مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کی ان دو بنیادوں میں سے پہلی چونکہ عقیدۂ توحید فی الالوہیۃ کا لازمی نتیجہ ہے اور اس اعتبار سے گویا قرآن حکیم کے ہر صفحے پر بطرز جلی اس کا ذکر موجود ہے لہٰذا اس مقام پر اس کا ذکر صرف ایک آیت میں کر دیا گیا. اس کے بالمقابل اصلِ ثانی پر انتہائی زور دیا گیا. اور بعض متعین واقعات پر گرفت اور سرزنش کے ضمن میں واضح کر دیا گیا کہ ؎
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست!
اگر بہ اُو نہ رسیدی تمام بو لہبی است!!
اس لئے کہ حقیقت یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی ذاتِ گرامی میں ملتِ اسلامیہ کے پاس وہ ’مرکزی شخصیت‘ موجود ہے جس سے تمدنِ انسانی کی وہ فطری ضرورت بہ تمام وکمال اور بغیر تصنع وتکلف پوری ہو جاتی ہے جس کے لئے دوسری قوموں کا باقاعدہ تکلف واہتمام کے ساتھ شخصیتوں کے بت تراشنے اور ہیرو (Heroes) گھڑنے کا کھکھیڑ مول لینا پڑتا ہے. مزید برآں دنیا کی دوسری اقوام تو ؏ ’’می تراشد فکرِ ما ہردم خداوندے دگر‘‘کے مصداق مجبور ہیں کہ ہر دور میں ایک نئی شخصیت کا بت تراشیں، لیکن ملتِ اسلامیہ کے پاس ایک دائم وقائم ’مرکز‘ موجود ہے جو اس کے ثقافتی تسلسل (Cultural Continuity) کا ضامن ہے (اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اَنَّ فِیْکُمْ رَسُوْلَ اللّٰہِ میں خطاب صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی سے نہیں بلکہ تا قیامِ قیامت پوری امتِ مسلمہ سے ہے) اس دوام اور تسلسل کے ساتھ ساتھ، امت مسلمہ کی وسعت اور پھیلاؤ پر بھی نگاہ رہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ یہ آنحضور ﷺ کی ’مرکزیت‘ ہی کا ثمرہ ہے کہ مشرقِ اقصیٰ سے لے کر مغربِ بعید تک پھیلی ہوئی قوم میں نسلی ولسان کے شدید اختلاف اور تاریخی وجغرافیائی عوامل کے انتہائی بُعد کے علی الرغم ایک گہری ثقافتی یک رنگی (Cultural Homogeneity) موجود ہے. اور اسی کی فرع کے طور پر اس حقیقت پر بھی ہمیشہ متنبہ رہنا چاہئے کہ مختلف مسلمان ممالک میں علیحدہ علیحدہ قیادتوں اور ’علاقائی شخصیتوں‘ کو بس ایک حد تک ہی ابھارنا چاہئے، اس سے تجاوز کی صورت میں اس سے ’وحدتِ ملت‘ کی جڑیں کمزور ہونے کا اندیشہ ہے. گویا بقول علامہ اقبال ؎
یہ زائرینِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
روئے زمین کی تمام مسلمان اقوام کو معیارِ قیادت ایک ہی رکھنا چاہئے اور وہ ہے ذاتِ محمدؐ فداہ ابی وامی ﷺ .
مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کی متذکرہ بالا دو بنیادوں میں سے ایک زیادہ تر عقلی ومنطقی ہے اور دوسری نسبتاً جذباتی. پہلی پر دستور وقانون کا دارومدار ہے اور دوسری پر تہذیب وثقافت کی تعمیر ہوتی ہے اور ان دونوں کا باہمی رشتہ ایک دائرے اور اس کے مرکز کا ہے. مسلمان اجتماعیت کے اس دائرے میں ’محصور‘ ہے جو خدا اوراس کے رسول کے احکام نے کھینچ دیا ہے اوراس کے مرکز کی حیثیت آنحضور ﷺ کی دلآویز اور دلنواز شخصیت کو حاصل ہے جن کے اتباع کے جذبے سے اس ہیئت اجتماعی کو ثقافتی یک رنگی نصیب ہوتی ہے اور جن کی محبت کے رشتے سے اس کے افراد ایک مرکز سے بھی وابستہ رہتے ہیں اور باہم دگر بھی جڑے رہتے ہیں.
