اس حوالے سے میں خاص طور پر نوجوانوں کے لیے عرض کروں گا کہ ان کے دلوں میں قرآن کو سیکھنے سکھانے کی آرزو اور امنگ پیدا ہونی چاہیے. جوانی کا دَورآرزوؤں اور امنگوں کا دور ہوتا ہے‘ لیکن عام طور پر ہم جن آرزوؤں کے پیچھے دوڑتے ہیں ان کا تعلق (۱) سنن الترمذی‘ کتاب المناقب‘ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ.
اسی دُنیوی زندگی سے ہوتا ہے. عمدہ کیریئر‘اچھا مکان اور دنیوی آسائشوں کے حصول کی آرزوئیں تو ہر ایک کے دل میں پیدا ہوتی ہیں لیکن آپ کے دل میں وہ آرزو پیدا ہونی چاہیے جس کے بارے میں علامہ اقبال فرماتے ہیں ؎
آرزو اوّل تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
اور ہوجائے تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام!
وہ کون سی آرزو ہے؟ وہ ان چیزوں کی آرزو ہے کہ جن سے اس مادہ پرستی کے دورمیں ہماری نگاہیں بالکل ہٹ گئی ہیں. کاش کہ یہ آرزو پیدا ہوجائے کہ ہم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چل سکیں. کاش نوجوانوں کے دلوں میں وہ آرزو پیدا ہو کہ اللہ ہمیں جناب ارقم رضی اللہ عنہ یا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے دے. یہ دو نام میں نے آپ کو اس لیے سنائے ہیں کہ یہ دونوں نبی اکرمﷺ سے قرآن سیکھتے تھے اور پھر جاکر دوسروں کو سکھاتے تھے. آپ کو معلوم ہے کہ مکہ میں حالات بڑے دگرگوں اور نامساعد تھے. کفر و شرک کاغلبہ تھا. کوئی مسجد تو ایسی نہ تھی جہاں حضورﷺ تشریف فرما ہوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تعلیم دیں. ایسا تو ممکن ہی نہ تھا. ایک حضرت ارقم رضی اللہ عنہ کا گھر تھا جس میں حضور ﷺ صحابہ کرامؓ کو تعلیم دیتے ‘اور ظاہر بات ہے کہ سب لوگ وہاں جمع نہیں ہوسکتے تھے. لوگوں کی اپنی مصروفیات بھی ہوتیں. پھر یہ کہ اگر محسوس ہوجاتا کہ یہاں مرکز بن گیا ہے تو مخالفت شدید ہو جاتی . ان حالات میں تعلیم کا طریق کار یہ تھا کہ کچھ لوگوں نے اپنے آپ کو اس کام کے لیے وقف کردیا تھا کہ وہ حضورﷺ کی صحبت میں رہتے تھے. جیسے ہی وحی نازل ہوتی‘وہ اسے سیکھ لیتے اور پھر اہل ِ ایمان کے گھروں پر جاکر اس وحی کو پہنچاتے تھے. اس طریقے سے قرآن کے علم کی تبلیغ جاری تھی.
