ہماری نجات کا واحد ذریعہ اجتماعی توبہ جو کچھ گزشتہ صحبت میں عرض کیا گیا تھا اس کے پیش نظر اس انگریزی مقولے کے مطابق کہ ’’امید تو بہترین کی کرو‘ لیکن تیار بدترین کے لیے رہو!‘‘ اس خطۂ ارضی کے مستقبل کے بارے میں‘ جس میں پاکستان واقع ہوا ہے‘ بہترین سے بدترین تک تین ممکنہ صورتیں نظر آتی ہیں: پہلی صورت جو نہایت خوش آئند اور تابناک ہے ‘یہ کہ ؎

’’پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی!‘‘

کے مصداق ملت ِ اسلامیہ پاکستان کو قومِ یونس ؑکی سی توبہ کی توفیق مل جائے. چنانچہ اوّلاً افراد واشخاص کی ایک معتدبہ تعداد اللہ کے حضور میں سچی اور خالص توبہ کرے‘ اور ایک جانب اپنے عقائد کی تصحیح کرے اور توحید خالص کا دامن از سر نو مضبوطی کے ساتھ تھامے‘ دوسری جانب فسق و فجور کو ترک کرے اور اپنی معیشت اور معاشرت کو حرام اور منکر سے پاک کرے‘ اور تیسری جانب غلبۂ اسلام اور قیامِ نظامِ خلافت کی منظم جدوجہد کے لیے تن من دھن وقف کر دے. ثانیاً اس طرح جو منظم قوت وجود میں آئے وہ ملکی سیاست اور اقتدار کی کشاکش سے بالکل علیحدہ رہتے ہوئے اپنی جملہ مساعی اور تمام تر توانائیوں کو مزاحمتی تحریک کے لیے وقف کر دے ‘اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کے ضمن میں فطری تدریج کے ساتھ ’’بِاللِّسان‘‘ یعنی زبان اور نشر و اشاعت کے دیگر ذرائع سے تدریجاً آگے بڑھ کر ’’بِالیَد‘‘ یعنی قوت کے ساتھ مزاحمت کی راہ اختیار کرے‘ اوراس طرح ارضِ پاکستان پر اللہ کے دین کوغالب اور اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کو نافذ کر دے. 

اگر ایسا ہو جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ نہ صرف یہ کہ قیام پاکستان کے لیے جو قربانیاں مسلمانانِ ہند نے دی تھیں وہ رائیگاں نہیں گئیں‘ بلکہ الف ثانی کی جملہ چار سو سالہ تجدیدی مساعی بھی بار آور ہو گئیں. اس لیے کہ اس صورت میں ارضِ پاکستان کو فوری طور پر اسلام کی نشأۃ ِثانیہ کا گہوارہ اور عالمی غلبۂ اسلام کا نقطۂ آغاز بننے کی سعادت حاصل ہو جائے گی. اب ظاہر ہے کہ ہر مسلمان کی دلی خواہش بھی یہی ہوگی کہ ایسا ہو جائے‘ اور اسی کی دعا بھی ہر قلب کی گہرائی سے بلند ہو گی‘ اور ’’جب تک سانس تب تک آس!‘‘ کے مطابق ہمیں آخری دم تک کوشش بھی اسی کی کرنی چاہیے. لیکن یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ اس کے کچھ ناگزیر لوازم و شرائط ہیں جن کا اجمالی ذکر اوپر بھی ہو چکا ہے اور کسی قدر وضاحت سے آگے دوبارہ ہو گا.

دوسری ممکنہ صورت یہ ہے کہ چونکہ سر زمین مشرقی پاکستان ہم مغربی پاکستان کے رہنے والوں کی نگاہوں سے دور تھی‘ اور ’’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘‘ کے مصداق ۱۹۷۱ء کے ’’عذابِ ادنی ٰ‘‘ کے شدائد کو ہم نے براہِ راست محسوس نہیں کیا‘ لہذا شاید کہ ہماری آنکھیں کھولنے اور ہمیں توبہ اور رجوع پر آمادہ کرنے کے لیے ایک مزید ’’عذابِ ادنی ٰ‘‘ کی ضرورت ہو. چنانچہ جس عذاب کے سائے افق پر منڈلاتے نظر آ رہے ہیں وہ عذابِ ادنی ٰ ہی کا ایک اور کوڑا ہو. اور اگرچہ اقبال کا یہ شعر کہ ؎

