’سورۃ الصف‘ … المسبحات کی صف میں عین قلب کے مقام پر وارد ہوئی ہے. اس لئے کہ دو مسبحات اس سے پہلے ہیں یعنی الحدید اور الحشر اور دو بعد میں یعنی الجمعہ اور التغابن. مزید براں مضامین کے اعتبار سے بھی اسے اس گروپ کا مرکز ومحور قرار دیا جا سکتا ہے.
خود سورۃ الصف کا عمود اس کی آیت ۹ سے معین ہوتا ہے. یعنی 
’’اِظْہَارُ دِیْنِ الْحَقِّ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ‘‘ یا ’’اللہ کے دینِ برحق کو کُل کے کُل دین یا نظامِ زندگی پر غالب ونافذ کرنا‘‘ جس سے بیک وقت دین کے فلسفہ وحکمت کے تین اہم اور بنیادی مضامین کی وضاحت ہوتی ہے:

اولاً … اس سے 
’’اَلْجِہَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ‘‘ کی آخری ’منزلِ مقصود‘ یا ’غایتِ قصویٰ‘ کا تعین ہوتا ہے. (خاص اسی اعتبار سے اس منتخب نصاب میں اس سورۂ مبارکہ کا درس سورۃ الحج کے آخری رکوع کے متصلاً بعد ہوتا ہے. اس لئے کہ اس میں جہاد فی سبیل اللہ کے بنیادی اور اساسی مقصد یا ’غایتِ اولیٰ کا بیان ہے… یعنی شہادت علی الناس‘!

ثانیاً … اس سے ’مطالباتِ دین‘ کے ضمن میں بھی مرتبۂ تکمیل کا تعین ہوتا ہے. اس لئے کہ ’عبادتِ رب‘ کا حق بھی اس وقت تک کاملۃً ادا نہیں ہو سکتا جب تک اللہ کا دین پورے نظامِ زندگی پر غالب ونافذ نہ ہو، اس لئے کہ اس صورت میں اللہ کی اطاعت صرف انفرادی زندگی میں کی جا سکتی ہے. انسانی زندگی کے وہ گوشے اس سے خالی رہ جائیں گے جو اجتماعی نظام کے زیر تسلط ہوتے ہیں. گویا بات وہی ہو گی کہ ؎ 

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت 
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

مزید براں ’شہادت علی الناس‘ کا کامل حق بھی اس وقت تک ادا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ پورا نظامِ حق عملاً قائم کر کے اور بالفعل چلا کے نہ دکھا دیا جائے اور اس طرح نوعِ انسانی پر حیاتِ اجتماعی کے مختلف گوشوں کے ضمن میں ہدایتِ خداوندی کا عملی نمونہ پیش کر کے کامل اتمامِ حجت نہ کر دیا جائے.

ثالثاً … اس سے نبی اکرم  کے ’مقصدِ بعثت‘ کی امتیازی یا ’’اتمامی وتکمیلی‘‘ شان بھی واضح ہو جاتی ہے. (یہی وجہ ہے کہ اس آیۂ مبارکہ پر راقم نے مفصل ومدلل بحث اپنی اس تحریر میں کی ہے جو ’بعثتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کی اتمامی وتکمیلی شان!‘‘ کے عنوان سے ’’نبی اکرم  کا مقصدِ بعثت‘‘ نامی کتابچے میں شامل ہے) مختصراً یہ کہ:

۱. آنحضورؐ دو چیزوں کے ساتھ مبعوث ہوئے ایک الھدیٰ یعنی قرآنِ مجید اور دوسرے دین الحق یعنی اطاعتِ خداوندی کے اصل الاصول پر مبنی انسانی زندگی کا مکمل اور متوازن نظامِ عدل وقسط!

۲. آپؐ کے ’مقصدِ بعثت‘ میں جہاں انذار وتبشیر، دعوت وتبلیغ، تعلیم وتربیت اور تزکیۂ نفوس اور تصفیۂ قلب ایسے اساسی وبنیادی امور بھی لامحالہ شامل ہیں جو بعثتِ انبیاء ورسل کی اصل غرض وغایت ہیں وہاں دینِ حق کی شہادت واقامت کا اتمامی وتکمیلی مرحلہ بھی شامل ہے اور یہی آپؐ کے مقصدِ بعثت کی ’امتیازی شان‘ ہے.

