۲. اس گروپ میں ہر اعتبار سے جامع ترین سورت سورۃ الحدید ہے اور بقیہ سورتوں میں سے اکثر اس میں بیان شدہ مضامین کی مزید تشریح وتوضیح پر مشتمل ہیں. چنانچہ یہ نہ صرف یہ کہ ’’اُمُّ الْمُسَبِّحَات‘‘ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر قرآن حکیم کے لئے ایک شجرہ طیبہ کی تشبیہ اختیار کی جائے تو سورۃ العصر اس کے ’بیج‘ اور سورۃ الحدید اس کے ’پھل‘ کی حیثیت رکھتی ہے. واللہ اعلم!(یہی وجہ ہے کہ اس منتخب نصاب کا نقطۂ آغاز سورۃ العصر ہے اور یہ ختم ہوتا ہے سورۃ الحدید پر!)
۳. مزید براں ان سورتوں کا دو دو کے جوڑوں میں منقسم ہونا جو ویسے بھی قرآن مجید کا ایک عام اسلوب ہے، بہت نمایاں ہے. بالخصوص آخری تین جوڑوں میں تو یہ کیفیت انتہاکو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے. جیسے ایمان اور اس کے ثمرات ومضمرات کے بیان کے ضمن میں سورۃ التغابن قرآنِ حکیم کی جامع ترین سورت ہے. اسی طرح نفاق اور اس کی حقیقت، اس کے آغاز وانجام اور اس سے بچائو کی تدابیر کے ضمن میں سورۃ المنافقون قرآن مجید کی جامع ترین سورت ہے اور مصحف میں یہ دونوں سورتیں اس گروپ میں ساتھ ساتھ وارد ہوئیں تاکہ اس تصویر کے منفی اور مثبت دونوں رخ بیک وقت نگاہ کے سامنے آجائیں. اور اس طرح ان دونوں سورتوں نے مل کر اس موضوع پر ایک نہایت حسین وجمیل، اورحد درجہ کامل واکمل جوڑے کی صورت اختیار کر لی. (ان میں سے سورۃ التغابن اس منتخب نصاب کے حصہ دوم میں شامل ہے اور سورۃ المنافقون آگے آرہی ہے!) اسی طرح انسان کی عائلی زندگی میں بھی زوجین کے مابین دو متضاد صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، ایک عدم موافقت جس کی انتہاء ’طلاق‘ ہے اور دوسری حد اعتدال سے متجاوز محبت اور باہمی دلجوئی اور پاس ولحاظ جس سے حدود اللہ تک کے ٹوٹنے کا احتمال پیدا ہو جائے. چنانچہ سورۃ الطلاق اور التحریم میں عائلی زندگی کے یہ دونوں رخ زیر بحث آئے ہیں اور ان میں نسبتِ زوجیت ظاہری اور معنوی دونوں اعتبارات سے بتمام وکمال موجود ہے. (سورۃ التحریم اس منتخب نصاب کے حصہ سوم میں آچکی ہے) اسی طرح کا ایک نہایت حسین وجمیل اور حد درجہ روشن وتابناک جوڑا سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ پر مشتمل ہے. اس کی دلآویزی میں ایک خصوصی شان پیدا ہوئی ہے اس حقیقت سے کہ ان دونوں صورتوں میں سید الاولین والآخرین اور محبوبِ رب العالمین ﷺ کی بعثتِ مبارکہ کے دو رخ زیرِ بحث آئے ہیں. چنانچہ ایک میں آپؐ کے ’’مقصدِ بعثت‘‘ کو بیان فرمایا گیا ہے اور دوسری میں آپؐکے ’’اساسی منہجِ عمل‘‘ کو!. یہ جوڑا دس سورتوں کے اس گلدستے میں عددی اعتبار سے بھی عین وسط میں ہے اور معنوی اعتبار سے بھی اسے اس گروپ میں مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس لئے کہ اس سے ایک جانب ’امتِ مسلمہ‘ کے مقصدِ تاسیس پر روشنی پڑتی ہے تو دوسری جانب اس کے حصول کے لئے صحیح اور درست طریقِ کار پر، اور ان دونوں مضامین کی اہمیت اظہر من الشمس ہے!.