پاکستان کا مستقبل اگرچہ نبی اکرم  کا فرمانِ مبارک تو یہ ہے کہ ’’موت کا ذکر کثرت کے ساتھ کیاکرو‘جو تمام لذتوں کا خاتمہ کر دینے والی ہے.‘‘ (ترمذیؒ ‘نسائی ؒ اور ابن ماجہ ؒ .عن ابی ہریرہؓ ) اسی طرح آپ کا فرمانِ مبارک یہ بھی ہے کہ موت کا تذکرہ اور قرآن کی تلاوت کثرت کے ساتھ کیا کرو. چنانچہ ایک بار آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’انسانوں کے دلوں پر بھی زنگ لگ جایا کرتا ہے جیسے کہ لوہے پر زنگ لگ جاتا ہے اگر اس پر پانی پڑتا رہے!‘‘ اس پر جب آپ ؐ سے سوال کیا گیا کہ : ’’حضورؐ ! یہ فرمایئے کہ پھر ان کو از سر نو جلا کیسے دی جائے؟‘‘ تو آپ ؐ نے ارشاد فرمایا: ’’دو کام کثرت کے ساتھ کیا کرو: ایک موت کا ذکر اور دوسرے تلاوتِ قرآن!‘‘ (سنن بیہقی ؒ ) لیکن آج کل کے ’’مترفین‘‘ یعنی مرفّہ الحال لوگ اور اصحابِ دولت و ثروت موت کے ذکر کو ناپسند کرتے ہیں. چنانچہ کچھ عرصہ ہواکہ ایک دوست نے جو پی آئی اے میں کام کرتے ہیں‘یہ بتایا تھا کہ جب سعودی ائیر لائنز کے دیکھا دیکھی پی آئی اے کی پروازوں کے آغاز میں بھی سفر کی اس دعا کا اہتمام کیا جانے لگا جو قرآن حکیم میں وارد ہوئی ہے‘ تو بہت سے لوگوں نے باضابطہ احتجاج کیا اور زور دیا کہ اس دعا کا صرف پہلا حصہ پڑھا جائے‘یعنی: سُبۡحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَ مَا کُنَّا لَہٗ مُقۡرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ (الزخرف) ’’پاک ہے وہ ہستی جس نے ہمارے لیے اس (سواری) کو مسخر فرما دیا‘ورنہ ہم تو ہرگز اس لائق نہ تھے کہ اس پر قابو پا سکتے!‘‘ لیکن دوسرا حصہ نہ پڑھا جائے جس میں موت کا تذکرہ ہے‘یعنی: وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴﴾ (الزخرف) ’’اور ہم سب بالآخر اپنے ربّ ہی کی جانب لوٹ جانے والے ہیں!‘‘ اس لیے کہ بقول ان کے‘اس طرح تو پی آئی اے گویا پرواز کے آغاز ہی میں تمام مسافروں کو موت کی جھلک دکھا دیتی ہے‘جس سے قلوب اور اعصاب پر ’’منفی‘‘ اثر پڑتا ہے. اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ! 

میں نے ابھی تک تو اس روایت کو بس ایک لطیفے ہی کے درجہ میں سمجھا تھا‘لیکن حال ہی میں جب ایک اچھے بھلے معروف دانشور کی یہ بات سامنے آئی کہ قیامت کا ذکر منفی سوچ کا مظہر ہے تو ؏ ’’ہمیں یقین ہوا‘ہم کو اعتبار آیا!‘‘ کے مصداق پہلی بات کا بھی 
’’حق الیقین‘‘ حاصل ہو گیا. اگرچہ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس پر صدمہ کی کیفیت زیادہ ہوئی یا حیرت اور تعجب کی کہ ایک مسلمان یہ بات کیسے کہہ سکتا ہے جب کہ قرآن مجید کا تو شاید کوئی ایک صفحہ بھی ایسا نہ ہو جس میں قیامت کا ذکر پورے شدّومدّ کے ساتھ نہ آیا ہو. بالآخر دل کو تسلی دی تو اس خیال کے ذریعے کہ شاید موصوف کی کسی لمبی تحریر کی تلخیص کسی صاحب نے کی ہو اور اس کی بنا پر یہ مغالطہ پیدا ہو گیا ہو. واللہ اعلم! 

بہرحال ‘راقم الحروف اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسے اس امر کا تو یقینِ کامل حاصل ہے ہی کہ قیامت آ کر رہے گی‘جس کے نتیجے میں موجودہ عالم دنیا کا نظام درہم برہم ہو جائے گا‘بلکہ الحمد للہ ثم الحمد للہ کہ اس کا بھی 
’’حق الیقین‘‘ حاصل ہے کہ اس کے کچھ عرصے کے بعد (جس کی مدت کا علم صرف اللہ کو ہے!) ایک نئے عالم یعنی عالمِ آخرت کی بساط بچھائی جائے گی‘ چنانچہ تمام انسانوں کو دوبارہ پیدا کیا جائے گا اور پھر حشر و نشر اور حساب کتاب کا معاملہ ہو گا‘اوربالآخر جزا و سزا یعنی جنت یا دوزخ کے فیصلے صادر ہوں گے! جیسے کہ نبی اکرم  نے اپنے اس نہایت ابتدائی دور کے خطبے میں وضاحت کے ساتھ ارشاد فرمایا تھا جو آپ ؐ نے اپنے پورے خاندان یعنی بنو ہاشم کے مجمع میں دعوت ِ طعام کے بعد‘اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے دیا تھا کہ: وَ اَنۡذِرۡ عَشِیۡرَتَکَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ﴿۲۱۴﴾ۙ (الشُّعراء) ’’اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو خبردارکرو!‘‘ چنانچہ آپؐ کے الفاظِ مبارک یہ تھے:

