خلیج کی جنگ:’’جنگوں کی ماں؟‘‘ آج سب سے پہلی تو یہ وضاحت ضروری ہے کہ گزشتہ جمعہ کے کالم میں حضرت مہدی کے نام کے ساتھ ہر جگہ ’’علیہ السلام‘‘ کی مخفف علامت ’ ؑ‘ درج ہوئی ہے. یہ ادارۂ نوائے وقت کے کسی کارکن کے حسن عقیدت کی مظہر ہے‘جو میرے مسودے میں موجود نہیں تھی. میرے نزدیک اگرچہ خالص لغوی اور لفظی اعتبار سے تو جب ہم مسلمان ایک دوسرے سے ملاقات کے موقع پر ’’السلام علیکم‘‘ کہتے ہیں تو یقینا کسی زندہ یا فوت شدہ مسلمان کے لیے ’’علیہ السلام‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں. بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر چونکہ قرآن حکیم میں اہل ایمان سے خطاب کر کے کہا گیا ہے: ہُوَ الَّذِیۡ یُصَلِّیۡ عَلَیۡکُمۡ ( الاحزاب: ۴۳یعنی اے اہل ایمان! ’’اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا رہتا ہے‘‘ تو اس پر قیاس کرتے ہوئے کسی بھی حاضر و موجود مسلمان سے ’’صلی اللہ علیک‘‘ اور فوت شدہ یا غیر موجود مسلمان کے لیے ’’صلی اللہ علیہ‘‘ کے دعائیہ الفاظ کہے جا سکتے ہیں.لیکن اُمت کے تعامل یا دستور اور روایت کے تحت ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے الفاظ صرف نبی اکرم کے لیے‘’’علیہ السلام‘‘ بقیہ جملہ انبیاء اور رسولوں کے لیے‘’’رضی اللہ عنہ‘‘ صحابہؓ کے لیے‘’’رحمۃ اللہ علیہ‘‘ بقیہ جملہ بزرگانِ دین اور ائمہ علم و ہدایت کے لیے اور ’’مرحوم‘‘ عام مسلمانوں کے لیے مخصوص ہو گئے ہیں‘اور ان کے استعمال کے معاملے میں ؏ ’’گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی!‘‘کے پیشِ نظر احتیاط لازمی ہے. اس معاملے میں اہل تشیع کا اپنا جداگانہ معمول ہے جو ان کے عقائد پر مبنی ہے. وہ چونکہ ائمہ اہل بیت کو ’’معصوم‘‘ قرار دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ان کا رتبہ انبیاء کرام علیہم السلام سے بہت قریب ہو جاتا ہے‘لہٰذا وہ ان کے لیے ’’علیہ السلام‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں. اور چونکہ ان کے نزدیک ’’مہدیٔ موعود‘‘ سے مراد اُن کے بارہویں امام یعنی حضرت حسن عسکری ؒ کے صاحبزادے محمد المہدی ؒ ہیں‘جن کی ولادت تیسری صدی ہجری میں ہوئی تھی اور جو اُن کے قول کے مطابق اُس وقت سے تاحال روپوش (غائب) ہیں اور قیامت کے قریب ’’ظاہر‘‘ ہوں گے‘لہذا وہ ان کے نام کے ساتھ ’’علیہ السلام‘‘ لکھتے ہیں. جب کہ اہل سنت کے نزدیک حضرت مہدی اگرچہ ہوں گے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی اولاد ہی میں سے‘ لیکن ان کی پیدائش قیامت کے قریب عام انسانوں کی طرح عبداللہ نامی شخص کے گھرمیں ہوگی‘اور وہ ’’سلسلۂ ملاحم‘‘ کے پُر آشوب دَور میں مسلمانانِ عرب کی رہنمائی اور سپہ سالاری کے فرائض سر انجام دیں گے.

اور اب آیئے اصل مضمون کی طرف. اس دنیا کے خاتمے سے قبل عالمی غلبۂ اسلام اور پورے کرۂ ارضی پر خلافت علیٰ منہاج النبوت کے قیام کو میں نصوصِ شرعیہ میں سے قرآن حکیم سے دلالت نص کی بنیاد پر‘اور احادیث نبویہ ؑ سے صراحت نص کی اساس پر ثابت کر چکا ہوں.مزید برآں علامہ اقبال کے ’’وژن‘‘کے علاوہ اس کی عقلی اور سائنسی دلیل بھی علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی کے سب سے بڑے شارح اور اقبال اکیڈمی کے اوّلین ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد رفیع الدین مرحوم کے نظریۂ ارتقاء سے استشہاد کے حوالے سے بیان ہو چکی ہے. رہا ان عظیم واقعات وحوادث کا معاملہ جن کی خبریں اس سے متصلاً قبل کے دور کے ضمن میں احادیث نبویہ ؑ میں وارد ہوئی ہیں‘تو ان میں سے بھی سوائے ایک یعنی نزولِ مسیحؑ کے اور کوئی بات نہ خلافِ عقل و قیاس ہے نہ مخالف قوانین طبعی.