(اب اس معذرت کے ساتھ آگے چلتا ہوں کہ ’مقامِ رسالت‘ کے ذکر میں طولِ کلام فی الواقع ؏ ’’لذیذ بود حکات دراز تر گفتم‘‘ کے مصداق ہے)
دوسرا حصہ ان احکامات پر مشتمل ہے جن پر عمل پیرا ہونے سے ملتِ اسلامیہ کے افراد اور گروہوں اور جماعتوں کے مابین رشتہ محبت والفت کے کمزور ہونے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں اور اختلاف وانتشار اور فتنہ وفساد کو بڑھنے سے روکا جا سکتا ہے. ان احکامات کو بھی مزید دو عنوانات میں تقسیم کیا جا سکتا ہے. ایک وہ اہم تر احکام جو وسیع پیمانے پر گروہوں کے مابین تصادم سے بحث کرتے ہیں اور دوسرے وہ بظاہر چھوٹے لیکن حقیقۃً نہایت بنیادی احکام جو خالص انفرادی سطح پر نفرت اور عداوت کا سدباب کرتے ہیں.
مقدم الذکر احکام دو ہیں:
(i) افواہوں کی روک تھام اور کسی حتمی فیصلے اور عملی اقدام سے قبل اچھی طرح تحقیق وتفتیش اور چھان بین کا اہتمام (۱) اور
(ii) نزاع کے واقع ہو جانے کی صورت میں صحیح طرز عمل. یعنی
(الف) یہ کہ فریقین کے مابین صلح کرانے کو اجتماعی ذمہ داری اور معاشرتی فرض سمجھا جائے. گویا کہ لاتعلقی (Indifference) کی روش کسی طور صحیح نہیں،
(ب) اس کے بعد بھی اگر ایک فریق زیادتی ہی پر مُصر رہے تو اب اس کا مقابلہ صرف فریق ثانی ہی کو نہیں پوری ہیئتِ اجتماعیہ کو کرنا چاہئے اور (۱) اس سلسلے میں آنحضور ﷺ کے یہ الفاظ مبارکہ مستحضر رہنے چاہئیں کہ کَفٰی بِالْمَرْئِ کَذِبًا اَنْ یُحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سِمِعَ ایک شخص کے جھوٹے ہونے کے لئے یہ بات بالکل کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اسے آگے بیان کر دے (یعنی آگے بیان کرنے سے قبل اس کی صحت کی تحقیق وتصدیق نہ کرے) (ج) جب وہ گردن جھکا دے تو از سرِ نو عدل وقسط پر مبنی صلح کرادی جائے. (اس مقام پر عدل اور قسط کا مکرر موکد ذکر خاص طور پر اس لئے ہے کہ جب پوری ہیئتِ اجتماعیہ اس فریق سے ٹکرائے گی تو فطری طور پر اس کا امکان موجود ہے کہ دوبارہ صلح میں اس فریق پر غصے اور جھنجھلاہٹ کی بنا پر زیادتی ہو جائے.)
