضمانت دے سکتی ہے. اس لیے کہ ؎

’’اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ !‘‘

کے مطابق اُمت ِ مسلمہ کا معاملہ دنیا کی دوسری قوموں کی طرح نہیں ‘بلکہ ہر اعتبار سے منفرد اور مختلف ہے.
اب اس سے پہلے کہ کتب حدیث کے ’’ابوابِ ملاحم‘‘ یعنی تاریخ انسانی کے آخری دور میں پیش آنے والی عظیم اور تباہ کن جنگوں کے سلسلے کے تذکرہ پر مشتمل ابواب کی چند اہم احادیث اور ان میں سے خاص طور پر ایسی احادیث کا تذکرہ کیا جائے جن میں وارد شدہ پیشین گوئیوں کا عالمِ واقعہ میں ظہور بالکل ایسے انداز میں شروع ہو چکا ہے جیسے صبح 
طلوع ہوتی ہے ‘مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ عالم مادّی میں وہ عظیم جنگیں جن اسباب کی بنا پر ظہور میں آئیں گی ان سے قطع نظر مشیت ایزدی میں ان کی غرض وغایت کیا ہو گی؟

یہ بات ان احادیث سے تو صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہی ہے کہ ان جنگوں کا میدان مشرقِ وسطیٰ بنے گا‘عالمی حالات اور واقعات بھی ایک عرصہ سے اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ آئندہ جنگ عظیم یعنی اس صدی کی تیسری عالمگیرجنگ یورپ میں نہیں مشرقِ وسطیٰ میں لڑی جائے گی. اس لیے بھی کہ یورپ دو عالمگیر جنگوں کی تباہی برداشت کر کے اب اتنا ’’سمجھ دار‘‘ ہو گیا ہے کہ تیسری جنگ کا میدان اپنے علاقے کو نہیں بننے دے گا،ا ور اس لیے بھی کہ عہد حاضر کی سب سے زیادہ قیمتی متاع یعنی تیل کے عظیم ترین ذخائر اسی علاقے میں ہیں جسے بجا طور پر سیّال سونا کہا جاتا ہے.

اب ظاہر ہے کہ اس علاقے میں موجودہ اُمت مسلمہ یعنی اُمت محمد کا افضل تر حصہ یعنی ’’اُمّیین‘‘ یا عرب مسلمان تو چودہ سو برس سے آبا دہیں ہی‘اس صدی کے آغاز سے سابقہ اور معزول شدہ اُمت مسلمہ یعنی یہودیوں کی بھی از سر نو آباد کاری زور وشور کے ساتھ شروع ہو گئی تھی‘جو عنقریب اپنے کلائمیکس کو پہنچ جائے گی اور پوری دنیا سے تمام یہودی کشاں کشاں یہیں آ کر آباد ہو جائیں گے. چنانچہ ان عظیم جنگوں یا سلسلۂ ملاحم کے ذریعے ہولناک تباہی کی صورت میں اللہ کے قانونِ عذاب کے مطابق شدید ترین کوڑے ان ہی دونوں پر پڑیں گے‘لیکن ان کے مابین بالآخر ایک عظیم فرق و تفاوت ظاہر ہو گا. یعنی سابقہ معزول‘مغضوب اور ملعون اُمت یعنی یہود پر تو اللہ کے اس ’’عذابِ اکبر‘‘ کے فیصلے کا نفاذ ہو گا جس کی مستحق وہ حضرت مسیح علیہ السلام کے کفر اور آنجنابؑ کو اپنے بس پڑتے سولی پر چڑھوا دینے کی بنا پر اب سے دو ہزار برس قبل ہو چکی تھی‘لیکن جس کے نفاذ کو ایک خاص سبب سے مؤخر کر دیا گیا تھا‘چنانچہ اب اسے ان ہی حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے اور مسلمانوں کے ہاتھوں نسیاً منسیاً اور نیست و نابود کر دیا جائے گا‘بالکل جیسے حضراتِ نوح‘ہود ‘صالح‘لوط اور شعیب علیہم السلام کی اقوام اور آلِ فرعون اپنی اپنی جانب بھیجے جانے والے رسولوں کی نگاہوں 
کے سامنے ہلاک کیے گئے تھے. لیکن اس کے برعکس چونکہ موجودہ اُمت ِ مسلمہ اللہ کے آخری رسول  کی اُمت ہے اور آنحضور  کے قول کے مطابق خود آخری اُمت کی حیثیت رکھتی ہے‘مزید برآں وہ صرف ایک نسل پر مشتمل نہیں بلکہ ’’ملٹی نیشنل‘‘ اُمت ہے‘لہذا اسے اس کے جرائم کے بقدر سزا دینے کے بعد توبہ کی توفیق اور اصلاح کا موقع عنایت کر دیا جائے گاجس سے اسلام کی نشأۃ ثانیہ اور دین حق کے غلبے کا دورِ ثانی شروع ہو گا‘جو اس بار پورے عالم انسانی اور کل روئے ارضی کو محیط ہوگا‘جس کی صریح اور واضح خبریں دی ہیں جناب صادق و مصدوق  نے‘اور جس کی کوئی ادنی ٰ جھلک اور دھندلی تصویر دیکھ لی تھی چودھویں صدی ہجری کے نابغہ اور وِژنری علامہ اقبال نے جس پر وہ خود بھی حیرت و استعجاب کی تصویر بن کر رہ گئے تھے کہ: ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!

اور: ؎

شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہو گا نغمۂ توحید سے!

اور یہ غالباً صرف اس افضل ترین اُمت کے بھی افضل تر حصے کی سزا میں ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’’تکلیف پر توہین کے اضافے‘‘ (To add insult to injury) کی غرض سے ہوا ہے کہ ایک مغضوب و ملعون اور "Condemned" قوم کو دو ہزار سال تک باقی بھی رکھا گیا اور پھر عارضی طور پر سنبھالا بھی دیا گیا(اگرچہ اس کے لیے یہ مرنے والے مریض کے آخری سنبھالے یا بجھنے والی شمع کی آخری بھڑک کی حیثیت رکھتا ہے) ‘تاکہ موجودہ اُمتِ مسلمہ کے افضل ترین حصے کو اس کے ہاتھوں پٹوا کر گویا وہ صورت پیدا کر دی جائے جو یوپی کے دیہات میں اختیار کی جاتی ہے‘یعنی یہ کہ کسی شخص کی سزا میں توہین و تذلیل کا عنصر شامل کرنے کے لیے اسے کسی چمار کے ہاتھوں جوتے لگوائے جاتے ہیں. واللہ اعلم! ۱۵؍جون ۱۹۹۳ء