چنانچہ جب اس بیسویں صدی عیسوی کے دوران اس سے قبل دو عظیم جنگیں ایسی واقع ہو چکی ہیں جن کا سلسلہ کئی کئی سال تک جاری رہا‘اور جن سے بڑے بڑے ملک بھی تہس نہس ہوئے اور کروڑوں کی تعداد میں انسان بھی قتل یا معذور ہوئے‘تو کون سی قابلِ تعجب اور خلافِ عقل بات ہو گی اگر ایک تیسری عظیم جنگ بھی واقع ہو جس کا میدان مشرقِ وسطیٰ کے عرب ممالک بنیں‘اور اس کا سلسلہ بھی کئی سالوں کو محیط اور کئی اَدوار پر مشتمل ہو‘اور اس کے نتیجے میں جہاں عظیم تعداد میں عرب مسلمان بھی قتل ہوںوہاں ان 
یہودیوں کا تو بالکل ہی قلع قمع ہو جائے جو دنیا کے کونے کونے سے وہاں آ کر آباد ہورہے ہیں .

اسی طرح تاریخ انسانی میں بارہا ایسا ہوا ہے کہ جب کسی قوم یا ملک کے حالات انتہائی ابتر ہو جاتے ہیں تو ؎

’’خونِ اسرائیل ؑ آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیٰ ؑطلسمِ سامری!‘‘

کے مصداق بظاہر مردہ اور از کارِ رفتہ قوم میں سے بھی دفعۃً کوئی عظیم شخصیت ایسی ابھر آتی ہے جو قوم کے تن مردہ میں نئی روح پھونک دیتی ہے اور ؏ ’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے!‘‘ کے مصداق نحیف و ناتواں اور کم ہمت اور بے حوصلہ لوگوں کو بھی عظیم قوتوں سے مقابلے کے لیے کھڑا کر دیتی ہے. تو کون سے تعجب کی بات ہے اگر انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں ’’خونِ اسمٰعیل ؑ‘‘ بھی جوش میں آ جائے اور ؎

’’کتابِ ملتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا!‘‘
کے مطابق اولادِ فاطمہ ؓ کی شاخ پر کوئی گل سر سبد کھل اٹھے؟

تاہم آج سے ساڑھے بارہ سال قبل جب میں نے پندرہویں صدی ہجری کے متوقع حوادث و واقعات کے موضوع پر تقریر کی تھی تو خود مجھے ہر گز اندازہ نہیں تھا کہ ان کا سلسلہ اس قدر جلد شروع ہوجانے والا ہے. مزید برآں جس حدیث نبوی ؐ کی بنیاد پر میں نے یہ بات کہی تھی کہ قیامت کے قریب پیش آنے والی عظیم جنگوں کا پہلا دور اس طور سے شروع ہو گاکہ مسلمان اور عیسائی متحد ہو کر کسی تیسری قوت کے خلاف جنگ کریں گے جس میں انہیں فتح حاصل ہو گی‘وہ سنن ابی داؤدؒ کی کتاب الملاحم میں حضرت ذو مخبر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اور اس کے ابتدائی الفاظ یہ ہیں: ’’عنقریب تم رومیوں (یعنی عیسائیوں) سے بھرپور صلح کرو گے اور پھر وہ اور تم متحد ہو کر ایک ایسے دشمن کے خلاف جنگ کرو گے جو تمہارے عقب میں واقع ہو گا. پھر تمہاری مدد ہو گی‘چنانچہ تم غنیمت حاصل کرو گے اور 
خود سلامت رہو گے!‘‘ اور اُس وقت گمانِ غالب یہ تھا کہ اس جنگ میں ایک جانب امریکہ کی سربراہی میں یورپ کی جملہ عیسائی حکومتیں اور اکثر مسلمان ملک خصوصاً عرب حکومتیں ہوں گی اور دوسری جانب روس اور اس کے طفیلی ممالک ہوں گے. اور اُس وقت یہ خیال تک نہ ہو سکتا تھا کہ اس وقت سوویت یونین تو ؏ ’’یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالم پیری!‘‘ کا نقشہ پیش کر رہی ہو گی‘اور وہ تیسری طاقت عین جزیرہ نمائے عرب کے ’’عقب‘‘ میں واقع ہو گی‘یعنی صدام حسین کی سربراہی میں عراق کی بعثی حکومت! حالانکہ نہایت مستند احادیث میں یہ ذکر موجود ہے کہ ایک وقت آئے گاکہ عراق میں سونے کا خزانہ یا پہاڑ برآمد ہو جائے گاجس کی وجہ سے وہاں نہایت خون ریز اور خوفناک جنگ ہو گی‘لیکن چونکہ ان احادیث کے متن میں کوئی لفظی تعلق قیامت سے قبل کے سلسلۂ ملاحم کے ساتھ موجود نہیں ہے‘لہذا ان میں وارد خبر کو ایک جداگانہ اور مستقل بالذات معاملہ سمجھا گیا. 