ترجمہ: ’’خدا کی قسم !تم سب پر موت وارد ہو کر رہے گی جیسے کہ تم روزانہ رات کو سوجاتے ہو‘پھر تم سب کو لازماً دوبارہ اٹھا لیا جائے گا جیسے کہ تم روزانہ صبح کو بیدار 
ہوجاتے ہو‘پھر یقینا تم سب سے حساب لیا جائے گا اس کا جو تم کر رہے ہو‘اور پھر تمہیں لازماً بدلہ مل کر رہے گا‘بھلائی کا بھلا اور برائی کا برا‘اور وہ یا تو جنت ہو گی ہمیشہ کے لیے یا پھر دوزخ کی آگ ہو گی ہمیشہ کے لیے!‘‘ (ماخوذاز ’’نہج البلاغہ‘‘) 

البتہ اس قیامِ قیامت اور بعث بعد الموت کے ساتھ ساتھ مجھے اس کا بھی یقین حاصل ہے کہ قیامت سے قبل پورے کرۂ ارضی پر اللہ کے دین حق کا غلبہ اور خلافت علیٰ منہاج النبّوت کے نظام کا قیام لازماً واقع ہو کر رہے گا. چنانچہ اس کے مفصل دلائل بھی میں قرآن حکیم کی آیات سے ’’دلالت‘‘ کی بنیاد پر‘اور احادیث ِ نبویہ ؑ سے ’’صراحت‘‘ کی اساس پر دے چکا ہوں. اور ؏ ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف‘‘ کے مصداق قرآن و حدیث ہی بندۂ مؤمن کی دو آنکھیں ہیں!

متذکرہ بالا دو امور کے بارے میں تو بحمد اللہ مجھے 
’’حق الیقین‘‘ کی کیفیت حاصل ہے‘البتہ اپنی ایک تیسری رائے کے ضمن میں مَیں صرف گمانِ غالب اور امید واثق کے الفاظ استعمال کر سکتا ہوں. (اگرچہ اس کی سرحدیں بھی ’’یقین‘‘ کے بالکل ساتھ جا ملتی‘ہیں!) اور وہ یہ کہ غلبۂ دینِ حق اور قیامِ نظامِ خلافت کا نقطۂ آغاز بننے کی سعادت اِن شاء اللہ العزیز ‘اسی ارضِ پاکستان اور اس سے ملحق سرزمین افغانستان کو حاصل ہو گی جسے ماضی میں ’’خراسان‘‘ کہا جاتا تھا! میرے اس ’’یقین کی حد کو پہنچنے والے گمان‘‘ کی بنیاد جہاں بعض احادیث ِ نبویہ ؑ بھی ہیں جن کی بنا پر علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ؎ 

میر عربؐ کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے‘میرا وطن وہی ہے! 

(مثلاً سنن ابن ماجہؒ کی حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس کے مطابق رسول اللہ  نے فرمایا: ’’مشرق کی جانب سے ایسے لوگ برآمد ہوں گے جو علاقوں پر علاقے فتح کرتے ہوئے مہدی کی مددیعنی ان کی حکومت کو مستحکم کرنے کے لیے پہنچیں گے‘‘ . اور جامع ترمذیؒ کی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جس کے مطابق آنحضور  نے فرمایا: ’’خراسان کے علاقے سے سیاہ جھنڈے برآمد ہوں گے اور انہیں کوئی طاقت واپس نہیں پھیر سکے گی‘یہاں تک کہ وہ ایلیا یعنی بیت المقدس میں نصب کر دیے جائیں گے‘‘ .او کما قال  !) وہاں اس کی اصل اور محکم اساس گزشتہ چار سو سال کی تاریخ پر قائم ہے‘جو گواہی دیتی ہے کہ پچھلی چار صدیوں کے دوران میں تجدید دین کا سارا کام برعظیم پاک و ہند میں ہوا اور اس عرصے میں تمام مجد دین اعظم اسی خطے میں پیدا ہوئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مشیتِ ایزدی اور حکمتِ خداوندی میں کوئی طویل المیعاد منصوبہ اس خطۂ ارضی کے ساتھ وابستہ ہے.
پھر سب جانتے ہیں کہ سر زمین افغانستان کا ہمیشہ سے برعظیم پاک و ہند کے ساتھ یہ ’’دو طرفہ تعلق‘‘ قائم رہا ہے کہ تمام فاتحین تو افغانستان سے ہندوستان کی جانب آتے رہے‘لیکن صرف ایک استثناء یعنی اسلام کی اوّلین آمد کے علاوہ تہذیب و تمدن اور علم و حکمت کا سفر ہمیشہ ہندوستان سے افغانستان کی جانب رہا. چنانچہ ماضی میں بدھ مت بھی ہندوستان سے افغانستان گیا تھا‘اور گزشتہ چار صدیوں کے دوران میں اسلام کی جملہ تجدیدی مساعی کے اثرات کے اعتبار سے بھی افغانستان برعظیم پاک و ہند کے ’’تابع‘‘ رہا. جس کی نہایت نمایاں مثال یہ ہے کہ اگرچہ مسلم فاتحین کے ساتھ تو سلسلۂ چشتیہ افغانستان سے ہندوستان آیا تھالیکن پھر الف ثانی کے تجدیدی کارنامے کے اثرات کی صورت میں اوّلاً سلسلۂ مجددیہ پہلے افغانستان اور پھرپورے ترکستان تک پہنچا اور پھر شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے مدرسۂ فکر کا اثر و نفوذ بھی وسعت اور سرعت کے ساتھ ارضِ خراسان تک ممتد ہو گیا. اور اِس وقت ہر دیکھنے والی آنکھ دیکھ سکتی ہے (بشرطیکہ اس میں قرآن اور حدیث کا ’’سرمہ‘‘ لگا ہوا ہو!) کہ ’’وقت کے بہتے دریا‘‘ نے ایک جانب برعظیم پاک و ہندکی پوری چار صدیوں کی تجدیدی مساعی کی وراثت ارضِ پاکستان میں جمع کر دی ہے‘اور دوسری جانب ارضِ خراسان میں اللہ تعالیٰ نے سپر پاورز کی باہمی کشاکش کے ذریعے نہ صرف یہ کہ سوئی ہوئی مارشل اسپرٹ کو بیدار کر دیا ہے اور قدیم جذبۂ حریت کو مزید مہمیز دے دی ہے‘بلکہ جذبۂ جہاد فی سبیل اللہ کو بھی قابل لحاظ حد تک قوی بنا دیا ہے‘ تو پھر کون سے تعجب کی بات ہو گی اگر تاریخ کی کوئی کروٹ ؎

