اس سورۂ مبارکہ کا جزوِ ثانی ایک آیت پر مشتمل ہے. اور جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے ‘یہ ہر اعتبار سے اس سورت کی مرکزی آیت ہے‘ یعنی :

اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۴

یہاں پہلی بات یہ نوٹ فرمائیے کہ اس آیت میں دو فعل استعمال ہوئے ہیں‘ ایک ’’ نَعۡبُدُ ‘‘ اور دوسرا ’’نَسۡتَعِیۡنُ‘‘. یہ دونوں فعل مضارع ہیں.آپ کے علم میں ہوگا کہ اردو کی طرح عربی و فارسی میں فعل کی تین حالتیں ماضی‘ حال اور مستقبل نہیں ہوتیں‘بلکہ صرف دو حالتیں ہوتی ہیں‘ ایک ماضی اور دوسری مضارع ‘اور فعل مضارع میں حال اور مستقبل دونوں زمانے شامل ہوتے ہیں‘ لہذا نَعۡبُدُ کا ترجمہ یہ بھی ہوگا کہ ’’ہم بندگی کرتے ہیں‘‘ اوریہ بھی ہوگا کہ ’’ہم بندگی کرتے رہیں گے‘‘. اسی طرح نَسۡتَعِیۡنُ کا ترجمہ یہ بھی درست ہوگا کہ ’’ہم مدد مانگتے ہیں‘‘ اوریہ بھی صحیح ہوگا کہ ’’ہم مدد مانگیں گے‘‘.

دوسری بات یہ نوٹ کر لیجیے کہ اگر یہاں ’’نَعْبُدُکَ‘‘ کا لفظ ہوتا تو اس کے معنی ہوتے کہ ’’ہم تیری بندگی کرتے ہیں اور کریں گے‘‘. لیکن چونکہ ضمیر مفعولی ’’کَ‘‘ کو فعل سے پہلے لایا گیا اور اس کے لیے ’’اِیَّا ‘‘ کا اضافہ کیا گیا ‘ یعنی ’’اِیَّاکَ‘‘ تو اس میں ایک مزید تاکیدی مفہوم پیدا ہو گیا اور وہ یہ کہ ’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے‘‘. اس کو قواعد کی رو سے حصرکا اسلوب کہا جاتاہے. اس کو اس مثال سے سمجھا جا سکتاہے کہ اگر یہ کہا جائے کہ ’’زید عالم ہے‘‘ تو اس سے ایک خاص مفہوم ذہن میں آئے گا‘ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ ’’ زید ہی عالم ہے‘‘ تو اس ’’ہی‘‘ کے اضافے سے مفہوم میں عظیم فرق واقع ہو جائے گا. اس لیے کہ جب یہ کہا گیا کہ ’’ زید عالم ہے‘‘ تو دوسروں کے عالم ہونے کی نفی نہیں ہوئی. گویا دوسرے بھی عالم ہو سکتے ہیں. لیکن جب یہ کہا گیا کہ’’ زید ہی عالم ہے‘‘ تو اس میں حصر پیدا ہو گیا اور اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ’’علم‘‘ صرف زید ہی کے پاس ہے‘ دوسروں سے ’’علم‘‘ کی نفی ہوگئی. لہذا ’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ‘‘ میں اسی حصر کا مفہوم پیدا ہوتا ہے. اس کا ترجمہ اور حقیقی مفہوم ہوگا : ’’ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے‘‘. اسی طرح ’’ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ‘‘ کا مفہوم ہوگا :’’ہم صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں اور مانگیں گے‘‘.

تیسری بات یہ کہ اس آیت کا مرکزی لفظ ’’عبادت‘‘ ہے جس کا ہم اقرار بھی کر رہے ہیں اور عہد بھی کر رہے ہیں. اس لیے کہ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں‘‘ یہ اقرار ہے یا اظہارِ واقعہ ہے. اور ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے رہیں گے‘‘ یہ ایک وعدہ‘ قول و قرار اور عہد و میثاق ہے.

