سورۃ النور (رکوع ۵) کی روشنی میں


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

اَللّٰہُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِہٖ کَمِشۡکٰوۃٍ فِیۡہَا مِصۡبَاحٌ ؕ اَلۡمِصۡبَاحُ فِیۡ زُجَاجَۃٍ ؕ اَلزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوۡکَبٌ دُرِّیٌّ یُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ زَیۡتُوۡنَۃٍ لَّا شَرۡقِیَّۃٍ وَّ لَا غَرۡبِیَّۃٍ ۙ یَّکَادُ زَیۡتُہَا یُضِیۡٓءُ وَ لَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡہُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ ﴿ۙ۳۶﴾رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ 

’’اللہ روشنی ہے آسمانوں کی اور زمین کی، مثال اس کی روشنی کی جیسے ایک طاق اس میں ہو ایک چراغ، وہ چراغ دھرا ہو ایک شیشہ میں، وہ شیشہ ہے جیسے ایک تارہ چمکتا ہوا تیل جلتا ہے اس میں ایک برکت کے درخت کا وہ زیتون ہے نہ مشرق کی طرف ہے اور نہ مغرب کی طرف قریب ہے اس کا تیل کہ روشن ہو جائے اگرچہ نہ لگی ہو اس میں آگ، روشنی پر روشنی، اللہ راہ دکھلا دیتا ہے اپنی روشنی کی جس کو چاہے، اور بیان کرتا ہے اللہ مثالیں لوگوں کے واسطے، اور اللہ سب چیز کو جانتا ہے. ان گھروں میں کہ اللہ نے حکم دیا ان کو بلند کرنے کا اور وہاں اس کا نام پڑھنے کا یاد کرتے ہیں اس کی وہاں صبح اور شام. وہ مرد کہ نہیں غافل ہوتے سودا کرنے میں اور نہ بیچنے میں اللہ کی یاد سے 
وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ﴿۳۸﴾وَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَعۡمَالُہُمۡ کَسَرَابٍۭ بِقِیۡعَۃٍ یَّحۡسَبُہُ الظَّمۡاٰنُ مَآءً ؕ حَتّٰۤی اِذَا جَآءَہٗ لَمۡ یَجِدۡہُ شَیۡئًا وَّ وَجَدَ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿ۙ۳۹﴾اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾ 
اور نماز قائم رکھنے سے اور زکوٰۃ دینے سے، ڈرتے رہتے ہیں اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں. تاکہ بدلہ دے ان کو اللہ ان کے بہتر سے بہتر کاموں کا اور زیادتی دے ان کو اپنے فضل سے، اور اللہ روزی دیتا ہے جس کو چاہے بے شمار. اور جو لوگ منکر ہیں ان کے کام جیسے ریت جنگل میں پیاسا جانے اس کو پانی، یہاں تک کہ جب پہنچا اس پر اس کو کچھ نہ پایا اور اللہ کو پایا اپنے پاس پھر اس کو پورا پہنچا دیا اس کا لکھا، اور اللہ جلد لینے والا ہے حساب. یا جیسے اندھیرے گہرے دریا میں چڑھی آتی ہے اس پر ایک لہر اس پر ایک اور لہر اس کے اوپر بادل، اندھیرے ہیں ایک پر ایک، جب نکالے اپنا ہاتھ لگتا نہیں کہ اس کو وہ سوجھے، اور جس کو اللہ نے نہ دی روشنی اس کے واسطے کہیں نہیں روشنی.‘‘

