ملت ِ اسلامیہ پاکستان کی خصوصی ذمہ داری اگرچہ بعض لوگوں کا خیال تو یہ ہے کہ اِس وقت دنیا میں مسلمانوں کی کُل تعداد پونے دو ارب تک پہنچ چکی ہے، تاہم محتاط اندازوں کے مطابق بھی یہ تعداد سوا ارب کے لگ بھگ یعنی ایک سو بیس اور ایک سو تیس کروڑ کے مابین ضرور ہے.

سورۃ الجمعۃ کی دوسری اور تیسری آیات کی رو سے تو یہ اُمت صرف دو حصوں میں منقسم ہے. یعنی ایک ’’اُمّی‘‘ عرب جن کو بقیہ تمام مسلمانوں پر مطلق فضیلت اوّلاً اس بنا پر حاصل تھی کہ خود نبی اکرم  بھی ان ہی میں سے تھے‘اور ثانیاً اس بنا پر کہ ان ہی کی جانب آپ ؐ ‘ کی خصوصی بعثت تھی. چنانچہ ان ہی کی زبان میں اللہ کا آخری پیغام اور کامل‘ہدایت نامہ نازل ہوا. اور دوسرے ’’آخرین‘‘ یعنی بقیہ تمام نسلوں اور قوموں سے تعلق رکھنے والے مسلمان جو وقتاً فوقتاً اُمتِ محمد ؐ میں شامل ہو کر اس کی عمومی فضیلت میں شریک ہوتے چلے گئے. لیکن موجودہ حالات میں یہ اُمت تین حصوں میں منقسم قرار دی جا سکتی ہے‘ یعنی:

(۱) مغربی ایشیا اور شمالی افریقہ کے ان ممالک کے لوگ جن کی مادری زبان عربی بن چکی ہے. یہ تعداد میں لگ بھگ بیس کروڑ‘گویا کل اُمت کا چھٹا حصہ ہیں. 

(۲) سابق برعظیم ہند‘ اورموجودہ بھارت‘پاکستان اور بنگلہ دیش کے وہ مسلمان‘جن کی مادری زبانیں اور بولیاں تو بے شمار ہیں لیکن سب کی ’’لنگو افرنیکا‘‘ کی حیثیت اردو کو حاصل ہے. یہ تعداد میں لگ بھگ چالیس کروڑ یعنی کل اُمت کا تیسرا حصہ ہیں. 

(۳) باقی پوری دنیامیں پھیلے ہوئے مسلمان جن کی مجموعی تعداد ساٹھ کروڑ کے قریب ہے‘اور اس طرح وہ پوری اُمت کی مجموعی تعداد کا نصف ہیں. ان میں سے ایک تہائی کے لگ بھگ تو صرف انڈونیشیا اور ملائیشیا میں آباد ہیں‘باقی دو تہائی میں ترکی‘ایران اور افغانستان ایسے خالص اور قدیم مسلمان ممالک کے علاوہ مغربی اور وسطی افریقہ کے ممالک اور سابق روسی ترکستان اور چینی ترکستان میں آباد مسلمان شامل ہیں.

ان ایک ارب کے قریب غیر عرب مسلمانوں میں ایک اضافی درجۂ فضیلت گزشتہ چار سو سال سے برعظیم پاک و ہند میں آباد مسلمانوں کو حاصل رہا ہے ‘جس کی بنا پر ؏ ’’جن کے رتبے ہیں سوا‘ان کی سوا مشکل ہے!‘‘ کے مصداق اللہ کے دین اور محمد  کی رسالت کے ضمن میں ایک خصوصی ذمہ داری کا بھاری بوجھ ان کے کندھوں پر تھا‘جسے تاریخ کی ایک کروٹ نے پورے کا پورا مسلمانانِ پاکستان کے کندھوں پر ڈال دیا ہے‘ جس کا صحیح فہم و شعور ؏ ’’اپنی خودی پہچان‘او غافل افغان!‘‘ کے مصداق ملتِ اسلامیہ پاکستان کے لیے نہایت ضروری ہے.

