بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ لَنۡ یَّخۡلُقُوۡا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجۡتَمَعُوۡا لَہٗ ؕ وَ اِنۡ یَّسۡلُبۡہُمُ الذُّبَابُ شَیۡئًا لَّا یَسۡتَنۡقِذُوۡہُ مِنۡہُ ؕ ضَعُفَ 

’’اے لوگو ایک مثل کہی ہے سو اس پر کان رکھو، جن کو تم پوجتے ہو اللہ کے سوائے ہرگز نہ بنا سکیں گے ایک مکھی اگرچہ سارے جمع ہو جائیں اور اگر کچھ چھین لے ان سے مکھی چھڑا نہ سکیں وہ اس سے، بودا ہے 
الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿۷۳﴾مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۷۴﴾اَللّٰہُ یَصۡطَفِیۡ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلًا وَّ مِنَ النَّاسِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیۡعٌۢ بَصِیۡرٌ ﴿ۚ۷۵﴾یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ؕ وَ اِلَی اللّٰہِ تُرۡجَعُ الۡاُمُوۡرُ ﴿۷۶﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾وَ جَاہِدُوۡا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِہَادِہٖ ؕ ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚۖ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعۡتَصِمُوۡا بِاللّٰہِ ؕ ہُوَ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ فَنِعۡمَ الۡمَوۡلٰی وَ نِعۡمَ النَّصِیۡرُ ﴿٪۷۸﴾ 
چاہنے والا اور جن کو چاہتا ہے. اللہ کی قدر نہیں سمجھے جیسی اس کی قدر ہے، بیشک اللہ زور آور ہے زبردست. اللہ چھانٹ لیتا ہے فرشتوں میں پیغام پہنچانے والے اور آدمیوں میں، اللہ سنتا دیکھتا ہے. جانتا ہے جو کچھ ان کے آگے ہے اور جو کچھ ان کے پیچھے، اور اللہ تک پہنچ ہے ہر کام کی. اے ایمان والو رکوع کرو اور سجدہ کرو اور بندگی کرو اپنے رب کی اور بھلائی کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو. اور محنت کرو اللہ کے واسطے جیسی کہ چاہئے اس کے واسطے محنت، اس نے تم کو پسند کیا اور نہیں رکھی تم پر دین میں کچھ مشکل، دین تمہارے باپ ابراہیم کا، اسی نے نام رکھا تمہارا مسلمان، پہلے سے اور اس قرآن میں تاکہ رسول ہو بتانے والا تم پر اور تم ہو بتانے والے لوگوں پر، سو قائم رکھو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور مضبوط پکڑو اللہ کو، وہ تمہارا مالک ہے، سو خوب مالک ہے اور خوب مددگار. ‘‘

سورۃ الحج کے آخری رکوع کو، جو کل چھ آیات پر مشتمل ہے بجا طور پر قرآن حکیم کے جامع ترین مقامات میں شمار کیا جا سکتا ہے. اس لئے کہ اس کی ابتدائی چار آیات میں خطاب 
یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ کے الفاظ سے ہے، اور ان میں قرآنِ مجید کی اُس اساسی دعوت یعنی دعوتِ ایمان کا خلاصہ آگیا ہے جو وہ ہر فردِ نوعِ بشر کے سامنے پیش کرتا ہے. اور آخری دو آیات میں خطاب یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ سے ہوا ہے اور اس میں اس ’دعوتِ عمل‘ کا خلاصہ آگیا ہے جس کا تقاضا قرآن ہر اس شخص سے کرتا ہے جو ایمان کا مدعی ہو یعنی دعوتِ ایمان کو قبول کرنے کا اعلان واعتراف کرے.

