درسِ اوّل 
جہاد فی سبیل اللہ کی غایتِ اُولیٰ شہادت علی الناس
سورۃ الحج کے آخری رکوع کی روشنی میں

درسِ دوم
جہاد فی سبیل اللہ کی عظمت واہمیت
سورۃ التوبہ کی آیت ۲۴کی روشنی میں

درسِ سوم
جہاد فی سبیل اللہ کی غایتِ قصویٰ اور ’منتہائے مقصود‘
اِظْہَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ
سورۃ الصف کی روشنی میں

درسِ چہارم
انقلابِ نبویؐ کا اساسی منہاج
سورۃ الجمعہ کی روشنی میں

درسِ پنجم
اعراض عن الجہاد کی پاداش : نفاق
سورۃ المنافقون کی روشنی میں

سورۃ العصر میں بیان شدہ شرائطِ نجات یا لوازمِ فوز وفلاح میں سے تیسری شرطِ لازم کو ’تواصی بالحق‘ کے حد درجہ جامع عنوان سے تعبیر فرمایا گیا ہے. اس اصطلاح میں ’تواصی‘ کے اصل مصدر یعنی وصیت میں بھی اصلاً تاکید واہتمام کا مفہوم موجود ہے، مزید برآں جب یہ بابِ تفاعل میں آیا تو اس میں مزید مبالغہ کا مفہوم بھی پیدا ہو گیا اور یہ بھی کہ یہ ایک صالح اجتماعیت کے لازمی مقتضیات میں سے ہے کہ اس کے شرکاء باہم ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرتے رہنے کو اپنا فرضِ عین سمجھیں. دوسری طرف ’حق‘ کا لفظ بھی بے حد جامع ہے جس میں چھوٹے سے چھوٹے حقوق سے لے کر اس سلسلۂ کون ومکاں کی عظیم ترین حقیقت یعنی ’’لَا اِلٰہَ اِلَا اللّٰہ‘‘ اور ’’اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہ‘‘ تک سب کچھ شامل ہے. اس کے بعد جامع اسباق میں سے تیسرے سبق میں ’امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ کی اصطلاح آچکی ہے جس نے اسی ’تواصی بالحق‘ کی وسعت اور ہمہ گیری کو اجاگر کر دیا یعنی ہر خیر، ہر نیکی، ہر بھلائی، ہر حقیقت اور ہر صداقت کی تبلیغ وتلقین، دعوت ونصیحت، تشہیر واشاعت، اعلان واعتراف، حتیٰ کہ ترویج وتنفیذ اور بدی اور برائی کہ ہر صورت پر ردوقدح، تنقید واحتساب، انکار وملامت، حتیٰ کہ انسداد واستیصال کی ہر ممکن سعی وکوشش. اور پھر چوتھے جامع سبق میں وارد شدہ اصطلاح’دعوت الی اللہ‘ نے اسی ’تواصی بالحق‘ کی بلند ترین منزل کی نشاندہی کر دی اس لئے کہ بفحوائے الفاظِ قرآنی ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الۡحَقُّ (سورۃ الحج آیت ۶مجسم اور کامل ’حق‘ تو صرف ذاتِ حق سبحانہ وتعالیٰ ہی ہے اور ’’وہی ذاتِ واحد عبادت کے لائق، زباں اور دل کی شہادت کے لائق‘‘ کے مطابق اسی کی اطاعت عبادت کا التزام اور اسی کی شہادت علی رؤوس الاشہاد اور اسی کی اساس پر انفرادی اور اجتماعی زندگی کو استوار کرنے کی سعی وجہد ’تواصی بالحق‘ کا ذروۂ سنام یا نقطۂ عروج ہے اور اسی کا جامع عنوان قرآن وحدیث کی رو سے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے جس کی آخری چوٹی ’قتال فی سبیل اللہ‘ ہے. چنانچہ اس منتخب نصاب کا حصہ چہارم کُل کا کُل جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے موضوع پر قرآن حکیم کے چند جامع مقامات پر مشتمل ہے جس کے آخر میں نفاق بھی زیرِ بحث آیا ہے اس لئے کہ نفاق کا اصل سبب اکثر وبیشتر حالات میں جہاد وقتالِ فی سبیل اللہ سے اعراض وانکار کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا.

’طالب ومطلوب‘ کی نسبت کے حوالے سے 
فلسفۂ دین کی ایک اہم بحث
٭
مطالباتِ دین کے بیان کے ضمن میں
قرآنِ حکیم کا ایک اور جامع مقام
اور
جہاد فی سبیل اللہ کی غایتِ اُولیٰ
شہادت علی الناس