سورۃ التحریم کی روشنی میں


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ ۚ تَبۡتَغِیۡ مَرۡضَاتَ اَزۡوَاجِکَ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱﴾قَدۡ فَرَضَ اللّٰہُ لَکُمۡ تَحِلَّۃَ اَیۡمَانِکُمۡ ۚ وَ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیۡمُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۲﴾وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا ۚ فَلَمَّا نَبَّاَتۡ بِہٖ وَ اَظۡہَرَہُ اللّٰہُ عَلَیۡہِ عَرَّفَ بَعۡضَہٗ وَ اَعۡرَضَ عَنۡۢ بَعۡضٍ ۚ فَلَمَّا نَبَّاَہَا بِہٖ قَالَتۡ مَنۡ اَنۡۢبَاَکَ ہٰذَا ؕ قَالَ نَبَّاَنِیَ الۡعَلِیۡمُ الۡخَبِیۡرُ ﴿۳﴾اِنۡ تَتُوۡبَاۤ اِلَی اللّٰہِ فَقَدۡ صَغَتۡ قُلُوۡبُکُمَا ۚ وَ اِنۡ تَظٰہَرَا عَلَیۡہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوۡلٰىہُ وَ جِبۡرِیۡلُ وَ صَالِحُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَعۡدَ ذٰلِکَ ظَہِیۡرٌ ﴿۴﴾عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا 

’’اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو حلال کیا اللہ نے تجھ پر، چاہتا ہے تو رضامندی اپنی عورتونکی، اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان. مقرر کر دیا ہے اللہ نے تمہارے لئے کھول ڈالنا تمہاری قسموں کا، اور اللہ مالک ہے تمہارا، اور وہی ہے سب کچھ جانتا حکمت والا. اور جب چھپا کر کہی نبی نے اپنی کسی عورت سے ایک بات، پھر جب اس نے خبر کر دی اسکی اور اللہ نے جتلا دی نبی کو وہ بات تو جتلائی نبی نے اس میں سے کچھ اور ٹلا دی کچھ، پھر جب وہ جتلائی عورت کو بولی تجھ کو کس نے بتلا دی یہ، کہا مجھ کو بتایا اس خبر والے واقف نے. اگر تم دونوں توبہ کرتی ہو تو جھک پڑے ہیں دل تمہارے، اور اگر تم دونوں چڑھائی کرو گی اس پر تو اللہ ہے اس کا رفیق اور جبرئیل اور نیک بخت ایمان والے، اور فرشتے اس کے پیچھے مدد گار ہیں. اگر نبی چھوڑ دے تم سب کو ابھی اس کا رب بدلے میں دے دے اس کو عورتیں

خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ مُسۡلِمٰتٍ مُّؤۡمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثَیِّبٰتٍ وَّ اَبۡکَارًا ﴿۵﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا وَّ قُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ عَلَیۡہَا مَلٰٓئِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ اَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ ﴿۶﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَا تَعۡتَذِرُوا الۡیَوۡمَ ؕ اِنَّمَا تُجۡزَوۡنَ مَا کُنۡتُمۡ تَعۡمَلُوۡنَ ٪﴿۷﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا اِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا ؕ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّکَفِّرَ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ وَ یُدۡخِلَکُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ یَوۡمَ لَا یُخۡزِی اللّٰہُ النَّبِیَّ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَہٗ ۚ نُوۡرُہُمۡ یَسۡعٰی بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ بِاَیۡمَانِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَاۤ اَتۡمِمۡ لَنَا نُوۡرَنَا وَ اغۡفِرۡ لَنَا ۚ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۸﴾یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الۡکُفَّارَ وَ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ اغۡلُظۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَاۡوٰىہُمۡ جَہَنَّمُ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۹﴾ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ 