’’عطا مؤمن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی‘ ذہن ہندی‘ نطق اعرابی!‘‘

کے مصداق ایک جانب سے مجدد ین ہند کا علم و حکمت اور فکر و فہم اور دوسری جانب سے مسلمانانِ افغانستان کا جذبۂ عمل اور جوشِ جہاد دریائے سندھ اور دریائے کابل کے مانند باہم مل کر احیاءِ اسلام‘‘غلبۂ دین اور عالمی نظامِ خلافت کے قیام کا نقطۂ آغاز بن جائیں. وَمَا ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ!
میری ان باتوں پر بھی کوئی ’’دانشور‘‘ اگر چاہے تو بڑی آسانی کے ساتھ کسی افیمی کے خواب یا مجذوب کی بڑکی پھبتی چست کر سکتا ہے. بلکہ واقعہ یہ ہے کہ کبھی کبھی خود میں بھی اس کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہوں کہ ؎

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی!

تاہم مجھے یہ اطمینان ہے کہ میری ان باتوں کو کم از کم ’’منفی سوچ‘‘ کی مظہر قرار نہیں دیا جا سکتا.

البتہ اس تیسری بات کے سلسلے میں دو سوالات کے جواب کے بارے میں مَیں نہایت متردّد بھی ہوں اور ان میں سے ایک کے بارے میں میرا ایک اندیشہ بھی قوی سے قوی تر ہو تا چلا جا رہا ہے‘جسے قنوطیت اور یاس پسندی سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے اور منفی سوچ کا مظہر بھی قرار دیا جا سکتا ہے‘ لیکن 
مَاۤ اُرِیۡکُمۡ اِلَّا مَاۤ اَرٰی (المؤمن: ۲۹’’میں تمہیں وہی کچھ دکھا رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں!‘‘ کے مصداق میں اپنے حقیقی احساسات بیان کرنے پر مجبور ہوں.

ان دو سوالوں میں سے پہلا سوال تو یہ ہے کہ 
مَتٰی ہُوَ؟ (بنی اسرائیل:۵۱کے مصداق غلبۂ اسلام کایہ مرحلہ کب شروع ہو گا؟ اور دوسرا یہ کہ اگر اس کا آغاز پاکستان ہی سے ہونا ہے تو ؏ ’’کب کھلا تجھ پر یہ راز‘ا نکار سے پہلے کہ بعد؟‘‘ کے مصداق آیا پاکستان میں دین حق کا غلبہ اور نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوت کا قیام کسی سقوطِ مشرقی پاکستان جیسے‘یا اس سے بھی عظیم تر سانحے اور حادثے کے بعد ہوگا؟یا اس سے قبل کسی خارجی افتاد کے بغیر ہی ’’رضاکارانہ توبہ‘‘ کے ذریعے ہو جائے گا؟

جہاں تک 
’’متَیٰ ھُوَ‘‘ یعنی ’’یہ کب ہو گا؟‘‘ کا تعلق ہے‘ہمیں قرآن حکیم سے بھی اس سوال کے دو جواب ملتے ہیں‘چنانچہ پہلا جواب تو وہی ہے جو سورۂ بنی اسرائیل کی اسی آیت (۵۱) میں بایں الفاظ وارد ہوا ہے: قُلۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَرِیۡبًا ﴿۵۱﴾ یعنی ’’(اے نبی !) کہہ دیجیے کہ عین ممکن ہے کہ وہ بالکل ہی قریب آ گیا ہو!‘‘ بالکل اسی طرح کی ایک بات سورۃ المعارج میں بھی وارد ہوئی ہے: اِنَّہُمۡ یَرَوۡنَہٗ بَعِیۡدًا ۙ﴿۶﴾وَّ نَرٰىہُ قَرِیۡبًا ؕ﴿۷﴾ یعنی ’’یہ لوگ اسے دور سمجھ رہے ہیں جب کہ ہم اسے بالکل قریب دیکھ رہے ہیں!‘‘ اور دوسرا وہ عمومی جواب ہے جو قرآن حکیم میں متعدد بار آیا ہے‘یعنی یہ کہ: ؕ وَ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ اَمۡ بَعِیۡدٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ ﴿۱۰۹﴾ (الانبیاء) یعنی ’’(اے نبی ! کہہ دیجیے کہ) میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ قریب آ چکی ہے یا ابھی دور ہے!‘‘ اور قُلۡ اِنۡ اَدۡرِیۡۤ اَقَرِیۡبٌ مَّا تُوۡعَدُوۡنَ اَمۡ یَجۡعَلُ لَہٗ رَبِّیۡۤ اَمَدًا ﴿۲۵﴾ (الجن ) یعنی ’’(اے نبی !) کہہ دیجیے کہ میں نہیں جانتا کہ جس چیز کا وعدہ تم سے کیا جا رہاہے وہ عنقریب پیش آنے والی ہے یا ابھی میرا ربّ اس کے ضمن میں کچھ تأخیر فرمائے گا!‘‘ 