لیکن اب جب کہ الفاظِ قرآنی 
اِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ کے مصداق وہ واقعہ ظہور پذیر ہو چکا ہے‘ان احادیث نبویہ ؑ کی عظمت بھی اظہر من الشمس ہو گئی ہے کہ: (۱) صحیح بخاری ؒ اور صحیح مسلمؒ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم  نے ارشاد فرمایا : ’’گمان ہے کہ فرات سے سونے کا ایک خزانہ برآمد ہو جائے گا!‘‘ اور (۲)صحیح مسلم ؒ میں حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضور  نے ارشاد فرمایا: ’’گمان ہے کہ فرات سے سونے کا ایک پہاڑ بر آمد ہو جائے گا. چنانچہ جب لوگ اس کے بارے میں سنیں گے تو اس پر ٹوٹ پڑیں گے .تو جو لوگ اس کے پاس ہوں گے وہ سوچیں گے کہ اگر ہم نے انہیں چھوڑ دیا تو وہ ساری دولت لے جائیں گے. پھر اس پر جنگ کریں گے یہاں تک کہ ننانوے فیصد لوگ ہلاک ہو جائیں گے!‘‘ (ان احادیث کو پڑھتے ہوئے یہ بات پیش نظر رہے کہ قدیم زمانے میں ملکوں اور علاقوں کو دریاؤں یا پہاڑوں یا بڑے شہروں کے نام سے موسوم کرنے کا رواج عام تھا!) تو ذرا غور فرمائیں کہ کیا یہ بات محض ’’اتفاقی‘‘ ہے اور عظمت حدیث کی دلیل نہیں کہ آج تیل کی دولت کو ’’سیّال سونا‘‘ قرار دیا جا رہا ہے؟ پھر کیا یہ واقعہ نہیں کہ خلیج کی جنگ کا اصل باعث یہی تیل کی د ولت ہے؟ مزید برآں کیا یہ امر قابل توجہ نہیں ہے کہ عراق کے صدر صدام حسین نے اس جنگ کو ’’اُمّ المحارب‘‘ یعنی جنگوں کی ماں یا جنگوں کے سلسلے کا نقطۂ آغاز قرار دیا؟ (واضح رہے کہ صدام حسین خواہ اپنی ذاتی حیثیت میں دینی اعتبار سے کتنی ہی ناپسندیدہ شخصیت‘اور مسلمانوں اور اسلام کے حق میں اسم بامسمّٰی یعنی ’’صد+دام‘‘ یعنی سو داموں یا جالوں کی حیثیت رکھتا ہو‘بہرحال عرب ہونے کے ناتے قرآن سے بھی واقف ہے اور حدیث نبوی ؑ سے بھی. یہی وجہ ہے کہ دسمبر ۱۹۹۰ء میں مَیں نے اس کا جو طویل انٹرویو لاس اینجلس میں سی این این پر دیکھا تھا‘جو ایک نہایت ماہر و شاطر شخص جان رادر نے لیا تھا‘اس کے موقع پر میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا تھا کہ اس کی پشت پر جو طغریٰ آویزاں تھا وہ سورۃ الانبیاء کی آیت ۱۸ کے اس حصے کا تھا: بَلۡ نَقۡذِفُ بِالۡحَقِّ عَلَی الۡبَاطِلِ فَیَدۡمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ یعنی ’’ہم حق کا کوڑا باطل کے سر پر دے مارتے ہیںجو اُس کے دماغ کا بھرکس نکال دیتا ہے اور اس طرح باطل نیست و نابود ہو جاتا ہے!‘‘).

رہی یہ بات کہ ننانوے فیصد کی ہلاکت کی بات صحیح ثابت نہیں ہوئی ‘تو اوّلاً اس کا بھی امکان ہے کہ وہ الفاظ کسی خاص محاذ سے متعلق ہوں‘مثلاً‘جیسے کہ سب کو معلوم ہے‘کویت سے پسپا ہونے والی عراقی فوج کا جو حشر ہوااس پر تو یہ الفاظ پوری طرح منطبق ہوتے ہیں. اور ثانیاً ابھی عراق کا معاملہ ختم کہاں ہوا ہے؟ ابھی تو صدام حسین امریکہ اور اس کے حواریوں کے حلق میں پھنسی ہوئی ہڈی بنا ہوا ہے کہ نہ اگلی جائے نہ نگلی جائے! (ا س لیے کہ اس کے خاتمے کا مطلب اس پورے علاقے کو ایران کے حلقۂ اثر میں دے دینا ہوگا!) تو کون سے تعجب کی بات ہو گی اگر کسی آئندہ راؤنڈ میں امریکہ اور اس کے اتحادی دو سال قبل کی وحشیانہ بمباری سے بھی سو گنا زیادہ پیمانے پر بمباری کریں اور کسی خاص شہر یا علاقے میں تباہی اس درجہ کی ہو جائے جس کا نقشہ حدیث نبوی ؑ میں سامنے آتا ہے! اس لیے کہ خلیج کی جنگ سے یہ حقیقت واضح ہو چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ان کے کسی ایک سپاہی کو بھی کوئی گزند نہ پہنچے خواہ دشمن کا بچہ بچہ ہلاک ہو جائے.

اس موقع پر اس امر کا ذکر بھی دلچسپی کا موجب ہو گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواری حضرت یوحنا کے مکاشفات میں بھی‘جو بائبل کے عہد نامۂ جدید کی آخری کتاب میں درج ہیں‘عرا ق کی ایسی ہی شدید تباہی کا ذکر بتکرار و اعادہ موجود ہے. ان مکاشفات میں عراق کو ’’بڑے شہر بابل‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے‘اور سب سے حیران کن امر یہ ہے کہ اس ’’شہر‘‘ کے تین ٹکڑے ہو جانے کی نہایت واضح الفاظ میں خبر دی گئی ہے. 
(دیکھئے کتاب ’’مکاشفات‘‘ کے باب ۱۶ کی آیات ۱۸‘ ۱۹اور آج یہ حقیقت نگاہوں کے سامنے موجود ہے کہ عراق بالفعل تین حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے. چنانچہ شمال میں کردستان تقریباً خود مختار ہو چکا ہے اور جنوبی علاقے کو ’’نوفلائی زون‘‘ قرار دے کر عملاً عراق کی حکومت کے کنٹرول سے آزاد کر دیا گیا ہے ‘اور صرف بقیہ درمیانی علاقے پر حکومت بغداد کی واقعی عملداری باقی رہ گئی ہے.

