سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کی رُو سے ’ایمانِ حقیقی‘ کے دو ارکان ہیں

سورۃ الحجرات کی آیت ۱۵ کی رُو سے ’ایمانِ حقیقی‘ کے دو ارکان ہیں:
یقینِ قلبی … اور … جہاد فی سبیل اللہ
اور سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کی رُو سے اسلام کی دو عظیم ترین حقیقتیں ہیں:
جہاد فی سبیل اللہ اور قرآن حکیم
گویا ٭ قرآن منبع وسرچشمہ ہے ایمان کا
٭ ایمان کا مظہرِ اتم ہے جہاد
اور ٭ جہاد کا مرکز ومحور ہے قرآن!


اس طرح یہ عمل ایک گول زینے کے مانند بلند سے بلند تر ہوتا چلا جائے گا
تاآنکہ لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا کی منزل آجائے! 
(اس مو ضوع پر راقم الحروف کی ایک تحریر جو اولاً ’میثاق‘ بابت دسمبر ۷۵ء کے ادارئیے کے طور پر شائع ہوئی تھی)
واقعہ یہ ہے کہ 
’بَدْئُ الْاِسْلَام‘ میں دین کی اصل اساسی اور بنیادی حقیقتیں دو ہی تھیں. ایک قرآنِ حکیم جسے نبی اکرم  کی انقلابی جدوجہد کے ضمن میں ’آلہ انقلاب‘ کی حیثیت حاصل ہے بقول مولانا حالیؔ ؎ 

اتر کر حِرا سے سُوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

ا ور دوسرے جہاد فی سبیل اللہ جو جامع عنوان ہے آپؐ کی اس جدوجہد کے مختلف مدارج ومراحل کا.

واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید ہی کی گرج اور کڑک تھی جس نے نیند کے ماتوں کو جگایا اور 
خوابِ خرگوش کے مزے لوٹنے والوں کو بیدار کیا. چنانچہ وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ اور اِقۡتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُہُمۡ وَ ہُمۡ فِیۡ غَفۡلَۃٍ مُّعۡرِضُوۡنَ ۚ﴿۱﴾ کی چونکا دینے والی صدائیں اور اَلۡقَارِعَۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡقَارِعَۃُ ۚ﴿۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡقَارِعَۃُ ؕ﴿۳﴾ اور اَلۡحَآقَّۃُ ۙ﴿۱﴾مَا الۡحَآقَّۃُ ۚ﴿۲﴾وَ مَاۤ اَدۡرٰىکَ مَا الۡحَآقَّۃُ ؕ﴿۳﴾ کی بیدار کن ندائیں ہی تھیں جنہوں نے پورے عرب میں ہلچل مچا دی اور عَمَّ یَتَسَآءَلُوۡنَ ۚ﴿۱﴾عَنِ النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ ۙ﴿۲﴾الَّذِیۡ ہُمۡ فِیۡہِ مُخۡتَلِفُوۡنَ ؕ﴿۳﴾ کی کیفیت پیدا کر دی. بقول مولانا حالیؔ ؎

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوتِ ہادیؐ 
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلادی

پھر اسی کی آیاتِ بینات تھیں جنہوں نے ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ عَلٰی عَبۡدِہٖۤ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰتٍ لِّیُخۡرِجَکُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ ؕ (الحدید۹کے مصداق انسانوں کو شرک، الحاد، مادہ پرستی، حُبِّ عاجلہ اور حیوانیتِ محضہ کےظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ ایسے مہیب اور ہولناک اندھیروں سے نکال کر ایمان اور یقین کی روشنی سے بہرہ ورفرمایا. چنانچہ وہ ایک طرف عرفانِ الٰہی اورمحبتِ خداوندی سے سرشار یعنی مستِ بادۂ الست ہو گئے اور دوسری طرف دنیا ومافیہا ان کی نگاہوں میںمچھر کے پَر سے بھی حقیر تر ہو گئے اور وہ کُلّیۃًطالبِ عقبیٰ بن گئے.

مزید براں… وہی تھا جو 
مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ بھی بن کر آیا اور شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ بھی! چنانچہ اسی کے ذریعے لوگوں کا تزکیۂ نفس بھی ہوا اور تصفیۂ قلب وتجلیۂ روح بھی! 