چوتھی اہم بات یہ ہے کہ عبادت کا حقیقی معنی و مفہوم کیا ہے؟ بدقسمتی سے اس لفظ عبادت کے بارے میں عوام الناس کے ذہنوں میں بڑا محدود تصور پایا جاتا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ عبادت بس نماز‘ روزہ‘ حج اور زکوٰۃ کا نام ہے. چنانچہ جب بھی عبادت کا لفظ سامنے آتا ہے ذہن لا محالہ صرف ان عبادات ہی تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور اس لفظ کی اصل عظمت اور وسعت سامنے نہیں آتی. اس لیے جان لیجیے کہ اس لفظ عبادت کا مادہ 
’’ع ب د‘‘ ہے اور ’’عبد‘‘ غلام کو کہتے ہیں. غلامی کا وہ تصور جو کبھی دنیا میں رائج تھا‘ وہ سامنے ہو تب اس لفظ کی اصل حقیقت سمجھ میں آتی ہے. جو شخص کسی کا عبد یعنی غلام ہوتا تھا وہ اپنے آقا کی ملکیت ہوتا تھا. اس کا کام اپنے مالک کے احکام کو بجا لانا ہوتا تھا. آقاجو حکم دیتا تھا غلام کا فرض تھا کہ وہ بسر و چشم اس کی تعمیل کرے. اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی تھی. اس لیے کہ غلام تو مملوک ہوتا تھا‘ اس کا کام تو اپنے آقا کی مرضی پر چلنا تھا. اس کی پسند اور ناپسند اوّل تو رہنی ہی نہیں چاہیے تھی‘ اور اگر رہتی بھی تو اس کا فرض تھا کہ اسے پس پشت ڈال دے اور اپنے آقا کی پسند و ناپسند اور مرضی و ناراضی کو مقدم رکھے. پس معلوم ہوا کہ لفظ ’’عبد‘‘ میں جو تصور مضمر ہے وہ مکمل اور ہمہ تن ‘ ہمہ وقت اور ہمہ جہت غلامی کا تصور ہے. فارسی میں اس کے لیے بہترین لفظ ’’بندگی‘‘ ہے. چنانچہ عبد کے مفہوم کے لیے بندہ کا لفظ عام طور پر مستعمل ہے. جیسے علامہ اقبال نے فرمایا ؏ 

’’تمیزِ بندہ و آقا فسادِ آدمیت ہے!‘‘

یعنی یہ کہ انسانوںہی میں سے کوئی آقا بن جائے اورکوئی بندہ‘ تو اس سے زیادہ غلط اور خلافِ انسانیت بات اورکوئی نہیں ! اس کے برعکس نبی اکرم نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم سب اللہ کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ‘‘.تم سب اللہ کے بندے ہو‘ اس اعتبار سے برابر ہو‘ بھائی بھائی ہو‘ تم میں سے کوئی آقا اور غلام ہے ہی نہیں. حقیقی آقا اللہ ہے اورتم سب اس کے غلام ہو.
بندگی کے اس ہمہ گیر تصورکو سامنے رکھ کر اس حقیقت کی جانب توجہ کی جائے تو پانچویں اہم بات یہ سامنے آئے گی کہ از روئے قرآن مجید غایت ِ تخلیقِ جن و انس یہی عبادتِ ربّ ہے. چنانچہ سورۃ الذّٰریٰت میں ارشادہوتاہے : 
وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ ﴿۵۶﴾ ’’میں نے جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی اس لیے کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘. یہ ہے ہماری غایتِ تخلیق. قرآن کریم کی اس آیت کی ترجمانی بڑی خوبصورتی سے شیخ سعدی رحمہ اللہ نے اس شعر میں کی ہے جو بہت سی مسجدوں میں لکھا ہوتا ہے کہ ؎

زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی

چھٹی قابل غور بات یہ ہے کہ کوئی شے جس مقصد کے لیے بنائی گئی ہو وہ اگر اس مقصد ہی کو پورا نہ کرے تو ظاہر بات ہے کہ وہ بے کار قرار پائے گی اور ہم اسے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیں گے. لہذا جب انسان کی تخلیق ہوئی ہی بندگی کے لیے ہے تو اگر وہ بندگی کی روش کو اختیار نہ کرے یا اسے تج دے اور ترک کر دے تو معلوم ہوا کہ اس کے وجود کا اب کم از کم انسانی سطح پر کوئی مقصد نہیں رہا‘ اور اس کی زندگی محض حیوانی سطح کی زندگی ہے یا شاید اس سے بھی کم تر!

اس ضمن میں ساتویں اہم بات یہ ہے کہ جب ہم اللہ سے عہدکرتے ہیں کہ ’’ہم تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور کریں گے‘‘ تو یہ ایک بہت بڑا عہد ہے اور اس کے بہت سے تقاضے ہیں‘ جن کو سمجھے اور جانے بغیر عبادت کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا. (یاد رہے کہ یہ باتیں ہمارے سامنے شرک فی العبادت کی بحث کے ضمن میں پہلے بھی آ چکی ہیں.یوں سمجھئے کہ اب ان کا ایک دوسرے سیاق و سباق میں اعادہ ہو رہا ہے)