سب جانتے ہیں کہ فضل یا فضیلت خالص وہبی شے ہے اور عالم انسانی میں فضیلت کی اصل اساس نبوت رہی ہے. چنانچہ سابقہ اُمت مسلمہ یعنی بنی اسرائیل کی اس عظیم فضیلت کی بنیاد ‘جس کا ذکر سورۃ البقرۃکی دو آیات (۴۷ اور ۱۲۲) میں ان الفاظ میں وارد ہوا کہ: 
وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۷﴾ ’’میں نے تو تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرما دی تھی‘‘ یہی تھی کہ ان میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک پورے چودہ سو برس نبوت کا سلسلہ اس طور سے جاری رہا کہ کبھی یہ تار ٹوٹا ہی نہیں! حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد مسلسل چھ سو سال ’’فترتِ اولیٰ‘‘ کا زمانہ ہے جس کے دوران نبوت کا سلسلہ منقطع رہا اور اس کے بعد نبوت و رسالت کا ماہِ کامل یا خورشید جہاں تاب محمد کی صورت میں طلوع ہوا‘جن کے سر مبارک پر ختم نبوت اور تکمیل رسالت کا تاج رکھا گیا. چنانچہ ایک جانب آپؐ خود اِنَّ فَضۡلَہٗ کَانَ عَلَیۡکَ کَبِیۡرًا ﴿۸۷﴾ (بنی اسرائیل) یعنی ’’یقینا اللہ کا فضل آپؐ پر تو نہایت ہی عظیم و کبیر ہے!‘‘ کے مصداقِ کامل قرار پائے تو دوسری جانب آپ ؐ کی اُمت میں شامل ہونے والے بھی‘ خواہ وہ ’’اُمّی‘‘ عربوں میں سے تھے‘خواہ ’’آخرین‘‘ میں سے‘آپؐ کے اس فضل عظیم کے وارث قرار پائے‘بفحوائے: ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۴﴾ (الجمعۃ) یعنی ’’یہ اللہ کا فضل ہے،وہ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے ‘اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے!‘‘ اس لیے کہ اگرچہ آپؐ پر نبوت کا سلسلہ ختم اور منقطع ہوگیاتاہم حسب ذیل آیات کی رو سے آپ ؐ کی رسالت کے فرائض کی عالمی سطح پر اور تا قیامِ قیامت ادائیگی مجموعی طور پر آپ ‘ؐ کی اُمت ہی کے حوالے کی گئی:

(۱
کُنۡتُمۡ خَیۡرَ اُمَّۃٍ اُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَاۡمُرُوۡنَ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ تَنۡہَوۡنَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؕ (آل عمران : ۱۱۰)
’’تم بہترین اُمت ہو جسے جملہ انسانوں کے لیے برپا کیا گیا ہے. تمہارا کام ہی یہ ہے کہ نیکی کا حکم دو‘برائیوں سے روکو اور خود اللہ پر پختہ ایمان رکھو!‘‘

(۲
وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ........ لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚ (الحج : ۷۸)
’’اللہ کی راہ میں جہاد کرو‘جتنا اور جیسا کہ اس کے لیے جہاد کا حق ہے. اللہ نے تمہیں منتخب فرما لیا ہے… تاکہ رسول ( ) تم پر حجت قائم کریں اور تم پوری نوعِ انسانی پر حجت قائم کرو!‘‘

(۳
وَ کَذٰلِکَ جَعَلۡنٰکُمۡ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ عَلَیۡکُمۡ شَہِیۡدًا ؕ (البقرۃ:۱۴۳)
’’اور اس نے تمہیں ایک اُمت وسط بنایا ہی اس لیے ہے کہ تم تمام لوگوں پر حجت قائم کرو اور ہمارے رسول( ) تم پر حجت قائم کریں‘‘.

اِس فریضۂ رسالت ِ محمدیؐ کی ادائیگی اور شہادت علی الناس کی ذمہ داری اگرچہ اُمت محمد پر بحیثیت مجموعی ڈالی گئی ہے‘تاہم ؏ ’’جن کے رُتبے ہیں سوا‘ان کی سوا مشکل ہے!‘‘ اور ؎

نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد!