۳. اس مقصدِ عظیم کے لئے امکان بھر سعی وجہد اور بذلِ نفس وانفاقِ مال اہلِ ایمان کے ایمان کا بنیادی تقاضا اور ان کے صادق الایمان ہونے کا عملی ثبوت ہے. اور اسی کو اصطلاحاً ’جہاد فی سبیل اللہ‘ کہا جاتا ہے!

’عمود‘ کے تعین کے بعد اس سورۂ مبارکہ کی باقی تیرہ آیات مشتمل ہیں جہاد وقتال فی سبیل اللہ سے جی چرانے پر تہدید وتنبیہہ اور زجر وملامت پر اور دوسرا رکوع کُل کا کُل مشتمل ہے جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے اجر، ثواب اور ان اعلیٰ مقامات ومراتب کی وضاحت وتفصیل پر، جن تک ایک بندہ مومن جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے ذریعے رسائی حاصل کر سکتا ہے. گویا پوری سورۃ الصف اپنے مضامین کے اعتبار سے حد درجہ مربوط ہے اور اس کی تمام آیات ان حسین وجمیل موتیوں کے مانند ہیں جو ایک ڈوری میں پروئے ہوئے ہوں اور ایک ایسے ہار کی شکل اختیار کر لیں جس کے عین وسط میں ایک نہایت تابناک ہیرا معلق ہو. یہ روشن اور حسین وجمیل ہیرا ہے آیت ۹ اور ہار کے دونوں اطراف ہیں اس سے ماقبل اور 
مابعد کی آیات جن میں امتِ مسلمہ کو جہاد وقتال کی پُر زور اور نہایت مؤثر دعوت ہے بطرزِ ’’ترغیب وتشویق‘‘بھی اور باندازِ ’’تہدید وترہیب‘‘ بھی. ابتدائی آٹھ آیات کو بھی باعتبار مضامین دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے.
حصہ اول پہلا حصہ چار آیات پر مشتمل ہے، جن میں سے اولین آیت ایک حد درجہ پُرشکوہ تمہید ہے جس میں واضح کیا گیا کہ جہاں تک اللہ کی تسبیح وتحمید کا تعلق ہے وہ تو کائناتِ ارضی وسماوی کا ذرہ ذرہ کر رہا ہے. گویا انسان سے اس کے خالق ومالک کو کچھ اور ہی مطلوب ہے! بقول علامہ اقبالؔ ؏ ’’شمع یہ سودائی دلسوزیٔ پروانہ!‘‘ (یاد رہے کہ سورۃ البقرۃ کے چوتھے رکوع میں فرشتوں نے بھی آدم کی خلافت پر یہی عرض کیا تھا کہ جہاں تک تسبیح اور تحمید وتقدیس کا تعلق ہے وہ تو ہم کر ہی رہے ہیں! کیا خوب کہا ہے کسی کہنے والے نے ؎

دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نے تھے کرّوبیاں!)

آیت ۲،۳ میں مسلمانوں میں سے جو عافیت کے گوشے میں بیٹھ رہنے کو ترجیح دیں جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے شدائد ومصائب پر! بقولِ جگر مراد آبادی ؎