انہی نوجوانوں میں سے ایک صحابی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ تھے. یہ وہ صحابی ہیں کہ جن کو دہکتے ہوئے انگاروں پر ننگی پیٹہ لٹایا گیا اور ان کی کمر کی چربی پگھلنے سے وہ انگارے ٹھنڈے ہوئے. ایمان لانے کے بعد انہیں ایسی ایسی سختیاں جھیلنی پڑیں‘ لیکن وہ اس سب کے باوجود اس کام میں ثابت قدمی سے لگے رہے کہ اللہ کا جو کلام محمدرسول اللہ ﷺ پر نازل ہوتا‘وہ آپؐ سے سیکھتے اور لوگوں تک پہنچاتے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کا جو واقعہ آتا ہے اس میں بھی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کا کردار بہت اہم ہے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ گھر سے حضور ﷺ کو قتل کرنے کے ارادے سے ننگی تلوار لے کر بڑی جلالی کیفیت میں نکلے تھے. راستے میں انہیں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مل گئے جو اگرچہ ایمان لاچکے تھے‘لیکن انہوں نے اپنا ایمان ابھی چھپایا ہوا تھا. انہوں نے پوچھا: کہاں جارہے ہو؟ کہا: میں آج محمدؐ کو قتل کرکے چھوڑوں گا‘اب یہ قصہ چکا دینا ہے (نعوذُ باللّٰہِ مِنْ ذٰلک). حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بڑی حکمت سے رُخ موڑ دیا کہ تم محمد(ﷺ ) کو قتل کرنے جارہے ہو‘پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو‘تمہاری ہمشیرہ اور تمہارے بہنوئی دونوں ایمان لاچکے ہیں! اب آپ تصور نہیں کرسکتے کہ اُس وقت عمرؓ کے غیظ و غضب کا کیا عالم ہوگا. وہ غصے میں آگ بگولہ اپنی ہمشیرہ حضرت فاطمہ بنت خطاب رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے تو وہاں حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ‘ آپ کی ہمشیرہ اور آپ کے بہنوئی حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہما کو سورۂ طٰہٰ کی آیات سکھا رہے تھے. کاش ہمارے دل میں بھی یہی جذبہ پیدا ہو جائے.
دوسرا نام میں نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا لیا ہے. ان کا ذکر شاید ہمارے دلوں کے اندر کوئی آرزو پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے. یہ بڑے لاڈ اور پیار سے پلے تھے. ان کے لیے دو دو سو درہم کا جوڑا شام سے تیار ہو کر آتا تھا. آپ نے سنا ہوگا کہ جوانی کے عالم میں پنڈت جواہر لال نہرو کے کپڑے پیرس سے سل کر آیا کرتے تھے. ہندوستان میں پہلی کار جو غیر سرکاری طور پر آئی تھی وہ ان کے والد پنڈت موتی لال نہرو کی تھی. اپنی پوتی اندرا گاندھی کی پیدائش پر پنڈت موتی لال نہرو نے پورے الٰہ آباد کے لوگوں کی دعوت کی تھی. تو جس طرح یہ بات مشہور تھی کہ جواہر لال نہرو کے کپڑے پیرس سے سل کر آتے ہیں اور پیرس سے دُھل کر آتے ہیں‘اس طرح کا معاملہ تھا حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا. ان کے جوڑے شام سے تیار ہو کر آتے تھے اور لباس اس قدر معطر ہوتا تھا کہ جس راستے سے مصعبؓ گزر جاتے‘پورا راستہ معطر ہو جاتا. لیکن وہ جب نبی اکرم ﷺپرایمان لے آئے تو ان کے گھروالوں نے ان کے بدن سے سارے کپڑے تک اُتروا لیے اور انہیں بالکل برہنہ کرکے گھر سے نکال دیا کہ اگر تم نے باپ دادا کا دین چھوڑ دیا ہے تو باپ کی کمائی میں سے جو کپڑے ہیں‘ان پر بھی تمہارا حق نہیں ہے. اس کے بعد دو دو سو درہم کا جوڑا پہننے والے اس نوجوان پر وہ وقت بھی آیا کہ پھٹا ہوا ایک کمبل جسم پر ہے اور اس میں پیوند لگے ہوئے ہیں. ایمان لانے کے بعد انہوں نے اپنے آپ کو تعلیم و تعلّم قرآن کے لیے وقف کردیا.