کے مصداق‘اور اللہ تعالیٰ کے اس ابدی قانون کے مطابق کہ ’’اللہ ہر ایک پر ذمہ داری کا بوجھ اس کی وسعت کے مطابق ہی ڈالتا ہے!‘‘ جو قرآن حکیم میں متعدد بار بیان ہواہے (۱اس عظیم ذمہ داری کا سب سے زیادہ بوجھ ان لوگوں پر ہے جن کی مادری زبان عربی ہے‘لہذا انہیں قرآن حکیم کو سمجھنے کے لیے کسی اضافی محنت اور مشقت کی ضرورت نہیں ہے! اور ظاہر ہے کہ قرآن حکیم ہی نبوت کے اس سلسلے کا اصل قائم مقام ہے جو نبی اکرم  کی ذاتِ مبارک پر ختم اور منقطع ہو چکا ہے.

تاہم ختم نبوت سے جو خلا پیدا ہوا اُس کو پُر کرنے کی ایک اضافی تدبیر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت ِ کاملہ کے تحت یہ اختیار فرمائی کہ ایک جانب مجدّدین کا سلسلہ جاری فرمایا جو وقتاً فوقتاً دین کی اصل تعلیمات اور اللہ کی اصل ہدایت کو از سر نو نکھار کر پیش کرتے رہے. اور دوسری جانب یہ ضمانت دے دی کہ ’’اس اُمت میں ہمیشہ کم از کم ایک گروہ یا جماعت ضرور حق پر قائم رہے گی.‘‘ 
(بخاری ؒ و مسلمؒ ‘عن معاویہؓ ) اور یہ دونوں امر اس اعتبار سے باہم لازم و ملزوم ہیں کہ بالکل فطری اور منطقی طور پر ہر مجدد کی تعلیمات اور مساعی کے نتیجے میں لا محالہ ایک حلقہ یا گروہ ایسا وجود میں آتا رہاجو دین حق کی اصل تعلیمات کا علمبردار اور اپنے وجود کے اعتبار سے کم از کم ذاتی زندگی اور انفرادی سیرت و کردار کی حد تک اسلام کی حقیقی تعلیمات کا نمونہ اور آئینہ دار بن گیا. اگرچہ دنیا کے اس طبعی قانون کے مطابق کہ ہر جوانی پر لازماً بڑھاپا بھی آکر رہتا ہے اور ہر کمال کو بالآخر زوال سے دو چار ہونا ہی پڑتا ہے‘یہ حلقہ یا گروہ یا جماعت دوسری یا تیسری یا زیادہ سے زیادہ چوتھی نسل تک پہنچ کر لازماً ایک تقلیدی اور موروثی ’’فرقہ‘‘ بن جاتا رہا‘اور اس طرح ایک نئے مجدد کی ضرورت پیش آتی رہی جس کے زیر اثر ایک نئی جمعیت یا جماعت وجودمیں آئے. یہی وجہ ہے کہ حدیث ِ نبوی ؑ میں مجددین کے ضمن میں سو سو سال کے وقفے کا ذکر ہے‘یعنی: ’’اللہ تعالیٰ اس اُمت میں ہر سوسال کے سرے پر ایسے لوگوں کواٹھاتا رہے گا جو دین کی تجدید کرتے رہیں گے (یعنی اسے تازہ کرتے رہیں گے.)‘‘ (۱) جیسے مثلاً سورۃ البقرۃ: ۲۳۳ اور ۲۸۶‘سورۃ الانعام: ۱۵۲‘سورۃ الاعراف: ۴۲ اور سورۃالمؤمنون: ۶۲
بہرحال ان مجددین اُمت اور ان کے تلامذہ اور متبعین کی مساعی کے نتیجے میں دین حق کی تعلیمات گزشتہ چودہ سو سال کے دوران اسی طرح منتقل ہوتی چلی آئیں جس طرح اولمپک ٹارچ (مشعل) ایک کھلاڑی سے دوسرے کھلاڑی کو منتقل ہوتی رہتی ہے‘یا شیر شاہ سوری کے زمانے میں ڈھاکہ سے پشاور تک ڈاک کے تھیلے ہر تیس میل کے بعد ایک گھڑ سوار سے دوسرے کو منتقل ہوتے رہتے تھے!