’’اگر عثمانیوں پر کوہِ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے!
کہ خونِ صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا!‘‘

تاحال ترکوں پر تو صادق نہیں آ سکا‘ لیکن کیا عجب کہ ہم پر صادق آ جائے!
تیسری اور آخری‘ اور حد درجہ قابل حذر صورت‘ جو بحالاتِ موجودہ ہرگز بعیداز قیاس نہیں ہے‘ یہ ہے کہ‘ خاکم بدہن‘ ہمیں اپنے کرتوتوں اور فروگزاشتوں کی پاداش میں اپنے کسی دشمن کے ہاتھوں عبرتناک سزا دلوائی جائے‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ[قرآن کے الفاظ لِیَسُوۡٓءٗا وُجُوۡہَکُمۡ (بنی اسرائیل : ۷)کے مطابق] ہمارے حلیے بگڑ جائیں بلکہ اس علاقے کا جغرافیہ ہی بدل جائے‘ اور عظیم سلطنت عثمانیہ اور عظیم سوویت یونین کے مانند ‘ اور ؏ ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں!‘‘کے مصداق ’’سلطنت ِ خداداد پاکستان‘‘ کا نام و نشان بھی دنیا کے نقشے سے حرفِ غلط کی طرح مٹ کر رہ جائے!

اللہ نہ کرے ایسا ہو‘ اور اگرچہ قرائن اور شواہد کے اعتبار سے تو اب معاملہ ایک انگریزی محاورے کے مطابق ’’امید کے خلاف امید‘‘ 
(Hoping against hope) کا ہے‘ تاہم مجھے اب بھی امید ہے کہ اِن شاء اللہ ایسا نہیں ہوگا. لیکن اگر خدانخواستہ ایسا ہو گیا تب بھی میری یہ ’’امید واثق‘‘ اپنی جگہ برقرار رہے گی کہ عالمی غلبۂ اسلام اور کل روئے ارضی پر نظامِ خلافت علیٰ منہاج النبوت کا قیام‘ جو تقدیر مبرم کے مانند اٹل ہے‘ اسی خطۂ ارضی سے شروع ہو گا.اس لیے کہ ؎

’’ہے عیاں فتنۂ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے!‘‘

کے مصداق تاریخ اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے. اور جس طرح اب سے لگ بھگ سات آٹھ سو سال قبل اللہ تعالیٰ نے عربوں کو تاتاریوں کے ہاتھوں پٹوایا‘ او رپھر خو داُن کو اسلام کی توفیق عطا کرکے عالم اسلام کی قیادت سونپ دی‘ اسی طرح عین ممکن ہے کہ ہمارا کوئی دشمن ہمیں فتح کر لے لیکن پھر خود اسلام کے ہاتھوں مفتوح ہو جائے! اس لیے کہ بعض ایسے حضرات جن کی نگاہ ایک جانب تاریخ اور رفتارِ زمانہ پر بھی ہے‘ اور دوسری جانب قرآن اور دیگر کتب ِ سماویہ کے علاوہ ہندوستان کی قدیم مذہبی کتابوں پر بھی‘ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اُمت ِ مسلمہ کی قیادت جو اوّلاً عربوں کو عطا کی گئی تھی‘ جو حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے حضرت سام کی نسل سے تھے‘ پھر ترکوں کو منتقل کر دی گئی تھی جو حضرت نوح علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت یافث کی نسل سے تھے‘ اب جنوبی ایشیا کے ان لوگوں کو منتقل ہونے والی ہے جو حضرت نوح علیہ السلام کے تیسرے بیٹے یعنی حضرت حام کی نسل سے ہیں. واللہ اعلم! 
بہرصورت‘ جیسے کہ اوپر عرض کیا گیا‘ ہمارا فرض یہ ہے کہ ؎

’’سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامانِ خیالِ یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے!‘‘

