سورۃ آل عمران کے آخری رکوع کی روشنی میں


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙالَّذِیۡنَ یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِہِمۡ وَ یَتَفَکَّرُوۡنَ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۱۹۲﴾رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ رَبَّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَ کَفِّرۡ عَنَّا سَیِّاٰتِنَا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ ﴿۱۹۳﴾ۚرَبَّنَا وَ اٰتِنَا مَا وَعَدۡتَّنَا 

’’بیشک آسمان اور زمین کا بنانا اور رات اور دن کا آنا جانا اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو. وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور کروٹ پر لیٹے اور فکر کرتے ہیںپیدائش میں آسمان اور زمین کی، کہتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ عبث نہیں بنایا، تو پاک ہے سب عیبوں سے سو ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے. اے رب ہمارے جس کو تو نے دوزخ میں ڈالا سو اس کو رسوا کر دیا، اور نہیں کوئی گنہگاروں کا مددگار. اے رب ہمارے ہم نے سنا کہ ایک پُکارنیوالا پکارتا ہے ایمان لانے کو کہ ایمان لاؤ اپنے رب پر سو ہم ایمان لے آئے، اے رب ہمارے اب بخش دے گناہ ہمارے اور دور کر دے ہم سے برائیاں ہماری اور موت دے ہم کو نیک لوگوں کے ساتھ. اے رب ہمارے اور دے ہم کو جو وعدہ کیا تو نے ہم سے 
عَلٰی رُسُلِکَ وَ لَا تُخۡزِنَا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّکَ لَا تُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ ﴿۱۹۴﴾فَاسۡتَجَابَ لَہُمۡ رَبُّہُمۡ اَنِّیۡ لَاۤ اُضِیۡعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنۡکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ اَوۡ اُنۡثٰی ۚ بَعۡضُکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَالَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا وَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِیَارِہِمۡ وَ اُوۡذُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِیۡ وَ قٰتَلُوۡا وَ قُتِلُوۡا لَاُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَاُدۡخِلَنَّہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۚ ثَوَابًا مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الثَّوَابِ ﴿۱۹۵﴾ 
اپنے رسولوں کے واسطہ سے اور رسوا نہ کر ہم کو قیامت کے دن بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا. پھر قبول کی ان کی دعا ان کے رب نے کہ میں ضائع نہیں کرتا محنت کسی محنت کرنیوالے کی تم میں سے مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک ہو،پھر وہ لوگ کہ ہجرت کی انہوں نے اور نکالے گئے اپنے گھروں سے اور ستائے گئے میری راہ میں اور لڑے اور مارے گئے البتہ دور کروں گا میں ان سے برائیاں ان کی اور داخل کروں گا ان کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں ،یہ بدلا ہے اللہ کے ہاں سے، اور اللہ کے ہاں ہے اچھا بدلا.‘‘

ایمان کے ذیل میں دوسرا درس سورۂ آلِ عمران کے آخری رکوع کی آیات ۱۹۰ تا ۱۹۵ پر مشتمل ہے. یہ آیاتِ مبارکہ ایمان کے سلسلے میں قرآنِ حکیم کے سادہ اور فطری استدلال کو انتہائی اختصار اور جامعیت کے ساتھ پیش کرتی ہیں. گویا ان سے اس امر پر روشنی پڑتی ہے کہ ایک صحیح العقل اور سلیم الفطرت انسان کس طرح اولاً آفاق وانفس میں غور وفکر کے نتیجے میں خدا کے وجود، اس کی توحید اور اس کی صفاتِ کمال کا علم حاصل کرتا ہے یا بالفاظ دیگر ایمان باللہ تک رسائی حاصل کرتا ہے. پھر کس طرح وہ خدا کی یاد کے التزام 
(۱کے ساتھ مزید غور وفکر سے ایمان باللہ کی ایک فرع ہی کی حیثیت سے معاد وآخرت پر ایمان لاتا ہے. (۱) بقول علامہ اقبال مرحوم:

جز بہ قرآں ضیغمی رو باہی است
فقرِ قرآں اصلِ شاہنشاہی است
فقرِ قرآں؟ اختلاطِ ذکر و فکر
فکر را کامل نہ دیدم جز بہ ذکر
اور بقول رومی:
ایں قدر گفتیم باقی فکر کُن
فکر اگر جامد بود، رَو ذکر کُن
ذکر آرد فکر را در اہتزاز

ذکر را خورشید ایں افسردہ ساز 
اور پھر جب انہی دو اساسی امور پر مشتمل کسی نبی کی دعوت اس کے کانوں میں پڑتی ہے تو کس طرح والہانہ اس پر لبیک کہتا ہے. اس طرح ان آیات سے گویا ’ایمانِ عقلی‘ اور ’ایمانِ سمعی‘ کا باہمی ربط بھی واضح ہو جاتا ہے اور فی الجملہ ایمان کی عقلی ومنطقی ترکیب (synthesis) پر بھی روشنی پڑجاتی ہے. 
آخر میں اس ایمان سے اس صحیح الفطرت انسان کی زندگی میں جو انقلاب آتا ہے اور حق کے لئے وہ جس ایثار وقربانی، صبر وضبط اور ثبات واستقامت کا مظاہرہ کرتا ہے اس کا ذکر ہے اور اس کی ان جانبازیوں اور سرفروشیوں پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے انتہائی تاکیدی انداز میں اجروثواب کا وعدہ اور پختہ یقین دہانی ہے.

ایمان کی متذکرہ بالا تین کڑیوں میں سے پہلی یعنی ؎
برگِ درختانِ سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار

کے مصداق کائنات میں ہر چہار طرف پھیلی ہوئی آیاتِ ی پر غور وفکر سے اصحابِ عقل ودانش کے خدا کو پہچاننے اور اس کی توحید اور صفاتِ کمال کا علم حاصل کرنے یا بالفاظِ دیگر اس پر ایمان لانے کی مزید وضاحت کے ضمن میں سورۃ البقرہ کی آیات ۱۶۴ اور ۱۶۵ سے مدد لی جاتی ہے، جن سے مزید ایک اور حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے یعنی یہ کہ معرفتِ خداوندی کا اصل ثمرہ یہ ہے کہ انسان خدا کی محبت سے اس درجہ سرشار ہو جائے کہ بقیہ تمام محبتیں اس کی محبت کے تابع ہو جائیں.

اسی طرح ایمان کے سلسلۃ الذہب کی دوسری کڑی یعنی تخلیقِ کائنات میں حکمتِ خداوندی کی کارفرمائی اور ہر چیز کی بامقصدیت 
(purposefulness) کے مشاہدے سے جزا وسزا پر استدلال اور ایمان بالآخرت تک رسائی کی مزید وضاحت کے لئے سورۃ المومنون کی آیات ۱۱۵، ۱۱۶ سے استشہاد کیا جاتا ہے اور اس طرح ’ایمانِ عقلی‘ کے دونوں اجزاء کی مزید وضاحت بھی ہو جاتی ہے اور سامع پر’’اَلْقُرْاٰنُ یُفَسِّرُ بَعْضُہٗ بَعْضًا‘‘ کی حقیقت بھی منکشف ہو جاتی ہے.