اسی طرح آج سے ساڑھے بارہ سال قبل خود میرے لیے یہ بات ناقابل قیاس تھی کہ دنیا میں پھر کوئی ’’صلیبی جنگ‘‘ چھڑ سکتی ہے اور سند کی بنیاد پر حدیث نبوی ؐ پر اعتماد کے باوجود مغربی دنیا کے عام سیکولر مزاج کے باعث یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی تھی کہ جن ’’ملاحم‘‘ یعنی جنگوں کی احادیث میں خبر دی گئی ہے ان کا دوسرا دور ’’مذہبی‘‘ اساس پر ہوگا.لیکن اب یہ حقیقت چشم سر کے سامنے موجود ہے کہ بوسنیا ہر زیگووینا سے ایک ’’صلیبی جنگ‘‘ کا بالفعل آغاز ہوچکا ہے. یادش بخیر‘یہ بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بہت عجیب ہے کہ اس کے آغاز میں بھی ایک عظیم الشان سلطنت یعنی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور ایک چھوٹے سے ملک ترکی کے سوا دنیا کے نقشے سے اس کا نام و نشان مٹ گیا‘اور اختتام پر بھی ایک عظیم سلطنت یعنی سوویت یونین نسیاً منسیّا ہو گئی. اسی طرح اس کی پہلی دہائی میں بھی ایک جنگِ بلقان ہوئی تھی جو پہلی عالمگیر جنگ کی تمہید بنی تھی اور آخری دہائی میں بھی دوسری جنگ بلقان شروع ہو چکی ہے جو احادیث نبوی ؐ میں وارد پیشین گوئی کے مطابق تیسری عالمگیر جنگ کا نقطۂ آغاز ثابت ہو گی. واللہ اعلم! 
اہل مغرب سیاسی نظریے کی حیثیت سے سیکولرزم کے ساتھ اپنی تمام تر وابستگی اور تہذیب و ثقافت کے اعتبار سے اپنی مبینہ روا داری اور وسیع المشربی کے باوجود تا حال جذباتی اور نفسیاتی سطح پر جس مذہبی عصبیت ہی نہیں تعصب میں مبتلا ہیں.

اس کا ایک نمایاں مظہر تو یہ ہے کہ ترکی اپنے آپ کو مغربی تہذیب و تمدن میں پوری طرح رنگ دینے اور سیکولرزم کو نہ صرف عملاً اختیار کرنے بلکہ دستور و آئین کی سطح پر اسے مضبوط ترین تحفظات عطا کرنے اور اس طرح گویا ؏ ’’میرے اسلام کو اک قصۂ ماضی سمجھو!‘‘پر پوری طرح عمل پیرا ہو جانے کے باوجود تا حال یورپ کی ’’مس کامن مارکیٹ‘‘ کو ؏ ’’ہنس کے وہ بولی کہ پھر مجھ کو بھی راضی سمجھو!‘‘ پر آمادہ نہیں کر سکا. اور دوسرا اہم مظہر ‘جس کی جانب اکثر مسلمانوں کی تو جہ اس بنا پر نہیں ہوئی کہ وہ خود اپنی تاریخ سے بے خبر ہیں‘یہ ہے کہ سال ۱۹۹۲ء کو پوری مغربی دنیا نے ’’اسپین کا سال‘‘ قرار دے کر جوش و خروش سے منایا. چنانچہ پورا ملک دلہن کی طرح سجایا گیا اور ورلڈ اولمپک وہاں رکھ کر پوری دنیا کو وہاں آنے کی دعوت دی گئی‘تاکہ دنیا بھر کے لوگ ان کے جشن مسرت میں شریک اور ان کی مسرت و شادمانی کی شدت کا مشاہدہ کر سکیں… اور یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا کہ چونکہ ۱۴۹۲ء سقوطِ غرناطہ کا سال تھا‘لہذا ۱۹۹۲ء میں سپین سے اسلام اور مسلمانوں کے خاتمے کو پورے پانچ سو سال مکمل ہو گئے تھے! اس سے بھی بڑھ کر قابلِ غور بات یہ ہے کہ خلیج کی جنگ کے بعد عرب اسرائیل مذاکرات کے لیے میڈرڈ کو کیوں منتخب کیا گیا‘جہاں اس سے قبل کبھی کوئی بین الاقوامی کانفرنس منعقد نہیں ہوئی تھی؟ کیا اس سوال کا کوئی جواب اس کے سوا ممکن ہے کہ عربوں کو اسرائیل کے ساتھ ایک میز پر بیٹھنے کی ’’ذلت‘‘ کے ساتھ ساتھ بقولِ اقبال ’’تہذیب حجازی کے مزار‘‘ کی زیارت کرانی مقصود تھی؟