شرک اور توحید کے بیان میں یہاں قرآن کے عام اسلوب کے مطابق بطرزِ جلی تو ذکر ہوا ہے بُت پرستی کا جس میں وہ اہلِ عراق مبتلا تھے جو قرآن کے اولین مخاطب تھے لیکن بطرزِ خفی ایک ایسی عمومی اور جامع بات بھی مختصر ترین الفاظ میں کہہ دی گئی ہے جسے فلسفہ وحکمتِ دین کے اس اہم ترین باب کے کُل مباحث کا لُبِّ لباب قرار دیا جا سکتا ہے. یعنی یہ کہ اصل توحید یہ ہے کہ انسان کا مطلوب ومقصودِ اصلی اور محبوبِ حقیقی صرف اللہ ہو اور شرک یہ ہے کہ اس کے نہاں خانۂ قلب میں اس تخت پر کُلی یا جزوی طور پر کوئی اور براجمان ہو جائے.

اس ضمن میں ’طالب ومطلوب‘ کی نسبت سے ان اہم حقائق ومعارف کی جانب رہنمائی فرما دی گئی جس کو دورِ حاضر میں ’فلسفۂ خودی‘ کے نام سے مختصر طور پر پیش کیا علامہ اقبال مرحوم نے اور جن کو تفصیل کے ساتھ مدوّن کیا ’’نصب العینوں یاآدرشوں کے فلسفے‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم نے اپنی عظیم تصنیف 
"Ideology of the Future" میں جس کا حاصل یہ ہے کہ :

۱. انسان حیوانات سے جن اعتبارات سے ممیز ہے ان میں سے ایک اہم اور اساسی امر یہ ہے کہ حیوان کا اپنا کوئی مقصد اور نصب العین نہیں ہوتا. گویا وہ ’زندگی برائے زندگی‘ کے اصول پر عمل پیرا ہوتا ہے. یہ دوسری بات ہے کہ انسان اسے اپنے مقاصد کے حصول کے لئے آلۂ کار بنا لے، جب کہ انسان اپنا ایک ہدفِ مقصود معین کرتا ہے اور اس کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہے. (اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جو لوگ بغیر کسی معین نصب العین کے زندگی بسر کرتے ہیں وہ انسانیت کی نسبت حیوانیت سے زیادہ قریب ہوتے ہیں).

۲. انسان جو نصب العین اختیار کر کے اس کے حصول کے لئے جِدّوجہد کرتا ہے اس کی اپنی شخصیت بھی اسی رخ پر تعمیر ہوتی ہے. گویا نصب العین پست ہو تو اس کے لئے سعی وجہد کے نتیجے میں ایک پست سیرت وجود میں آتی ہے اور نصب العین اعلیٰ 
وارفع ہو تو اس تک رسائی کے لئے جو محنت ومشقت کی جائے گی اس سے خود انسانی شخصیت کو بھی ترفع حاصل ہو گا. ( اس ضمن میں کمند کی مثال بہت عمدہ ہے کہ انسان اسے جس قدر اونچا پھینک سکے گا، اسی قدر بلندی تک خود بھی چڑھ سکے گا).

۳. تمام آدرشوں میں سب سے اونچا آدرش اور تمام نصب العینوں میں اعلیٰ ترین نصب العین ذاتِ باری تعالیٰ ہے. ؏ (منزل ما کبریاست! اور ’’یزداں بکمند آور اے ہمتِ مردانہ!‘‘) اور اللہ ہی کو اپنا محبوبِ حقیقی اور مطلوب ومقصودِ اصلی قرار دے کر جب انسان جدوجُہد کرتا ہے تو اس سے جو شخصیت وجود میں آتی ہے اس کا کامل واکمل نمونہ تو ہے ذاتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام، البتہ اس کے درجہ بدرجہ پرتو اور عکس ہیں جو نظر آتے ہیں دیگر انبیاء علیہم السلام، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور صوفیائے عِظام رحمہم اللہ کی مبارک شخصیتوں میں! 

ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الۡمَطۡلُوۡبُ ﴿﴾ 
کے مختصر ترین الفاظ میں مضمر ان عظیم حقائق ومعارف کے ساتھ ساتھ مَا قَدَرُوا اللّٰہَ حَقَّ قَدۡرِہٖ ؕ کے حد درجہ جامع الفاظ میں شرک کے اصل سبب اور اس کی ’عِلَّتُ الْعِلَل‘ کی نشاندہی بھی فرما دی گئی. یعنی یہ کہ خواہ جاہلیت قدیمہ ہو خواہ جدیدہ اور خواہ محدود مذہبی تصورات کے مطابق کسی کو خدا کے سوا ’معبود‘ مانا گیا ہو خواہ وسیع تر مفہوم کے اعتبارات سے کسی کو اللہ کے سوا ’مطلوب ومقصود‘ بنایا گیا ہو اس گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ انسان خدا کے جمال وجلال کا کماحقہ تصور اور اس کی صفاتِ کمال کا کماحقہ اندازہ نہیں کرپاتا. چنانچہ کبھی اسے دنیا کے بادشاہوں پر قیاس کر لیتا ہے اور اس کے لئے یا اولاد تجویز کر دیتا ہے جو اس کے کفو اور ہم جنس بن جاتی ہے، یا نائبینِ سلطنت تصنیف کر ڈالتا ہے جو کائنات کے انتظام وانصرام میں اس کے مُمد ومعاون ہوتے ہیں، لہٰذا کسی قدر با اختیار بھی ہوتے ہیں، یا اس کے لئے مقربین ومصاحبینِ خاص گھڑ لیتا ہے جو اس درجہ منہ چڑھے ہوتے ہیں کہ وہ ان کا کہنا ٹال ہی نہیں سکتا. چنانچہ یہی تین باتیں ہیں جن کی نفی کی گئی ہے سورۂ بنی اسرائیل کی آخری آیت میں کہ وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿۱۱۱﴾٪ اور کبھی انسان اپنی محبت کا مرکز ومحور بنا لیتا ہے نسل وقوم کو یا ملک ووطن کو یا کسی نظریئے یا نصب العین کو پھر اس کے ساتھ وہی طرزِ عمل اختیار کرتا ہے جو ایک خداپرست خدا کے ساتھ کرتا ہے یعنی اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ یعنی اب اس کی زندگی اور موت اور کُل سعی وجُہد اور ساری دوڑ دھوپ وقف ہو جاتی ہے، ملک وقوم کی برتری وسربلندی کے لئے یا کسی نظریئے کی تشہیر واشاعت اور کسی نظام کے نفاذ وقیام کے لئے. 

اسی طرح ان آیاتِ مبارکہ میں ایمان بالرسالت کے ضمن میں بھی ایک حدر درجہ اہم حقیقت کی جانب رہنمائی فرمائی گئی یعنی یہ کہ رسالت کا ’سلسلۃ الذہب‘ دو کڑیوں پر مشتمل ہے. ایک ’رسولِ مَلک‘ یعنی حضرت جبرائیل علیہ السلام اور دوسرے ’رسولِ بشر‘ یعنی حضرت محمد ابن عبداللہ ابن عبدالمطلب ( ) اس سے ایمان بالملائکہ کی اہمیت پر بھی روشنی پڑی اور حقیقتِ وحی کے بارے میں فلاسفۂ جدید وقدیم کے پیدا کردہ مغالطوں کا سدِّباب بھی ہو گیا. (واضح رہنا چاہئے کہ آنحضورؐ پر نبوت ورسالت کے اختتام پر اب اس سنہری زنجیر میں ایک تیسری کڑی کی حیثیت سے شامل ہو گئی ہے امتِ محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام بحیثیتِ مجموعی. یہی وجہ ہے کہ اس رکوع کے پہلے حصے میں ’رسولِ مَلک‘ اور ’رسولِ بشر‘ کے لئے لفظ آیا ہے ’اصطفاء‘ کا اور دوسرے حصے میں امت مسلمہ کے لئے لفظ آیا ہے ’اجتباء‘ کا اور یہ دونوں الفاظ حد درجہ قریب المفہوم ہیں).

’ایمان بالآخرت‘ کے ضمن میں اس مقام پر بہت اختصار ہوا ہے. اس کا سبب یہ ہے کہ اس سورۃ مبارکہ کا پہلا رکوع تقریباً کُل کا کُل 
زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ اور بَعْث بَعْدَ الْمَوْت کے ذکر پر مشتمل ہے. 