تپتی راہیں مجھ کو پکاریں
دامن پکڑے چھاؤں گھنیری

ان کو شدید ترین الفاظ میں متنبہ کیا گیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان اور ان کے ساتھ عشق ومحبت کے زبانی دعوے نہ صرف یہ کہ اللہ کے یہاں کسی درجے میں مفید نہیں بلکہ یہ لن ترانیاں اللہ کے غیظ وغضب کو بھڑکانے والی اور اللہ کی بیزاری میں شدت پیدا کرنے والی ہیں اگر ان کے ساتھ عمل کی شہادت نہ ہو اور انسان بالفعل اپنی جان اور اپنا مال اللہ کی راہ میں صرف کرنے اور کھپادینے کے لئے آمادہ نہ ہو. (واضح رہے کہ پیش نظرمنتخب نصاب میں اس مضمون کا نقطۂ آغاز سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ ہے ، جس میں اصل صادق الایمان ان لوگوں کو قرار دیا گیا ہے جن کے دلوں میں وہ ایمان جاگزیں ہے جس نے ایسے یقین کی صورت اختیار کر لی ہو، جس میں شکوک وشبہات (وسوسوں کا معاملہ جدا ہے!) کے کانٹے چبھے نہ رہ گئے ہوں اور جن کے عمل میں وَجَاہِدُوْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ کی شان جلوہ گرہو. اس کے بعد سورہ الحج کے آخری رکوع میں ’مطالباتِ دین‘ کی چوٹی یا ذروہ سنام قرار دیا گیا ’جہاد‘ کو اور اس کی اساسی غرض وغایت معین ہوئی ’شہادت علی الناس‘ اب یہ سورۂ مبارکہ کُل کی کُل وقف ہے اسی موضوع پر، چنانچہ اس میں زجر وتوبیخ بھی انتہاء کو پہنچ گئی ہے اور ترغیب وتشویق بھی!) 
حصہ اول کی آخری آیت ۴ میں گویا بالکل دو ٹوک الفاظ میں فرمادیا کہ اگر ہم سے دل لگانا ہے اور ہماری محبت کا دعویٰ ہے تو جان لو کہ ہمیں تو محبوب ہیں وہ بندے جو ہماری راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کے مانند جم کر جنگ کریں، (علامہ اقبال نے بالکل اسی انداز اور اسلوب میں کہا ہے یہ شعر کہ ؎ 

محبت مجھے ان جوانوں سے 
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند)

گویا جسے بھی اس وادی میں قدم رکھنا ہو، وہ سوچ سمجھ کر آگے بڑھے ؎

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

واضح رہے کہ اس آیہ مبارکہ سے اسلام کے نظامِ حکمت میں ’’خیر اعلیٰ‘‘ (Highest Good) (Summum Bonum) کا بالکل واضح الفاظ میں تعین ہو جاتا ہے!

حصہ ثانی دوسرا حصہ بھی چار ہی آیات پر مشتمل ہے اور اس میں اس سورۂ مبارکہ کے مرکزی مضمون کے پس منظر میں یہود کو بطورِ نشان عبرت پیش کیا گیا ہے اور اس ضمن میں ان کی تاریخ کے تین ادوار کا حوالہ دیا گیا ہے.

آیت نمبر۵ میں ان کا وہ طرزِ عمل سامنے آتا ہے جو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اختیار کیا. آنجنابؑ کو بنی اسرائیل کی جانب سے یقینا بہت سی ذاتی ایذارسانیوں سے بھی سابقہ پیش آیا ہو گا (جیسا کہ خود نبی اکرم  کو واقعۂ افک وغیرہ کی صورت میں پیش آیا) لیکن اس سورت کے مرکزی مضمون کے اعتبار سے یہاں اشارہ معلوم ہوتا ہے اس قلبی 
اذیت اور ذہنی کوفت کی جانب جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت پہنچی جب بنی اسرائیل نے قتال فی سبیل اللہ سے کورا جواب دے دیا جس پر آنجنابؑ نے ان سے شدید بیزاری کا اظہار فرمایا. (ملاحظہ ہوں آیات ۲۰ تا ۲۶سورۃ المائدۃ)

آیت نمبر ۶ میں مذکور ہے یہود کا وہ طرزِ عمل جو انہوں نے اختیار کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ، بالخصوص ان کے علماء کی وہ کورچشمی اور ڈھٹائی جس کی بنا پر انہوں نے اللہ کے ایک جلیل القدر پیغمبر کو جادوگر اور کافر ومرتد اورواجب القتل قرار دیا اور ان کو عطا کئے جانے والے معجزات کو سحر سے تعبیر کیا.