گویا انذار ہو یا تبشیر، تبلیغ ہو یا تذکیر، موعظت ہو یا نصیحت، تعلیم ہو یا تربیت، تزکیہ ہو یا تصفیہ، تجلیہ ہو یا تنویر … الغرض تطہیر ہو یا تعمیر محمد رسول اللہ  کا پورا عمل دعوت واصلاح قرآن مجید ہی کے گرد گھومتا ہے. یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ایک نہ دو پورے چار مقامات پر آنحضورؐ کے منہجِ انقلاب کو جن اساسی اصطلاحات کے ذریعے واضح کیا گیا ہے ان کا اول وآخر خود قرآن مجید ہی ہے. بفحوائے الفاظِ قرآنی: 

یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ 
سناتا ہے انہیں اس کی آیات اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے انہیں کتاب اور حکمت! (الجمعہ: ۲

قرآن کا کارنامہ، ایک جملے میں بیان کیجئے، تو یہ ہے کہ اس نے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کے دلوں میں ایمان پیدا کر دیا اور توحید، معاد اور رسالت پر یقینِ محکم کی کیفیت پیدا کر دی. لیکن اس سے اس ہمہ گیر تبدیلی کا اندازہ نہیں ہوتا جو قرآنِ حکیم کے بدولت ان کی زندگیوں میں برپا ہو گئی تھی، اس لئے کہ قرآن نے انؓ کا فکر بدلا، سوچ بدلی، نقطۂ نظر بدلا، اقدار بدلیں، عزائم بدلے، امنگیں بدلیں، شوق بدلے، دلچسپیاں بدلیں، خوف بدلے، امیدیں بدلیں، اخلاق بدلے، کردار بدلے، خلوت بدلی، جلوت بدلی، انفرادیت بدلی، اجتماعیت بدلی، دن بدلا، رات بدلی حتی کہ 
یَوۡمَ تُبَدَّلُ الۡاَرۡضُ غَیۡرَ الۡاَرۡضِ وَ السَّمٰوٰتُ کے مصداق آسمان بدلا، زمین بدلی، الغرض پوری کائنات بدل کر رکھ دی. اور اس پوری تبدیلی کا ذریعہ اور آلہ ہیں قرآنِ حکیم کی آیاتِ بینات! بقول علامہ اقبال:

بندۂ مومن زِ آیاتِ خداست
ایں جہاں اندر براوچوں قباست
چوں کہن گرد وجہانے دربرش
می دہد قرآں جہانے دیگرش!

تبدیلی اگر حقیقی اور واقعی ہو تو اس کی کوکھ سے لازماً تصادم اور کشمکش جنم لیتے ہیں جن کے مراحل تبدیلی کی نوعیت اور مقدار کی نسبت سے کم وبیش ہو سکتے ہیں. ایمان نے جو تبدیلی صحابۂ کرام ؓ میں پیدا کی اس نے جس تصادم اور کشمکش کو جنم دیا اس کے جملہ مدارج ومراحل کا جامع عنوان ہے ’جہاد فی سبیل اللہ‘.

اس تصادم اور کشمکش کا اولین ظہور انسانوں کی اپنی شخصیت کے داخلی میدانِ کارزار میں ہوا. یہی وجہ ہے کہ ’مجاہدہ مع النفس‘ کو افضل الجہاد قرار دیا گیا. 
(۱پھر جب ایمان اشخاص کے باطن میں اس طرح راسخ اور مستولی ہو گیا کہ ریب اور تشکک کے کانٹے نکل گئے تو اب اسی جہاد ومجاہدہ کا ظہور عالمِ خارجی میں ظالموں، سرکشوں اور خدا کے باغیوں سے (۱) آنحضورؐ سے دریافت کیا گیا: ’’اَیُّ الْجِھَادِ اَفْضَلُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘ تو آپؐ نے فرمایا : ’’اَنْ تُجَاھِدَ نَفْسَکَ فِیْ طَاعَۃِ اللّٰہ‘‘ کشمکش اور تصادم کی صورت میں ہوا جس کا مقصد قرار پایا’تکبیرِ رب‘ (۱یعنی اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اقرار واعلان اور اس کی حاکمیتِ مطلقہ کا بالفعل قیام ونفاذ تاکہ ’’اس کی مرضی جیسے آسمان پر پوری ہوتی ہے زمین پر بھی ہو‘‘ (۲اور اس کی آخری منزل ہے ’’قتال فی سبیل اللہ‘‘ جس کا منتہائے مقصود معین ہوا ان الفاظ میں کہ: 

