سورۃ المؤمنون اور سورۃ المعارج کی روشنی میں



بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ۙ﴿۵﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ۚ﴿۶﴾فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ۚ﴿۷﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ۙ﴿۸﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَوٰتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ۘ﴿۹﴾اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡوٰرِثُوۡنَ ﴿ۙ۱۰﴾الَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡفِرۡدَوۡسَ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۱﴾ 

’’کام نکال لے گئے ایمان والے. جو اپنی نماز میں جھکنے والے ہیں. اور جو نکمی بات پر دھیان نہیں کرتے. اور جو زکوٰۃ دیا کرتے ہیں. اور جو اپنی شہوت کی جگہ کو تھامتے ہیں. مگر اپنی عورتوں پر یا اپنے ہاتھ کے مال باندیوں پر سو ان پر نہیں کچھ الزام. پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوا سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے. اور جو اپنی امانتوں سے اور اپنے قرار سے خبردار ہیں. اور جو اپنی نمازوں کی خبر رکھتے ہیں. وہی ہیں میراث لینے والے. جو میراث پائینگے باغ ٹھنڈی چھاؤں کے، وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے.‘‘ 

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا ﴿ۙ۱۹﴾اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا ﴿ۙ۲۰﴾وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا ﴿ۙ۲۱﴾ 

’’بنا ہے جی کا کچا. جب پہنچے اس کو برائی تو بے صبرا. اور جب پہنچے اس کو بھلائی تو بے توفیقا. 
اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۲۳﴾وَ الَّذِیۡنَ فِیۡۤ اَمۡوَالِہِمۡ حَقٌّ مَّعۡلُوۡمٌ ﴿۪ۙ۲۴﴾لِّلسَّآئِلِ وَ الۡمَحۡرُوۡمِ ﴿۪ۙ۲۵﴾وَ الَّذِیۡنَ یُصَدِّقُوۡنَ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿۪ۙ۲۶﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ مِّنۡ عَذَابِ رَبِّہِمۡ مُّشۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۲۷﴾اِنَّ عَذَابَ رَبِّہِمۡ غَیۡرُ مَاۡمُوۡنٍ ﴿۲۸﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِفُرُوۡجِہِمۡ حٰفِظُوۡنَ ﴿ۙ۲۹﴾اِلَّا عَلٰۤی اَزۡوَاجِہِمۡ اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُہُمۡ فَاِنَّہُمۡ غَیۡرُ مَلُوۡمِیۡنَ ﴿ۚ۳۰﴾فَمَنِ ابۡتَغٰی وَرَآءَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡعٰدُوۡنَ ﴿ۚ۳۱﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ لِاَمٰنٰتِہِمۡ وَ عَہۡدِہِمۡ رٰعُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۲﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِشَہٰدٰتِہِمۡ قَآئِمُوۡنَ ﴿۪ۙ۳۳﴾وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ یُحَافِظُوۡنَ ﴿ؕ۳۴﴾اُولٰٓئِکَ فِیۡ جَنّٰتٍ مُّکۡرَمُوۡنَ ﴿ؕ٪۳۵﴾ 
مگر وہ نمازی. جو اپنی نماز پر قائم ہیں. اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے. مانگنے والے اور ہارے ہوئے کا. اور جو یقین کرتے ہیں انصاف کے دن پر. اور جو لوگ کہ اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں. بیشک ان کے رب کے عذاب سے کسی کو نڈر نہ ہونا چاہئے. اور جو اپنی شہوت کی جگہ کی حفاظت کرتے ہیں. مگر اپنی جوروؤں سے یا اپنے ہاتھ کے مال سے سو ان پر نہیں کچھ اُلاہنا. پھر جو کوئی ڈھونڈے اس کے سوائے سو وہی ہیں حد سے بڑھنے والے. اور جو لوگ کہ اپنی امانتوں اور اپنے قول کو نباہتے ہیں. اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے ہیں. اور جو اپنی نماز سے خبردار ہیں. وہی لوگ ہیں باغوں میں عزت سے. 

ان دونوں مقامات کے مطالعے سے وہ بنیادی اصول واضح ہو جاتے ہیں جن پر قرآن مجید کے ’انسانِ مطلوب‘ کی ذاتی شخصیت اور انفرادی سیرت کا قصر تعمیر کیا جا سکتا ہے. گویا کہ ان مقامات پر بیان شدہ صفات مل کر وہ بنیاد کا پتھر 
(Rock Foundation) مہیا کرتی ہیں جس کے بغیر اسلامی سیرت وکردار کی تعمیر ایک خیالِ خام اور امیدِ موہوم ہے.