عبادت کاسب سے پہلا تقاضا اطاعت ہے. اگر یہ نہیں ہے تو عبادت کی اساس ہی منہدم ہو جاتی ہے. پھر بندگی کہاںہوئی؟ مزید برآں اطاعت اگر کُلی نہ ہو ‘ بلکہ جزوی ہو تب بھی عبادت کی نفی ہو جاتی ہے. اس لیے کہ کسی غلام کایہ کام نہیں ہے کہ وہ اپنے آقا کے ایک حکم کو مانے اور ایک کونہ مانے. غلام نے اگر آقا کے ایک حکم سے بھی سرتابی کی تو وہ مقامِ بندگی سے تجاوز کر گیا. لہذا اطاعت لازم ہے تمام احکامِ خداوندی کی‘ ہر آن اور ہر لحظہ! اور زندگی کا کوئی گوشہ بندگی سے خارج یا مستثنیٰ نہیں رہے گا. اسی لیے قرآن مجید میں فرمایا گیا: 
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادۡخُلُوۡا فِی السِّلۡمِ کَآفَّۃً ۪ (البقرۃ: ۲۰۸’’اے اہل ایمان! (اطاعت اور) فرمانبرداری میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ‘‘. گویا جزوی اطاعت مطلوب نہیں ہے کہ اللہ کی کچھ باتوں پر توسرتسلیم خم ہو اور کچھ باتوں سے انحراف کیا جائے. اس پر اللہ کا غضب بہت بھڑکتا ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت ۸۵ میں اس طرزِ عمل پر بڑی سخت وعید آئی ہے. فرمایا:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۸۵
’’کیا تم ہماری کتاب (اور ہماری شریعت) کے بعض حصوں کو مانتے ہو اور کچھ حصوں کو نہیں مانتے؟ تو جو کوئی تم میں سے اس جرم کا ارتکاب کرے گا اس کی سزا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار کر دیا جائے‘ اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا‘اور اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے جو تم کرتے ہو‘‘.

یہ ہے جزوی اطاعت پر اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا عالم! اس لیے کہ جزوی اطاعت حقیقت کے اعتبار سے استہزاء اور تمسخر ہے. یہی وجہ ہے کہ اس آیت کے آخر میں فرمایا: ’’اور اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو‘‘. اس گمان میں نہ رہنا کہ وہ تمہارے کرتوتوں سے واقف نہیں ہے ‘بلکہ وہ تو 
العلیم‘ البصیر‘ اللّطیف اور الخبیر ہے. اس سے تمہارا کوئی عمل پوشیدہ نہیں ہے.
آٹھویں اور اہم ترین بات یہ ہے کہ ایک اطاعت ہوتی ہے زبردستی کی‘ جیسے ہم انگریز کے غلام تھے اور ہم اس کی اطاعت پر مجبور تھے. اس اطاعت پر بھی لغو ی طور پر لفظ عبادت کا اطلاق ہو جائے گا اور قرآن مجید میں ہوا ہے. چنانچہ آلِ فرعون نے 

بنی اسرائیل کو جس طریقے سے اپنی غلامی کے شکنجے میں کسا ہوا تھا‘ اس کے لیے قرآن مجید میں یہی لفظ عبادت آیا ہے. فرعون نے بڑے طنطنے اور غرور کے ساتھ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے بارے میں کہا تھا: 
... وَ قَوۡمُہُمَا لَنَا عٰبِدُوۡنَ ﴿ۚ۴۷﴾ (المؤمنون) ’’…جبکہ ان دونوں کی قوم ہماری عابد ہے‘‘ یعنی ہماری غلام ہے. اسی طرح ایک موقع پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی فرعون سے فرمایا تھا : ...اَنۡ عَبَّدۡتَّ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ ’’…کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا عبد(اپنا غلام‘ اپنا محکوم اور مطیع) بنا لیا ہے‘‘. لہٰذا اس نوع کی غلامی اور محکومی پر بھی لفظاً تو عبادت کا اطلاق ہو جائے گا لیکن اصطلاحاً اللہ کی جو عبادت مطلوب ہے. وہ زبردستی اور مجبوری کی اطاعت نہیں ‘بلکہ دلی آمادگی اور محبت کے ساتھ مطلوب ہے. اللہ کے احسانات و انعامات کا شعور و ادراک کرتے ہوئے کہ اس کے جذبۂ تشکّر سے قلب و ذہن سرشار ہو جائیں‘ ان احساسات و جذبات کے ساتھ جب اللہ کی بندگی ہوگی‘ اس کی کامل اطاعت ہوگی تب عبادت کا اصل تقاضا پوراہوگا‘ جس کو ہمارے ائمۂ دین نے بڑی خوبصورتی سے یوں ادا فرمایا کہ اللہ کی جو عبادت مطلوب ہے‘ اس میں دو بنیادیں جمع ہونی چاہئیں: غَایَۃ الحُبّ مع غایۃ الذُّلّ وَالخُشوع یعنی ایک طرف اللہ کی انتہا درجہ کی محبت ہو اور دوسری طرف انتہا درجے میں اس کے سامنے تذلّل اور عاجزی اختیار کی جائے‘ اس کے سامنے ہمہ تن جھک جایا جائے‘ بچھ جایا جائے. جب یہ دونوں کیفیات محبت اور تذلّل جمع ہو جائیں گی تو عبادت ِ ربّ اور بندگی ٔ ربّ کے تقاضے کی تکمیل ہوگی. محبت ِ الٰہی عبادت کے لیے کس قدر لازمی ہے ‘ مولانا رومؒ نے اسے اپنے زمانے میں بڑی خوبی سے ادا کیا تھا کہ : ؎