وَ قَاتِلُوۡہُمۡ حَتّٰی لَا تَکُوۡنَ فِتۡنَۃٌ وَّ یَکُوۡنَ الدِّیۡنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ۚ 

اور جنگ کرتے رہو ان سے یہاں تک کہ ’’فتنہ‘‘ بالکل فرو ہو جائے اور اطاعت کُلّیۃً اللہ ہی کی ہونے لگے. 
(الانفال ۳۹

ایمان ویقین اور جہاد وقتال کا یہی وہ لزومِ باہمی ہے جس کو نہایت واضح اور واشگاف الفاظ میں بیان کیا گیا قرآن حکیم کی اس آیہ مبارکہ میں: 

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ ثُمَّ لَمۡ یَرۡتَابُوۡا وَ جٰہَدُوۡا بِاَمۡوَالِہِمۡ وَ اَنۡفُسِہِمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوۡنَ ﴿۱۵﴾ 
(الحجرات ۱۵
مومن تو بس وہی ہیں جو ایمان لائے اللہ پر اور اس کے رسولؐ پر پھر شک میں نہ پڑے اور جہاد کرتے رہے اللہ کی راہ میں اور کھپاتے رہے اس میں اپنے اموال اور اپنی جانیں. حقیقت میں یہی ہیں سچے!

واضح رہے کہ اس آیۂ مبارکہ کے اول وآخر حصر کا اسلوب بھی ہے اور آیۂ ماقبل میں ’حقیقی ایمان‘ اور ’قانونی اسلام‘ کے مابین فرق وامتیاز کا مضمون بھی. گویا مومنِ صادق کی جامع ومانع تعریف قرآن حکیم کی کسی ایک آیت میں مطلوب ہو تو وہ یہی آیت ہے.

الغرض قرآن کے اصل حاصل ہیں ایمان اور یقین اور ان کا لازمی نتیجہ ہیں: جہاد اور قتال. ان میں سے ایمان ویقین اصلاً ایک معنوی حقیقت اور داخلی کیفیت کا نام ہیں، 
(۱) الفاظ قرآنی کی رُو سے وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾ (المدثر :۳اور بقول علامہ اقبال

یا وُسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کی آغوش میں تسبیح ومناجات
وہ مسلکِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہبِ مُلّا و جمادات و نباتات!

(۲) سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ 
چنانچہ عالمِ خارجی میں اسلام کی دو عظیم ترین اور نمایاں ترین حقیقتیں قرآن اور جہاد. یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ایمانِ حقیقی کی مستقل علامتوں (Symbols) کی حیثیت رکھتے ہیں اور مردِ مومن کی شخصیت کا جو ہیولیٰ تخیل اور تصور میں ابھرتا ہے اس کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لازمی ولابدی ہیں.
نبی اکرم  کی حیاتِ طیبہ اور خلافتِ راشدہ کے دوران اسلام کی ’نشاۃ اولیٰ‘ یا غلبۂ دینِ حق کا دورِ اول بلا شائبہ ریب وشک، نتیجہ تھا صحابۂ کرامؓ کے تعلقِ قرآن اور جذبۂ جہاد کا. لیکن یہ بھی ایک ایسی تاریخی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں کہ جیسے ہی اسلام نے ایک مملکت اور سلطنت کی صورت اختیار کی ان دونوں کی حیثیت ثانوی ہو کر رہ گئی. اور ایسا ہونا ایک حد تک منطقی اور فطری بھی تھا. اس لئے کہ ایک طرف تو کسی مملکت یا سلطنت میں اولین واہم ترین مسئلہ شہریت کا ہوتا ہے جو ایک خالص قانونی مسٗلہ ہے جس میں تمام تر بحث انسان کے ’ظاہر‘ سے ہوتی ہے، باطن سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا گویا بقول علامہ اقبالؔ ؏ ’’بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘. مزید براں اس کا اصل موضوع نظم ونسق اور امن وامان کا ہوتا ہے جس کے اعتبار سے بنیادی اہمیت قانون اور ضابطے کو حاصل ہوتی ہے نہ کہ مکارمِ اخلاق یا مواعظِ حسنہ کو. حتّٰی کہ اس اعتبار سے قصاص، عفو پر مقدم ہو جاتا ہے. اور دوسری طرف سلطنتوں اور مملکتوں کو،خواہ وہ اصولی اور نظریاتی ہی ہوں اصل سروکار اپنی حفاظت ومدافعت سے ہوتا ہے، اصولوں اور نظریات کی تبلیغ واشاعت ہوتی بھی ہے تو ثانوی درجے میں اور حکومتوں کی مصلحتوں کے تابع رہ کر!