او راس ’’صغریٰ‘‘ پر اضافہ کر لیجیے اس ’’کبریٰ‘‘ کا کہ کمیونزم کے زوال اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پوری مغربی دنیا نے ’’مسلم فنڈ ا منٹلزم‘‘ کو اپنے لیے خطرہ نمبر ایک قرار دے لیا ہے. چنانچہ مغربی آقاؤں کی زیر ہدایت مصر اور الجزائر میں تو احیاء اسلام کے علمبرداروں پر تعذیب و تشدد کی بھٹی دہک ہی چکی ہے‘سعودی عرب اور 
متحدہ عرب امارات میں بھی تحقیق و تفتیش اور دارو گیر کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے‘اور کوئی عجب نہیں کہ اس پر ردّ عمل کے طور پر دینی مزاج کے حامل عرب نوجوان بالخصوص وہ جن کے احیائی جوش اور جذبے کو جہادِ افغانستان نے زبردست مہمیز دے دی ہے‘مشتعل ہوکر بے قابو ہو جائیں اور کوئی عظیم ہنگامہ برپا ہو جائے ‘جس کی گرما گرمی میں کسی مقام پر وہ واقعہ بھی پیش آ جائے جس کا ذکر سنن ابی داؤد ؒ کی محولہ بالا روایت میں ہے‘یعنی: (عیسائیوں کے ساتھ مل کر ایک مشترک دشمن کے خلاف جنگ اوراس پر فتح حاصل ہونے کے بعد) ’’پھر تم واپس آؤ گے اورایک ٹیلوں والے نخلستان میں پڑاؤ کرو گے تو نصرانیوں میں سے ایک شخص اُٹھ کر صلیب بلند کرے گا اور کہے گاکہ صلیب غالب آگئی. اس پر مسلمانوں میں سے ایک شخص غضب ناک ہو کر صلیب کو توڑ ڈالے گا.اس پر رومی (عیسائی) صلح ختم کر دیں گے اور بڑی جنگ کے لیے جمع ہو جائیں گے!‘‘ واضح رہے کہ اس قسم کے واقعات بسا اوقات بارود کو چنگاری دکھانے کے مترادف بن جایا کرتے ہیں… اور جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسا کوئی واقعہ نجد کے شمال مشرقی علاقے میں‘ جو امریکہ کے فوجی اڈے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے‘کسی بھی وقت رونما ہو سکتا ہے.

قصہ مختصر‘ایک عظیم ’’صلیبی جنگ‘‘ کے لیے میدان تیزی کے ساتھ ہموار ہو رہا ہے‘جو احادیث ِ نبویہؑ کے مطابق بہت طویل ہو گی اور جس کے کئی مراحل ہوں گے‘ جن کی تفصیل یہاں ممکن نہیں.البتہ ایک بات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ان کے دوران ایک جنگ جسے 
’’الملحمۃ العظمٰی‘‘ قرار دیا گیا ہے‘نہایت عظیم اور حد درجہ خوفناک ہوگی. (اس موضوع پر ایک نوجوان محقق قاضی ظفر الحق نے نہایت عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے. چنانچہ ان کا ایک مضمون گزشتہ سال آٹھ اقساط میں ’’ندائے خلافت‘‘ میں شائع کیا گیا تھا جو ہنوز نامکمل ہے. مکمل ہونے پر اسے اِن شاء اللہ کتابی صور ت میں شائع کر دیا جائے گا.) تاہم اس کا اصل حاصل اور لبِّ لباب یہ ہے کہ ان جنگوں کے دوران شدید جانی و مالی نقصانات کی صورت میں اُمت مسلمہ کے افضل اور برتر حصے یعنی مسلمانانِ عرب کو اُن کے اس اجتماعی جرم کی بھرپور سز امل جائے گی جس کا ارتکاب انہوں نے دین حق کے نظامِ عدل و قسط کو ایک کامل نظامِ زندگی کی صورت میں قائم نہ کر کے کیا ہے. ان جنگوں میں ایک مرحلے پر ’’دارالاسلام‘‘ صرف حجاز تک محدود ہو کر رہ جائے گا اور دشمن مدینہ منورہ کے ’’دروازوں‘‘ تک پہنچ جائے گا. لیکن پھر رحمت ِ خداوندی جوش میں آئے گی‘مسلمانانِ عرب ایک نئی ہیئت اجتماعی تشکیل دیں گے اور ایک نئے قائد وامیر محمد بن عبداللہ المہدی کے ہاتھ پر ’’بیعت‘‘ کر کے جوابی کارروائی کے لیے مستعد ہو جائیں گے.

اس موقع پر بھی یہ تذکرہ یقینا دلچسپی کا موجب ہو گا کہ عیسائیوں کی روایات میں بھی اس دنیا کے خاتمے سے قبل ایک عظیم جنگ کا ذکر موجود ہے جو حق اور باطل کے مابین ہوگی. چنانچہ حضرت یوحنا کے جن مکاشفات کا تذکرہ اس سے قبل ہو چکا ہے ان ہی میں نہ صرف یہ کہ اس جنگ کا ذکر بھی موجود ہے‘بلکہ یہ صراحت بھی ہے کہ اس میں حصہ لینے کے لیے ’’مشرق کے بادشاہوں کی فوجیں‘‘ بھی آئیں گی! مکاشفات میں اس جنگ کے دن کو ’’خدائے اعظم و قادر کا دن‘‘ کہا گیا ہے اور اس کے محل وقوع کا نام ’’آرمیگاڈان‘‘ بتایا گیا ہے. (دیکھئے ’’مکاشفات‘‘ باب ۱۶‘ آیات ۱۲ تا ۱۶) گویا حدیث نبوی ؑ کا 
’’الملحمۃ العظمٰی‘‘ اور بائبل کا ’’آرمیگا ڈان‘‘ ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں! 
احادیث ِ نبویہ ؑ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان جنگوں کے پہلے مرحلوں میں مقابلہ صرف عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین ہو گا‘اور یہودی اگرچہ پس پردہ تو شریک ہوں گے لیکن سامنے نہیں آئیں گے. چنانچہ خلیج کی جنگ کے دوران اس صورتِ حال کی بھی ایک ابتدائی جھلک دنیا کے سامنے آ چکی ہے کہ امریکہ اور اس کے حواریوں نے اسرائیل کو جنگ میں شرکت سے روکے رکھااور اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود پوری کی. (چنانچہ اتحادی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل شوارز کراف نے تو بعد میں ؎ 

