اس پوری بحث میں ایک دقیق لغوی و علمی مسئلے کو جان بوجھ کر نہیں چھیڑا گیا‘ اور وہ ہے لفظ ’’اللہ‘‘ کی تحقیق. تاہم مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں چند بنیادی باتیں عام فہم انداز میں بیان کر دی جائیں.

لغوی اعتبار سے لفظ ’’اللہ‘‘ کے بارے میں دو آراء ہیں. ایک یہ کہ یہ اسم جامداور اسم عَلم ہے‘ یعنی نہ اس کا کوئی مادہ ہے‘ نہ یہ کسی اور لفظ سے بنا ہے‘ بلکہ یہ اسمِ ذات ہے اُس ہستی کا جس نے اس سلسلۂ کون و مکان کو تخلیق فرمایا. لہذا اصل ضرورت اس اسم ہی کو حرزِ جاں بنانے اور دل پر کندہ کرنے کی ہے نہ کہ اس کے معنی کے کھوج کرید کی.دوسری رائے یہ ہے کہ یہ بھی باری تعالیٰ کے بقیہ تمام اسماءِ حُسنیٰ کے 
مانند صفاتی نام ہے اورلفظ ’’الٰہ‘‘ پر لام تعریف داخل کر کے بنا ہے اور اس کے معنی ہیں الٰہ حقیقی اور معبودِ برحق!

پھر خود ’’الٰہ‘‘ کے مادے کی تحقیق بھی ایک دقیق اور طوالت طلب معاملہ ہے‘ لیکن تین مفہوموں پر تقریباً اجماع ہے. ایک وہ ہستی جس کی طرف حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے رجوع کیا جائے‘ دوسرے وہ ہستی جس کے بارے میں عقل حیران اور سرگشتہ ہو کر رہ جائے ‘اور تیسرے وہ ہستی جس سے والہانہ محبت ہو. اور اگرذرا غورکیا جائے توصاف نظر آجائے گا کہ عوام الناس کی رسائی اکثر و بیشتر صرف پہلے مفہوم تک ہوتی ہے‘ جبکہ فلاسفہ کا تحیر اور لاادریت دوسرے مفہوم کے مظہر ہیں‘ اور صوفیاء تیسرے اور بلند ترین مفہوم سے سرشار ہوتے ہیں 
واللہ اعلم!!