سورۃ الفاتحہ کے سلیس و رواں ترجمے‘ اس کے بارے میں چند تمہیدی باتوں اوراس کے مضامین کے اجمالی تجزیے کے بعد اب ہم اس سورۂ مبارکہ کے تینوں حصوں کو علیحدہ علیحدہ قدرے گہرائی میں اتر کر سمجھنے کی کوشش کریں گے. جیسے کہ اس سے قبل بیان کیا جا چکا ہے ‘اس سورۂ مبارکہ کا جزوِ اوّل تین آیات پر مشتمل ہے:

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۱﴾الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۲﴾مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۳﴾ 

’’کُل شکر اور کُل ثنا اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار اور مالک ہے‘ بہت رحم فرمانے والا‘ نہایت مہربان ‘ جزا و سزا کے دن کا مالک و مختار ہے‘‘.

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ

نوٹ کیجیے کہ یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کی افتتاحی سورت ہے اور اس کا ابتدائی کلمہ ہے : اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ. یہ کلمہ طیبہ نہایت عظیم اور بہت بلند مرتبت ہے. اس کے مفہوم کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے لفظ ’’حمد‘‘ کو اچھی طرح جان لینا ضروری ہے. عام طور پر اس کا ترجمہ صرف ایک لفظ ’’تعریف‘‘ سے کر دیا جاتا ہے‘حالانکہ تعریف بھی عربی کا لفظ ہے اور حمد بھی عربی کا لفظ ہے. اور یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ کسی زبان کے دو الفاظ بالکل ہم معنی نہیں ہوتے‘ ان کے معنی و مفہوم میں لازماً کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہوتاہے. اگر گہرائی میں ا ترکر دیکھا جائے تو لفظ ’’حمد‘‘ میں دو مفہوم شامل ہیں‘ ایک شکر اور دوسرا ثناء. شکر کا لفظ سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے ضمن میں تفصیلاً زیر بحث آچکا ہے. وہاں واضح کیا جا چکا ہے کہ اگر فطرت اپنی صحت پر برقرار ہو تو ا س کا تقاضا جذبۂ تشکر ہے اور اگر عقل صحیح نہج پر کام کر رہی ہو تو اس کاحاصل اپنے منعمِ حقیقی اور اپنے اصل مربی و محسن یعنی اللہ کو پہچان لینا ہے. فطرتِ سلیمہ اور عقلِ صحیحہ دونوں کے امتزاج سے جو چیز حاصل ہوتی ہے اس کا نام ’’حکمت‘‘ ہے. لہذا حکمت کا لازمی تقاضا اللہ کا شکر ہے. یہی بات اس سورۂ مبارکہ کے ابتدائی کلمات میں آئی ہے کہ ’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ‘‘. لیکن حمد کا لفظ شکر سے زیادہ وسیع تر مفہوم کا حامل ہے. کسی کا شکر ایسی چیز پر ادا کیا جاتا ہے جس کا کوئی فائدہ شکر کرنے والے کی ذات کو پہنچ رہا ہو. لیکن ثناء اور تعریف کی جاتی ہے کسی بھی حسن و جمال یا کمال کی خواہ اس کا ہمیں کوئی فائدہ پہنچا ہو یا نہ پہنچا ہو. حمد کے لفظ میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں‘یعنی شکر بھی اور ثناء بھی. لہذا ہم نے ترجمہ میں ان دونوں کو جمع کر دیا ہے کہ ’’کُل شکر اورکُل ثناء اللہ کے لیے ہے‘‘.
ایک دوسرے پہلو سے غور کیجیے تو آپ اس نتیجے سے اتفاق کریں گے کہ یہ کلمۂ توحید ہے. ہم یہ بات جانتے ہیں کہ اس کائنات میں جہاں کہیں بھی کوئی مظہرِ حسن ہے‘ مظہرِ کمال ہے‘ مظہرِ جمال ہے اُن کے متعلق ہماری عقل صحیحہ یہ رہنمائی کرتی ہے کہ ان تمام محاسن و کمالات کا منبع اور سرچشمہ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہے. لہذا اصل تعریف اور ثناء ان اشیاء کی نہیں ہوتی بلکہ اللہ کی ہوتی ہے. کلمۂ توحید کا اقتضاء یہی ہے کہ موحّدکے شعور اور تحت الشعور سب میں یہ بات مستحضر رہے کہ کائنات کی ہر نعمت‘ ہر چیز‘ ہر حسن‘ ہر جمال اور ہر کمال ‘الغرض کوئی بھی وصف کسی کا ذاتی نہیں‘ بلکہ اللہ کا ودیعت کردہ ہے. جیسے تصویر میں اگر کوئی حسن ہے تو وہ درحقیقت مصو ّر کے کمالِ فن کی عکاسی ہے. تصویر کا اپنا کوئی حسن نہیں‘ نہ اس کا کوئی اپنا ذاتی کمال ہے. بالکل اسی طرح کسی مخلوق میں اگر کوئی حسن اور کمال ہے یا کوئی خوبی اور جمال ہے تو وہ حسن و کمال اور خوبی و جمال خالق کا ہے‘نہ کہ مخلوق کا. چنانچہ اس کُل سلسلۂ کون و مکان میں جہاں 
کوئی حسن‘ کوئی کمال‘ کوئی خیر‘ کوئی خوبی اور کوئی جمال ہے یا کسی شے میں کوئی نفع رسانی کا پہلوہے تو اس کا منبع و سرچشمہ ذاتِ باری تعالیٰ ہے . لہذا شکر کا سزاوارِ حقیقی اور تعریف و ثناء کا اصل مستحق اللہ تعالیٰ ہے.

