تمہید ’’اَ لْمُسَبِّحَات اور ان کی اَخَوَات‘‘ کے بعض مشترک مضامین

قرآن حکیم میں ستائیسویں پارے کی آخری سورت یعنی سورۃ الحدید سے لے کر اٹھائیسویں پارے کے اختتام یعنی سورۃ التحریم تک بلحاظ تعدادِ سُوَر مدنی سورتوں کا سب سے بڑا اکٹھ (Constellation) وارد ہوا ہے. یہ دس سورتوں کا ایک نہایت حسین وجمیل گلدستہ ہے، جن میں چند امور واضح طور پر مشترک ہیں اور چونکہ مطالعہ قرآن حکیم کے پیش نظر منتخب نصاب میں مکمل سورتوں کی سب سے بڑی تعداد اسی مجموعے سے ماخوذ ہے لہٰذا اس میں شامل سورتوں کے مشترک نکات کے بارے میں مختصر اشارات، ان شاء اللہ العزیز، بہت مفید ہوں گے: وہ مشترک امور یہ ہیں.

۱. یہ سورتیں تقریباً سب کی سب زمانۂ نزول کے اعتبار سے مدنی دور کے نصفِ آخر سے متعلق ہیں، جب کہ اہلِ ایمان نے ایک باقاعدہ ’’امتِ مسلمہ‘‘ کی حیثیت اختیار کر لی تھی.
۲. یہی سبب ہے کہ ان میں خطاب کا اصل رخ’امتِ مسلمہ‘ کی جانب ہے. کفار خواہ مشرکین میں سے ہوں خواہ اہلِ کتاب یعنی یہود اور نصاریٰ میں سے ان سورتوں میں مخاطب نہیں ہیں. نہ باندازِ دعوت وتبلیغ نہ بطرزِ ملامت والزام. یہود کا ذکر اس سلسلے کی اکثر سورتوں میں ہے (اور ایک مقام پر نصاریٰ کا بھی) لیکن صرف بطورِ نشان عبرت.

۳. امتِ مسلمہ سے خطاب میں ایسے محسوس ہوتا ہے کہ طویل مکی اور مدنی سورتوں میں جو اہم اور اساسی مباحث نہایت تفصیل اور شرح وبسط کے ساتھ بیان ہوئے ہیں، ان سورتوں میں گویا ان کے خلاصے درج کر دیئے گئے ہیں تاکہ انہیں بآسانی حرزِ جان بنایا جا سکے.

۴. مسلمانوں سے خطاب کے ضمن میں ان میں سے اکثر سورتوں میں ’ملامت‘ (اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے ایک قول کے مطابق ’عتاب‘) کا رنگ بہت نمایاں ہے، اور ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مسلمانوں کے جذباتِ ایمانی کچھ سرد پڑ رہے ہوں اور ان کے جوشِ جہاد اور جذبۂ انفاق میں کمی واقع ہو رہی ہو اور انہیں اس پر سرزنش کی جا رہی ہو جیسے 
مَا لَکُمۡ لَا تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ ؟ یا وَ مَا لَکُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ؟ یا اَلَمۡ یَاۡنِ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ تَخۡشَعَ قُلُوۡبُہُمۡ لِذِکۡرِ اللّٰہِ؟ یا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ؟ وغیرہ. اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے یعنی یہ کہ جب امت نے وسعت اختیا رکی اور یَدۡخُلُوۡنَ فِیۡ دِیۡنِ اللّٰہِ اَفۡوَاجًا کی کیفیت پیدا ہوئی تو فطری طور پر نوواردوں میں ایسے لوگ بکثرت موجود تھے، جن میں یہ کیفیاتِ ایمانی بہ تمام وکمال موجود نہ تھیں. (جس کی جانب اشارہ ہے سورۃ الحجرات کی آیات ۱۴.۱۵میں) لہٰذا بحیثیتِ مجموعی امت میں ایمان کی حرارت اور جوشِ جہاد وجذبۂ انفاق کے اوسط میں کمی واقع ہوئی. حکمتِ الٰہی نے اس پر بھرپور گرفت فرمائی، تاکہ آئندہ جب امت میں یہ اضمحلال مزید شدت اختیار کرے تو یہ آیاتِ مبارکہ سرد پڑتے ہوئے جذبات اور گرتے ہوئے حوصلوں کے لئے مہمیز کا کام دیں. (یہی وجہ ہے کہ ان سورتوں میں سابقہ امتِ مسلمہ یعنی یہود کو بطور نشانِ عبرت بار بار پیش کیا گیا ہے. اس لئے کہ آئندہ بموجب فرمانِ نبویؐ ’’لَیَأتِیَنَّ عَلٰی اُمَّتِی کَمَا اَتٰی عَلٰی بَنِی اِسْرَائِیْلَ حَذْوَالنَّعْلِ بِالنَّعْلِ‘‘ امت کو ان ہی حالات وکوائف سے دوچار ہونا تھا جس سے یہود ہوئے تھے).