مؤخر الذکر احکام چھ نواہی پر مشتمل ہیں یعنی ان میں سے اُن چھ معاشرتی برائیوں سے منع فرمایا گیا ہے جن کے باعث بالعموم دو افراد یا گروہوں کے مابین رشتہ محبت والفت کمزور پڑ جاتا ہے اور اس کی جگہ نفرت وعداوت کے بیج بوئے جاتے ہیں اور ایسی کدورت پیدا ہو جاتی ہے جو پھر کسی طرح نہیں نکلتی. اس لئے کہ عام ضرب المثل کے مطابق تلواروں کے گھاؤ بھر جاتے ہیں لیکن زبان کے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے! وہ چھ چیزیں یہ ہیں:
۱. تمسخر (اس کے سدباب کے لئے اس نہایت گہری حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے صرف ظاہر کو دیکھتا ہے اور اسی کی وجہ سے تمسخر کا مرتکب ہو بیٹھتا ہے حالانکہ اصل چیز انسان کا باطن ہے اور خدا کی نگاہ میں انسانوں کی قدر وقیمت ان کے باطن کی بنیاد پر ہے)
۲. عیب جوئی اور تہمت (اس کے ذیل میں اس حقیقت کی طرف توجہ دلائی کہ جب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں تو کسی دوسرے مسلمان کو عیب لگانا گویا خود اپنے آپ کو عیب لگانا ہے)
۳. تنابُز بالالقاب، یعنی لوگوں یا گروہوں کے توہین آمیز نام رکھ لینا (اس کے ضمن میں اشارہ فرمایا کہ اسلام لانے کے بعد برائی کا نام بھی نہایت برا ہے)
۴. سوءِ ظن (اس لئے کہ بہت سے ظن گناہ کے درجے میں ہیں)
۵. تجسس اور
۶. آخری اور اہم ترین، غیبت جس کی شناعت کے اظہار کے لئے حد درجہ بلیغ تشبیہ اختیار کی یعنی یہ کہ کسی مسلمان کی غیبت ایسی ہے جیسے کسی مردہ بھائی کا گوشت کھانا. (اس لئے کہ جس طرح ایک مردہ اپنے جسم کا دفاع نہیں کر سکتا اسی طرح ایک غیر موجود شخص بھی اپنی عزت کے تحفظ پر قادر نہیں ہوتا).
الغرض ان آٹھ اوامر ونواہی سے مسلمانوں کی ہیئتِ اجتماعیہ کا استحکام مطلوب ہے. اس لئے کہ جس طرح بڑی سے بڑی فصیل بھی بہرحال اینٹوں ہی سے بنی ہوتی ہے اور اس کے استحکام کا دارومدار جہاں اینٹوں کی پختگی اور مضبوطی پر ہوتا ہے وہاں اینٹوں کو جوڑنے والے گارے یا چونے یا کسی دیگر مسالے (Cement Substance) کی پائیداری پر بھی ہوتا ہے. اسی طرح ملتِ اسلامیہ کے استحکام کے لئے بھی جس قدر مسلمانوں میں سے ہر ہر فرد کا سیرت وکردار کے اعتبار سے پختہ ہونا ضروری ہے، اسی قدر ان کے مابین رشتہ محبت والفت کی استواری بھی لازمی ہے. یہ البتہ واضح رہے کہ ملتِ اسلامیہ کا استحکام عام قومی تصورات کے تحت دنیوی غلبہ واقتدار کے لئے نہیں بلکہ اس لئے مطلوب ہے کہ وہ ع ’’ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے‘‘ کے مصداق خدا کی زمین پر خدا کی مرضی پوری کرنے کا ذریعہ اور آلہ (Instrument) ہے.
تیسرا حصہ دو انتہائی اہم مباحث پر مشتمل ہے.
۱. پہلی بحث انسان کی عزت وشرف کے معیار سے متعلق ہے جس کے ذیل میں واضح کر دیا گیا ہے کہ انسان کی عزت وذلت یا شرافت ورذالت کا معیار نہ کنبہ ہے نہ قبیلہ، نہ خاندان ہے نہ قوم، نہ رنگ ہے نہ نسل، نہ ملک ہے نہ وطن، نہ دولت ہے نہ ثروت، نہ شکل ہے نہ صورت، نہ حیثیت ہے نہ وجاہت، نہ پیشہ ہے نہ حرفہ اور نہ مقام ہے نہ مرتبہ بلکہ صرف ’تقویٰ‘ ہے، اس لئے کہ پوری نوع انسانی ایک ہی خدا کی مخلوق بھی ہے اور ایک ہی انسانی جوڑے (آدم وحوا) کی اولاد بھی.
