سورۃ بنی اسرائیل ، رکوع ۳ و ۴ کی روشنی میں


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا یَبۡلُغَنَّ عِنۡدَکَ الۡکِبَرَ اَحَدُہُمَاۤ اَوۡ کِلٰہُمَا فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنۡہَرۡہُمَا وَ قُلۡ لَّہُمَا قَوۡلًا کَرِیۡمًا ﴿۲۳﴾وَ اخۡفِضۡ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحۡمَۃِ وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا ﴿ؕ۲۴﴾رَبُّکُمۡ اَعۡلَمُ بِمَا فِیۡ نُفُوۡسِکُمۡ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا صٰلِحِیۡنَ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلۡاَوَّابِیۡنَ غَفُوۡرًا ﴿۲۵﴾وَ اٰتِ ذَاالۡقُرۡبٰی حَقَّہٗ وَ الۡمِسۡکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ وَ لَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِیۡرًا ﴿۲۶﴾اِنَّ الۡمُبَذِّرِیۡنَ کَانُوۡۤا اِخۡوَانَ الشَّیٰطِیۡنِ ؕ وَ کَانَ الشَّیۡطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوۡرًا ﴿۲۷﴾وَ اِمَّا تُعۡرِضَنَّ عَنۡہُمُ ابۡتِغَآءَ رَحۡمَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکَ تَرۡجُوۡہَا فَقُلۡ لَّہُمۡ قَوۡلًا مَّیۡسُوۡرًا ﴿۲۸﴾وَ لَا تَجۡعَلۡ یَدَکَ مَغۡلُوۡلَۃً 

’’اور حکم کر چکا تیرا رب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو، اگر پہنچ جائے تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے یا دونوں تو نہ کہہ ان کو ہوں اور نہ جھڑک ان کو اور کہہ ان سے بات ادب کی. اور جھکا دے انکے آگے کندے عاجزی کر کر نیازمندی سے اور کہہ اے رب ان پر رحم کر جیسا پالا انہوں نے مجھ کو چھوٹا سا. تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے جی میں ہے اگر تم نیک ہو گے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشتا ہے. اور دے قرابت والے کو اس کا حق اور محتاج کو اور مسافر کو اور مٹ اڑا بیجا. بیشک اڑانے والے بھائی ہیں شیطانوں کے اور شیطان ہے اپنے رب کا ناشکر. اور اگر کبھی تغافل کرے تو ان کی طرف سے انتظار میں اپنے رب کی مہربانی کے جس کی تجھ کو توقع ہے تو کہہ دے ان کو بات نرمی کی. اور نہ رکھ اپنا ہاتھ بندھا ہوا

اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبۡسُطۡہَا کُلَّ الۡبَسۡطِ فَتَقۡعُدَ مَلُوۡمًا مَّحۡسُوۡرًا ﴿۲۹﴾اِنَّ رَبَّکَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ ؕ اِنَّہٗ کَانَ بِعِبَادِہٖ خَبِیۡرًۢا بَصِیۡرًا ﴿٪۳۰﴾وَ لَا تَقۡتُلُوۡۤا اَوۡلَادَکُمۡ خَشۡیَۃَ اِمۡلَاقٍ ؕ نَحۡنُ نَرۡزُقُہُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ ؕ اِنَّ قَتۡلَہُمۡ کَانَ خِطۡاً کَبِیۡرًا ﴿۳۱﴾وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا ﴿۳۲﴾وَ لَا تَقۡتُلُوا النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ ؕ وَ مَنۡ قُتِلَ مَظۡلُوۡمًا فَقَدۡ جَعَلۡنَا لِوَلِیِّہٖ سُلۡطٰنًا فَلَا یُسۡرِفۡ فِّی الۡقَتۡلِ ؕ اِنَّہٗ کَانَ مَنۡصُوۡرًا ﴿۳۳﴾وَ لَا تَقۡرَبُوۡا مَالَ الۡیَتِیۡمِ اِلَّا بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ حَتّٰی یَبۡلُغَ اَشُدَّہٗ ۪ وَ اَوۡفُوۡا بِالۡعَہۡدِ ۚ اِنَّ الۡعَہۡدَ کَانَ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۴﴾وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا ﴿۳۵﴾وَ لَا تَقۡفُ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنَّ السَّمۡعَ وَ الۡبَصَرَ وَ الۡفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنۡہُ مَسۡـُٔوۡلًا ﴿۳۶﴾وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا ۚ اِنَّکَ لَنۡ تَخۡرِقَ الۡاَرۡضَ وَ لَنۡ تَبۡلُغَ الۡجِبَالَ طُوۡلًا ﴿۳۷﴾کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنۡدَ رَبِّکَُ 

