آغاز ہی میں یہ بات عرض کر دینی مناسب ہے کہ یہ نصاب راقم کا ’طبعزاد‘ نہیں ہے بلکہ اس کا اصل ڈھانچہ مولانا امین احسن اصلاحی کا تیار کردہ ہے. تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۵۲-۱۹۵۱ء میں جب راقم الحروف اسلامی جمعیت طلبہ لاہور وپنجاب کا ناظم تھا اس نے جمعیت کے زیرِ اہتمام طلبہ کے لئے دو تربیتی کیمپ منعقد کئے تھے ایک دسمبر ۱۹۵۱ء میں کرسمس کی تعطیلات میں اور دوسرا ۱۹۵۲؁ء کی تعطیلاتِ موسم گرما میں. ان تربیت گاہوں میں قرآنِ حکیم کا درس مولانا اصلاحی مرحوم نے دیا تھا اور اس غرض سے انہوں نے ایک نصاب تجویز کیا تھا جو درجِ ذیل ہے: 

۱. انسان کی انفرادی زندگی کی رہنمائی کے لئے سورۃ لقمان کا دوسرا اور سورۃ الفرقان کا آخری رکوع.
۲. عائلی زندگی سے متعلق … سورۃ التحریم مکمل.
۳. قومی، ملی اور سیاسی زندگی کی رہنمائی کے ذیل میں سورۃ الحجرات مکمل.
۴. فریضہ ٔ اِقامت دین کے ذیل میں سورۃ الصف مکمل.
۵. اور تحریکِ اسلامی سے متعلق مختلف مسائل میں رہنمائی کے ذیل میں سورۃ العنکبوت مکمل.
راقم کی خوش قسمتی تھی کہ اسے بطور ناظم ان دونوں تربیت گاہوں میں شرکت کا موقع ملا اور یہ مقامات اس نے دو بار مولانا اصلاحی صاحب سے براہِ راست پڑھے اور راقم نے ان مقامات کو اس طرح اخذ کر لیا کہ 
’’بَلِّغُوْا عَنِّی وَلَوْ اٰیَۃً‘‘ (پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت) کے مصداق انہیں آگے پڑھانے کے لئے بھی کسی قدر اعتما د پیدا ہو گیا. چنانچہ زمانہ ٔ طالب علمی میں جمعیت کے اجتماعات میں بھی راقم مطالعۂ قرآن کی ذمہ داریاں نبھاتا رہا. تعطیلات کے زمانے میں ساہیوال میں جماعتِ اسلامی کیک اجتماعات میں بھی ان مقامات کا درس دیتا رہا اور رمضان المبارک کے ایک تربیتی پروگرام میں پورا نصاب بھی پڑھایا. ۱۹۵۴ء میں ملتان میں منعقدہ جمعیت کی ایک تربیت گاہ میں راقم نے پھر یہ نصاب اسی تدریج کے ساتھ پڑھایا. بعد میں جب ساہیوال میں راقم نے ایک ’اسلامی ہاسٹل‘ قائم کیا تو اس میں مقیم طلبہ کو بھی راقم نے اس پورے نصاب کا درس دیا. اس کے بعد جب راقم کراچی میں تھا تو وہاں بھی مقبولِ عام ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک حلقہ قائم کر کے اسی منتخب نصاب کا درس دیا گیا. بعدہٗ لاہور میں ’’حلقہ ہائے مطالعہ قرآن‘‘ کے اس سلسلے کی اساس بھی راقم نے اسی کو بنایا جس نے اللہ کے فضل وکرم سے ایک باقاعدہ تحریک کی صورت اختیار کر لی.

البتہ اس عرصے کے دوران میں وقتاً فوقتاً راقم اس بنیادی نصاب میں اضافے کرتا رہا. جن سے اس نصاب کی ایک واضح بنیاد بھی قائم ہو گئی اور مختلف مقامات کے مضامین میں جو فاصلے تھے وہ بھی بہت حد تک پاٹ دیئے گئے. ہو سکتا ہے کہ آئندہ بھی خود راقم یا کوئی اور شخص اس میں مزید مفید اضافے کر سکے. تاہم اس وقت راقم کا گمان ہے کہ ایک خاص نقطۂ نظر سے قرآن حکیم کا جو انتخاب ا نصاب میں کیا گیا ہے وہ بہت حد تک مکمل بھی ہے اور نہایت مفید بھی. 

آگے چلنے سے پہلے اس ’’خاص نقطۂ نظر‘‘ کی وضاحت بھی ہو جائے تو اچھا ہے. وہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے یہ بات بالک واضح ہو جائے کہ اس کے دین کے تقاضے اس سے کیا ہیں اور ان کا رب اس سے کیا چاہتا ہے؟ گویا دین کے تقاضوں اور مطالبوں کا ایک اجمالی لیکن جامع تصور پیش کرنا اس انتخاب کا اصل مقصود ہے، ویسے ضمناً اس سے خود دین کا ایک جامع تصور بھی آپ سے آپ واضح ہو جاتا ہے اور محدود مذہبی تصورات کی جڑیں خود بخود کٹتی چلی جاتی ہیں.

ایک عرصے سے اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس منتخب نصاب کو یکجا شائع کر دیا جائے. لیکن بوجوہ یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا. اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہر کام کے لئے وقت معین ہے. اللہ کا شکر ہے کہ اب اس کی صورت پیدا ہو رہی ہے. اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ اسے لوگوں کے لئے مفید بنائے اور اسی سے اجروثواب کی امید ہے.

خاکسار اسرار احمد عفی عنہ