ان سورتوں کے مضامین پر غور کرنے سے تین مزید باتیں بہت اہم اور قابلِ توجہ سامنے آتیں ہیں.
۱. ان دس سورتوں میں سے پانچ وہ ہیں جن کا آغاز 
’’سَبَّحَ لِلّٰہِ‘‘ یا ’’یُسَبِّحُ لِلّٰہِ‘‘ کے الفاظ سے ہوتا ہے. اور صاف نظر آتا ہے کہ ظاہری اور معنوی دونوں اعتبارات سے اس حسین وجمیل گلدستے میں ان کا حسن وجمال کچھ اور ہی شان کا حامل ہے. یہی وجہ ہے کہ انہیں ’’اَلْمُسَبِّحَات‘‘ کا جداگانہ نام دیا گیا ہے. 

۲. اس گروپ میں ہر اعتبار سے جامع ترین سورت سورۃ الحدید ہے اور بقیہ سورتوں میں سے اکثر اس میں بیان شدہ مضامین کی مزید تشریح وتوضیح پر مشتمل ہیں. چنانچہ یہ نہ صرف یہ کہ 
’’اُمُّ الْمُسَبِّحَات‘‘ہے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر قرآن حکیم کے لئے ایک شجرہ طیبہ کی تشبیہ اختیار کی جائے تو سورۃ العصر اس کے ’بیج‘ اور سورۃ الحدید اس کے ’پھل‘ کی حیثیت رکھتی ہے. واللہ اعلم!(یہی وجہ ہے کہ اس منتخب نصاب کا نقطۂ آغاز سورۃ العصر ہے اور یہ ختم ہوتا ہے سورۃ الحدید پر!)

۳. مزید براں ان سورتوں کا دو دو کے جوڑوں میں منقسم ہونا جو ویسے بھی قرآن مجید کا ایک عام اسلوب ہے، بہت نمایاں ہے. بالخصوص آخری تین جوڑوں میں تو یہ 
کیفیت انتہاکو پہنچی ہوئی نظر آتی ہے. جیسے ایمان اور اس کے ثمرات ومضمرات کے بیان کے ضمن میں سورۃ التغابن قرآنِ حکیم کی جامع ترین سورت ہے. اسی طرح نفاق اور اس کی حقیقت، اس کے آغاز وانجام اور اس سے بچائو کی تدابیر کے ضمن میں سورۃ المنافقون قرآن مجید کی جامع ترین سورت ہے اور مصحف میں یہ دونوں سورتیں اس گروپ میں ساتھ ساتھ وارد ہوئیں تاکہ اس تصویر کے منفی اور مثبت دونوں رخ بیک وقت نگاہ کے سامنے آجائیں. اور اس طرح ان دونوں سورتوں نے مل کر اس موضوع پر ایک نہایت حسین وجمیل، اورحد درجہ کامل واکمل جوڑے کی صورت اختیار کر لی. (ان میں سے سورۃ التغابن اس منتخب نصاب کے حصہ دوم میں شامل ہے اور سورۃ المنافقون آگے آرہی ہے!) اسی طرح انسان کی عائلی زندگی میں بھی زوجین کے مابین دو متضاد صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں، ایک عدم موافقت جس کی انتہاء ’طلاق‘ ہے اور دوسری حد اعتدال سے متجاوز محبت اور باہمی دلجوئی اور پاس ولحاظ جس سے حدود اللہ تک کے ٹوٹنے کا احتمال پیدا ہو جائے. چنانچہ سورۃ الطلاق اور التحریم میں عائلی زندگی کے یہ دونوں رخ زیر بحث آئے ہیں اور ان میں نسبتِ زوجیت ظاہری اور معنوی دونوں اعتبارات سے بتمام وکمال موجود ہے. (سورۃ التحریم اس منتخب نصاب کے حصہ سوم میں آچکی ہے) اسی طرح کا ایک نہایت حسین وجمیل اور حد درجہ روشن وتابناک جوڑا سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ پر مشتمل ہے. اس کی دلآویزی میں ایک خصوصی شان پیدا ہوئی ہے اس حقیقت سے کہ ان دونوں صورتوں میں سید الاولین والآخرین اور محبوبِ رب العالمین  کی بعثتِ مبارکہ کے دو رخ زیرِ بحث آئے ہیں. چنانچہ ایک میں آپؐ کے ’’مقصدِ بعثت‘‘ کو بیان فرمایا گیا ہے اور دوسری میں آپؐکے ’’اساسی منہجِ عمل‘‘ کو!. یہ جوڑا دس سورتوں کے اس گلدستے میں عددی اعتبار سے بھی عین وسط میں ہے اور معنوی اعتبار سے بھی اسے اس گروپ میں مرکزی اہمیت حاصل ہے، اس لئے کہ اس سے ایک جانب ’امتِ مسلمہ‘ کے مقصدِ تاسیس پر روشنی پڑتی ہے تو دوسری جانب اس کے حصول کے لئے صحیح اور درست طریقِ کار پر، اور ان دونوں مضامین کی اہمیت اظہر من الشمس ہے!.