مقامِ عزیمت اور حکمتِ قرآنی کی اساسات

سورۃ لقمان (رکوع نمبر۲) کی روشنی میں


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 
وَ لَقَدۡ اٰتَیۡنَا لُقۡمٰنَ الۡحِکۡمَۃَ اَنِ اشۡکُرۡ لِلّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّشۡکُرۡ فَاِنَّمَا یَشۡکُرُ لِنَفۡسِہٖ ۚ وَ مَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیۡدٌ ﴿۱۲﴾وَ اِذۡ قَالَ لُقۡمٰنُ لِابۡنِہٖ وَ ہُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشۡرِکۡ بِاللّٰہِ ؕؔ اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ وَہۡنًا عَلٰی وَہۡنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیۡ عَامَیۡنِ اَنِ اشۡکُرۡ لِیۡ وَ لِوَالِدَیۡکَ ؕ اِلَیَّ الۡمَصِیۡرُ ﴿۱۴﴾وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ عَلٰۤی اَنۡ تُشۡرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ۙ فَلَا تُطِعۡہُمَا وَ صَاحِبۡہُمَا فِی الدُّنۡیَا مَعۡرُوۡفًا ۫ 

’’ اور ہم نے دی لقمان کو عقلمندی کہ حق مان اللہ کا، اور جو کوئی حق مانے اللہ کا تو مانے گا اپنے بھلے کو، اور جو کوئی منکر ہو گا تو اللہ بے پروا ہے سب تعریفوں والا. اور جب کہا لقمان نے اپنے بیٹے کو جب اس کو سمجھانے لگا ،اے بیٹے شریک نہ ٹھہرائیو اللہ کا، بیشک شریک بنانا بھاری بے انصافی ہے. اور ہم نے تاکید کر دی انسان کو اس کی ماں باپ کے واسطے، پیٹ میں رکھا اس کو اس کی ماں نے تھک تھک کر اور دودھ چھڑانا ہے اس کا دو برس میں کہ حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا، آخر مجھی تک آنا ہے. اور اگر وہ دونوں تجھ سے اڑیں اس بات پر کہ شریک مان میرا اس چیز کو جو تجھ کو معلوم نہیں تو ان کا کہنا مت مان اور ساتھ دے ان کا دنیا میں دستور کے موافق،

وَّ اتَّبِعۡ سَبِیۡلَ مَنۡ اَنَابَ اِلَیَّ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۵﴾یٰبُنَیَّ اِنَّہَاۤ اِنۡ تَکُ مِثۡقَالَ حَبَّۃٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ فَتَکُنۡ فِیۡ صَخۡرَۃٍ اَوۡ فِی السَّمٰوٰتِ اَوۡ فِی الۡاَرۡضِ یَاۡتِ بِہَا اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَطِیۡفٌ خَبِیۡرٌ ﴿۱۶﴾یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَ اۡمُرۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ انۡہَ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ اصۡبِرۡ عَلٰی مَاۤ اَصَابَکَ ؕ اِنَّ ذٰلِکَ مِنۡ عَزۡمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿ۚ۱۷﴾وَ لَا تُصَعِّرۡ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرٍ ﴿ۚ۱۸﴾وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ وَ اغۡضُضۡ مِنۡ صَوۡتِکَ ؕ اِنَّ اَنۡکَرَ الۡاَصۡوَاتِ لَصَوۡتُ الۡحَمِیۡرِ ﴿٪۱۹﴾ 

اور راہ چل اس کی جو رجوع ہوا میری طرف، پھر میری طرف ہے تم کو پھر آنا پھر میں جتلادوں گا تم کو جو کچھ تم کرتے تھے. اے بیٹے اگر کوئی چیز ہو برابر رائی کے دانہ کی پھر وہ ہو کسی پتھر میں یا آسمانوں میں یا زمین میں لاحاضر کرے اس کو اللہ، بیشک اللہ جانتا ہے چھپی ہوئی چیزوں کو خبردار ہے. اے بیٹے قائم رکھ نماز اور سکھلا بھلی باتاور منع کر برائی سے اور تحمل کر جو تجھ پر پڑے، بیشک یہ ہیں ہمت کے کام.اور اپنے گال مت پُھلا لوگوں کی طرف اور مت چل زمین پر اِتراتا، بیشک اللہ کو نہیں بھاتا کوئی اِتراتا بڑائیاں کرنے والا. اور چل بیچ کی چال اور نیچی کر آواز اپنی، بیشک بُری سے بُری آواز گدھے کی آواز ہے.‘‘

اس نصاب کا تیسرا درس سورۂ لقمان کا رکوع نمبر۲ ہے جو پھر ایک دوسرے زاویئے سے سورۃ العصر ہی کی تفصیل ہے. یہاں ایمان کے ذیل میں خدا کے شکر کے التزام اور اس کے ساتھ شرک سے اجتناب کا ذکر ہے. اعمال صالحہ میں بِرِّوالدین اور نماز کی تاکید کے علاوہ کبر وغرور سے روکا گیا ہے اور میانہ روی کی تعلیم دی گئی ہے. ’تواصی بالحق‘ کی ایک فرع ’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘ پر زور ہے اور صبر کی تاکید ہے. گویا سورۃ العصر کے چاروں اجزاء یہاں بھی موجود ہیں.

ان کے علاوہ یہ رکوع حکمتِ قرآنی کے نہایت اہم اور بنیادی اور اساسی نکات کا حامل 
ہے. یعنی 
(۱) یہ کہ فطرت کی صحت اور سلامتی کا لازمی نتیجہ ’شکر‘ ہے. 
(۲) حکمت کا لازمی تقاضا ہے کہ یہ جذبۂ شکر خدا کی ذات پر مرتکز ہو جائے. 
(۳) خدا کا شکر مستلزم ہے اجتنابِ شرکا ور التزامِ توحید کو. 
(۴) انسان پر جو حقوق عائد ہوتیہیں وہ سب سے پہلے خالق کے ہیں اور اس کے بعد سب سے مقدم والدین کے. 
(۵) اگر ان دونوں میں ٹکرائو ہو تو الاقدم فالاقدم کے مصداق خدا کا حق فائق رہے گا. 
(۶) برِّ والدین میں ان کا اتباع لازماً شامل نہیں، اتباع صرف اس کا کیا جانا چاہئے جس نے اپنا رخ خدا کی طرف کر لیا ہو وغیرہ وغیرہ. 
(۷) نیکی اور بدی کا شعور فطرتِ انسانی میں ودیعت شدہ ہے. 

سورۂ لقمان کے رکوع دوم میں وارد شدہ الفاظ 
اِنَّ الشِّرۡکَ لَظُلۡمٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۳﴾ کی مناسبت سے منتخب نصاب کے اس مرحلے پر ایک مفصل تقریر ’’حقیقت واقسام شرک‘‘ کے موضوع پر کی جاتی ہے جو بالعموم دو نشستوں میں مکمل ہوتی ہے.