یہ بحث فی نفسہٖ بھی نہایت اہم ہے اس لئے کہ واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں بدامنی اور انتشار اور انسانوں کے مابین تصادم اور ٹکراؤ کا بہت بڑا سبب نسل اور نسب کا غرور ہی ہے اور یہ قومی گروہی مفاخرت ہی ہے جو مابین الانسانی منافرت کا اصل سبب بنتی ہے (اس سلسلے میں یہ حقیقت پیشِ نظر رہنی چاہئے کہ آنحضور ﷺ کے بدترین دشمن (۱) بھی معترف ہیں کہ آپؐ نے واقعۃً انسانی عزت وشرف کی متذکرہ بالا تمام غلط بنیادوں کو منہدم کر دیا اور انسانی مساوات اور اخوت کی بنیادوں پر ایک معاشرہ عملاً قائم فرمادیا) لیکن خاص طور پر اس مقام پر اس بحث کے دو رخ لائق توجہ ہیں. ایک یہ کہ اوپر جن سماجی برائیوں سے منع فرمایا گیا مثلاً تمسخر واستہزاء اور عیب جوئی وبدگوئی ان کی جڑ میں جوگمراہی کارفرما ہے وہ اصل میں یہی نسل ونسب کی بنیاد پر تفاخر وتباہی کا جذبہ ہے اور دوسرے یہ کہ اسلام ان میں سے کسی چیز کی بنیاد پر انسانوں کے مابین تفریق وتقسیم کا قائل نہیں بلکہ وہ ایک خالص نظریاتی معاشرہ اور ریاست قائم کرنا چاہتا ہے. اس کے یہاں انسانوں کے مابین صرف ایک تقسیم معتبر ہے اور وہ ہے ایمان کی تقسیم اور اہلِ ایمان کے حلقے میں بھی اس کے نزدیک صرف ایک معیارِ عزت وشرف معتبر ہے اور وہ ہے تقویٰ کا معیار.
اس سلسلے میں ضمنی طور پر ایک دوسری نہایت اہم حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہو گیا یعنی یہ کہ اسلامی معاشرہ اور ریاست کا باقی انسانی معاشروں اور ریاستوں سے ربط وتعلق ان دو بنیادوں پر قائم ہو سکتا ہے جو پوری نوعِ انسانی کے مابین مشترک ہیں یعنی (i) وحدتِ الٰہ(ii)وحدتِ آدم. اسی اہم حقیقت کو اجاگر کرنے کے لئے اس مقام پر تخاطب اس سورت کے عام اسلوب سے ہٹ کر بجائےیٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ سے ہوا (واضح رہے کہ قرآن حکیم میں سورۃ الحجرات کی اس آیت مبارکہ کا مثنّٰی سورۃ النساء کی پہلی آیت ہے جس میں یہ تمام حقائق ایک عکسی ترتیب سے بیان ہوئے ہیں).
۲. دوسری اہم بحث اسلام اور ایمان کے مابین فرق وتمیز کی وضاحت سے متعلق ہے.
واضح رہے کہ قرآن حکیم میں ایمان واسلام اور مومن ومسلم کی اصطلاحات اکثر وبیشتر (۱) چنانچہ ایچ جی ویلز (H.G.Wells) نے اپنی ’’مختصر تاریخ عالم‘‘ میں آنحضور ﷺ کے خطبۂ حجۃ الوداع کے ذیل میں واضح طور پر اقرار کیا ہے کہ انسانی مساوات اور اخوت کے نہایت اونچے وعظ تو اگرچہ مسیح ناصری (علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام) کے یہاں بھی موجود ہیں لیکن ان بنیادوں پر تاریخ میں پہلی بار ایک معاشرے کا واقعی قیام صرف محمد عربی (ﷺ وفداہ ابی وامی) کا کارنامہ ہے. ہم معنی اور مترادف الفاظ کی حیثیت سے استعمال ہوئی ہیں. اس لئے کہ واقعہ یہی ہے کہ یہ ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں. اور ایمان انسان کی جس داخلی کیفیت کا نام ہے اسلام ان کا خارجی ظہور ہے، لہٰذا جو انسان قلب میں ایمان ویقین کی دولت رکھتا ہو اور عمل میں اسلام اور اطاعت کی روش اختیار کر لے اسے اَیًّامَّا تَدۡعُوۡا فَلَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ۚ ایک انگریزی مقولے (۱) کے مصداق چاہے مومن کہہ لیا جائے چاہے مسلم بات ایک ہی ہے، بخلاف اس مقام کے کہ یہاں ایمان واسلام کو ایک دوسرے کے مقابل لایا گیا ہے اور ایمان کی نفی کامل کے علی الرغم اسلام کا اثبات کیا گیا ہے.