تم سے بہتر حکم بردار یقین رکھنے والیاں نماز میں کھڑی ہونے والیاں توبہ کرنے والیاں بندگی بجا لانے والیاں روزہ رکھنے والیاں بیاہیاں اور کنواریاں. اے ایمان والو بچائو اپنی جان کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے جس کی چھپٹیاںہیں آدمی اور پتھر اس پر مقرر ہیں فرشتے تندخو زبردست نافرمانی نہیں کرتے اللہ کی جو بات فرمائے ان کو اور وہی کام کرتے ہیں جو ان کو حکم ہو. اے منکر ہونے والو مت بہانے بتلائو آج کے دن، وہی بدلا پاؤ گے جو تم کرتے تھے. اے ایمان والو توبہ کرو اللہ کی طرف صاف دل کی توبہ، امید ہے تمہارا رب اتار دے تم پر سے تمہاری برائیاں اور داخل کرے تم کو باغوں میں جن کے نیچے بہتی ہیں نہریں،جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کریگا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لاتے ہیں اسکے ساتھ، انکی روشنی دوڑتی ہے انکے آگے اور انکے داہنے کہتے ہیں اے رب ہمارے پوری کر دے ہم کو ہماری روشنی اور معاف کر ہم کو، بیشک تو سب کچھ کر سکتا ہے. اے نبی لڑائی کر منکروں سے اور دغابازوں سے اور سختی کر ان پر، اور ان کا گھر دوزخ ہے اور بری جگہ جا پہنچے. اللہ نے بتلائی ایک مثل منکروں کے واسطے عورت نوح کی اور عورت لوط کی، گھر میں تھیں دونوں 
عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾وَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوا امۡرَاَتَ فِرۡعَوۡنَ ۘ اِذۡ قَالَتۡ رَبِّ ابۡنِ لِیۡ عِنۡدَکَ بَیۡتًا فِی الۡجَنَّۃِ وَ نَجِّنِیۡ مِنۡ فِرۡعَوۡنَ وَ عَمَلِہٖ وَ نَجِّنِیۡ مِنَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾وَ مَرۡیَمَ ابۡنَتَ عِمۡرٰنَ الَّتِیۡۤ اَحۡصَنَتۡ فَرۡجَہَا فَنَفَخۡنَا فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِنَا وَ صَدَّقَتۡ بِکَلِمٰتِ رَبِّہَا وَ کُتُبِہٖ وَ کَانَتۡ مِنَ الۡقٰنِتِیۡنَ ﴿٪۱۲﴾ 
دو نیک بندونکے ہمارے نیک بندوں میں سے پھر انہوں نے ان سے چوری کی پھر وہ کام نہ آئے انکے اللہ کے ہاتھ سے کچھ بھی اور حکم ہوا کہ چلی جاؤ دوزخ میں جانے والوں کے ساتھ. اور اللہ نے بتلائی ایک مثل ایمان والوں کیلئے عورت فرعون کی جب بولی اے رب بنا میرے واسطے اپنے پاس ایک گھر بہشت میں اور بچا نکال مجھ کو فرعون سے اور اسکے کام سے اور بچا نکال مجھ کو ظالم لوگوں سے. اور مریم بیٹی عمران کی جس نے روکے رکھا اپنی شہوت کی جگہ کو پھر ہم نے پھونک دی اس میں ایک اپنی طرف سے جان اور سچا جانا اپنے رب کی باتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور وہ تھی بندگی کرنے والوں میں. ‘‘

’عمل صالح‘ کی تشریح مزید کے ضمن میں چوتھا مقام سورۃ التحریم کامل ہے جو اصلاً انسان کی عائلی اور خاندانی زندگی میں ایک بندۂ مومن کے صحیح رویے کی وضاحت کرتی ہے. 

اس منتخب نصاب میں اس سے قبل دو مقامات پر ایک خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے ایک بندۂ رب کے صحیح رویے کے دو پہلوؤں کی جانب اشارہ ہو چکا ہے، یعنی ایک سورۃ التغابن کے دوسرے رکوع میں، جہاں منفی اور سلبی پہلو واضح کیا گیا کہ علائقِ دنیوی کی فطری محبت کی شکل میں ایک انسان کے دین وایمان کے لئے جو بالقوہ خطرہ 
(Potential Danger) موجود ہے ایک مومن کو ہر دم اس سے باخبر اور چوکس اور چوکنا رہنا چاہئے. اور دوسرے سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں، جہاں ایجابی ومثبت طور پر واضح کیا گیا کہ ایک بندۂ رحمن کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کے اہل وعیال بھی تقویٰ اور احسان کی روش اختیار کریں تاکہ اسے ٹھنڈک حاصل ہو. سورۃ التحریم میں یہی دونوں پہلو مزید وضاحت سے بیان ہوئے ہیں. 