’’نکل جاتی ہے جس کے مُنہ سے سچی بات مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رند بادہ خوار اچھا!‘‘ 

کے مصداق یہ ’’اَن کہنی‘‘ بھی کہہ ہی دی کہ ’’ہم نے یہ جنگ اسرائیل کے تحفظ ہی کے لیے لڑی تھی!‘‘) تاہم جب حضرت مہدی کی قیادت میں اور مشرق سے آنے والی کمک کی مدد سے مسلمانانِ عرب کامیابیاں حاصل کرنی شروع کریں گے تو یہودی بھی جنگ میں کود پڑیں گے اوریہی مرحلہ ’’المسیحُ الدّجّال‘‘ کے خروج کا ہو گا جس کے ہاتھوں مسلمانوں پر عذاب ِ الٰہی کے کچھ مزید اور شدید تر کوڑے پڑیں گے. تاہم اس کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام نازل ہوں گے اور ان کے ہاتھوں نہ صرف یہ کہ دجال قتل ہو گا‘بلکہ پوری قومِ بنی اسرائیل پر بھی اللہ کا وہ عذابِ استیصال نازل ہو جائے گاجس کے مستحق وہ اب سے دو ہزار برس قبل حضرت مسیحؑ کا انکار کر کے ہو چکے تھے. چنانچہ اگرچہ ابتداء ً مسیح الدجال کے ہاتھوں ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ وجود میں آ جائے گا‘تاہم بالآخر وہی ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ سابقہ معزول و مغضوب اُمت مسلمہ کا ’’عظیم تر قبرستان‘‘ بن جائے گا.

جہاں تک دجالی فتنے‘دجالِ اکبر اور مسیح الدجال کی شخصیت (یا شخصیتوں) کا تعلق ہے‘واقعہ یہ ہے کہ ان کا ذکر احادیث نبویہؑ میں جن مختلف پیرایوں میں آیا ہے ان کے بعض پہلو کم از کم راقم الحروف کے علم و فہم کی حد تک تا حال عقدۂ لاینحل کی حیثیت رکھتے ہیں جن کے حل کے لیے کسی عظیم اور محقق محدث ہی کا انتظار کرنا ہو گا. البتہ اس مسئلے کے چند پہلو بالکل واضح بھی ہیں ‘بالخصوص ’’ملاحم‘‘ کے سلسلے میں جس مسیح دجال کے خروج کا ذکر آتا ہے اس کا معاملہ اپنی جگہ بھی بالکل واضح ہے‘اور دنیا کے موجودہ حالات جو رُخ اختیار کر چکے ہیں ان کے پیش نظر تو بالکل ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے ظہور و خروج کے لیے سٹیج بھی بالکل تیار ہو چکا ہے.

دجالی فتنے کے بارے میں اب سے کوئی ساٹھ برس قبل سورۃ الکہف کے حوالے سے ایک نہایت مفصل اور عالمانہ تحریر ایک ایسے عالم و فاضل شخص کے قلم سے نکلی تھی جو معقول و منقول اور شریعت و طریقت چاروں کے جامع بھی تھے اور ان میں سے ہر ایک میں نہایت بلند مقام اور اعلیٰ مرتبے کے حامل بھی‘یعنی مولانا سید مناظر احسن گیلانی ؒ . راقم کو ان کے نقطۂ نظر سے کامل اتفاق ہے. چنانچہ راقم نے بھی ان مباحث کو نہایت شرح و بسط کے ساتھ اپنے سورۃ الکہف کے دروس میں بیان کیا ہے ‘جو بحمد اللہ آڈیو کیسٹس کی صورت میں محفوظ ہیں.

ان مباحث کا لب لباب یہ ہے کہ دجالی فتنے سے مراد عہد حاضر کی مادہ پرستانہ تہذیب ہے جس کے پورے تانے بانے اور تمام تر رگ و پے میں یہ نقطۂ نظر سرایت کیے ہوئے ہے کہ اصل اہمیت کی حامل اور توجہ والتفات کے قابل یہ کائنات ہے نہ کہ خالق کائنات کی ذات‘اور مادّہ اور اس کے خصائص و قوانین ہیں نہ کہ روح اور اس کی کیفیات‘اور یہ حیاتِ دُنیوی اور اس کی فلاح و بہبود ہے نہ کہ حیاتِ اُخروی اور اس کی فوزو نجات. چنانچہ نقطۂ نظر کی اس تبدیلی کا نتیجہ ہے کہ خالق نے انسان کو علم کے حصول کے جو دو ذرائع عطا کیے تھے‘یعنی (۱) حواسِ ظاہری اور ان سے حاصل شدہ معلومات سے استدلال اور استنباط کے لیے عقل کا استعمال‘اور (۲) مافوق الطبیعی حقائق تک رسائی اور عملی ہدایت کے لیے وحی ٔ آسمانی کی پیروی‘ان میں سے انسان نے مؤخر الذکر سے بالکل صرفِ نظر کر لیا ہے اور ساری توجہ کو صرف مقدم الذکر پر مرکوز کر دیا ہے. چنانچہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں تو بے پناہ ترقی ہوئی لیکن اخلاق اور انسانیت کا دیوالہ نکل گیا.