اپنی گردن کے ساتھ اور نہ کھول دے اس کو بالکل کھول دینا پھر تو بیٹھ رہے الزام کھایا ہارا ہوا. تیرا رب کھول دیتا ہے روزی جس کے واسطے چاہے اور تنگ بھی وہی کرتا ہے، وہی ہے اپنے بندوں کو جاننے والا دیکھنے والا. اور نہ مار ڈالو اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے، ہم روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو، بیشک ان کا مارنا بڑی خطا ہے. اور پاس نہ جاؤ زنا کے وہ ہے بے حیائی، اور بری راہ ہے. اور نہ مارو اس جان کو جس کو منع کر دیا ہے اللہ نے مگر حق پر، اور جو مارا گیا ظلم سے تو دیا ہم نے اس کے وارث کو زور سو حد سے نہ نکل جائے قتل کرنے میں، اس کو مدد ملتی ہے. اور پاس نہ جاؤ یتیم کے مال کے مگر جس طرح کہ بہتر ہو جب تک کہ وہ پہنچے اپنی جوانی کو،اور پورا کرو عہد کو، بیشک عہد کی پوچھ ہو گی. اور پورا بھردو ماپ جب ماپ کر دینے لگو اور تولو سیدھی ترازو سے، یہ بہتر ہے اور اچھا ہے اس کا انجام. اور نہ پیچھے پڑ جس بات کی خبر نہیں تجھ کو، بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کی اس سے پوچھ ہو گی. اور مت چل زمین پر اتراتا ہوا، تو پھاڑ نہ ڈالے گا زمین کو اور نہ پہنچے گا پہاڑوں تک لمبا ہو کر. یہ جتنی باتیں ہیں ان سب میں بری چیز ہے تیرے رب کی 
مَکۡرُوۡہًا ﴿۳۸﴾ذٰلِکَ مِمَّاۤ اَوۡحٰۤی اِلَیۡکَ رَبُّکَ مِنَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ وَ لَا تَجۡعَلۡ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ فَتُلۡقٰی فِیۡ جَہَنَّمَ مَلُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ﴿۳۹﴾اَفَاَصۡفٰىکُمۡ رَبُّکُمۡ بِالۡبَنِیۡنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ اِنَاثًا ؕ اِنَّکُمۡ لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾ 

بیزاری. یہ ہے ان باتوں میں سے جو وحی بھیجی تیرے رب نے تیری طرف عقل کے کاموں سے، اور نہ ٹھہرا اللہ کے سوائے کسی اور کی بندگی پھر پڑے تو دوزخ میں الزام کھا کر دھکیلا جا کر. کیا تم کو چن کر دے دیئے تمہارے رب نے بیٹےاور اپنے لئے کر لیا فرشتوں کو بیٹیاں، تم کہتے ہو بھاری بات.‘‘

’اعمالِ صالحہ‘ کے ذیل میں پانچواں مقام سورۃ بنی اسرائیل کے رکوع ۳ و ۴ پر مشتمل ہے، جن میں انسان کی تمدنی وسماجی ومعاشرتی زندگی کے متعلق بعض انتہائی بنیادی اور حد درجہ اہم احکام بیان ہوئے ہیں. 