ایمان کے ذیل میں تیسرا درس سورۃ النور کے رکوع ۵ پر مشتمل ہے جس کی آیت ۳۵ میں ایک حد درجہ بلیغ تمثیل کے پیرائے میں ’نورِ ایمان کی حقیقت‘ سمجھائی گئی ہے اور اس کے اجزائے ترکیبی کو واضح کیا گیا ہے. یعنی یہ کہ یہ دو اجزاء سے مرکب ہے: ایک نورِ فطرت جس کی مثال اس صاف شفاف تیل کی سی ہے جو گویا کہ منتظر ہوتا ہے کہ جونہی آگ اس کے قریب آئے وہ فوراً بھڑک اٹھے اور دوسرے نورِ وحی جس کی مثال اس آگ کی سی ہے جو فطرت کے صاف روغن کو فوراً مشتعل کر دیتی ہے. یہ تمثیل اگرچہ کاملۃً تو صرف صدیقین کے ایمان ہی پر چسپاں ہوتی ہے چونکہ ان ہی کی فطرت کا روغن اتنا شفاف ہوتا ہے کہ وہ نبی ؑ کی دعوت پر بغیر کوئی دلیل طلب کئے فوراً ایمان لے آتے ہیں تاہم اس سے اس بنیادی 
حقیقت پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ جس طرح بصارتِ ظاہری کے لئے بھی خارج میں روشنی اور آنکھوں میں بینائی دونوں کا ہونا لازم ہے اسی طرح اس بصیرتِ باطنی کے لئے بھی کہ جس کا نام ایمان ہے یہ دونوں چیزیں لازم ہیں کہ خارج میں نورِ وحی ورسالت بھی موجود ہو اور انسان کے باطن میں اس کی فطرت کا نور بھی بالکل بجھ نہ چکا ہو. اس طرح یہ تمثیل سلسلۂ ایمان کی تیسری کڑی یعنی ’ایمان بالرسالت‘ کی حقیقت کو مزید واضح کر دیتی ہے.

آیات ۱۳۶ تا ۱۳۸ میں ان سلیم الفطرت انسانوں کی زندگیوں کی ایک دوسری جھلک دکھائی گئی ہے جو نورِ ایمان سے کما حقہٗ بہرہ ور ہوتے ہیں یعنی مساجد کے ساتھ ان کی محبت، ذکرِ الٰہی کے ساتھ ان کا اُنس اور اس کے لئے ان کا ذوق وشوق اور اس پر ان کا دوام، صلوٰۃ وزکوٰۃ کا التزام اور ان سب کے بعد بھی خشیتِ الٰہی کا غلبہ اور حساب وکتاب اور جزا وسزا کے خیال سے لرزہ براندام رہنا.

اس مقام پر اس حقیقت کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی جاتی ہے کہ ’مردِ مؤمن‘ کی زندگی کی تصویر کا ایک رخ تو وہ ہے جو سورۂ آل عمران کی آیت ۱۹۵ میں بیان ہوا ہے اور دوسرا رخ یہ ہے جو یہاں سورۃ النور کی آیات ۱۳۶ تا ۱۳۸ میں دکھایا گیا ہے اور مکمل تصویر ان دونوں کے امتزاج ہی سے بنتی ہے ایک نقشہ عشق ومحبت، ذوق وشوق اور عبادت وریاضت کا ہے اور دوسرا نقشہ سعی وجہد، مصابرت ومقاومت اور جہاد وقتال کا. اور بات تبھی بنتی ہے جب یہ دونوں پہلو موجود ہوں. یعنی وہی بات جو دشمنوں نے ان الفاظ میں بیان کی تھی کہ 
’’ھُمْ بِاللَّیْلِ رُھْبَانٌ وَّبِالنَّھَارِ فُرْسَانٌ‘‘ (یہ لوگ تو رات کے راہب ہیں اور دن کے شہسوار !)

اس رکوع کی بقیہ آیات میں دو تمثیلوں کے پیرائے میں ایک تو ’’نور علی نور‘‘ کے بالکل برعکس 
ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ایک طرف تو نورِ وحی ونبوت سے بالکل محروم رہے اور دوسری طرف ان کا نورِ فطرت بھی بالکل بجھ چکا، چنانچہ اب ان کے پاس نہ تو نورِ ایمان کی کوئی جھلک ہے نہ کسی نیکی یا بھلائی کی کوئی روشنی ، حتیٰ کہ ان کی زندگی ریاکارانہ نیکی کی ملمع سازی والی جھوٹی چمک سے بھی بالکل خالی نظر آتی ہے. اور دوسرے ایک درمیانی کردار کی نقشہ کشی کی گئی ہے جن کے پاس ایمان ہے تو صرف زبانی اقرار اور دعویٰ کی حد تک، قلب کی تصدیق سے بالکل تہی دست، اور اگر کوئی نیکی یا صدقہ وخیرات ہے تو محض ریا وسمعہ کی خاطر، خلوص اور اخلاص سے بالکل خالی. ان کی مثال اس پیاسے کی سی ہے جو سراب کو پانی سمجھ کر اس کے پیچھے دوڑتا ہے اور آخر کار تباہی وہلاکت سے دوچار ہو کر رہتا ہے.