یہ کلمہ 
’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ‘‘ اتنا عظیم اور اعلیٰ مرتبت ہے کہ نبی اکرم نے فرمایا کہ یہ کلمہ آسمان و زمین کو اپنی برکات سے بھر دیتا ہے.حضرت ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی فرمانِ نبویؐ ہے : 

اَلطُّھُوْرُ شَطْرُ الْاِیْمَانِ والْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَأُ الْمِیْزَانَ وَسُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ تَمْلَآنِ [اَوْ تَمْلَأُ] مَا بَیْنَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ (۱

’’صفائی نصف ایمان ہے اور کلمہ ’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ‘‘ میزان کو بھر دیتا ہے اور کلمات ’’سُبْحَانَ اللہِ‘‘ اور ’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ‘‘ نہ صرف میزان کو پُر کر دیتے ہیں بلکہ آسمان و زمین کے مابین جو کچھ ہے (خلا‘ فضا) اس سب کو پُر کر دیتے ہیں.‘‘

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے انعام و اکرام اور احسانات کے ضمن میں انبیاء و رُسل علیہم السلام اورصالحین کے جو کلماتِ شکر منقول ہوئے ہیں اور اس سلسلے میں نبی ٔ اکرم  نے جن دعاؤں کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے ان میں سے اکثر و بیشتر میں یہ کلمہ 
’’اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ‘‘ استعمال ہوا ہے . طوالت سے بچنے کی خاطر دو مثالیں قرآن مجید اور دو مثالیں حدیث شریف سے پیش کرنے پر اکتفا کرنا ہو گا. سورۂ ابراہیم میں وارد ہے کہ جب بڑھاپے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسماعیل اور حضرت اسحق علیہما السلام جیسے صالح فرزند عطا فرمائے جو آگے چل کر منصبِ نبوت پر بھی سرفراز ہوئے تو اس احسان و انعام و نعمت اور کرم پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان پر ترانۂ شکر جاری ہوا کہ :

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ وَہَبَ لِیۡ عَلَی الۡکِبَرِ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَسَمِیۡعُ الدُّعَآءِ ﴿۳۹
’’کُل شکر اور ثناء اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے بڑھاپے کے باوجود اسماعیل اور اسحق ( علیہما السلام)عطا فرمائے. یقینا میرا ربّ دعا کا سننے (اور قبول کرنے) (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الطھارۃ‘ باب فضل الوضوء. والاہے‘‘. 

ایک اور مثال سورۃ الاعراف سے دیکھ لیجیے. جب مؤمنین صادقین کو حساب کتاب کے بعدجنت میں داخلے کا اِذن ملے گا تو اُن کی زبانوں پر کلمۂ شکر و سپاس اور تعریف و ثناء ان الفاظ میں جاری ہوگا کہ : 

وَ نَزَعۡنَا مَا فِیۡ صُدُوۡرِہِمۡ مِّنۡ غِلٍّ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمُ الۡاَنۡہٰرُ ۚ وَ قَالُوا الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ ہَدٰىنَا لِہٰذَا ۟ وَ مَا کُنَّا لِنَہۡتَدِیَ لَوۡ لَاۤ اَنۡ ہَدٰىنَا اللّٰہُ ۚ (آیت۴۳

’’اور وہ کہیں گے کُل شکر اور کُل ثناء اُس اللہ کی ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت فرمائی (بلکہ یہاں تک پہنچا دیا) اورہم خود ہدایت نہ پا سکتے (اور یہاںتک ہرگز نہ پہنچ پاتے)اگر اللہ ہی ہماری رہنمائی نہ فرماتا‘‘. 