بہرحال سورۂ بنی اسرائیل کی محولہ بالا آیت کے مطابق میری رائے بھی یہی ہے کہ پہلے پاکستان اور افغانستان‘اور پھر کل روئے ارضی پر دین محمد  کا غلبہ اب زیادہ دُور کی بات نہیں ہے. (اگرچہ دونوں مؤخر الذکر آیات کے مطابق اس کا حتمی علم صرف اللہ کو ہے) تاہم میرے تردّد کی بنیاد یہ ہے کہ تاحال اس کے آثار کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آ رہے. بلکہ ہم بحیثیت قوم و ملت روز بروز سورۂ آل عمران کی آیت ۱۶۷ میں وارد اِن الفاظ کے زیادہ سے زیادہ مصداق بنتے چلے جا رہے ہیں: 
ہُمۡ لِلۡکُفۡرِ یَوۡمَئِذٍ اَقۡرَبُ مِنۡہُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ (وہ اُس روز ایمان کے مقابلے میں کفر سے قریب تر تھے!) اور واقعہ یہ ہے کہ اگر میرے سامنے حیات ِ نبوی ؑ اور سیرتِ مطہرہ کا ایک خاص مرحلہ نہ ہوتا تو ؏ ’’اُڑتے اُڑتے دُور اُفق پر آس کا پنچھی ڈوب گیا!‘‘ کے مصداق میری اُمید کب کی دم توڑ چکی ہوتی.اس لیے کہ میں بحمداللہ خوب اچھی طرح محسوس کر سکتا ہوں کہ سن دس نبوی ؐ میں جناب ابو طالب کے انتقال کے بعد عالم اسباب کے اعتبار سے مکہ مکرمہ میں نبی اکرم کے لیے واحد امان اُٹھ گئی اور کفارِ مکہ کے لیے نبی اکرم  کے قتل کی راہ میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہی‘چنانچہ آپ ؐ اپنی دعوت اور تحریک کے لیے کسی متبادل مرکز کی تلاش میں طائف تشریف لے گئے. لیکن وہاں آپ کو ایک دن میں وہ سختی جھیلنی پڑی جس کا سامنا اس سے قبل مکہ میں پورے دس سال کے دوران میں ذاتی طور پر آپ ؐ کو کبھی نہیں ہوا تھا. چنانچہ واپسی پر آپ کی زبانِ مبارک پر وہ دلدوز فریاد بھی آئی جو حدیث اور سیرت کی کتابوں میں محفوظ ہے‘اور پھر اسی مایوسی کے عالم میں جب آپ ؐ مکہ واپس تشریف لائے تو سردارانِ قریش میں سے کسی کی امان حاصل کیے بغیر مکہ میں داخلہ ممکن نظر نہ آیا.