شاد باد اے عشقِ خوش سودائے ما
اے طبیبِ جملہ علّت ہائے ما

اور اس دَور میں علامہ اقبال مرحوم نے اس کی اہمیت پر بڑی خوبصورتی سے روشنی ڈالی ہے. وہ کہتے ہیں کہ : ؎

عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات

محبت ِ الٰہی عبادت کی روح ہے. اگر یہ روح نہیں ہے اور صرف خالی خولی اطاعت ہے‘دل کی محبت کی چاشنی اس میں شامل نہیں ہے تو علامہ اقبال کے بقول معاملہ یہ ہوگا کہ : ؎

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا امام!
میرا قیام بھی حجاب ‘ میرا سجود بھی حجاب

لہذا ہمیں اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ محبت درحقیقت عبادت کی روح ہے.

نویں بات یہ ہے کہ عبادت میں اطاعت ِ کُلی و محبت حقیقی کے ساتھ جو تیسری چیز 
مطلوب ہے وہ اخلاص ہے. اس سے قبل سورۂ لقمان کے دوسرے رکوع کے درس کے ضمن میں اقسامِ شرک کی بحث میں بھی یہ بات واضح ہو چکی ہے. آج پھر اس کا اعادہ کر لیجیے. عبادت کی قبولیت کی شرطِ لازم اخلاص ہے‘ یعنی اللہ کی بندگی پورے خلوص و اخلاص کے ساتھ ہونی چاہیے.اس میں کوئی ریاکاری نہ ہو اور اللہ کی رضا کے سوا کوئی اور چیز مطلوب و مقصود کے درجے میں نہ آجائے. مطلوب صرف اللہ کی رضا اور اُخروی فلاح و نجات ہو. اگر یہ اخلاص و للہیت موجود نہیں ہے‘ بلکہ کوئی ریاکاری ہے ‘ یعنی لوگوں پر اپنی عبادت گزاری اور اپنے زہد و تقویٰ کی دھونس جمانی ہے اوراپنی نیکی کا رعب قائم کرنا ہے‘ یا شہرت مطلوب ہے‘ یا دنیا کی کوئی منفعت پیش نظرہے تویہ خلوص سے خالی عبادت اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں ہوگی‘ بلکہ‘ جیسا کہ اس سے قبل واضح ہوچکاہے‘ شرک ِ خفی شمارہوگی. جیسے ’’اقسامِ شرک‘‘ کی بحث میں نبی اکرم کی حدیث بیان ہوچکی ہے کہ ’’جس نے دکھاوے کے لیے نماز پڑھی وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھاوے کے لیے روزہ رکھا وہ شرک کر چکا‘ جس نے دکھاوے کے لیے صدقہ کیا وہ شرک کر چکا‘‘. اس حدیث سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے دین میں خلوص و اخلاص کی کس قدر اہمیت ہے اور ریا کی کتنی مذمت ہے کہ اس کے ڈانڈے شرک سے مل جاتے ہیں.