آیات نمبر ۷،۸ میں نقشہ کھینچا گیا ہے یہود کے اس طرزِ عمل کا جو نبی ٔ موعوداوررسولِ آخر الزماں  اور آپؐ کی دعوت کے ضمن میں ظاہر ہوا، یعنی انتہائی متکبرانہ حسد، بغض اور مخالفت ومخاصمت میں حد درجہ گھٹیا اور کمینے ہتھکنڈوں پر اتر آنا. اس لئے کہ اعراض عن الحق کے باعث ان میں جو دناء ت اوربزدلی پیدا ہو چکی تھی اس کے باعث وہ کبھی کھلے میدان میں تو آنحضورؐ اور مسلمانوں کا مقابلہ نہ کر سکے، البتہ اوچھے ہتھیاروں سے کام لینے کی ہر ممکن کوشش انہوں نے کی جسے تعبیر فرمایا ’’اللہ کے نور کو منہ کی پھونکوں سے بجھا دینے کی کوشش‘‘ کے حد درجہ فصیح وبلیغ الفاظ سے! بقول مولانا ظفر علی خان ؎

نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

رکوع دوم دوسرے رکوع کی پہلی آیت میں مسلمانوں سے ایک سوال کیا گیا’ ’کیا تمہیں وہ کاروبار بتاؤ جس کا نفع اتنا عظیم ہے کہ تم عذابِ الیم سے چھٹکارا پاجائو‘‘. بین السطور میں گویا یہ تنبیہہ فرما دی گئی کہ اگر اس کاروبار کو اختیار نہ کرو گے اور اس سے اباء واعراض کرو گے تو عذابِ الیم سے چھٹکارا پانے کی امید بھی ایک امیدِ موہوم سے زیادہ کچھ نہیں. اور یہ گویا خلاصہ ہو گیا اس تمام تہدید وترہیب کا جو پہلے رکوع میں تفصیلاً وارد ہوئی ہے.

دوسری آیت میں اس سوال کا جواب مرحمت فرمایا گیا: ’ ایمان لائو اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر اور جہاد کرو اس کی راہ میںاور کھپائو اس میں اپنے اموال بھی اور اپنی جانیں بھی، اسی 
میں خیر مضمر ہے!‘. بقیہ چار آیات میں اسی ’’خیر‘‘ کی تفاصیل ہیں چنانچہ:

آیت نمبر ۱۱ میں ذکر ہوا مغفرت اور داخلۂ جنت، اور فردوسِ بریں کے پاکیزہ مسکنوں کا اس تصریح کے ساتھ کہ اصل اور عظیم کامیابی ان ہی کا حصول ہے.

آیت نمبر ۱۲ میں بشارت وارد ہوئی دنیا میں تائید ونصرت اور فتح وظفر کی، اس تعریض کے ساتھ کہ یہ تمہیں بہت عزیز ہے. (اگرچہ اللہ کی نگاہ میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں) . آیت نمبر ۱۴ میں پہنچ گیا یہ مضمون اپنے عروج اور کمال 
(Climax) کو یعنی جہاد وقتال فی سبیل اللہ کے ذریعے اہلِ ایمان رسائی حاصل کر سکتے ہیں اس مقامِ رفیع تک کہ وہ عبد ہوتے ہوئے معبود کے مددگار قرار پائیں اور مخلوق ہوتے ہوئے خالق کے ’انصار‘ ہونے کا خطاب پائیں. اس ضمن میں مثال میں پیش فرمایا حواریّینِ حضرت مسیحؑ کو جنہوں نے آنجنابؑ کے رفعِ آسمانی کے بعد واقعہ یہ ہے کہ آپ کے پیغام کی نشرواشاعت کے ضمن میں قربانیوں اور آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے کی جو مثالیں قائم کیں وہ رہتی دنیا تک یادگار رہیں گی.

اس آخری آیت میں ضمنی طور پر اشارہ ہوا ہے اس جانب بھی کہ کسی بگڑی ہوئی مسلمان قوم میں جو کوئی بھی اصلاح کا بیڑہ اٹھا کر آمادۂ عمل ہو اس کو ندا لگانی چاہئے کہ 
مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ؟ ’’کون ہے جو اللہ کی راہ میں میری مدد پر کمربستہ ہو؟‘‘ پھر جو لوگ اس کی صدا پر لبیک کہیں وہ آپ سے آپ ایک فطری جماعت کی صورت اختیار کر لیں گے.

آخر میں ایک اشارہ اور… پوری سورۃ الصف اصل میں تشریح وتفصیل ہے 
’’اُمُّ الْمُسَبِّحَات‘‘ یعنی سورۃ الحدید کی آیت ۲۴ کی، اس اجمال کی تفصیل بعد میں آئے گی.