اس رکوع کی آخری دو آیات میں ایمان کے عملی تقاضوں کا بیان جس حکیمانہ ترتیب وتدریج کے ساتھ ہوا ہے وہ بھی اعجازِ قرآنی کا ایک عجیب نمونہ ہے. اور یہاں ایک اعتبار سے گویا پھر سورۃ العصر کے تمام مضامین موجود ہیں. وہاں نجات کی پہلی شرطِ لازم کی حیثیت سے ایمان کا تذکرہ ہوا تھا یہاں 
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا سے خطاب ہے. وہاں نجات کے تیسرے اور چوتھے لوازم کا ذکر جدا جدا ’’تواصی بالحق‘‘ اور ’’تواصی بالصبر‘‘ کے الفاظ سے ہوا، یہاں ان دونوں کی جامع اصطلاح ’’جہاد‘‘ پر ایک مکمل اور طویل آیت ہے. وہاں ’عمل صالح‘ ایک جامع اصطلاح تھی، یہاں اس کی جگہ پر چار اوامر وارد ہوئے ہیں یعنی ارۡکَعُوۡا وَ اسۡجُدُوۡا وَ اعۡبُدُوۡا رَبَّکُمۡ وَ افۡعَلُوا الۡخَیۡرَ یہاں مثبت طور پر لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ ﴿ۚٛ۷۷﴾ کی نوید ہے تو وہاں سلبی پہلو سے اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ کی وعید! گویا ’تصریفِ آیات‘ یا ؏’ایک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘ کی نہایت اعلیٰ مثال!

دین کے ان عملی تقاضوں کی تفہیم کے لئے زینے کی مثال بہت مفید ہے. ہر مدعیٔ ایمان کے لئے عمل کے زینی کی پہلی سیڑھی فرائضِ دینی کی بجاآوری اور ارکانِ اسلام کی پابندی ہے یعنی نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ . جن میں سے اولین اور اہم ترین ہے نماز. لہٰذا اس کا ذکر ہو گیا رکوع اور سجود کے حکم کے ذیل میں اور یہ نمائندہ بن گئی جملہ ارکانِ دین کی. دوسری سیڑھی، عبادتِ رب یعنی پوری زندگی میں اللہ تعالیٰ کی بے چون وچرا اطاعتِ کُلی اس کی محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر. اور تیسری سیڑھی ہے ’عملِ خیر‘ یعنی خدمتِ خلق جس کی ایک تشریح آیۂ بِر میں گزر چکی ہے اور جس کے دو مراتب ہیں: ایک لوگوں کی دنیوی حاجتوں اور ضرورتوں کے ضمن میں امداد واعانت یعنی بھوکوں کو کھلانا، ننگوں کو پہنانا اور بیماروں کے لئے علاج معالجہ کی سہولتیں بہم پہنچانا وغیرہ اور دوسرا اور اہم تر مرتبہ لوگوں کی عاقبت سنوارنے کی سعی کرنا اور انہیں ’’صراطِ مستقیم‘‘ کی طرف دعوت دینا. اور چوتھی اور آخری سیڑھی جسے آنحضور  نے دین کا 
’’ذَرْوَۃُ السَّنَاِم‘‘ قرار دیا ہے وہ ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ جس کی غایتِ اُولیٰ ہے اللہ اور اس کے رسولؐ کی جانب سے خلقِ خدا پر اتمامِ حجت کے لئے شہادت علی الناس کے فریضے کی ادائیگی جو سورۃ البقرہ کی آیت نمبر ۱۴۳ کی رُو سے اصل مقصد ہے امتِ مسلمہ کی تاسیس کا. 

واضح رہے کہ ’’عبادتِ رب‘‘ اور ’’شہادت علی الناس‘بشمول ’’اقامتِ دین‘‘ یا ’’اظہارِ دین حق‘‘دین کے عملی مطالبات کے ضمن میں قرآن حکیم کی نہایت اہم اور اساسی اصطلاحات ہیں جن کی تشریح وتفصیل اس مقام پر ممکن نہیں ہے. البتہ ان کے بارے میں ان سطور کے راقم کی تالیف ’’مطالباتِ دین‘‘ میں کسی قدر شرح وبسط سے کلام ہوا ہے. 
قارئین اس کی طرف مراجعت فرمائیں.

