نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُولِہِ الْکَرِیْمِ 
امّا بعد. فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمoبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمo 
اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ 
وقال تبارک و تعالیٰ:

فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ 
صدق اللّٰہ العظیم
رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْo وَیَسِّرْلِیْ اَمْرِیْo وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْo یَفْقَھُوْا قَوْلِیْo 
اَللّٰھُمَّ اَلْھِمْنِیْ رُشْدِیْ وَاَعِذْنِیْ مِنْ شُرُوْرِ نَفْسِیْ 
اَللّٰھُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہ وَاَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلاً وَارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ آمین یا ربَّ العَالَمِین! 

حضرات! میری آج کی یہ گفتگو دو حصوں پر مشتمل ہوگی.پہلے حصے میں مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ تعلیم و تعلّم قرآن یعنی قرآن حکیم کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے کی کیا اہمیت ہے ‘اور دوسرے حصے میں مجھے اپنے موجودہ حالات کے حوالے سے رُجوع الی القرآن یعنی قرآن حکیم کی طرف از سر نو راغب ہونے کی اہمیت کو بیان کرنا ہے. 

قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری

پہلے مضمون کے ضمن میں میں نے اس وقت سورۃ الرحمن اور سورۂ عبس کی چار چار آیات کی تلاوت کی ہے. ان کے حوالے سے میں چاہوں گا کہ قرآن مجید کی جو عظمت ہمارے سامنے آتی ہے اس پر ہم غور کریں .اسی ضمن میں میں نبی اکرم کی چند 
احادیث بھی آپ کو سنانا چاہتا ہوں تاکہ عظمت قرآن کا بیان جہاں ہم خود کلامِ الٰہی سے سمجھیں وہاں نبی اکرم کی زبانِ مبارک سے بھی یہ بات ہمارے سامنے آئے کہ اس کلام کی کیا عظمت ہے. فارسی کا ایک مصرعہ ہے ؏ ’’قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘ یعنی موتی اور ہیرے کی قدر و قیمت کو جاننے والا یا تو بادشاہ ہوتا ہے اور یا جوہری! ایک عام دیہاتی کے ہاتھ پر اگر آپ ایک ہیرا یا قیمتی موتی رکھ دیں تو ہوسکتا ہے کہ وہ اسے کانچ کا ایک ٹکڑا سمجھے. تو اسی طرح قرآن مجید کی عظمت سے اصلاً تو وہ ہستی واقف ہے جس کا یہ کلام ہے اور پھر دوسرے نمبر پر اس کی عظمت سے صحیح معنوں میں واقف وہ ہستی ہے کہ جس پر یہ قرآن نازل ہوا ‘یعنی محمد ٌرسول اللہ  ! 

سورۃ الرحمن کی ابتدائی چار آیات بڑی مختصر ہیں. پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے: اَلرَّحۡمٰنُ ۙ﴿۱﴾ اس کے بعد کی تین آیات دو دو الفاظ پر مشتمل ہیں: عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ ؕ﴿۲﴾خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ ﴿۴﴾ لیکن اگر ہم ان الفاظ پر تدبر کریں‘ غور و فکر کریں‘سوچ بچار سے کام لیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ان مختصر ترین الفاظ میں جو مضامین پنہاں ہیں ان مضامین کا بیان کرنا کسی ایک تقریر میں ممکن ہی نہیں. ہر اعتبار سے ایک چوٹی کا مضمون ہے جو ہر آیت میں آیا ہے.