ماہرینِ اجتماعیات نے دورِ جدید کے ہمہ گیر تصورِ ریاست کے ارتقاء کے دوران بہت سے درمیانی مراحل کا ذکر کیا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان دو رکوعوں میں بیان شدہ احکام وہدایات کی صورت میں ایک ایسی سوسائٹی کے لئے کامل لائحہ عمل اور دستورِ حیات موجود ہے جو تمدن کے ابتدائی مراحل میں ہو اور جس میں ایک مختصر سا مجموعۂ ہدایات سوسائٹی کے جملہ تہذیبی وسماجی، معاشی ومعاشرتی اور اخلاقی وقانونی گوشوں میں رہنمائی کے لئے کافی ہو جائے. واضح رہے کہ اس حقیقت کی جانب حضرت ابن عباسؓ کا وہ قول بھی رہنمائی کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں توراۃ کی پوری تعلیم درج فرما دی ہے، گویا کہ یہ آیات توراۃ کے احکامِ عشرہ 
(Ten Commandments) کی قرآنی تعبیر (Version) ہیں. 

سورۃ المومنون اور سورۃ المعارج کی طرح ان احکام کا اول وآخر بھی ایک ہی ہے، یعنی اجتناب عن الشرک اور التزامِ توحید 
فی العبادۃ والالوہیۃ. گویا کہ جیسے ایک فردِ نوع بشر کی سعادت عقیدۂ توحید پر منحصر ہے، اسی طرح انسانی اجتماعیت کی فلاح کا دارومدار بھی توحید ہی پر ہے. اس لئے کہ توحید محض ایک عقیدہ (Dogma) نہیں ہے بلکہ ایک پورے نظامِ فکر کی اساس ہے جس سے ایک صالح تمدن وجود میں آتا ہے اور ایک صحت مند معاشرت، منصفانہ معیشت اور عادلانہ حکومت کی داغ بیل پڑتی ہے. 

دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور خصوصاً ان کی ضعیفی میں ان پر رحمت وشفقت اور ان کے سامنے دبے اور جھکے رہنے کا حکم ہے. سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کی طرح اس مقام پر بھی واضح کر دیا گیا کہ انسان پر خدا کے بعد سب سے زیادہ اور سب سے زیادہ مقدم حقوق والدین ہی کے ہیں حتیٰ کہ کسی انسان کے لئے ان کے حقوق کی ادائیگی فی الحقیقت ممکن ہی نہیں، اور وہ مجبور ہے کہ خدا ہی سے ان پر رحم کی دعائیں کر کے ان کا بدلہ کسی قدر چکانے کی کوشش کرے. یہ بھی واضح رہے کہ انسانی تمدن کی صحت اور درستی کے لئے والدین اور اولاد کے تعلق کا صحیح بنیادوں پر قائم ہونا ناگزیر ہے.

والدین کے بعد اعزہ واقارب کے وسیع تر حلقے کے حقوق کی ادائیگی کی تاکید ہے جن کے ساتھ پوری سوسائٹی کے مساکین وغرباء کو بھی ملحق کر دیا گیا ہے اور اس ذیل میں تبذیر کی ممانعت اور اس کی شدید مذمت بھی کر دی گئی ہے. اس لئے کہ جب انسان محض نمائش اور نرے نام ونمود پر پیسہ اڑانے لگتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ادائے حقوقِ اقارب ومساکین کے لئے اس کے پاس پیسہ ہی باقی نہیں رہتا. واضح رہے کہ سورۃ الفرقان کے آخری رکوع میں چونکہ زیادہ تر انسان کا ذاتی کردار زیر بحث ہے لہٰذا بخل اور اسراف کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لایا گیا جو اصلاً انسان کے ذاتی اخراجات کی دو انتہائیں ہیں، اور یہاں چونکہ معاشرتی وسماجی مسائل زیر بحث ہیں لہٰذا تبذیر کا ذکر کیا گیا جو ادائے حقوق کی ضد ہے. گویا ایک ہی آیت میں ان دونوں کا ذکر کر کے یہ رہنمائی دے دی گئی کہ انسان کو چاہئے کہ اپنی دولت کو ابنائے نوع پر رُعب گانٹھنے کی بجائے ان کی احتیاجات کا رفع کرنے کا ذریعہ بنائے.