چنانچہ اس میں اولاً ان مفاسد کا ذکر ہے جو ایک شوہر اور اس کی بیوی کے مابین اعتماد اور الفت ومحبت کے ایک مناسب حد سے تجاوز کر جانے سے پیدا ہوتے ہیں. یعنی شوہر کی جانب سے بیوی کی دلجوئی میں غلو (جس کی مثال اس سے دی گئی کہ آنحضور  نے 
’’ابتغاء مرضات ازواج‘‘ میں ایک حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا) اور بیویوں میں شوخی کا مناسب حد سے بڑھ جانا جس سے حدود اللہ کے ٹوٹ جانے اور گھر کا نظام درہم برہم ہو جانے کا خطرہ پیدا ہو جائے (اس کی مثال میں آنحضور  کے ایک راز کے بارے میں بعض ازواج مطہرات کی روش کو پیش کیا) واضح رہے کہ میاں بیوی کے مابین اعتماد اور باہمی الفت ومحبت اور مودت ورحمت فی نفسہٖ تو مطلوب ہیں لیکن ایک مناسب حد کے اندر اندر، نہ کہ لامحدود! (یہ بھی واضح رہے کہ سورۃ التحریم سے متصلاً قبل سورۃ الطلاق ہے جو اس کے بالکل برعکس اس صورت سے بحث کرتی ہے جہاں میاں بیوی کے مابین یہ تمام چیزیں کم ہوتے ہوتے مفقود ہونے کی حد تک پہنچ جائیں اور طلاق کی نوبت آجا ئے!)

اس منفی پہلو کی وضاحت کے بعد مثبت طور پر واضح کیا گیا ہے کہ ایک خاندان اور کنبے کے سربراہ کی حیثیت سے مرد پر اپنے اہل وعیال کے صرف نان نفقے ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ انہیں اللہ کے عذاب اور آخرت کی سزا سے بچانے کی فکر کرے. چنانچہ اسے ہر دم یہ فکر دامن گیر رہنی چاہئے کہ کہیں اس کے محبوب اور لاڈلے اور چہیتے 
زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ آخرت میں جہنم کے ان فرشتوں کے حوالے نہ کر دیئے جائیں جن کے دل شفقت ورحمت اور نرمی ورقت سے بالکل خالی ہوں گے. اور جہاں نافرمانوں کی ساری جزع وفزع اور فریاد وواویلے کا بس ایک ہی جواب ملے گا کہ یہ سب تمہاری اپنی کمائی ہے اور اس ’’خودکردہ‘‘ کا اب کوئی علاج نہیں (اس مقام پر آنحضور  کا وہ خطبہ ذہن میں رہنا چاہئے جو آپ نے اپنے قریب ترین عزیزوں کو جمع کر کے دیا تھا کہ: ’’ اے فاطمہ، محمد ؐ کی لختِ جگر، اور اے صفیہ، محمدؐ کی پھوپھی اپنے آپ کو آگ سے نکالنے کی فکر کرو. اس لئے کہ خدا کے یہاں تمہارے بارے میں مجھے کوئی اختیار حاصل نہیں ہو گا!‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم وفداہ ابی وامی) 