انسان کا رُخ جب بدلتا ہے تو اس کی آرزوئیں اور امنگیں بھی بدل جاتی ہیں. پہلے وہ اُس معاملہ میں آگے تھے ‘اب اِس معاملہ میں آگے ہیں. اسی کام میں اپنی صلاحیتیں لگا رہے ہیں. بیعت ِ عقبہ اولیٰ کے موقع پر ایمان لانے والے مدینہ کے بارہ افراد نے آنحضورﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمیں اپنے کوئی ایسے ساتھی دے دیجیے جو ہمیں قرآن پڑھائیں. اُس وقت نبی اکرم ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو مامور کیا کہ تم مدینہ جاکر وہاں کے لوگوں کو قرآن پڑھاؤ. حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ نے وہاں سال بھر قرآن کی تعلیم و تدریس کا کام کیا اور اس عظیم کام کی مناسبت سے وہاں آپ کا نام ہی ’’مقری‘‘(پڑھانے والا) پڑگیا. لوگ آپ کو دیکھتے تو پکار اُٹھتے: ’’جَائَ الْمُقْرِی‘‘ (وہ پڑھانے والے آگئے). حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی سال بھر کی محنت و کوشش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگلے سال مدینہ سے ۷۵ اشخاص آئے اور انہوں نے محمد ﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی. یہ گویا مصعب ؓ کی ایک سال کی کمائی تھی.
حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا ہے تو میں ان کے بارے میں کچھ مزید عرض کردوں. رسول اللہ ﷺ جب مکہ سے ہجرت فرماکر مدینہ تشریف لے آئے تو ایک روز آپؐ مسجد نبوی میں تشریف فرماتھے کہ حضرت مصعب رضی اللہ عنہ دروازے کے سامنے سے گزرے. اس وقت ان کے جسم پر ایک پھٹا ہوا کمبل تھا جس میں پیوند لگے ہوئے تھے. انہیں دیکھ کر نبی اکرمﷺ کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہ یہ مصعب ؓ اللہ کے دین کے لیے کہاں سے کہاں پہنچا! غزؤہ احد میں جب یہ شہید ہوئے تو اس وقت ان کے جسم پر بس ایک چادر تھی اور آپ کو معلوم ہے کہ شہیدکا کفن وہی لباس ہوتا ہے جس میں اسے شہادت ملے. اب تدفین کے وقت یہ مسئلہ پیدا ہوگیا کہ مصعبؓ کے جسم پر جو چادر تھی‘وہ اتنی چھوٹی تھی کہ اگراس سے اُن کا سر ڈھانپتے تھے تو پاؤں کھل جاتے اور پاؤں ڈھانپتے تھے تو سر کھل جاتا. یہ مسئلہ حضورﷺ کے سامنے رکھا گیا تو آپؐ نے فرمایا کہ ان کا سر چادر سےڈھانپ دو اور ان کے پاؤں پر گھاس ڈال دو. یہ ہے آخری لباس جو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو میسر آیا . مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی شکل و صورت میں حضور ﷺ سے بڑی مشابہت تھی. یہی وجہ ہے کہ غزوۂ اُحد میں جب آپؓ نے جامِ شہادت نوش کیا تو مشہور ہوگیا کہ حضورﷺ شہید ہوگئے . غزؤہ اُحد میں یہ اسلامی فوج کے علم بردار تھے.
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس طرح کے واقعات قلب پر گہرا تاثر چھوڑتے ہیں. جو بھی مسلمان ہے اگر اس کے سامنے حضرت خباب رضی اللہ عنہ یا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی تصویر سامنے آئے تو کیسے ممکن ہے کہ دل پر اثر نہ ہو! لیکن جو بات سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ یہاں ان صاحب ِ عزیمت ہستیوں کا ذکر کس حوالے سے ہورہا ہے! کاش! اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی یہ آرزو پیدا فرمادے کہ جس طرح انہوں نے اپنے آپ کو اس کے لیے وقف کردیا کہ وہ کلامِ الٰہی جو محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوا اس کو عام کریں‘اس کو پھیلائیں‘ اسے دوسروں تک پہنچائیں‘اسی طرح اسی کے لیے زندگیاں وقف کرنے کی کوئی اُمنگ‘کوئی آرزو ہمارے دلوں میں بھی پیدا ہو جائے.