ان اساسات میں اولین اور اہم ترین اساس نماز ہے جس کو دونوں جگہوں پر اولین صفت کی حیثیت سے بھی بیان کیا گیا اور آخری صفت کی حیثیت سے بھی. گویا کہ یہ ایک 
مسلمان کی زندگی کی ابتداء بھی ہے اور انتہا بھی. اور اس کی شخصیت کی عمارت کا سنگ بنیاد بھی ہے اور اس کی بلند ترین منزل بھی، بلکہ یوں کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ اس کے شہرِ زندگی کی ایسی فصیل ہے جس نے پورے طور پر اس کی زندگی کا احاطہ کر لیا ہے اور اسے کاملۃً اپنے حصار میں لے لیا ہے. اسی حقیقت کو مزید اس طرح واضح کیا گیا کہ سورۃ المؤمنون میں جس جگہ ’المؤمنون‘ کا لفظ استعمال ہوا سورۃ المعارج میں وہاں ’المصلین‘ کی اصطلاح رکھ دی گئی. گویا ’مسلمان‘ اور ’نمازی‘ لازم وملزوم ہیں، یا باہم دگر مترادف وہم معنی. مزید یہ کہ نماز کی روح یعنی خشوع کی اہمیت تو اس طرح واضح کر دی گئی کہ سب سے پہلے ذکر اسی کا ہوا لیکن ساتھ ہی یہ حقیقت بھی کھول دی گئی کہ اس کی اصل جان دوام ومحافظت ہے. چنانچہ دونوں مقامات کو بیک وقت نگاہ میں رکھئے تو معلوم ہوتا ہے کہ خشوع کا ذکر صرف ایک بار ہوا ہے جب کہ دوام ومحافظت کا تین بار.

دوسری صفت استحضارِ آخرت ہے جس کا ذکر سورۃ المعارج میں ’’تصدیق یوم الدین‘‘ اور ’’خوفِ عذاب وعقوبت‘‘ کی صورت میں کیا گیا اور جس کا ماحصل ’’اعراض عن اللغو‘‘ کے عنوان سے سورۃ المؤمنون میں بیان کر دیا گیا.

تیسری صفت تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے حصول کے لئے انفاق فی سبیل اللہ اور صدقہ وخیرات پر مسلسل عامل رہنا ہے جس کی طرف دونوں مقامات پر گہرے اور بلیغ اشارے کر دیئے گئے. چنانچہ سورۃ المؤمنون میں 
لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾ کے الفاظ سے اس عمل کے دوام اور تسلسل کی طرف اشارہ کر دیا گیا اور سورۃ المعارج میں اسے ’’حق‘‘ سے تعبیر کر کے صدقہ وخیرات کی اصل روح کی طرف توجہ دلا دی گئی.

چوتھی صفت ’ضبطِ شہوت‘ 
(Sex Discipline) ہے جس کے ذیل میں ایک طرف آزاد شہوت رانی کی افراط اور دوسری طرف راہبانہ نفس کشی کی تفریط دونوں کی نفی اور تردید کرتے ہوئے اعتدال کی راہ کو واضح کر دیا گیا.

اس کے بعد بین الانسانی معاملات کا ذکر ہے، جہاں انسان کی سیرت وکردار کی اصل جانچ ہوتی ہے اور انسان کی اصل حقیقت کھلتی ہے کہ وہ فی الواقع کتنے پانی میں ہے. اس 
ضمن میں انسان کی پوری زندگی کے تمام ’معاملات‘ کی صحت اور درستی کے لئے انسانی سیرت میں تین لازمی بنیادی اوصاف کی نشاندہی کی گئی ہے یعنی امانت، عہد اور شہادت. ان میں سے بھی چونکہ مزید تجزیئے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اصل بنیادی اوصاف امانتداری اور پاسِ عہد ہی ہیں اور خود حقِ شہادت کی ادائیگی کا دارومدار بھی اصلاً ان ہی پر ہے لہٰذا امانت اور عہد کا ذکر تو دونوں مقامات پر ہوا. اور شہادت کا صرف ایک پر یعنی سورۃ المعارج میں گویا کہ ان دونوں کی ایک اہم فرع کی حیثیت سے. واقعہ یہ ہے کہ انسان جتنا چاہے غور کر لے اسے اس حقیقت پر گہرا اور پختہ یقین حاصل ہوتا چلا جائے گا کہ معاملاتِ انسانی کی صحت ودرستی کا پورا انحصار سیرت وکردار میں ان دو بنیادوں کے قائم اور استوار ہونے پر ہے. اسی آسمانی ہدایت کی بہترین تشریح حکمتِ نبوی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کی رو سے یہ ہے کہلَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا اَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہٗ (جس شخص میں امانت داری موجود نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو پاسِ عہد سے تہی دست ہو اس کا کوئی دین نہیں) اوکما قال  وفداہ ابی وامی. 

اس طرح قرآن حکیم کے ان دومقامات پر مشتمل درس میں وہ تمام لازمی وناگزیر بنیادی اوصاف بیان ہو جاتے ہیں جن پر ایک مؤمن ومسلم کی ذاتی شخصیت اور انفرادی سیرت وکردار کی تعمیر کی جا سکتی ہے. اس امر کی وضاحت تحصیلِ حاصل ہے کہ ان میں سے ایک بنیاد بھی مفقود یا ضعیف ہو گی تو یہ تعمیر اسی نسبت وتناسب سے ناقص وکج اور کمزور ومضمحل ہو گی.