چنانچہ دو اشخاص کی جناب سے آپؐ ‘کی فرمائش کا کورا جواب ملنے کے بعد بالآخر ایک کافر و مشرک لیکن شریف النفس انسان مطعم بن عدی اپنے چھ ہتھیار بند بیٹوں کے ہمراہ مکہ سے باہر آیا اور آپؐ کے لیے اپنی امان کا اعلان کرتے ہوئے آپ ؐ ‘کو ساتھ لے کر مکہ میں داخل ہوا تو اُس وقت نہ آپ ؐ ‘ کی دعوت کے پنپنے کا کوئی امکان کسی کو نظر آ سکتا تھا‘نہ آپ ؐ ‘کی کامیابی کے لیے امید کی کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ کرن کسی کو دکھائی دے سکتی تھی! اس کے باوجود کل دس سال کی مدت میں انقلاب ِ عظیم برپا ہو گیااور چشم گیتی نے وہ نظارہ دیکھ لیا کہ آپؐ ۱۰ رمضان المبارک سن ۸ ہجری کو اسی مکہ مکرمہ میں اپنے دس ہزار ساتھیوں کے جلو میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے.گویا اللہ کی قدرت سے کچھ بھی بعید نہیں ہے. چنانچہ صرف اسی کے فضل و کرم کے سہارے اور اسی کی قدرت ِ کاملہ کی بناپر میری یہ امید قائم ہے کہ‘ اِن شاء اللہ‘ اسی سر زمین پاکستان و افغانستان سے اس عمل کا آغاز ہوگا ‘جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر ؏ ’’شب گریزاں ہو گی آخر جلوۂ خورشید سے‘‘ اور ؏ ’’یہ چمن معمور ہو گا نغمہ ٔ‘ توحید سے!‘‘ کی کیفیت پیدا ہو کر رہے گی! (واضح رہے کہ مطعم بن عدی حالتِ کفر ہی میں فوت ہو گیا تھا‘لیکن آنحضور کو اس کے احسان کا اس درجہ پاس تھا کہ آپؐ نے غزوۂ بدر کے بعد قریش کے ستر قیدیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ: ’’اگر آج مطعم زندہ ہوتا اور وہ ان کی سفارش کرتا تو میں ان سب کو بغیر کسی فدیے اور تاوان کے رہا کر دیتا!‘‘)
اس ’’گمانِ غالب‘‘ یا امید واثق (جس کی سرحدیں ’’یقین‘‘ سے جا ملتی ہیں) کے اظہار کے بعد کہ ‘ان شاء اللہ العزیز‘ اسلام کے عالمی غلبے اور کل روئے ارضی پر نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوت کے قیام کا نقطۂ آغاز ارضِ پاکستان اور اس سے ملحق افغانستان کا وہ علاقہ بنے گا جو ماضی میں خراسان کہلاتا تھا‘ اب آیئے اس دوسرے سوال کی جانب جس کے جواب کے بارے میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ میں بہت متردّد ہوں‘یعنی یہ کہ آیا پاکستان میں یہ عظیم انقلاب ’’کسی سقوط ِ مشرقی پاکستان جیسے یا اس سے بھی عظیم تر سانحے یا حادثے کے بعد ہو گا‘یا اس سے قبل کسی خارجی افتاد کے بغیر ہی رضا کارانہ توبہ کے ذریعے ہو جائے گا؟‘‘ تو واقعہ یہ ہے کہ اس کے بارے میں اپنے حقیقی احساسات اور خدشات کے اظہار اور انہیں نوک ِ زبان یا نوکِ قلم پر لانے سے شدید خوف محسوس ہوتا ہے‘اس لیے کہ تلخ حقائق کو تو تسلیم کرنا بھی بہت مشکل ہوتا ہے‘کجا ان کا مواجہہ کرنا (یعنی انہیں 
’’face‘‘ کرنا) کہ وہ تو بہت ہی دل گردے کا کام ہے. جب کہ عام طور پر لوگوں کا طرزِ عمل اس روایتی کبوتر ہی کا ہوتا ہے جو بلی کو سامنے دیکھ کر آنکھیں بند کر لینے میں عافیت محسوس کرتا ہے. (حالانکہ ظاہر ہے کہ اس سے خطرہ تو نہیں ٹل جاتا اور حقیقت تو نہیں بدل جاتی!) لہذا شدید اندیشہ ہے کہ میرے خیالات کو قنوطیت اور یاس پسندی سے تعبیر کیا جائے گا اور بہت سے دانشور انہیں ’’منفی سوچ‘‘ کا مظہر قرار دیں گے. تاہم ؏ ’’مجھے ہے حکم اذاں‘لا الٰہ الاّ اللہ‘‘ !کے مصداق میں یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ ہم بحیثیت ملک و قوم عذاب ِ الٰہی کے دوسرے اور شدید تر کوڑے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں.اور ؎

’’ہم نے تو جہنم کی بہت کی تدبیر
لیکن تری رحمت نے گوارا نہ کیا!‘‘

کے مصداق ہم اپنے اعمال کے اعتبار سے تو ’’عذاب اکبر‘‘ کے قطعی مستحق ہو چکے ہیں‘یہ دوسری بات ہے کہ اللہ اپنے خصوصی فضل و کرم کے طفیل ہمیں قومِ یونس علیہ السلام کی سی توبہ کی توفیق عطا فرما دے. (اللہ سے دعا ہے کہ ایسا ہی ہو!) کچھ عرصہ قبل انہی کالموں میں ’’قرآن کا قانونِ عذاب‘‘ کے موضوع پر مفصل گفتگو ہو چکی ہے ‘جس کے سلسلے میں سورۃ السجدۃ کی آیت ۲۱ کا حوالہ بھی آیا تھا‘جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ مستقل ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ وہ کسی قوم پر آخری ’’عذابِ استیصال‘‘ سے قبل یعنی اس عذاب سے پہلے جس کے ذریعے اس کا نام و نشان مٹا دیا جائے‘چھوٹے عذاب نازل فرماتا ہے ‘تاکہ اگر وہ ہوش میں آ سکتی ہو تو آ جائے اور تو بہ وانابت کی روش اختیار کر کے ’’عذابِ اکبر‘‘ سے بچ جائے. مزید برآں اس عذاب استیصال کے بارے میں یہ بات بھی واضح کی جا چکی ہے کہ چونکہ یہ صرف ان قوموں پر نازل کیا جاتا رہا ہے جن کی جانب اللہ کے رسول مبعوث ہو کر اتمامِ حجت کا حق ادا کر چکے ہوں‘ (۱لہذا نبی اکرم پر نبوت اور رسالت کے سلسلے کے ختم ہو جانے کے بعد اس نوع کا عذاب کسی ’’نئی‘‘ قوم پر نہیں آئے گا. بلکہ یہ حتمی اور کلی طور پر صرف سابقہ اُمت مسلمہ یعنی یہود پر آئے گا جو اوّلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جو اُن کی جانب مبعوث کیے گئے تھے‘ ردّ کرنے کے باعث اس کے مستحق ہو گئے تھے‘اور ثانیاً جب نبی اکرم  کی بعثت مبارکہ کے وقت انہیں ایک ’’رحم کی اپیل‘‘ کا موقع (۲دیا گیا تواسے بھی ضائع کرنے کے باعث حتمی اور قطعی طور پر ذلت و مسکنت‘لعنت خداوندی اور غضب الٰہی کے مستوجب ہو گئے تھے. یہ دوسری بات ہے کہ‘جیسے کہ اس سے قبل تفصیل کے ساتھ عرض کیا جا چکا ہے‘ ان کی اس آخری اور ’’استیصالی‘‘ سزا کی تنفیذ اس لیے مؤخر کر دی گئی کہ موجودہ اُمتِ مسلمہ کے افضل اور برتر حصے یعنی مسلمانانِ عرب پر عذاب اس مغضوب اور ملعون قوم کے ہاتھوں نازل کیا جائے تاکہ درد و الم پر توہین و تذلیل کا اضافہ ہو جائے. (جس کا آغاز پینتالیس سال قبل یعنی ۱۹۴۸ء میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہو چکا ہے اور جس میں ’’کتاب الملاحم‘‘ میں وارد شدہ پیشین گوئیوں کے مطابق مستقبل میں حد درجہ شدت پیدا ہونے والی ہے!)