اور اب اس پس منظر میں مشاہدہ فرمایئے اس عظیم حقیقت کا کہ پورے ایک ہزار برس تک مجددین کا یہ سلسلہ عالم عرب ہی میں جاری رہا. چنانچہ حضرت عمربن عبدالعزیزؒ اور حضرت حسن بصری ؒ سے امام غزالی ؒ اور شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ تک پورے سات سو برس کے عرصے میں تمام مشاہیر علماء‘ائمہ ہدایت اور مجددین اُمت عالم عرب ہی میں پیدا ہوتے رہے. لیکن فتنۂ تاتار کے دوران جب کہ وسطی اور مغربی ایشیا شورش و ہلاکت اور تباہی و بربادی کا شکار ہوئے ‘اسلام کی علمی اور روحانی وراثت تدریجاً سر زمین ہند کو منتقل ہوتی چلی گئی‘تا آنکہ جیسے ہی اُمت کی تاریخ کے ’’الف ثانی‘‘ یعنی دوسرے ہزار سالہ دور کا آغاز ہوا تجدید دین کا اصل مرکز ہندوستان بن گیا. چنانچہ گیارہویں صدی ہجری کے عظیم ترین مجدد شیخ احمد سرہندیؒ بھی یہیں پیدا ہوئے جن کے مرقد کے بارے میں علامہ اقبال نے فرمایا ہے کہ ؏ ’’وہ خاک کہ ہے زیر فلک مطلع انوار‘‘ اور جن کی ذات کے بارے میں فرمایا ہے کہ ؏ ’’جس کے نفس گرم سے ہے گرمی ٔ احرار!‘‘ پھر بارہویں صدی ہجری کے مجدد اعظم شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بھی یہیں پیدا ہوئے ‘جو تنہا اپنی ذات میں جملہ علومِ اسلامی ہی کے مجدد نہیں فکر اسلامی اور حکمت دینی کے بھی مجددِ اعظم تھے. پھر تیرہویں صدی ہجری میں سید احمد بریلویؒ بھی یہیں پیدا ہوئے جو بلا شبہ سلوکِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام اور جہادِ اسلامی کے مجددِ اعظم تھے اور ان کا اوران کے ساتھی شہداء کا خون سر زمین بالا کوٹ میں جذب ہوا. ؎

بنا کردند خوش رسمے بہ خاک وخون غلطیدند
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را!

اسی طرح چودہویں صدی ہجری میں بھی جو اعاظم رجال سرزمین ہند میں پیدا ہوئے ان کی نظیر پورا عالم اسلام پیش کرنے سے قاصر ہے. چنانچہ طبقۂ علماء میں سے اسیر مالٹا شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ ایسی عظیم شخصیت‘ اور جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں سے علامہ اقبال ایسا مفکر ملت اور حکیم اُمت‘پھر مولانا محمدالیاس ایسا عظیم مبلغ او رمولانا مودودی ایسا عظیم مصنف پورے عالم اسلام میں کہیں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتا! ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۴﴾ (الجمعۃ) ’’یہ اللہ کا فضل ہے‘ وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے‘ اور اللہ بڑے فضل والا ہے‘‘. 

الغرض‘گزشتہ پوری چار صدیوں کے دوران اگر دین کے علم و فکر ہی نہیں‘دعوت و جہاد کی تجدید کا مرکز بھی ہندوستان بنا رہا تو ظاہر ہے کہ یہ مشیت ایزدی کے تحت ہی ہوا اور جس طرح علامہ اقبال نے کوہ ہمالیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ ؏ ’’برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر!‘‘ اسی طرح واقعہ یہ ہے کہ ’’الف ثانی‘‘ کی ان تجدیدی مساعی نے ملت اسلامیہ ہندیہ کے سر پر ایک عظیم دستارِ فضیلت باندھ دی ہے جس کی بنا پر اس کی ذمہ داری بھی بقیہ پوری اُمت مسلمہ کے مقابلے میں نہایت عظیم ،گراں اور دَہ چند ہی نہیں سو گنا بن گئی ہے!