یہی وجہ ہے کہ جب اسلام مملکت اور سلطنت کے دور میں داخل ہوا تو اصل زور 
(Emphasis) ایمان کے بجائے اسلام پر، یقین کے بجائے اقرار اور شہادت پر اور باطن سے بڑھ کر ظاہر پر ہو گیا. نتیجۃً قرآنِ حکیم کے بھی منبع ایمان اور سرچشمۂ یقین ہونے کی حیثیت مؤخر اور نگاہوں سے اوجھل ہوتی چلی گئی اور کتابِ قانون اور یکے از ادِلّۂ اربعہ (۱ہونے کی حیثیت مقدم اور مرکزِ توجہ بنتی چلی گئی. اور پھر جیسے جیسے مملکت اور سلطنت کے (۱) اصولِ شریعت چار ہیں: قرآن، سُنّتِ رسولؐ ، قیاس، اجماع. انہیں اَدِلّۂ اَرْبَعَہْ کہا جاتا ہے. تقاضے پھیلتے گئے اور قانون کی عملداری وسیع ہوتی گئی قرآنِ مجید تو ’چار میں کے ایک‘ کی حیثیت میں پس منظر میں ’گم‘ (۱ہوتا چلا گیا اور توجہات حدیث اور فقہ پر مرتکز ہو کر رہ گئیں. ستم بالائے ستم یہ کہ علم اور حکمت کے میدان میں جو خلا اس طرح پیدا ہوا اسے پُر کرنے کے لئے مصر ویونان کی جانب سے فلسفہ ومنطق کی آندھیاں آئیں. نتیجۃً پورا عالمِ اسلام ارسطو کی منطق اور نوافلاطونی تصوف کی آماجگاہ بن کر رہ گیا. یہاں تک کہ فلسفہ واصولِ اخلاق کے لئے بھی مسلمانوں کو اغیار کے سامنے کاسۂ گدائی پیش کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا! (۲اور رفتہ رفتہ صورت یہ ہو گئی کہ قرآن نہ منبعِ ایمان رہا نہ سرچشمۂ یقین اور نہ مخزنِ اخلاق رہا نہ معدنِ حکمت … بلکہ صرف ایک ایسی ’’کتابِ مقدس‘‘ بن کر رہ گیا جس کے الفاظ یا تو حصولِ برکت اور ایصالِ ثواب کا ذریعہ بن سکتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کے کام آسکتے ہیں (۳اور اس طرح آنحضور  کی وہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی کہ ایک زمانہ وہ آئے گا کہ : 

لَا یَبْقٰی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہٗ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ 

اسلام میں سے سوائے اس کے نام کے اور کچھ باقی نہ رہے گا اور قرآن میں سے سوائے صورتِ الفاظ کے اور کچھ نہ بچے گا. 
(مشکوۃ :کتاب العلم) 

بعینہٖ یہی معاملہ ’جہاد‘ کے ساتھ بھی ہوا، جب اصل زور ایمان پر نہ رہا بلکہ اسلام پر ہو گیا تو جہاد بھی جو ایمانِ حقیقی کا رُکنِ رکین تھا خود بخود نگاہوں سے اوجھل ہوتا چلا گیا. اور ساری توجہ ارکانِ اسلام پر مرتکز ہو گئی جن کی فہرست میں جہاد سرے سے شامل ہی نہیں ہے، گویا جہاد پر ظلم قرآن سے بھی بڑھ کر ہوا. اس لئے کہ قرآن تو خواہ ’چار میں کے ایک‘ کی 
(۱) حضرت اکبرؔ کا بہت پیارا شعر ہے.