رہی موجودہ اُمتِ مسلمہ یعنی اُمتِ محمد تو اس پر کلی اور مجموعی حیثیت سے تو یہ (۱) سورۂ بنی اسرائیل‘آیت ۱۵ اور سورۃ القصص‘آیت ۵۹.

(۲) سورۂ بنی اسرائیل‘آیت ۷ و۸
نام و نشان مٹا دینے والا عذاب ہرگز نہیں آ سکتا‘اس لیے بھی کہ یہ آخری اُمت ہے اور اسے تا قیامِ قیامت باقی رہنا ہے. (جیسے کہ آنحضور نے ارشاد فرمایا: ’’میں آخری رسول ہوں اور تم آخری اُمت ہو!‘‘) اور اس لیے بھی کہ اس کا اصل جرم بے عملی یا بدعملی ہے‘رسول  کی رسالت کا انکار نہیں! تاہم اس بے عملی و بدعملی اور بدعہدی و بے وفائی کی پاداش میں کسی مخصوص خطے اور علاقے سے اس کا نام و نشان مٹا دیا جانا ہرگز بعید از قیاس نہیں ہے. چنانچہ ہسپانیہ کی تاریخ اس کا مُنہ بولتا ثبوت ہے کہ وہ سر زمین جس پر مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک حکومت کی‘وہاں سے ؏ ’’مٹے نامیوں کے نشان کیسے کیسے!‘‘ کے مصداق اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹے پورے پانچ سو برس ہو گئے ہیں. فَاعْتَبِرُوْا یَا اُولِی الْاَبْصَار!

ان سطور کے ناچیز راقم نے اب سے ساڑھے چھ سال قبل (جنوری ۱۹۸۷ء میں) اپنی تالیف ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ شائع کی تو اس کے ذیلی سرورق پر یہ الفاظ تحریر کیے تھے:

’’۱۹۹۳ھ مطابق ۷۱۲ء میں اسلام بیک وقت برِّعظیم ہند میں براستہ سندھ‘اور براعظم یورپ میں براستہ سپین داخل ہوا تھا. سپین سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوئے پانچ سو برس ہو چکے ہیں. کیا اب وہی تاریخ سندھ میں بھی دہرائی جانے والی ہے؟ ؎

آگ ہے‘اولادِ ابراہیم ؑ ہے‘نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟‘‘

اور آج راقم گہرے درد و رنج کے ساتھ یہ عرض کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پا رہا ہے کہ ان ساڑھے چھ سال کے دوران وقت کے دریا میں جو مزید پانی بہہ گیا ہے اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے برعظیم پاک و ہند میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں!اس لیے کہ ایک جانب اس تلخ حقیقت سے اختلاف کی کسی بھی شخص کے لیے ذرہ بھر گنجائش نہیں ہے کہ ہم نے ۱۹۷۱ء کے ’’عذابِ ادنیٰ‘‘ سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا. اورڈھاکہ کے سقوط‘ملک کے دولخت ہونے‘مشرقی پاکستان کی بنگلہ دیش کی صورت میں قلب ماہیت‘اور ان سب پر مستزاد ان ہندوئوں کے ہاتھوں شرمناک اور ذلت آمیز شکست اور ترانوے ہزار مسلمانوں کی اسیری جن پر کہیں چھ سو‘کہیں آٹھ سو اور کہیں ایک ہزار برس تک حکومت کی تھی (جس پر اندرا گاندھی کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ ’’ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ چکا لیا ہے!‘‘) کے نتیجے میں نہ ہماری قومی اور اجتماعی روش میں کوئی تبدیلی آئی‘نہ ہی افراد کی ترجیحات یا مشاغل میں سرِموفرق واقع ہوا‘بلکہ بحیثیت ِ مجموعی ہم ہر اعتبار سے زوال اور اضمحلال ہی کی جانب رواں دواں ہیں. چنانچہ ہمارا داخلی انتشار ہے کہ روزبروز بڑھتا چلا جا رہا ہے‘تاآنکہ حالیہ سیاسی بحران کے دوران میں بعض دوسرے سیاسی اور قومی رہنماؤں کے اسی نوع کے بیانوں کے علاوہ خان ولی خان کا یہ ’’عریاں‘‘ بیان بھی شائع ہو چکا ہے کہ ’’معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان ختم ہو چکا ہے!‘‘ اسی طرح معیشت ہے کہ تباہی کے آخری کنارے کو پہنچا چاہتی ہے. قوم کے منتخب نمائندوں کو اب ’’بکاؤ گھوڑوں‘‘ سے بڑھ کر ’’لوٹوں‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے. حالیہ چپقلش کے ضمن میں صدرِ مملکت کو سر عام گالیاں دی گئیں اور ان کے نت نئے کارٹون اور کیری کیچر شائع ہوئے. اس سے بھی بڑھ کر عدلیہ پر کھلے بندوں فقرے چست کیے گئے‘حتیٰ کہ اعلیٰ عدالتوں پر پتھراؤ بھی ہوا. الغرض واقعتاً ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ہم قومی اور ملکی اعتبار سے ؎