اور اب توجہ فرمایئے تاریخ کی اس ’’کروٹ‘‘ کی جانب جس کے نتیجے میں اس عظیم ذمہ داری کا پورا بوجھ ملت اسلامیہ پاکستان کے کندھوں پر آ گیا ہے. یہ کروٹ تحریک پاکستان اور اس کے نتیجے میں قیامِ پاکستان سے عبارت ہے‘جس کا اعلانیہ مقصد اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کا قیام اور پورے عالمِ انسانیت کے سامنے اسلام کے ’’اصولِ حریت واخوت و مساوات کا ایک نمونہ‘‘ پیش کرنا تھا. چنانچہ مفکر و مصورِ پاکستان علامہ محمد اقبال نے بھی اپنے خطبہ الٰہ آباد (۱۹۳۰ء) میں فرمایا تھا کہ: ’’مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقے میں ایک آزاد مسلمان ریاست کا قیام تقدیرِ مبرم ہے. اور اگر ایسا ہو گیا تو ہمیں ایک موقع مل جائے گا کہ اسلام کی اصل تعلیمات پر جو پردے عرب ملوکیت (امپیریلزم) کے دَور میں پڑ گئے تھے انہیں ہٹا کر 
دوبارہ اصل اسلام کا ایک نمونہ دنیا کے سامنے پیش کر سکیں!‘‘ اور بانی و معمارِ پاکستان محمد علی جناح نے بھی بارہا ان ہی خیالات کا اظہار فرمایا تھا. اور قیامِ پاکستان کی صورت میں غالب اور جارح ہندو اکثریت کے ملک بھارت میں شامل رہ جانے والے علاقوں کے مسلمانوں نے بھی ؎

’’جو ہم پہ گزری سو گزری مگر شب ہجراں
ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے!‘‘

کے مصداق اس سے بالکل بے پروا ہو کر کہ تقسیم ہند کے بعد اُن پر کیا بیتے گی‘تحریک ِ پاکستان میں بھرپور حصہ ہی نہیں اصل فیصلہ کن کردار ادا کر کے گویا مذکورہ بالا چار صد سالہ تجدیدی مساعی کی وراثت کے ناطے جو عظیم ذمہ داری جملہ مسلمانانِ ہند پر عائد ہوتی تھی اس میں سے اپنے حصے کا ’’فرضِ کفایہ‘‘ ادا کر دیا‘جس کی قیمت وہ تاحال مسلسل اپنے جانی ضیاع اور مالی نقصان کی صورت میں ادا کر رہے ہیں. بنابریں اب اس عظیم ذمہ‘داری کا پورا بوجھ ملت ِاسلامیہ پاکستان کے کندھوں پر ہے‘اور اس کی قسمت یا بدقسمتی بالکلیہ اسی کے ساتھ وابستہ ہے!