اب آخری اوردسویں بات پر غور کیجیے کہ پوری زندگی میں پورے خلوص و اخلاص ‘ شدید ترین قلبی محبت اور کامل اطاعت کے ساتھ عبادت کا حق ادا کرنا ‘ واقعہ یہ ہے کہ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے‘ بلکہ بہت مشکل کام ہے. اس میں سب سے پہلے تو انسان کا اپنا نفس ہی آڑے آتا ہے. مولانا روم نے کیا خوب کہا ہے کہ : ؎

نفسِ ما ہم کمتر از فرعون نیست
لیکن اُو را عون ایں را عون نیست

فرعون کے پاس حکومت تھی‘ لاؤ لشکر تھا‘ اس لیے اس نے زبان سے بھی خدائی کا دعویٰ کر دیا تھا. میرا نفس بھی اگرچہ فرعون سے کمتر نہیں ہے ‘البتہ اس کے پاس لاؤ لشکر نہیں ہے‘ اس لیے وہ خدائی کا زبانی دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن اندر سے وہ کہتا یہی ہے کہ میں نہیں جانتا کہ اللہ کا حکم کیا ہے! بلکہ میری مرضی چلے گی.خود غور کیجیے کہ اذان کی آواز کان میں آ گئی ہے‘ گو یااللہ کا حکم ہے کہ نماز کے لیے آؤ. اِدھر نفس کہہ رہا کہ ابھی مزید سوتے رہو‘ مزید آرام کرو‘ یا جس دلچسپی میں مصروف ہو اسے جاری رکھو. اب فیصلہ کُن بات یہ ہوگی کہ ہم نے کس کا حکم مانا! اگر نفس کی خواہش کو کچلتے ہوئے ہم نے اللہ کا حکم مانا اور نماز کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو واقعی ہم بندۂ ربّ ہیں. اگر نفس کی خواہش پر عمل کیا اور اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیا تو ہم بندۂ نفس ہو گئے.یہی بات سورۃ الفرقان میں فرمائی گئی ہے:

اَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ؕ اَفَاَنۡتَ تَکُوۡنُ عَلَیۡہِ وَکِیۡلًا ﴿ۙ۴۳
’’(اے نبیؐ !) کیا آپ نے اُس شخص کی حالت پر غورکیا جس نے اپنی خواہشِ نفس کواپنا معبود بنا لیا؟ تو کیا آپ ایسے شخص کا ذمہ لے سکتے ہیں؟‘‘

اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے یوں ادا کیا : ؎

چو می گویم مسلمانم بلرزم
کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را

یعنی ’’میں جب یہ کہتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں تو مجھ پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے ‘ اس لیے کہ مجھے معلوم ہے کہ لا الٰہ الاّ اللہ کے تقاضوں پر پورا اترنا کتنا مشکل ہے!‘‘

یہ ہے ربط و تعلق کہ جب بندہ کہے : 
’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ‘‘ تو اس پر ایک لرزہ طاری ہو جائے‘ اسے پورا احساس اور کامل شعور ہو کہ وہ کتنا بڑا قول و قرار کر رہا ہے. اس کیفیت میں اسے پناہ گاہ نظر آئے گی ’’ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ‘‘ کے الفاظِ مبارکہ میں کہ اے اللہ! میں یہ وعدہ اور عہد تو کر رہا ہوں اور میں نے ارادہ اور عزم بھی کر لیا ہے کہ پوری زندگی تیری عبادت میں بسر کروں گا‘ لیکن میں محض اپنی قوت اور طاقت کے بل پر اس ذمہ داری سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتا اور اس عہد پر پورا نہیں اتر سکتا جب تک کہ تیری مدد شاملِ حال نہ ہو. میں اس عہد کے پورا کرنے میں تیری اعانت اور تائید و توفیق کامحتاج ہوں. تیری اعانت اور مدد شامل ہوئی تب ہی میں اس قول و قرار اور عہد و پیمان کو پورا کر سکوں گا. یہ تو ہے اصل ربط و تعلق ’’اِیَّاکَ نَعۡبُدُ‘‘ کے ساتھ ’’وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ‘‘ کا .اضافی طور پر اس میں اخلاص فی الدّعاء کا مضمون بھی آ گیا‘ اس لیے کہ یہاں بھی حصر کا اسلوب ہے. گویا ہر نوع کی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے اللہ ہی سے مدد کی درخواست کی جائے‘ اسی سے اعانت طلب کی جائے‘ اسی کے جناب میں استغاثہ پیش کیا جائے. یہ توحید فی الدّعا ء ہے‘ جس کا ذکر اس سے قبل اقسامِ شرک کی بحث کے ضمن میں ہو چکا ہے.

اسی آخری بات کے ضمیمے کے طور پر یہ بات بھی نوٹ فرما لیجیے کہ ہر فرض نمازکے بعد جو اذکار نبی اکرم  کے معمول میں شامل تھے‘ ان میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی آپ کی یہ دعا بھی منقول ہے : 
رَبِّ اَعِنِّیْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ (۱’’اے پروردگار! میری مدد فرماتا کہ میں تجھے یاد رکھ سکوں‘ تیرا شکر ادا کر سکوں اور تیری عبادت کا باحسن وجوہ حق ادا کرسکوں‘‘.