کے مصداق دامن امید کو حتی الامکان مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھنے کی کوشش کریں‘ اور ؏ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ! ‘‘ کے مطابق چمن پاکستان میں ’’چمن سے روٹھی بہار‘‘ کو واپس لانے کی ہر ممکن سعی کریں اور اس سلسلے میں قومِ یونس علیہ السلام کی مثال ہمارے لیے بہت ہمت افزا ہے. چنانچہ سورۂ یونس کی آیات ۹۶ تا ۹۸ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ کا مستقل قانون تو یہی ہے کہ جس طرح کسی انسان پر موت کے آثار شروع ہو جانے کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے‘ اسی طرح کسی قوم پر آخری اور بڑے عذاب کے آثار شروع ہونے کے بعد اس کے ایمان لانے یا توبہ کرنے سے عذاب نہیں ٹالا جاتا‘ لیکن اس قاعدۂ کلیہ میں ایک استثناء کا معاملہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے ساتھ ہوا کہ ان کی توبہ عذابِ استیصال کے آثار شروع ہونے کے بعد بھی قبول کر لی گئی .تو اگرچہ قومِ یونس علیہ السلام کے ضمن میں تو اس استثناء کا سبب کچھ اور تھا‘ تاہم چونکہ ہم پر فی الوقت کسی رسول کے ذریعے اتمامِ حجت نہیں ہوا ہے‘ لہذا ہم بھی اللہ تعالیٰ کی شانِ غفاری سے استغاثہ کرنے کے مستحق ہیں‘ اور توقع کر سکتے ہیں کہ اگر ہم سچی توبہ (توبۂ نصوح) کا حق ادا کر دیں تو آنے والا عذاب ٹل سکتا ہے.

البتہ کسی قوم کو دنیا میں اس ’’رسوا کن عذاب‘‘ سے نجات پا کر ایک نئی ’’مہلت ِ حیات‘‘ کی حق دار قرار دینے والی ’’توبہ‘‘ کے کچھ لوازم و شرائط ہیں ‘جن کا فہم و ادراک ضروری ہے:

۱) اوّلاً یہ کہ اگرچہ ’’اجتماعی توبہ‘‘ کا نقطۂ آغاز لا محالہ انفرادی توبہ ہی ہوتی ہے‘ لیکن انفرادی توبہ کے ذریعے صرف اُخروی عذاب سے نجات کی ضمانت مل سکتی ہے‘ اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ وہ واقعی ’’توبۂ نصوح‘‘ ہو جس کی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبویہ ؑ کی روشنی میں جو شرائط معین کی گئی ہیں وہ حقوق اللہ کے ضمن میں ہونے والی تقصیرات کے معاملے میں تو تین ہیں‘ لیکن حقوق العباد سے متعلق گناہوں کے 
معاملے میں چار ہیں. یعنی ان دونوں قسم کے گناہوں کے ضمن میں تو یہ تین شرائط مشترک ہیں کہ: (i) ایک یہ کہ حقیقی اور واقعی ندامت موجود ہو‘ بقول اقبال: ؎

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے!

(ii) دوسرے یہ کہ آئندہ کے لیے عزمِ مصمم ہو کہ اس گناہ کا ارتکاب کبھی نہیں کروں گا. (iii) تیسرے یہ کہ بالفعل بھی اس گناہ کو واقعتا ترک کر دے. اور ان پر مستزاد حقوق العباد کے ضمن میں ایک چوتھی اضافی شرط یہ ہے کہ شخص متعلق کا جو حق تلف یا غصب کیا تھا اس کی تلافی کرے‘ یا بصورتِ دیگر اس سے معافی حاصل کرے! (ورنہ قیامت کے دن حساب کتاب کے وقت ظالم کی نیکیاں مظلوم کو دی جائیں گی یا مظلوم کی برائیاں ظالم کے حساب میں شمار ہوں گی.)

۲ یہ ’’انفرادی توبہ‘‘ خواہ کتنی ہی سچی ہو اور انسان ذاتی اعتبار سے خواہ کتنا ہی متقی وصالح اور عابد و زاہد کیوں نہ بن جائے‘ اگر قوم کی مجموعی حالت تبدیل نہ ہو اور وہ بحیثیت مجموعی عذاب ِ خداوندی کی مستحق بن جائے تو جس طرح چکی میں گیہوں کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے‘ اسی طرح جب کسی قوم پر دنیا میں اجتماعی عذاب آتا ہے تو اس کی لپیٹ میں بدکاروں اور بدمعاشوں کے ساتھ ساتھ بے گناہ لوگ بھی آ جاتے ہیں‘ جیسے کہ سورۃ الانفال کی آیت ۲۵ میں فرمایا:

وَ اتَّقُوۡا فِتۡنَۃً لَّا تُصِیۡبَنَّ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡکُمۡ خَآصَّۃً ۚ وَ اعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعِقَابِ ﴿۲۵

’’اور ڈرو اُس عذاب سے جو تم میں سے صرف بدکاروں اور گناہ گاروں ہی پر نہیں آئے گا‘ اور جان لو کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے!‘‘
(اس قاعدۂ کلیہ میں بھی ایک استثناء موجود ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے) اس سے بھی زیادہ قابل حذر معاملہ وہ ہے جو ایک حدیث ِ مبارک میں بیان ہوا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ فلاں اور فلاں بستیوں کو اُن کے رہنے والوں سمیت الٹ دو. اس پر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بارگاہِ خداوندی میں عرض کیا کہ پروردگار! 
اس میں تو تیرا فلاں بندہ بھی رہتا ہے جس نے آج تک کبھی پلک جھپکنے جتنی دیر بھی معصیت میں بسر نہیں کی. اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: الٹ دو اس بستی کو پہلے اس پر اور پھر دوسروں پر‘ اس لیے کہ (اپنی تمام تر ذاتی نیکی اور پارسائی کے باوصف‘ اس کی دینی بے حمیتی کا حال یہ ہے کہ میرے دین و شریعت کی حمایت و حفاظت میں کوئی عملی سعی و جہد تو درکنار) میری غیرت کے باعث کبھی اس کے چہرے کا رنگ بھی متغیر نہیں ہوا!‘‘ (سنن بیہقی ؒ ) 

۳ ) دنیا میں کسی قوم کے اللہ کے عذاب سے بچنے کی واحد صورت ’’اجتماعی توبہ‘‘ ہے. اور اگرچہ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں کسی معاشرے کے صد فی صد لوگ تو کسی بھی دور میں درست نہیں ہوئے. (یہاں تک کہ نبی اکرم  کے زمانے میں بھی آخر دم تک کچھ نہ کچھ تعداد میں منافق ضرور موجود رہے‘ تابہ دیگراں چہ رسد؟) تاہم اگر کسی قوم کے افراد اتنی معتدبہ تعداد میں سچی توبہ کر لیں کہ پھر اپنی دعوت و نصیحت اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے ذریعے قوم کے اجتماعی دھارے کا رُخ تبدیل کر دیں‘ یعنی بالفاظِ دیگر ایک اجتماعی انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہو جائیں‘ تو اس قوم کی جانب سے ’’اجتماعی توبہ‘‘ کا حق ادا ہو جائے گا‘ اور وہ ’’دنیا کی زندگی میں رسوا کن عذاب‘‘ سے نجات پا کر ’’نئی زندگی‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی.

۴) چنانچہ کسی قوم پر اجتماعی عذاب نازل ہونے کی صورت میں اس کے نیک اور صالح افراد کے بچا لیے جانے کی وہ واحد استثنائی صورت جس کا ذکر اوپر کیا گیا تھا‘ اور جس کی امید قرآن حکیم میں سورۃ الاعراف کی آیت ۱۶۵ میں دلائی گئی ہے‘ یہی ہے کہ قوم کے اجتماعی فساد کی صورت میں جو لوگ آخر دم تک 
’’نہی عن السُّوء‘‘ کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہیں‘ اور گویا سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۲کے ان الفاظِ مبارکہ کے مصداق بن جائیں: اَلتَّــآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ (یعنی ’’توبہ کرنے والے‘ بندگی کا حق ادا کرنے والے‘ اللہ کی حمد کرنے والے‘ لذاتِ دُنیوی سے کنارہ کش رہنے والے‘ رکوع کرنے والے‘ سجدہ کرنے والے‘ نیکی کا حکم دینے والے ‘بدی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کے محافظ بن کر کھڑے ہو جانے والے‘‘) تو اگر ان کی جملہ مساعی کے باوجود قوم بحیثیت مجموعی صحیح رُخ پر نہ آئے اور اعراض و استکبار ہی پر مصر رہنے کے باعث عذابِ الٰہی کی مستحق ہو جائے تو اللہ اپنے ایسے ’’نہی عن المنکر‘‘ کا حق ادا کرنے والے بندوں کو دنیا کے رسوا کن عذاب سے بچا کر اپنے دامن رحمت میں لے لیتاہے.
۵) کسی مسلمان فرد یا قوم میں بے عملی یا بد عملی کا اصل سبب یقین والے ایمان کی کمی یا فقدان ہوتا ہے. چنانچہ اس کا علاج بھی ع ’’علاج اس کا وہی آب ِ نشاط انگیز ہے ساقی!‘‘ کے مصداق یہی ہے کہ اقبال کے اس قول کے مطابق کہ ؎