پھر حکم دیا گیا کہ نہ مٹھی بالکل بند کر لو اور نہ ہاتھ پورے کا پورا کھول دو، بلکہ اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو. اور اس میں اگرچہ تبعاً ذاتی اخرجات کا معاملہ بھی شامل ہے تاہم اس مقام پر اصلاً ہدایت صدقات وخیرات میں اعتدال کی ہے. چنانچہ واضح کر دیا گیا کہ کسی کی کشادگی وتونگری کے نہ تو تم ذمہ دار ہو اور نہ یہ فی الواقع تمہارے بس ہی میں ہے. اس کا 
فیصلہ تو اللہ تعالیٰ ہی اپنے علمِ کامل اور اپنی حکمتِ بالغہ کے تحت کرتا ہے. تمہارا کام صرف اپنا فرض ادا کرنا ہے. اسے اعتدال کے ساتھ ادا کرتے رہو.

ان معاشی ہدایات کے ذیل میں بھوک اور افلاس کے خوف سے قتلِ اولاد (جس میں اصلاً تو نہیں البتہ تبعاً معاشی محرکات کے تحت منع حمل بھی شامل ہے) سے روکا گیا اورواضح کیا گیا کہ رزق کے ٹھیکیدار تم نہیں ہو بلکہ اس کی پوری ذمہ داری خدا پر ہے. وہی تمہیں بھی کھلاتا ہے اور تمہاری آئندہ نسل کو بھی کھلائے گا. 

اس کے بعد زنا اور قتلِ نفس بغیر حق سے روکا گیا. (تقابل کے لئے دیکھئے سورۃ الفرقان کا آخری رکوع) اور آخر میں چند انتہائی اہم اخلاقی ہدایات دی گئی ہیں جو صالح معاشرت کی ضامن ہیں. یعنی (۱) یتیم کے مال کی حفاظت (۲) عہد اور قول وقرار کی پابندی (۳) ناپ تول میں کمی بیشی سے اجتناب (۴) صحیح علم کی پیروی کرنا (اور اوہام وظنون سے بچنا) اور (۵) تکبر وغرور سے بچے رہنا. (تقابل کے لئے دیکھئے سورۂ لقمان رکوع۲. دونوں مقامات پر سب سے آخری حکم غرور وتمکنت سے اجتناب ہی کا ہے اور دونوں جگہوں پر اسی کو ’حکمت‘ کا آخری ثمرہ قرار دیا گیا ہے)

اس سلسلۂ ہدایات کے اختتام پر توحید میں سے خصوصاً وحدتِ الٰہ اور توحید فی الالوھیۃ کا ذکر کر کے اشارہ کر دیا گیا کہ اجتماعیاتِ انسانی کے مزید ارتقاء سے جب ’ریاست‘ 
(State) وجود میں آئے تو اس کی اساس حاکمیتِ خداوندی (Divine Sovereignty) پر قائم ہو گی اور اس کی صحت و درستی کا تمام تر دار ومدار حاکمیتِ غیر کی کامل نفی ہی پر ہو گا. (گویا کہ خالص انفرادیت سے اجتماعیت کی بلند ترین منزل تک انسان کے پورے سفر کے دوران اس کا ہادی اور رہنما عقیدۂ توحید ہی ہے، جس کے مختلف پہلو جیسے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الالوھیۃ اس کی زندگی کے مختلف گوشوں کی صحت اور درستی کے ضامن بنتے ہیں).