یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے پورے قرآن مجید کو بھی ’’شفاء‘‘ قرار دیا ہے. چنانچہ سورۂ یونس کی آیت ۵۷ میں فرمایا گیا:
یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ مَّوۡعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوۡرِ ۬ۙ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۵۷﴾
’’اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے ربّ کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے‘ اور شفاء بھی دلوں کے امراض کے لیے ‘ اور رہنمائی اور رحمت ان کے لیے جو اِس پر ایمان لے آئیں‘‘. سورۂ بنی اسرائیل کی آیت ۸۲ میں فرمایا گیا:
وَ نُنَزِّلُ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ مَا ہُوَ شِفَآءٌ وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلۡمُؤۡمِنِیۡنَ
’’اور ہم اتارتے ہیں قرآن میں سے جس سے روگ دفع ہوں اور رحمت ایمان والوں کے واسطے‘‘.
یہاں جس شفاء کا تذکرہ ہے اس کے متعلق یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس سے ذہنی و فکری شفاء اور دل کے روگ جیسے حسد‘ کینہ‘ بغض‘ تکبر وغیرہ باطنی امراض مراد ہیں. گویا انسان کی سوچ کو درست کرنے والی کتاب‘ کتابِ الٰہی ہے اور باطن کے امراض کا مداوابھی قرآن حکیم ہے. اس موقع پر ساتھ ہی یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ انسان کے جسم اور ذہن میں بہت گہرا ربط ہے. ذہن و فکر مریض ہوں تو جسم پر بھی اس کے آثار ظاہر ہوں گے. قارئین کے علم میں ہوگا کہ آج کل کے دَور میں امراضِ ذہنی ونفسیاتی کا بڑا چرچا ہے. یہ دراصل فسادِ فکری کا نتیجہ ہوتے ہیں. لہذا اگر فکر صحیح ہوگی‘ سوچ درست ہوگی تو لازماً انسان کو جسمانی تندرستی بھی حاصل ہوگی. ان اعتبارات سے پورا قرآن مجید بھی شفاء ہے اور یہ سورۂ مبارکہ بھی‘ کیونکہ یہ پورے قرآن کے خلاصے کی حامل سورت ہے. اس میں مؤمنوں کے لیے ہدایت کے ساتھ ذہنی ‘ فکری اور قلبی شفاء بھی موجود ہے. مزید برآں یہ کلام اللہ ہے‘ اس پر کامل و اکمل یقین رکھنے والوں کے لیے اس میں جسمانی طور پر شفاء ہونا بھی مستبعد نہیں. سورۃ الفاتحہ کے جسمانی شفاء ہونے کا احادیثِ صحیحہ میں ذکر ملتا ہے.