پانچویں بات بہت اہم ہے. یقینا یہ بات تمام قارئین کرام کے علم میں ہوگی کہ یہ سورۂ مبارکہ ہماری نماز کا جزوِ لاینفک ہے. نماز کی ہر رکعت میں اس کی تلاوت کی جاتی ہے. نبی اکرم کی مشہور حدیث ہے‘ جو متفق علیہ ہے‘ یعنی جس کو امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے اپنی اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ

لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ (۱)
’’اس شخص کی کوئی نماز نہیں جس نے سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی‘‘.

ایک اور حدیث ِ قدسی ہے جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور امام مسلم ؒ اسے اپنی صحیح میں لائے ہیں. یہ حدیث طویل ہے جس پر اِن شاء اللہ آگے گفتگو ہوگی. اس سے یہ بات واضح ہو کر سامنے آجائے گی کہ اصل نماز سورۃ الفاتحہ ہی ہے.اس معاملے میں کسی بھی فقہی مسلک میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورۃ الفاتحہ ہماری نماز کاجزوِ لازم ہے.

البتہ اس معاملے میں جو اختلاف ہے اسے چھٹی بات کے طور پر نوٹ کر لیجیے. یہ بات بھی یقینا آپ کے علم میں ہوگی کہ ہمارے یہاں بعض بڑے جلیل القدر ائمۂ دین اور فقہائے کرام رحمہم اللہ کے مابین بعض مسائل میں کچھ اختلافات قدیم زمانے سے چلے آ رہے ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب کوئی شخص امام کے پیچھے با جماعت نماز پڑھ رہا ہو تو اس صورت میں اسے امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنی چاہیے یا نہیں! ایک رائے یہ ہے کہ یہ سورت تو ہر شکل میں پڑھنی ہے‘ جہری رکعات میں بھی پڑھنی ہے اور سِرّی رکعات میں بھی. دوسری رائے اس کے بالکل برعکس ہے‘ اور وہ یہ کہ جب جماعت کے ساتھ نماز پڑھی جائے تو امام سورۃ الفاتحہ پڑھے لیکن مقتدی قطعاً نہ پڑھیں‘نہ جہری رکعات میں نہ سِرّی رکعات میں. امام ہی کی قرا ء ت مقتدیوں کی طرف سے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت شمار ہو جائے گی. جیسے ایک وفد کسی دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اس وفد کا قائد یا ترجمان جو بات کرتا ہے وہ سب کی طرف سے شمار ہوتی ہے. البتہ ایک بین بین رائے بھی ہے‘ اوروہ یہ ہے کہ اگر جہری رکعت ہے تو امام بلندآواز سے سورۃ الفاتحہ کی قراء ت کرے گا اور مقتدی سنیں گے اور اگر سِرّی رکعت ہے تو امام بھی خاموشی سے قراء ت کرے گااور مقتدی بھی اس کے پیچھے خاموشی سے 
(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الاذان‘ باب وجوب القراء ۃ للامام والمأموم… الخ. وصحیح مسلم‘ کتاب الصلاۃ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ …الخ. پڑھیں گے. ان آراء کے حاملین کے اپنے اپنے مسلک اور موقف کے لیے نہایت مضبوط اور مبسوط دلائل موجود ہیں.

اس ضمن میں قارئین کرام کے سامنے جو بات اہمیت اور تاکید کے ساتھ لانی مقصودہے وہ یہ ہے کہ ان معاملات کے ضمن میں ہمیں اپنے سینوں کو کشادہ رکھنا چاہیے. یہ اختلاف خلوص پر مبنی ہے. سب صحیح بات تک پہنچنا چاہتے ہیں اور جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے سب کے پاس اپنے اپنے موقف کے دلائل موجود ہیں. یہ فروعی اختلافات ہیں. دین کی اصل رُوح سے ان کا کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے. ہر رائے افضل و مفضول اور راجح و مرجوح کے اصول پر مبنی ہوتی ہے اور ہر رائے میں خطائے اجتہادی کا یکساں احتمال ہوتا ہے‘ جس کے متعلق اہل سنّت کا مجمع علیہ موقف یہ ہے کہ مبنی بر خلوص اجتہاد میں خطا پر بھی اللہ تعالیٰ کے یہاں اجر و ثواب عطا ہوگااوراگراجتہاد صحیح ہو تب تو اس پر دوہرا اجر ملے گا. البتہ اس مسئلے کے ضمن میں خصوصی بات یہ ہے کہ اس میں ہر گز کوئی اختلاف نہیں ہے کہ سورۃ الفاتحہ ہماری نماز کا جزوِ لاینفک ہے. جب مسلمان انفرادی طور پر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے لازماً ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ پڑھنی ہوگی. البتہ جب جماعت میں شامل ہو تو ایک رائے یہ ہے کہ امام کی سورۃ الفاتحہ کی قراء ت تمام مقتدیوں کی طرف سے بھی کفایت کرے گی.دوسری رائے یہ ہے کہ مقتدی کو بھی ہر رکعت میں امام کے پیچھے یہ سورۃ پڑھنی ہوگی‘ اور ایک درمیانی رائے یہ ہے کہ مقتدی جہری نماز میں خاموش رہے گا ‘ البتہ سِرّی رکعت میں خود بھی سورۃ الفاتحہ پڑھے گا.