’’یقیں پیدا کر اے ناداں‘ یقیں سے ہاتھ آتی ہے
وہ درویشی کہ جس کے سامنے جھکتی ہے فغفوری!‘‘

اُمت میں یقین والا ایمان از سر نو پیدا کیا جائے. اسی حقیقت کو قرآن حکیم نے اس طرح تعبیر فرمایا کہ توبہ گویا از سر نو ایمان لانے کا کام ہے جس کا لازمی نتیجہ عمل کی اصلاح ہے. (۱لہذا قوم کی ’’اجتماعی توبہ‘‘ کے لیے اصل اور بنیادی ضرورت یہ ہے کہ تجدید ایمان کی عمومی تحریک برپا کی جائے. اور الحمد للہ کہ برعظیم پاک و ہند میں ایک بڑے پیمانے اور عوامی سطح پر‘ اگرچہ غیر علمی اور غیر فکری انداز میں‘ تجدید ایمان کی ایک عظیم تحریک ’‘تبلیغی جماعت‘‘ کے تحت چل بھی رہی ہے‘ تاہم ضرورت ہے کہ اُمت کے ذہین اور فہیم عناصر میں ایسے شعوری ایمان کی افزائش کا سامان کیا جائے جس کا گہرا اور محکم رشتہ ان کے ’’فکر‘‘ کے ساتھ قائم ہو‘ اس لیے کہ اس کے بغیر قوم کی اجتماعی صورت حال کا بدلنا ناممکن ہے. چنانچہ اسی ضرورت کے احساس کے تحت علامہ اقبال نے اب سے لگ بھگ ساٹھ برس قبل ’’فکر اسلامی کی تشکیل جدید‘‘ کے عنوان سے اپنے مشہورِ زمانہ (۱) ازروئے الفاظ قرآنی : اِلَّا مَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمۡ حَسَنٰتٍ ؕ (الفرقان :۷۰)

’’سوائے ان کے جنہوں نے توبہ کی‘ اور جو ایمان لائے اورجنہوں نے بالفعل اچھے عمل کیے‘ تو اللہ ان کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا!‘‘ ’’خطبات‘‘ ارشاد فرمائے تھے‘ اور اسی ضرورت کے احساس کے تحت اب سے لگ بھگ تیس سال قبل حضرت علامہ ہی کے ایک ادنی ٰ خوشہ چین کی حیثیت سے راقم الحروف نے ’’رجوع الی القرآن‘‘ کی تحریک شروع کی تھی. اس لیے کہ وہ بات جو مولانا ظفر علی خاں مرحوم نے نہایت سادہ الفاظ میں کہی تھی‘

یعنی ؎
وہ جنس نہیں ایمان جسے لے آئیں دکانِ فلسفہ سے
ڈھونڈے سے ملے گی عاقل کو یہ قرآں کے سیپاروں میں!

وہ فی الواقع ایک نہایت عظیم حقیقت ہے. یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبال نے اُمت مسلمہ کے جملہ امراض کا اصل سبب قرآن سے دوری کو قرار دیا اور اس کا اصل علاج ’’رجوع الی القرآن‘‘ تجویز کیا.

چنانچہ سادہ ترین الفاظ میں تو ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں ارشاد فرمایا: ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!

اور نہایت پر شکوہ الفاظ میں ان فارسی اشعار میں بیان کیا کہ ؎
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنجِ گردشِ دوراں شدی!

اور: ؎
اے چو شبنم بر زمیں افتندۂ 
دربغل داری کتابِ زندۂ !