’’اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہانِ کاف و نوں!‘‘

کی حد کو پہنچ چکے ہیں. جب کہ دوسری طرف بین الاقوامی سیاست میں زمین و آسمان کا فرق واقع ہو چکا ہے. دنیا دو سپر پاورز کی کشاکش کی آماجگاہ ہونے کی بجائے ایک ’’سول سپریم پاور‘‘ کے حیطۂ اقتدار میں آ چکی ہے. چنانچہ اب کمزور قوموں اور چھوٹے ملکوں کے options بہت محدود ہو چکے ہیں. اور اِدھر ہم جس کی دوستی کا دم بھرتے رہے اور جس کی حمایت کے سہارے جیتے رہے ‘بلکہ جس کے گھڑے کی مچھلی بنے رہے (یعنی امریکہ)‘وہ نہ صرف یہ کہ ؏ ’’آں قدح بشکست و آں ساقی نہ ماند!‘‘ کا مصداقِ کامل بن گیا ہے‘ بلکہ اب ہر اعتبار سے بھارت کو ترجیح دینے کی پالیسی کے ناطے ؏ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے!‘‘کا مظہر اَتم بن گیا ہے. اور صرف ہمارے لیے ہی نہیں‘پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کے مستقبل کے اعتبار سے خطرناک ترین اور خوفناک ترین امر یہ ہے کہ اس ’’سول سپریم پاور آن ارتھ‘‘ کی پالیسیوں کی تشکیل اور فیصلوں کی تعیین میں یہودیوں کو فیصلہ کن اثر و نفوذ حاصل ہے‘جس کے نتیجے میں ’’نیوورلڈ آرڈر‘‘ فی الواقع ’’جیوورلڈ آرڈر ‘‘ بن گیا ہے!

تیسری جانب بھارت میں متعصب ہندو ذہنیت کاجارحانہ احیاء ہے‘ جس کی شدت نے دیکھتے ہی دیکھتے طوفانی صورت اختیار کر لی ہے. تقسیم ہند کے بعد لگ بھگ پچیس برس تک بھارت میں ہندو مت کے احیاء کے کوئی آثار نہیں تھے‘بلکہ بھارت کی سیاسی اور سماجی زندگی پر انڈین نیشنل کانگریس کو فیصلہ کن غلبہ حاصل تھا ‘جس میں اگرچہ متعصب اور کٹر ہندو بھی یقینا شامل تھے‘تاہم اس کی قیادت میں فیصلہ کن عمل دخل سیکولر مزاج کے حامل لوگوں کو حاصل تھا. لیکن ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دو لخت ہونے کے باعث اس کے رعب اور دبدبے میں جو کمی آئی اس سے بھارت میں عوامی سطح پر ہندو قوم پرستی کے جذبے کو تقویت ملی اور نہ صرف بھارت میں ہندو راشٹر کے قیام بلکہ پراچین بھارت کی عظمت ِ رفتہ اور سطوت ِ گزشتہ کی بازیافت کی امنگ پیدا ہوئی.

اس جلتی پر تیل کا کام اس حادثے نے کیا کہ جب اسّی کی دہائی کے آغاز میں جبری نس بندی کے ردّ عمل میں مسلمان ووٹ بحیثیت مجموعی کانگریس کے خلاف پڑا تو اس پر ’’جواب ِ آں غزل‘‘ کے انداز میں اگلے انتخابات میں اندرا گاندھی نے ’’ہندو دیوی‘‘ کا روپ دھار کر خالص ہندو ووٹ کے ذریعے دوبارہ اقتدار حاصل کر لیا. اور اس طرح بھارت میں ریاستی اور حکومتی سطح پر اور بالخصوص ذرائع ابلاغ کی وساطت سے ہندو فنڈامنٹلزم کو فروغ حاصل ہوا‘جس کا نتیجہ سامنے ہے کہ بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) جو راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سیاسی فرنٹ کی حیثیت رکھتی ہے‘بھارت 
میں عظیم قوت بن کر ابھری ہے اور پوری ہندی بیلٹ (راجپوتانہ‘ہریانہ‘اترپردیش‘مدہیہ پردیش اور گجرات) میں تو غالب سیاسی طاقت بن ہی چکی ہے‘اب جنوبی بھارت میں بھی قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے.