رسول اللہ  نے سو کر اٹھنے کی یہ دعا تلقین فرمائی :
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ (۱

’’کُل شکر و ثناء اللہ کی ہے جس نے ہمیں ز ندہ کیا اس کے بعد کہ ہم پر موت طاری کر دی تھی اور (ایک دن اسی طرح ) اس کی جانب لوٹ جانا ہے‘‘. 
اور آپؐ نے اکل و شُرب کے بعد کی دعا ان الفاظ میں تلقین فرمائی : 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مُسْلِمِیْنَ (۲)

’’کُل شکر اور ثناء اس اللہ کے لیے ہے جس نے ہمیں کھلایا اور پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا.‘‘

رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ

اب آگے باری تعالیٰ کی چند مزید صفاتِ کمال کا ذکر ہو رہا ہے . پہلی بات سامنے آتی ہے: ’’رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ‘‘ جو تمام جہانوں کا مالک اور پروردگار ہے. ’’ربّ‘‘کے لفظ (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ باب ما یقول اذا اصبح. وصحیح مسلم‘ کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار‘ باب ما یقول عند النوم واخذ المضجع.
(۲) سنن الترمذی‘ کتاب الدعوات‘ باب ما یقول اذا فرغ من الطعام. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الاطعمۃ‘ باب ما یقول الرجل اذا طعم. 
میں یہ دونوںمفہوم شامل ہیں. عرب گھر کے مالک کو رَبُّ الْبَیْتِ یا رَبُّ الدَّار کہتے ہیں. قرآن مجید میں ربّ کا لفظ مالک کے معنوں میں متعدد مقامات پراستعمال ہوا ہے. جیسے سورۃ القریش میں آتا ہے : فَلۡیَعۡبُدُوۡا رَبَّ ہٰذَا الۡبَیۡتِ ۙ﴿۳﴾ ’’پس عبادت کرو اِس گھر (حرم شریف) کے مالک کی‘‘. پھر ربّ کا مفہوم پرورش کرنا‘ ترقی اور نشوونما دینا بھی ہے. ایک مالک ایسانااہل اور ناکارہ بھی ہو سکتا ہے جو اپنی ملکیت کو لے کر بیٹھ رہے‘ اس کی ترقی اور نشوونما کی اسے کوئی خاص پروا نہ ہو ‘اور ایک مالک ایسا قابل و قادر ہوتا ہے کہ اس کی ملکیت میں جو چیزیں ہیں وہ ان میں سے ہر چیز کو اُس کی استعدادات کے مطابق پروان چڑھائے اور ہر شے کو اُس کے نقطۂ کمال تک پہنچانے کا سامان فراہم کرے ! پس اللہ کی ذاتِ گرامی وہ ہے جو ہر شے کے نقطۂ عروج و کمال تک پہنچنے کے جملہ مقتضیات کو فراہم کرنے اور بہم پہنچانے والی ہے. ’’عَالَمِیْنَ‘‘ عالم کی جمع ہے. لہذا یہاں ربّ العالمین کا مفہوم ہوگا سارے جہانوں کی مخلوقات کا مالک اور پروردگاراللہ ہی ہے‘ آقا بھی وہی ہے اور پرورش کنندہ بھی وہی ہے. 

الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

اگلی آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ایک اور وصف ’’الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ‘‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے. یہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دو بڑے عظیم صفاتی نام ہیں. دونوں کا مادہ رحمت ہے. اسی رحمت سے ’’رحمن‘‘ اور اسی سے ’’رحیم‘ ‘ بنا. ان دونوں کے فرق کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے. عربی زبان میں ’’فَعْلَانُ‘‘ کے وزن پر جب کوئی صفت آتی ہے تو اس میں ایسا نقشہ سامنے آتا ہے جیسے کسی شے میں جوش و خروش اور طوفانی اورہیجانی کیفیت ہو. خود ہیجان بھی فَعْلَان کے وزن ہی پر ہے.تشبیہہ کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ جیسے سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہو‘ اس میں زبردست ہلچل ہو. کسی صفت کی یہ کیفیت ہو تو عربی میں ا سے اکثر فعلان کے وزن پر لایا جاتا ہے. مثلاً جب کہا جائے ’’اَنَا عَطْشَانُ‘‘ تو مفہوم ہوگا ’’میں شدید پیاسا ہوں ‘یا پیاس سے مرا جا رہا ہوں‘‘. ’’اَنَا جَوْعَانُ‘‘ کامفہوم ہوگا ’’میں بہت بھوکا ہوں ‘یابھوک سے میری جان نکل رہی ہے‘‘. ’’ہُوَ غَضْبَانُ‘‘ کا مطلب ہے ’’وہ نہایت غصے اور طیش میں ہے‘‘. ان امور کو سامنے رکھئے اور اب ’’رَحْمٰن‘‘ کے لفظ کو سمجھئے کہ اس کے معنی کیا ہوں گے ! رَحْمٰن وہ ہستی ہے جس کی رحمت ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کے مانند ہے. جس کی رحمت میں انتہائی جوش و خرو ش ہے.
البتہ 
’’فَعِیْل‘‘ کے وزن پر جب کوئی صفت آتی ہے تو اس صفت میں اس کے دوام و استمرار کا مفہوم شامل ہوتا ہے.یعنی یہ وقتی جوش و خروش نہیں ہے بلکہ اس میں پائیداری و استواری اور مستقل مزاجی ہے. گویا اللہ کی رحمت کی شان یہ بھی ہے کہ اس میں دوام اور استمرار ہے ‘جیسے ایک دریا ہمواری کے ساتھ مسلسل بہہ رہا ہے‘ اس میں ہیجان نہیں ہے‘ سمندر کی طرح کا جوش و خروش نہیں ہے‘ لیکن بہاؤ کا ایک خاموش اور پُر سکون تسلسل ہے. پس اللہ تعالیٰ کی یہ دونوںشانیں ہیں جو بیک وقت موجود ہیں. یعنی وہ بیک وقت رحمن بھی ہے‘ رحیم بھی ہے. اس بات کو ایک تشبیہہ سے مزید سمجھا جا سکتا ہے. فرض کیجیے کہ سڑک پر کوئی حادثہ ہو گیا ہے جس میں کئی افراد ہلاک ہو گئے ہیں اور فرض کیجیے کہ ا س حادثے میں ایک ایسی عورت بھی ہلاک ہو گئی جس کی گود میں ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا. وہ بچہ زندہ ہے اور اپنی مُردہ ماں کی چھاتی سے چمٹا ہوا ہے. یہ کیفیت دیکھ کر کون انسان ہوگا جس کے دل میں رقت پیدا نہ ہو اورشفقت و رحمت کے جذبات موجزن نہ ہو جائیں! ہر انسان یہ چاہے گا کہ یہ بچہ جو بے سہارا ہو گیا ہے‘ میں اس کی کفالت اپنے ذمہ لے لوں‘ اس کی پرورش میں کروں.لیکن اگر وہ اس جوش میں یہ ذمہ داری لے بیٹھا‘ تو ہمارامشاہدہ یہ ہے کہ اکثر و بیشتر یہ وقتی جوش بہت جلد ٹھنڈا ہو جاتا ہے. ہو سکتا ہے کہ کچھ ہی دنوں کے بعد اسے محسوس ہو کہ میں یہ کیا غلطی کربیٹھا! میرے اپنے بچے ہیں‘ میری بے شمار ذمہ داریاں پہلے سے موجود تھیں‘اب اِن پر مستزاد یہ بوجھ میں نے خواہ مخواہ اپنے سر لے لیا. گویا وقتی طور پر وہ ہیجانی کیفیت جو اُس کے دل میں پیدا ہوئی تھی جس کے زیر اثر اس نے بے سہارا بچے کی کفالت کی ذمہ داری لے لی تھی‘اس میں دوام و استمرار نہیں تھا. لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت کی یہ دونوںشانیں بیک وقت ہیں. وہ بیک وقت رحمن بھی ہے اور رحیم بھی ہے. یہی وجہ ہے کہ ’’الرَّحۡمٰنِ‘‘ اور ’’ الرَّحِیۡمِ ‘‘ کے مابین حرفِ عطف ’’و‘‘ نہیں آیا‘ بلکہ یہاں فرمایا: ’’الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ‘‘ یعنی اس میں یہ دونوں صفات‘ یہ دونوںشانیں بیک وقت بتمام و کمال موجودہیں.