یعنی ’’اے اُمتِ مسلمہ! درحقیقت تو خوار اور زبوں حال صرف اس لیے ہوئی کہ قرآن حکیم سے اپنا تعلق توڑ بیٹھی. گردشِ دوراں کے شکوے خواہ مخواہ کر رہی ہے. اے وہ قوم جو شبنم کی طرح زمین پر پڑی ہوئی ہے (چنانچہ اغیار واعداء تجھے پامال کر رہے ہیں) اب بھی اس ’’کتابِ زندہ‘‘ کی جانب رجوع کر لے جو تیری بغل میں موجود ہے (تو تیرے تمام امراض وعلل کا مداوا ہو جائے گا اور جملہ مسائل حل ہو جائیں گے.)‘‘ گویا جس طرح جبران خلیل جبران نے کہا تھا: ’’عقل سے روشنی حاصل کرو اور جذبہ کے تحت حرکت کرو!‘‘ اسی طرح ہماری ’’اجتماعی توبہ‘‘ کا نسخہ یہ ہے کہ: ’’قرآن سے ایمان حاصل کرو اور ایمان کے روغن سے جہد و عمل کی شمعیں روشن کرو!‘‘ ۶) ایمانِ حقیقی کے لازمی اور منطقی نتیجے کو قرآن اکثر و بیشتر تو صرف ’’عمل صالح‘‘ کی نہایت جامع اصطلاح سے تعبیر کرتا ہے ‘لیکن کہیں اس کے مضمرات اور متضمنات کو کھول بھی دیتا ہے. جیسے سورۃ العصر میں عمل صالح کے دو لوازم کو نمایاں طور پر بیان کر دیا‘ یعنی ’’ حق کی علمبرداری اور دعوت و اشاعت‘‘ اور ’’باہم ایک دوسرے کو صبر و مصابرت کی تلقین و نصیحت.‘‘ اور اس طرح گویا ضمنی طو رپر ایک جماعتی زندگی کی اہمیت کو بھی اجاگر کر دیا. اسی طرح کہیں قرآن ایمان کے جملہ عملی تقاضوں کو صرف ایک جامع اصطلاح ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ سے تعبیر فرما دیتا ہے‘ تو کہیں اس کی تفصیل دس اصطلاحات کے ذریعے کرتا ہے‘ جیسے کہ سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۲ میں تو وہ نو اوصاف بیان ہوئے جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے‘ اور اس سے قبل آیت ۱۱۱ میں اضافی اصطلاح ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ کے ذریعے ’’تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ‘‘ کے مصداق دس اوصاف کی تکمیل فرما دی. اس معاملے میں بھی اس حقیقت کا اعتراف و اظہار ضروری ہے کہ بحمد اللہ سورۃ التوبہ کی آیت ۱۱۲ میں بیان شدہ نو اوصاف میں سے بھی پہلے سات کا اہتمام تو بعض تصوف کے حلقوں کے علاوہ تبلیغی جماعت کے احباب بھی کر رہے ہیں. اب ضرور ت اس امر کی ہے کہ ؎

’’نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیریؓ 
کہ رسم خانقاہی ہے فقط اندوہ و دل گیری!‘‘

کے مصداق یہ سب حضرات آخری دو اصاف یعنی ’’بدی سے روکنے اور حدود اللہ کے محافظ بن کر کھڑے ہو جانے‘‘ کا بھی اہتمام کریں اور پھر اگر ’’نہی عن المنکر بِاللّسان‘‘ سے آگے بڑھ کر ’’نہی عن المنکر بِالیَد‘‘ کی عوامی تحریک کا مرحلہ بھی آجائے اور ضرورت داعی ہو تو نقد جان ہتھیلیوں پر رکھ کر اور اللہ کے دین کی غیرت و حمیت‘ اور حمایت و محافظت میں جانیں قربان کر دینے ہی کو حاصل زندگی اور مقصد حیات سمجھ کر میدان میں آ جائیں‘ اور اس طرح ’’اجتماعی توبہ‘‘ کا وہ حق ادا کرنے کی کوشش کریں جو اس عذابِ الٰہی کے سایوں کو دور فرما دے جو وطن عزیز کے افق پر گہرے سے گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں. اللہ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے… آمین! ۲۶؍جولائی ۱۹۹۳ء