اِدھر خود آر ایس ایس کا حال یہ ہے کہ ایک جانب اب سے لگ بھگ دس برس قبل شکاگو سے جو ایک ضخیم تصنیف اس کے بارے میں "Brotherhood in Saffron" کے نام سے شائع ہوئی تھی اس میں اس کے تربیت یافتہ کارکنوں کی تعداد پچیس لاکھ بتائی گئی تھی. (اس پر اس عرصے میں جو اضافہ ہوا ہو گا اس کا اندازہ خود لگا لیجیے !) دوسری جانب اس کی مستقل مزاجی کا عالم یہ ہے کہ ستر برس کے لگ بھگ عرصہ اس کے قیام کو ہونے کو آیا‘ لیکن اس نے کبھی انتخابات میں شریک ہو کر ’’پاور پالیٹکس‘‘ میں وقت ضائع کرنا ہرگز گوارا نہیں کیا‘بلکہ ساری توجہ کو پوری تند ہی کے ساتھ اپنے کارکنوں کی تنظیم ‘ تربیت اور سماجی خدمت کے کاموں پر مرکوز رکھا.(واضح رہے کہ یہ جماعت قائم بھی خاکسار تحریک کے ردّ عمل ہی میں ہوئی تھی.) اور تیسری جانب اس کے کارکنوں کے نظم و ضبط کا اندازہ اس سے لگایاجا سکتا ہے کہ دسمبر ۱۹۹۲ء کے پہلے ہفتے میں ان کے تین لاکھ کارکن بابری مسجد کو گرانے کے لیے ایودھیا میں جمع ہوئے‘اور ظاہر ہے کہ وہ بھارت کے کونے کونے سے طویل سفر طے کر کے آئے تھے‘لیکن مسجد کے شہید کیے جانے تک کہیں ان کے کارکنوں کے مشتعل ہو کر کسی مسلمان کی جان ‘مال یا عزت پر ہاتھ ڈالنے کا کوئی واقعہ نہیں ہوا. چنانچہ اب بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کی موجودہ صورت حال اور مستقبل کے اندیشوں کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ شنید ہے کہ اس عظیم تنظیم کے رہنما (گورو) دیورس نے حال ہی میں ایک گشتی مراسلہ بھارت کی تمام ہندو سیاسی‘سماجی اور مذہبی تنظیموں کو ارسال کیا ہے ‘جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ:

’’اب ہمیں بھارت کی پاک زمین سے مسلمانوں کی نجاست کو حتمی طو رپر ختم کرنے کا آخری فیصلہ کر گزرنا چاہیے. اور میں آپ سب کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اس پر کچھ معمولی سا ردّ عمل پاکستان اور بنگلہ دیش میں تو ہو سکتا ہے‘جس کی 
ہمیں پرواہ کرنے کی ضرورت نہیں‘باقی پوری دنیا کے مسلمانوں سے کسی ناموافق ردّ عمل کا کوئی اندیشہ نہیں ہے!‘‘

اندریں حالات بھارت کا مسلمان تو مسلسل خوف کی حالت سے دو چار ہے ہی‘ (اس لیے کہ اسے تو مسلسل یہ نعرہ سننا پڑتا ہے کہ ’’مسلمان کے دو استھان: پاکستان یا قبرستان!‘‘) لیکن جگر کے اس شعر کے مصداق کہ: 

’’آسودۂ ساحل تو ہے مگر شاید یہ تجھے معلوم نہیں
ساحل سے بھی موجیں اٹھتی ہیں‘خاموش بھی طوفاں ہوتے ہیں!‘‘

ہم مسلمانانِ پاکستان کو بھی کسی مغالطے میں مبتلا نہیں رہنا چاہیے . اس لیے کہ ایک جانب بھارت کے ہندو فنڈامنٹلزم کا علاقائی عملداری کا دعویٰ انڈونیشیا سے افغانستان تک‘ معاشی استحصال کی امنگیں اس سے بھی آگے ایران و عرب تک ‘اور بحری بالادستی کا عزم پورے بحر ہند پر یعنی آسٹریلیا سے افریقہ تک ہے. اور دوسری طرف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ اور ہنود و یہود کا اشتراکِ عمل بڑی تیزی کے ساتھ رسمی اور روایتی سفارتی تعلقات سے بہت آگے بڑھ رہا ہے! اور اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے توسیعی عزائم یعنی عظیم تر اسرائیل کے قیام کی راہ میں واحد مسلمان ملک جو مزاحم ہو سکتا ہے وہ صرف پاکستان ہے‘جس کے ایٹمی دانت یا نکل چکے ہیں یا نکلنے کا اندیشہ ہے! اور تیسری جانب امریکہ وسطی ایشیا کی نو آزاد مسلمان ریاستوں کے سیاسی‘معاشی یہاں تک کہ سماجی روابط بھی مغرب میں اسرائیل اور سیکولر ترکی اور مشرق میں بھارت کے ساتھ استوار کرانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے. الغرض‘ان جملہ داخلی و خارجی عوامل کا ’’حاصل جمع‘‘ اقبال کے الفاظ میں یہ ہے کہ ؏ ’’تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!‘‘ اور ہم بحیثیت ِ ملک و قوم اس وقت بالکل اسی صورت حال سے دو چار ہو چکے ہیں جس کے پیش نظر بخت نصر کے ہاتھوں عظیم سلطنت اسرائیل اور مقدس شہریروشلم کی کامل تباہی سے قبل انبیاء بنی اسرائیل اپنی قوموں کو ان الفاظ میں متنبہ کرتے رہے تھے کہ: ’’ہوش میں آ جاؤ‘ورنہ جان لو کہ درخت کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا جا چکا ہے!‘‘

۲۰؍جولائی ۱۹۹۳ء