اور یہ بلاشبہ ہر باشعور پاکستانی مسلمان کے لیے اہم ’’لمحۂ فکریہ‘‘ ہے کہ (۱) اگر وہی بنی اسرائیل جو ’’ہم نے تو تمہیں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کر دی تھی!‘‘ کے مصداقِ کامل تھے‘اللہ کے ساتھ کیے جانے والے قول و قرار اور عہد و میثاق سے انحراف اور اللہ کے دین اور شریعت کی غلط نمائندگی کے باعث ’’ان پر ذلت اور مسکنت مسلط کر دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں گھر گئے!‘‘ کی تصویر بن گئے‘اور (۲) مسلمانانِ عرب بھی اپنی تمام تر فضیلتوں کے باوجود ان ہی جرائم کی پاداش میں اللہ کے بے لاگ عدل کے باعث معزول و معتوب ہوئے‘ چنانچہ اوّلاً اب سے ساڑھے سات سو سال قبل یعنی ۱۲۵۸ء میں سقوطِ بغداد اور خلافت ِ بنو عباس کے خاتمے پر قرآن مجید میں وارد شدہ پیشگی تنبیہہ 
اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ (محمد:۳۸’’اگر تم پیٹہ پھیر لو گے تو اللہ تمہیں ہٹا کر کسی اور قوم کو لے آئے گا!‘‘ کے مطابق اُمت مسلمہ کی قیادت و سیادت سے معزول کر دیے گئے تھے اور اب بھی ایک مغضوب اور ملعون قوم کے ہاتھوں مسلسل پٹ رہے ہیں‘جس کی شدت نبی اکرم  کی ان پیشین گوئیوں کے مطابق جن پر مفصل گفتگو اس سے قبل ہو چکی ہے ‘مستقبل قریب میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ جانے والی ہے! تو فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ (المزمل:۱۷’’پھرتم کیونکر بچو گے اگر تم نے انکار کیا؟‘‘ کے مصداق ہم اللہ کے قانونِ عذاب اور اصولِ مکافاتِ عمل سے کیسے بچ سکیں گے!

چنانچہ ان سطورکے راقم کو پوری شدت کے ساتھ یہ احساس لاحق ہے کہ ہم بحیثیت ملت ِ اسلامیہ پاکستان اللہ کے قانونِ عذاب کی گرفت میں آ چکے ہیں‘اور اس عظیم قانون کی اس دفعہ کے مطابق جو سورۃ السجدۃ کی آیت ۲۱ میں وارد ہوئی ہے‘یعنی: ’’ہم انہیں بڑے عذاب سے قبل چھوٹے عذاب کا مزہ ضرور چکھائیں گے‘شاید کہ یہ لوٹ آئیں!‘‘ ہماری پیٹہ پر عذابِ الٰہی کا ایک شدید کوڑا ۱۹۷۱ء میں سقوطِ ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیش کی صورت میں قلب ِ ماہیت‘اور سب سے بڑھ کر ایک ذلت آمیز اور عبرتناک شکست کی صورت میں پڑ چکا ہے‘جس کے نتیجے میں ترانوے ہزار پاکستانی اُن ہندوؤں کے قیدی بنے تھے جن پر مسلمانوں نے کہیں ہزار برس‘کہیں آٹھ سو برس اور کہیں چھ سو برس حکومت کی تھی! اور چونکہ ہم نے اس کے بعد سے آج تک اللہ اور اس کے دین کی جانب ’’رجوع‘‘ کا کوئی ثبوت نہیں دیا‘لہذا اب ’’بڑے عذاب‘‘ کا کوڑا بھی ہمارے سروں پر اسی طرح تانا جا چکا ہے جس طرح کبھی حضرت یونس علیہ السلام کی قوم پر عذابِ استیصال کے آثار شروع ہو گئے تھے! (اگرچہ وہ عذاب قوم کی اجتماعی توبہ کے باعث ٹل گیاتھا. چنانچہ میں نے قومِ یونس ؑ کی مثال اسی خیال سے دی ہے کہ شاید اللہ ملت ِ اسلامیہ پاکستان کو بھی اس ہی کے مانند اجتماعی توبہ کی تو فیق عطا فرما دے. آمین یا ربّ العالمین!) اور میری تشویش کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پہلے عذاب سے قبل بھی پچیس برس کی مہلت دی تھی (سقوطِ ڈھاکہ کے وقت قیام پاکستان پر قمری حساب سے پچیس برس بیت چکے تھے!) اور اب پھر قمری حساب سے 
دوسرے پچیس برس کی مہلت کے ختم ہونے میں کل پونے تین سال باقی رہ گئے ہیں! الغرض‘معاملہ وہی ہے کہ ؏ :

حذر اے چیرہ دستاں‘سخت ہیں فطرت کی تعزیریں!

اور: ؎
فطرت افراد سے اِغماض بھی کر لیتی ہے
نہیں کرتی کبھی ملت کے گناہوں کو معاف!

اور: ؎
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی
دوڑو‘ زمانہ چال قیامت کی چل گیا!

۲۹؍جون ۱۹۹۳ء