آخری آیت کے آخری ٹکڑے میں کلمہ ’ف‘ 
فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ بہت معنی خیز ہے. یعنی جس پر یہ حقائق منکشف ہو جائیں اور جسے بھی اپنے فرائض دینی کا یہ شعور وادراک حاصل ہو جائے اسے تاخیر وتعویق اور تردد وتربص میں مبتلا ہوئے بغیر بسم اللہ کر کے عمل کا آغاز کر دینا چاہئے. اب ظاہر ہے کہ پہلی ہی چھلانگ میں سب سے اوپر والی سیڑھی پر چڑھنے کی کوشش حماقت پر مبنی ہو گی اور عین ممکن ہے کہ ایسا شخص اوندھے منہ زمین پر گرے. فطری اور منطقی تدریج یہی ہے کہ آغاز پہلی سیڑھی پر قدم رکھنے سے کرے جو مشتمل ہے ارکانِ اسلام کی پابندی پر. یہی وجہ ہے کہ یہاں نماز کے ساتھ زکوٰۃ کا ذکر بھی کر دیا گیا، تاکہ واضح ہو جائے کہ مقصود صرف نماز نہیں بلکہ جملہ ارکانِ اسلام ہیں.

آخر میں 
وَاعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ کے الفاظ بھی بہت اہم ہیں. ان سے اس حقیقت کی جانب بھی رہنمائی ہو گئی کہ اگلے مراحل کے لئے بندۂ مومن کا واحد سہارا اور اس راہ میں اس کی استقامت کا اصل راز اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق استوار کرنے میں مضمر ہے. اور اس جانب بھی اشارہ ہو گیا کہ جہاد فی سبیل اللہ کی غایتِ اولیٰ یعنی خلقِ خدا پر اللہ کی جانب سے اتمامِ حجت کے لئے ’شہادت علی الناس‘ کے تقاضوں کو پورا کرنے کی سعی وجہد کا مرکز ومحور قرآنِ حکیم ہے اس لئے کہ ’اعتصام باللہ‘ کا ذریعہ ظاہر ہے کہ ’اعتصام بحبل اللہ‘ کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا اور ’حبل اللہ‘ ازروئے فرمانِ نبویؐ قرآنِ حکیم ہے. ’’ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ‘‘ 

الغرض! سورۃ الحج کی آخری دو آیات میں دین کے جملہ عملی تقاضوں کا بیان معجزانہ اختصار وجامعیت کے ساتھ ہو گیا اور یہ دونوں آیتیں مل کر مختصر تفسیر بن گئیں سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱۵ کی، جس میں ’ایمانِ حقیقی‘ کے دو ارکان بیان ہوئے. ایک یقینِ قلبی جو لازماً شامل ہے عملِ صالح کو اور دوسرے ’جہاد فی سبیل اللہ‘ جس کا ابتدائی مقصد ہے ’شہادت علی الناس‘ جس کا ذکر یہاں ہو گیا اور آخری منزل یا ’غایتِ قصویٰ‘ ہے 
’’اِظْہَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ جو مرکزی مضمون ہے سورۃ الصف کا جس پر اس نصاب کا اگلا درس مشتمل ہے. دین کے مجموعی نظام میں ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کو جو مقام ومرتبہ حاصل ہے اس کی وضاحت کے لئے منتخب نصاب کے درس کے اس مرحلے پر ایک قدرے طویل حدیث نبویؐ بیان کی جاتی ہے جسے بلا شک وشبہ ’’حکمتِ دین کے ایک عظیم خزانے‘‘ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے. اور اس پر مستزاد یہ کہ اسے پڑھتے یا سنتے ہوئے انسان کچھ دیر کے لئے اپنے آپ کو بالکل اسی ماحول کا جزو محسوس کرتا ہے جو حضور نبی کریم علیہ الف الف التحیۃ والتسلیم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انفاسِ مطہرہ اور نفوسِ قدسیہ سے معطر ومنور تھا، بقول شاعر ؎

ہم اہل قفس تنہا بھی نہیں، ہر روز نسیم صبحِ وطن 
یادوں سے معطر آتی ہے، اشکوں سے منور جاتی ہے