اس مقام پر اس بحث کے لانے کا اصل مقصد یہ ہے کہ یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جائے کہ اسلامی معاشرے میں شمولیت اور اسلامی ریاست کی شہریت کی بنیاد ایمان پر نہیں ہے بلکہ اسلام پر ہے، اس لئے کہ ایمان ایک باطنی کیفیت ہے جو کسی قانونی بحث وتفتیش اور ناپ تول کا موضوع نہیں بن سکتی. لہٰذا مجبوری ہے کہ دنیا میں بین الانسانی معاملات کو صرف خارجی رویے کی بنیاد پر استوار کیا جائے جس میں ایمان کا زیادہ سے زیادہ صرف ’’اِقْرَارٌ مبِاللِّسَان‘‘ والا پہلو شامل ہو سکتا ہے.
اس کے علاوہ اس بحث سے دو مزید عظیم حقائق کی جانب رہنمائی ہو گئی.
ایک یہ کہ انسان کی ایک ایسی حالات بھی ممکن ہے کہ اس کے دل میں نہ تو مثبت وایجابی طور پر ایمان ہی متحقق ہو نہ منفی وسلبی طور پر نفاق، بلکہ ایک خلا کی سی کیفیت ہو لیکن اس کے عمل میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت موجود ہو. اس حال میں اگرچہ اس قاعدہ کلیہ کی رُو سے کہ بغیر ایمان انسان کا کوئی عمل بارگاہِ خداوندی میں مقبول نہیں ہو سکتا، یہ چیز بھی مبنی برعدل ہی ہوتی کہ ایسی اطاعت قبول نہ کی جاتی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل وکرم ہے (جس کی جانب اشارہ دو اسمائے حسنیٰ غفور اور رحیم سے کر دیا گیا) کہ اس اطاعت کو بھی سندِ قبول عطا فرما دی گئی. (واضح رہے کہ آنحضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں جب وَ رَاَیۡتَ النَّاسَ یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا ۙ﴿۲﴾ کی صورت ہوئی تو اس وقت بھی بہت (۱) (Call the rose by any name it will smell as sweet) سے لوگوں کے ایمان واسلام کی نوعیت یہی تھی اور بعد میں تو ہر دور میں امتِ مسلمہ کے سواد اعظم کا حال یہ رہا ہی ہے).
دوسرے یہ کہ حقیقی ایمان کی بھی ایک جامع ومانع تعریف بیان ہو گئی اور واضح کر دیا گیا کہ فی الحقیقت ایمان نام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ (۱) پر ایسے پختہ یقین کا جس میں شکوک وشبہات کے کانٹے چبھے نہ رہ گئے ہوں اور جس کا اولین اور نمایاں ترین عملی مظہر جہاد فی سبیل اللہ ہے. یعنی یہ کہ انسان ہدایتِ آسمانی کی نشرواشاعت اور حق کی شہادت اور اللہ کے دین کی تبلیغ وتعلیم اور اس کے غلبہ واظہار کے لئے جان ومال سے کوشش کرے اور اس جدوجہد میں تن من دھن سب قربان کر دے. آیت کے آخر میں مزید کھول دیا گیا کہ صرف ایسے ہی لوگ اپنے دعویٰ ایمان میں سچے ہیں.
سورۃ الحجرات کی اس آیہ کریمہ اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ پر گویا کہ ہمارے منتخب نصاب کا جزو ثانی ختم اور جزو ثالث شروع ہو جاتا ہے. اس لئے کہ سورۃ العصر میں بیان شدہ چار لوازمِ نجات کو اس آیت میں دو اصطلاحات میں جمع کر دیا گیا ہے، ایک ایمانِ حقیقی جو جامع ہے ایمانِ قولی اور عملِ صالح دونوں کا اور دوسرے جہاد فی سبیل اللہ جو جامع ہے تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کا، چنانچہ یہیں سے تواصی بالحق کی تفصیلی بحث کا آغاز ہوتا ہے.
(۱) واضح رہے کہ دوسرے ایمانیات ان کے ذیل میں آپ سے آپ مندرج ہو گئے.