اب تیسری آیت پر آئیے. فرمایا:
خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ﴿۳﴾
’’انسان کی تخلیق فرمائی.‘‘
یہاں پھر وہی بات سامنے آتی ہے. اللہ تعالیٰ نے صرف انسان کی تخلیق نہیں فرمائی‘جنوں کو بھی اُ سی نے تخلیق فرمایا‘ملائکہ کی تخلیق بھی اُسی نے فرمائی‘یہ شجر و حجر جو ہیں‘یہ بھی اسی کے تخلیق کردہ ہیں‘یہ چاند اور سورج بھی تو اُسی نے پیدا کیے ہیں‘ لیکن یہاں امتیازی طور پر انسان کا ذکر ہو رہا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا نقطۂ عروج (climax) ہے. آج ہمارے سائنسی اور مادّی علوم کا نتیجہ اور ماحصل بھی یہی ہے کہ مخلوقات میں سب سے پہلے جمادات تھے‘ جمادات کے بعد نباتات اور نباتات کے بعد حیوانات آئے. پھر جمادات کے مقابلہ میں نباتات ایک اعلیٰ خلقت کی حامل ہیں. نباتات کے اوپر حیوانات کا سلسلہ ہے‘اور وہ ایک مزید اعلیٰ درجہ کی تخلیق ہے. حیوانات میں اگر ارتقاء (evolution) کے نظریے کو تسلیم کیا جائے تو انسان کا مقامِ شجر ارتقاء (evolution tree) کی چوٹی پر ہے. گویا یہ سلسلہ ٔتخلیق کا نقطہ ٔعروج ہے .اور قرآن سے بھی اس کی گواہی ملتی ہے. سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا:
وَ لَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ وَ حَمَلۡنٰہُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ وَ رَزَقۡنٰہُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلۡنٰہُمۡ عَلٰی کَثِیۡرٍ مِّمَّنۡ خَلَقۡنَا تَفۡضِیۡلًا ﴿٪۷۰﴾
’’اور ہم نے بنی آدم کو عزت و اکرام عطا فرمایا ‘اور ان کو بحر و بر میں سواریاں دیں‘اور پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا فرمایا‘اور جتنی مخلوقات ہم نے پیدا کیں‘ان میں سے اکثر پر انہیں فضیلت عطا فرمائی.‘‘
سورۃ صٓ میں فرمایا:
لِمَا خَلَقۡتُ بِیَدَیَّ ؕ (آیت۷۵)
’’جسے میں نے اپنے دونوںہاتھوں سے بنایا.‘‘
تورات میں بھی اس طرح کے الفاظ آتے ہیں کہ اللہ نے انسان کو اپنی صورت پر بنایا. یہ الفاظ اگرچہ قرآن میں نہیں ہیں‘لیکن حدیث صحیح میں موجود ہیں:
خَلَقَ اللّٰہُ آدَمَ عَلٰی صُوْرَتِہٖ (۱)
’’اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر تخلیق فرمایا.‘‘
اس کے لیے اب مزید دلائل کی ضرورت نہیں. سورۃ الرحمن کی پہلی تین آیات سے ہم نے تین باتیں سمجھی ہیں: (i)صفاتِ باری تعالیٰ میں سے چوٹی کی صفت رحمن. (ii)اللہ نے انسان کو جو علم عطا فرمایا‘اس میں چوٹی کا علم قرآن. (iii)جو کچھ اس نے پیدا فرمایا اس میں چوٹی کی تخلیق انسان.