اس کے بعد دو باتیں ایسی ہیں جن کا بظاہر خاندانی وعائلی زندگی سے تو کوئی تعلق نہیں لیکن اس سورہ کے بنیادی مضمون اور اس کے عمومی مزاج سے گہرا ربط موجود ہے. یعنی ایک عام مسلمانوں کو ’’توبۂ نصوح‘‘ کی دعوت اور اس کے نتائج یعنی تکفیرِ سیئات اور ادخالِ جنت کے وعدوں اور آخرت کی رسوائی سے بچاؤ اور میدانِ حشر میں ایمان اور اعمال صالحہ کے نور کے ظہور کے ذکر سے اس کی جانب پر زور تشویق وترغیب اور دوسرے کفار اور منافقین کے ساتھ پوری سختی اور درشتی کے برتائو کا حکم اور ان کے ساتھ مجاہدے کے معاملے میں کسی نرمی کو راہ نہ دینے کی تاکید. ان میں سے مؤخر الذکر کے بارے میں تو بادنیٰ تامل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حکم اس سورت کے عمومی مزاج یعنی محبت ومودت اور رحمت ورافت کے حد اعتدال سے تجاوز کے خلاف تنبیہ کے ساتھ بالکل ہم آہنگ ہے. پہلا معاملہ البتہ ذرا غور طلب ہے لیکن قدرے گہرائی میں اترنے سے جلد ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ توبہ میں تاخیر اور اس کے مسلسل التواء کا اصل سبب انسان کی خود اپنے نفس پر بے جا نرمی اور اس کے ساتھ حد سے زیادہ لاڈ پیار ہی ہے جس کے سبب سے انسان اس کے جا وبے جا تمام تقاضے اور مطالبے پورے کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی باگیں کھینچنے اور طنابیں کسنے کی جانب متوجہ نہیں ہوتا. (سورۃ التحریم کے اس مقام کا مثنّٰی، سورۃ الحدید کے رکوع ۲ میں ہے جہاں حشر کے میدان میں نورِ ایمان واعمال کے ظہور کا ذکر بھی ہے اور منافقین کی رسوائی کا تذکرہ بھی، اور ان کے بعد 
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا … الآیہ میں اسی تاخیر والتواء کی جانب اشارہ ہے)

آخر میں خواتین کے لئے ایک نہایت اہم ہدایت اور بنیادی رہنمائی ہے. اور ان کے اس عام مغالطے کا پردہ چاک کیا گیا ہے کہ وہ اپنے نان نفقے کی طرح شاید دین وایمان کے معاملے میں بھی بالکلیہ مردوں ہی کے تابع 
(Dependant) ہیں. اور یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ عورت بھی مرد کی طرح ایک کامل شخصیت (Personality) کی حامل ہے اور اسے اپنے دین وایمان اور فلاح ونجات کی فکر خود کرنی چاہئے. اس ضمن میں چار خواتین کو مثال میں پیش فرمایا گیا. اور اس سے تین طرح کے حالات کی طرف اشارہ کر دیا جن سے ایک عورت کو امکانی طور پر سابقہ پیش آسکتا ہے یعنی ایک بہترین شوہر اور عمدہ ترین ماحول کے باوجود بدترین انجام جیسے حضرت نوح اور حضرت لوط علیہما السلام کی بیویاں. دوسرے بدترین شوہر اور بدترین ماحول کے علی الرغم بہترین انجام جیسے فرعون کی بیوی حضرت آسیہ، اور تیسرے نورٌ علی نور کے مصداق عمدہ ترین ماحول اور اس سے بہترین استفادہ جس کی مثال حضرت مریم صدیقہ ہیں. ان مثالوں سے قطعی طور پر ثابت ہو گیا کہ عورت لازماً اپنے شوہر اور ماحول کے تابع نہیں بلکہ اس کا معاملہ بھی لَہَا مَا کَسَبَتۡ وَ عَلَیۡہَا مَا اکۡتَسَبَتۡ ؕ کے قاعدہ کلیہ کے عین مطابق ہے. (ان تین صورتوں کے علاوہ نظری طور پر ایک ہی صورت اور ممکن ہے اور وہ یہ کہ عورت خود بھی بدخو وبدطینت ہو اور اسے شوہر بھی ایسا ہی مل جائے گویا ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ والی صورت بن جائے. اس کا ذکر اس مقام پر اس لئے نہیں کیا گیا کہ قرآن مجید کی بالکل ابتدائی زمانے کی سورتوں میں سے سورۃ اللّہب میں ابو لہب کی بیوی امّ جمیل کے کردار کی صورت میں اس کا ذکر موجود ہے).