آٹھویں بات یہ ہے کہ اس سورۂ مبارکہ کے تین حصے ہیں. اور عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ آیات سات ہیں لیکن نحوی اعتبار اور گرامر کے اصولوں کے لحاظ سے ان سات آیات سے مکمل جملے تین ہی بنتے ہیں. پہلی تین آیات : 
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ گرامر کی رو سے ایک ہی جملہ ہے اور نحوی اعتبار سے یہ ’’جملہ اسمیہ خبریہ‘‘ ہے. اس میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور شکر و سپاس ہے‘ اس کی صفاتِ رحمانی و رحیمی اور عدل و قسط کا بیان ہے. پھر چوتھی آیت جو اِس سورۂ مبارکہ کی مرکزی آیت ہے ‘خود ایک مکمل جملہ ہے‘ بلکہ اس کے مزید تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ایک آیت میں دو مکمل جملے موجود ہیں. بہرحال یہ ہے ’’جملہ فعلیہ خبریہ‘‘. یہ مرکزی آیت ہے : اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾ ’’(اے ربّ ہمارے!) ہم صرف تیری ہی بندگی و پرستش کرتے ہیں اور کریں گے ‘اور صرف تجھی سے مدد چاہتے ہیں اور چاہیں گے‘‘. یہاں حصر کا اسلوب ہے اور عربی میں چونکہ فعل مضارع میں حال اور مستقبل دونوں کے معنی ہوتے ہیں‘ لہذا ان امور کا ترجمہ میں لحاظ رکھا گیا ہے. اس آیت میں ربّ اور بندے کے مابین ایک قول و قرار اور ایک معاہدہ و میثاق ہے. یہ مسلّمہ بات ہے کہ معاہدے میں دو فریق منسلک ہوتے ہیں‘ لہذا یہ ’’جملہ فعلیہ خبریہ‘‘ درحقیقت اللہ اور بندے کے درمیان عہد و پیمان ہے. 

تیسرا حصہ جو آخری تین آیات پر مشتمل ہے : 
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾ 

’’(اے ربّ ہمارے!) ہمیں سیدھی راہ کی ہدایت بخش‘ اُن لوگوں کی راہ کہ جن پر تونے انعام فرمایا‘ جو نہ مغضوب ہوئے اور نہ گمراہ‘‘ یہ بھی ایک ہی جملہ بنتاہے اورنحو کے اعتبار سے یہ ’’جملہ انشائیہ‘‘ ہے. یہ ایک دعا ہے. اس میں ایک بندہ اپنے ربّ سے‘ جس کی وہ تحمید و تمجید کر چکا ‘ جس کی ربوبیت‘ رحمانیت‘ رحیمیت اور عدالت کا اقرارکر چکا‘ پھر جس سے وہ عبادت و استقامت کا عہد بھی استوار کر چکا‘ اب وہ اسی ربّ سے اپنی فطرت کی پکار اور پیاس کی سیرابی کے لیے ’’صراطِ مستقیم‘‘ یعنی زندگی بسر کرنے کے لیے معتدل و متوازن طرزِ زندگی اور راہِ عمل کی رہنمائی اور توفیق کا طلب گار اور مستدعی ہے.

اس موقع پر نویں اور آخری بات سے قبل وہ حدیث ِ قدسی ترجمہ کے ساتھ پیش کرنی مناسب ہے جس کا ذکر پہلے دو بار ہو چکا ہے اور جو امام مسلم ؒ نے اپنی صحیح میں روایت کی ہے . 

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ قَالَ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ  یَـقُوْلُ : قَالَ اللہُ تَعَالٰی : قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ‘ فَاِذَا قَالَ الْعَبْدُ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ قَالَ اللہُ تَعَالٰی: حَمِدَنِیْ عَبْدِیْ‘ وَاِذَا قَالَ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ قَالَ اللہُ تَعَالٰی: اَثْنٰی عَلَیَّ عَبْدِیْ‘ وَاِذَا قَالَ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ قَالَ مَجَّدَنِیْ عَبْدِیْ وَقَالَ مَرَّۃً: فَوَّضَ اِلَیَّ عَبْدِیْ فَاِذَا قَالَ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ قَالَ ھٰذَا بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ‘ فَاِذَا قَالَ اِھْدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِم ۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ﴿۷﴾ قَالَ ھٰذَا لِعَبْدِیْ وَلِعَبْدِیْ مَا سَأَلَ (۱

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو برابر حصوں میں تقسیم کر دیاہے( اس کا نصف حصہ میرے لیے اور نصف حصہ میرے بندے کے لیے ہے) اور میرے بندے کو وہ عطا کیا گیا جو اُس نے طلب کیا. جب بندہ کہتا ہے: 
’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری حمد کی (میرا شکر ادا کیا) .جب بندہ کہتا ہے : ’’الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میر ے بندے نے میری ثناء کی. جب بندہ کہتا ہے: ’’مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ‘‘ تو اللہ فرماتا ہے کہ میر ے بندے نے میری بزرگی اور بڑائی بیان کی…‘‘

گویا یہ پہلا حصہ کُل کا کُل اللہ کے لیے ہے. آگے بڑھنے سے قبل قارئین اس مقام پر یہ بات نوٹ فرما لیں کہ اس حدیث قدسی میں 
’’قَسَمْتُ الصَّلَاۃَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ عَبْدِیْ نِصْفَیْنِ‘‘ کے بعد آیت ’’بسم اللہ‘‘ کا ذکر موجود نہیں‘ بلکہ ’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ‘‘ سے براہِ راست بات آگے بڑھتی ہے. یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آیت ’’بسم اللہ‘‘ سورۃ الفاتحہ میں شامل نہیں ہے. اب حدیث کی طرف رجوع فرمائیے: 

’’جب بندہ کہتا ہے : 
’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ حصہ میر ے اور میرے بندے کے مابین مشترک ہے اور میں نے اپنے بندے کو بخشا جو اُس نے مانگا‘‘.

گویایہ حصہ ایک معاہدہ ہے‘ قول و قرارہے‘ عہد و میثاق ہے. اس میں بندے نے 
’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ‘‘ کہہ کر اللہ کی عبادت کا عہد کیا ہے اور ’’وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ‘‘ میں کچھ طلب بھی کیا ہے‘ مدد بھی چاہی ہے. اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میں نے اپنے بندے کو دیا جو اُس نے مجھ سے طلب کیا‘‘. اب آخری حصہ رہ گیا. فرمایا: (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الصلاۃ‘ باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ … الخ ’’جب بندہ کہتا ہے : ’’اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۵﴾صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۙ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾‘‘ تو اللہ فرماتا ہے کہ یہ حصہ (کُل کا کُل) میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے نے جو کچھ مجھ سے طلب کیا وہ میں نے اُسے بخشا‘‘.

اس حدیث کی رو سے سورۃ الفاتحۃ کے تین حصے بن جائیں گے. پہلا حصہ کلیۃً اللہ کے لیے ہے اور آخری حصہ کلیۃً بندے کے لیے ‘جبکہ درمیانی و مرکزی آیت : 
’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴﴾‘‘بندے اور اللہ کے مابین قول و قرار ہے. گویا اس کا بھی نصف ِ اوّل اللہ کے لیے اور نصف ِ ثانی بندے کے لیے ہے. اس طرح نصف نصف کی تقسیم بتمام و کمال پوری ہو گئی!