صوم ہے ایمان سے، ایمان غائب صوم گُم
قوم ہے قرآن سے، قرآن رُخصت قوم گُم
(۲) اسی کا مرثیہ کہا مولانا رومؒ نے ان الفاظ میں ؎
چند خوانی حکمتِ یونانیاں
حکمتِ قرآنیہ راہم بخواں
(۳) ایک تیسرا مصرف قرآن کا وہ ہے جو علامہ اقبالؔ ؒ نے اس شعر میں بیان کیا: ؎
بآیاتش تُرا کارے جُزایں نیست

کہ از یاسینِ اُو آساں بہ میری 
حیثیت ہی سے سہی بہرحال شریعت کے اصولِ اربعہ میں شامل تو ہے، جہاد تو نہ صرف یہ کہ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں شامل نہیں بلکہ نظامِ فقہ میں بھی اس کی حیثیت فرضِ عین کی نہیں صرف فرضِ کفایہ کی ہے. اس پر مستزاد یہ کہ جہاد کا تصور بھی مسخ ہو گیا اور اس شجرۂ طیبہ کی شاخوں کو جڑ اور تنے سے جدا کر کے ہر ایک کو مختلف رنگ دے دیا گیا، چنانچہ ایک طرف جہاد مع النفس کا رخ اعمال اور معاملات کی منجدھار سے پرے ہی پرے اذکار واوراد اور نفسیاتی ریاضتوں اور ورزشوں کی راہِ یسیر (Short Cut) کے جانب موڑ دیا گیا اور دوسری طرف جہاد کو قتال کے ہم معنٰی قرار دے کر اس کا مقصد مملکت کی سرحدوں کے تحفظ ودفاع اور بس چلے تو توسیع کے سوا کچھ نہ رہا. رہا شرک وظلم، کفر وفسق اور زُور ومنکر کی ہر صورت کے ساتھ مسلسل کشمکش اور تصادم اور حق وصداقت کے پرچار، نیکی اور راستبازی کی ترویج، کلمۂ توحید کی نشرواشاعت اور دینِ حق کے غلبہ واقامت کے لئے پیہم جدوجہد اور اس کے لئے سمع وطاعت کے اصول پر مبنی نظامِ جماعت کے قیام کا معاملہ … گویا فی الجملہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کی منظم سعی جو ہر مومن کے لئے فرضِ عین کا درجہ رکھتی ہے تو وہ یا تو سرے سے خارج از بحث ہو گئی یا زیادہ سے زیادہ ایک اضافی نیکی قرار پاکر رہ گئی اور اس سے بالا ہی بالا اور وَرے ہی وَرے اسلام وایمان اور تقویٰ واحسان کے جملہ مراحل طے پانے لگے!

اللہ ! اللہ ! کوئی فرق سا فرق ہے اورتفاوت سا تفاوت! ؏ ’’ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا!‘‘کے مصداق کجا وہ کیفیت کہ صحابہ کرامؓ جذبۂ جہاد سے سرشار، بیک زبان، رجزیہ انداز میں یہ شعر پڑھ رہے ہیں: 
(۱
نَحْنُ الَّذِیْنَ بَایَعُوْا مُحَمَّدًا
عَلَی الْجِھَادِ مَا بَقِیْنَا اَبَدًا 

کجا یہ حال کہ چودھویں صدی ہجری کے ایک مُتَنبِّی اور اس کی ذُرِّیتِ صلبی ومعنوی نے تو جہاد بالسیف کو باقاعدہ منسوخ ہی قرار دے دیا، مسلمانوں کی عظیم اکثریت کا حال بھی عملاً کچھ زیادہ مختلف نہیں. ؏ ’’کہ رہوارِ یقینِ مابصحرائے گماں گم شد!‘‘ 
(۱) (ترجمہ) ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے زندگی کے آخری سانس تک جہاد جاری رکھنے کی شرط پر محمد  کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.