اس اعتبار سے اگر تہذیب حاضر کو ’’یک چشمی‘‘ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا. اس لیے کہ اس کی مادّی آنکھ تو چوپٹ کھلی ہوئی ہے جب کہ روحانی آنکھ بالکل بند ہو چکی ہے. بہرحال اس دجالی فتنے نے اگرچہ اس وقت پورے کرۂ ارضی اور تمام عالم انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے‘لیکن زیادہ افسوس اور ملامت و ماتم کے قابل ہے اُمتِ مسلمہ اور اس کا بھی افضل اور برتر حصہ یعنی مسلمانانِ عرب‘ کہ وہ بھی قرآن حکیم ایسی کامل اور محفوظ کتابِ ہدایت کے حامل اور اس پر ایمان کے مدعی ہونے کے باوجود اس فتنے میں پوری شدت کے ساتھ‘بلکہ دوسروں سے بھی کچھ زیادہ ہی مبتلا ہیں. چنانچہ کتاب الملاحم کی احادیث میں بھی ایک ایسے فتنے کا ذکر ہے جس سے ’’عرب کا کوئی گھر نہیں بچے گا‘‘ اور بظاہر احوال وہ یہی مادہ پرستی اور اس کے لازمی نتیجے یعنی عیاشی و فحاشی کا فتنہ ہے جو اِن کے معاشرے میں اس لیے زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے کہ ان کے یہاں سیّال سونے کے باعث دولت کی شدید ریل پیل ہو گئی ہے. بہرحال ‘نبی اکرم  نے جس دجالی فتنے کے اثرات سے اپنے دین و ایمان کو بچانے کے لیے سورۃ الکہف اور خصوصاً اس کی ابتدائی اور آخری آیات کو اکسیر کی سی تأثیر کی حامل اور تیر بہدف قرار دیا ہے وہ یہی مادہ پرستی‘دنیا پرستی‘زر پرستی اور شہوات‘پرستی کا فتنہ ہے!

اور اب آیئے دجال یا دجالوں کی جانب‘تو ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ آنحضور  نے اپنے بعد نبوت کا دعویٰ کرنے والے تمام اشخاص کو ’’دجال‘‘ قرار دیا ہے‘ اور ایک حدیث میں ان کی تعداد بھی بیان فرما دی ہے‘یعنی تیس. البتہ یہ فیصلہ کرنا کم از کم راقم کے لیے مشکل ہے کہ آیا وہ ’’دجالِ اکبر‘‘ جس کے فتنے سے آنحضور  سمیت جملہ انبیاء علیہم السلام نے خود بھی اللہ کی پناہ مانگی اور اپنی اُمتوں کو بھی خبردار کیا‘جو خدائی کا دعویٰ کرے گا اور جملہ اہل ایمان کے ایمان کے لیے شدید امتحان بن جائے گا‘اور وہ مسیح الدجال جس کا ذکر کتاب الملاحم میں آخری زمانے کی جنگوں کے سلسلے میں آتا ہے‘ ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں یا یہ دو جدا اشخاص ہوں گے. البتہ جہاں تک مؤخر الذکر کا تعلق ہے اس کا معاملہ بالکل واضح اور بآسانی سمجھ میں آ جانے والا ہے.

دراصل یہود کی روایات اور عہد نامۂ قدیم میں مذکور انبیاء کرام علیہم السلام کی پیشین گوئیوں میں ایک ایسے ’’مسیحا‘‘ کی خبر تواتر کے ساتھ وارد ہوئی تھی جو بنی اسرائیل کو ’’ذلت‘‘ اور ’’مسکنت‘‘ سے نجات دلا کر انہیں ارضِ مقدس کے علاوہ اس پورے علاقے پر از سر نو غلبہ اور تمکن عطا کر دے گاجہاں تاریخ کے کسی بھی دور میں انہیں حکومت یا بالادستی حاصل رہی ہے. چنانچہ مکابی سلطنت کے زوال کے بعد جب بنی اسرائیل پر پہلے یونانیوں اور پھر رومیوں کی محکومی مسلط ہوئی تو وہ اپنے ’’مسیح موعود‘‘ کا شدت سے انتظار کرنے لگے. لیکن جب وہ مسیح موعود عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کی صورت میں تشریف لے آئے تو یہود کی انتہائی بدبختی کہ انہوں نے بحیثیت مجموعی ان کا انکار کیا اور انہیں صرف ردّ ہی نہیں کیا‘بلکہ کافر اور مرتد ٹھہرا کر واجب القتل قرار دے دیا اور اپنے بس پڑتے تو سولی پر چڑھوا کر ہی دم لیا. یہ دوسری بات ہے کہ اللہ نے آنجناب ؑ کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا.
بہرحال اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہود کے یہاں ’’مسیح‘‘ کی جگہ تاحال خالی ہے اور وہ اپنے مسیحا کا اب بھی انتظار کر رہے ہیں.

حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع سماوی کے بعد سے اب تک یہودیوں پر جس ذلت و مسکنت اور نکبت و اِدبار کے سائے رہے‘ان کے مختلف اَدوار کی تاریخ کسی گزشتہ صحبت میں بیان ہو چکی ہے. اس وقت جس حقیقت کی جانب توجہ دلانی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ اب سے لگ بھگ ایک سو سال قبل (۱۸۹۷ء میں) بعض نہایت ذہین لیکن عیار اور سازشی مزاج کے یہودیوں نے اپنی عظمت گزشتہ اور سطوتِ پارینہ کی بازیافت کے لیے ایک منصوبہ تیار کیاجس پر عمل کے نتیجے میں انہیں پہلی کامیابی ۱۹۱۷ء میں ’’اعلانِ بالفور‘‘ کی صورت میں حاصل ہوئی ،جس کے ذریعے ارضِ فلسطین پر ان کا ’’حق‘‘ بھی تسلیم کر لیا گیا. دوسری اور بڑی کامیابی ۱۹۴۸ء میں حاصل ہوئی جب فلسطین میں ان کی ایک آزاد ریاست قائم ہو گئی اور اسرائیل کا خنجر عالم عرب کے سینے میں پیوست ہو گیا. پھر ایک اور کامیابی ۱۹۶۷ء میں حاصل ہوئی جب چھ روزہ جنگ کے نتیجے میں اسرائیل کی حدود میں وسعت اور رقبے میں اضافے پر مستزاد بیت المقدس یعنی یروشلم پر بھی ان کا قبضہ ہو گیا. حال ہی میں ایک اور کامیابی انہیں خلیج کی جنگ کے بعد حاصل ہوئی‘ اور وہ یہ کہ فلسطینیوں سمیت تمام عرب ممالک نے اسرائیل کو اِس حد تک تو تسلیم کر ہی لیا کہ اس کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے تیار ہو گئے.

اب ظاہر ہے کہ ان کی آخری منزلِ مقصود ؏ ’’دو چار ہاتھ جب کہ لب بام رہ گیا!‘‘ کی مصداقِ کامل بن چکی ہے‘ اور وہ ہے عظیم تر اسرائیل کا قیام اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر نو. اس آخری منزل تک پہنچنے کے لیے یہود کا سازشی ذہن ایسی تدابیر اختیار کرے گا کہ ’’مسلم فنڈامنٹلزم‘‘ کا ہو ّاد کھا کر مغرب کی عیسائی دنیا کو مسلمانوں خصوصاً عربوں سے لڑوا دے. چنانچہ یہی سلسلۂ ’’ملاحم‘‘ کا اصل پس منظر ہو گا‘اور اس کے ضمن میں جب اسرائیلی یہودی دیکھیں گے کہ حضرت مہدی ؒ کی قیادت میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری ہونے لگا ہے تو کوئی اسرائیلی لیڈر ’’اَنَا المسیح‘‘ کا نعرہ لگا کر میدان میں کود جائے گا‘چنانچہ یہی ’’المسیحُ الدّجّال‘‘ ہو گاجس کے ہاتھوں مسلمانوں کو شدید ہزیمت اٹھانی پڑے گی اور ایک بار تو عظیم تر اسرائیل قائم ہو ہی جائے گا. یہ دوسری بات ہے کہ پھر اللہ تعالیٰ اصل حضرت مسیح علیہ السلام کو بھیج کر یہودیوں کا قلع قمع کر دے گا اور وہی عظیم تر اسرائیل ان کا عظیم تر قبرستان بن جائے گا. وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْز!!

ان تمام امور میں ظاہر ہے کہ سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے کوئی ایک بات بھی نہ خلافِ قیاس ہے نہ عام عادی قوانین طبعی کے متضاد! البتہ عہد حاضر کے دجالی فتنے یعنی مادہ پرستانہ نقطۂ نظر کے غلبے کے باعث خود مسلمان‘بالخصوص ان کے جدید تعلیم یافتہ طبقات اور ان میں سے بھی خاص طو رپر وہ جو فتنۂ قادیانیت اور فتنۂ انکارِ حدیث سے متأثر ہیں‘حضرت عیسیٰ ؑ کے رفع سماوی ہی کے قائل نہیں رہے تو نزول کو کیسے تسلیم کر سکتے ہیں! تاہم اس معاملے میں کسی ایسے شخص کو کوئی اشکال لاحق نہیں ہو سکتا جو ایمان رکھتا ہو کہ جملہ قوانین طبیعیہ اللہ تعالیٰ ہی کے بنائے ہوئے ہیں اور ان کے باعث اس کے ہاتھ بندھ نہیں گئے ہیں‘بلکہ یَدٰہُ مَبۡسُوۡطَتٰنِ (المائدۃ:۶۴’’اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں.‘‘ کے مصداق وہ جب چاہے ان قوانین طبیعیہ کو معطل یا ساقط کر سکتا ہے. اسی طرح جملہ اشیاء میں تمام خواص و صفات اور کُل تأثیرات اس ہی کی ودیعت کردہ ہیں‘وہ جب چاہے انہیں سلب کر سکتا ہے. مزید برآں وہ مادی اسباب و وسائل کا محتاج نہیں‘بلکہ جملہ مادی اسباب و ذرائع اس کے ’’اِذن‘‘ کے منتظر رہتے ہیں! الغرض یہ معاملہ ایک قادرِ مطلق اور ’’فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ‘‘ خدا پر ایمان بالغیب اور اس کی قدرتِ کاملہ اور حکمت بالغہ پر یقین کامل کا ہے. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کا حصۂ وافر عطا فرمائے آمین!

جیسے کہ گزشتہ صحبت میں عرض کیا جا چکا ہے ‘ان مباحث میں سے اکثر کی اہمیت صرف علمی اعتبار سے ہے. چنانچہ ان پر گفتگو یہیں ختم ہو رہی ہے. ہمارے لیے عملی اعتبار سے اصل اہمیت اس امر کی ہے کہ بحیثیت پاکستانی مسلمان ہم کس مقام پر کھڑے ہیں اور ارضِ مشرق کے مکین ہونے کے ناطے ہماری کیا خصوصی ذمہ داریاں ہیں. چنانچہ آئندہ اسی مسئلے پر گفتگو ہو گی.

۲۲؍جون ۱۹۹۳ء