سورۃ عبس کی چار آیات‘جن کی آغاز میں تلاوت کی گئی‘وہ بھی اسی مضمون کی شرح پر مشتمل ہیں. ارشاد ہوتا ہے: 
فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ 

ذرا غور کیجیے کہ ان الفاظ میں کس قدر شکوہ ہے. کاش کہ قرآن کریم سے ہماری یہ مناسبت بھی پیدا ہو جائے. واقعہ یہ ہے کہ قرآن کا جو صوتی آہنگ ہے اور اس میں جو ایک ملکوتی غنا اور موسیقی مضمر ہے‘اس کی کوئی دوسری نظیر ممکن نہیں. ایک موسیقی وہ ہے جس کے ہم عادی ہو گئے ہیں اور ایک یہ ملکوتی موسیقی ہے جو اس قرآن مجید کے صوتی آہنگ میں ہے. آپ کو بہت سے ایسے لوگ ملے ہوں گے جنہیں موسیقی سے ہی کوئی مناسبت نہیں ہوتی. کوئی اچھے سے اچھا راگ بھی ہو تو انہیں پتا نہیں چلتا کہ کیا ہورہا ہے. اسی طرح ہمارا حال یہ ہے کہ ہم قرآن حکیم کی ملکوتی موسیقی سے بے بہرہ ہیں. اس کائنات میں بہترین موسیقی یہ اللہ کا کلام ہے‘ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے لیے اس میں کوئی کشش اور دلچسپی نہیں. اس پہلو سے قرآن کے ساتھ ہماری ذہنی و قلبی مناسبت پیدا ہونی چاہیے. رسول اللہ  نے بڑی تاکید کے ساتھ فرمایا ہے کہ : 

زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ (۱
’’اس قرآن کو اپنی آوازوں سے مزین کیا کرو!‘‘

نبی اکرم کے صحابہؓ میں سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت اچھی آواز عطا کی تھی اور ان کی قراء ت کو خود نبی اکرم بڑے شوق سے سنتے تھے. ایک مرتبہ حضور  رات کے وقت ان کے گھر کے پاس گزرے‘اس وقت حضرت ابوموسیٰؓ اپنی خاص کیفیت کے ساتھ قرآن پڑھ رہے تھے. حضور بڑی دیر تک وہاں کھڑے ہو کر قرآن سنتے رہے اور فجر میں ان سے فرمایا: یَا اَبَا مُوْسٰی! لَقَدْ اُوتِیْتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاوٗدَ (۲’’ اے ابوموسیٰ! تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے آلِ داؤد کے سازوں میں سے ایک ساز عطا کیا ہے!‘‘ حضرت داؤد علیہ السلام جب صبح کے وقت زبور کے حمد کے ترانے پڑھاکرتے تھے تو قرآن میں گواہی موجود ہے کہ پرندے بھی ان کے ساتھ شریک ہوجاتے اور پہاڑ بھی وجد میں آجاتے تھے. قرآن حکیم کے الفاظ میں جو پرشکوہ صوتی آہنگ اور ملکوتی غنا ہے وہ ان چار آیات میں نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے. 

قرآن مجید کی عظمت خود قرآن میں جا بجا بیان ہوئی ہے‘لیکن آج کی اس نشست میں ہم نے اس کے لیے سورۃ رحمن اور سورۃ عبس کی چار چار آیات کا انتخاب کیا ہے. سورۃ عبس کی ان آیات میں قرآن مجید کے بارے میں فرمایا گیا: 

فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ﴿ۙ۱۳﴾ 
’’یہ کتاب بڑے باعزت صحیفوں میں ہے.‘‘ 

یہ لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہے. یہاں دنیا میں تو اس کا ایک عکس ہے جو آپ دیکھ رہے 

(۱) سنن النسائی‘ کتاب الافتتاح‘ باب تزیین القرآن بالصوت. وسنن ابی داوٗد‘ کتاب الصلاۃ‘ باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ. وسنن ابن ماجہ‘ کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنۃ فیھا‘ باب فی حسن الصوت بالقرآن. عن البراء بن عازبؓ . 

(۲) صحیح البخاری‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب حسن الصوت بالقراء ۃ للقرآن. وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن . 
ہیں. اصل کتاب تو لکھی ہوئی ہے لوحِ محفوظ میں‘ بالفاظِ قرآنی: 
بَلۡ ہُوَ قُرۡاٰنٌ مَّجِیۡدٌ ﴿ۙ۲۱﴾فِیۡ لَوۡحٍ مَّحۡفُوۡظٍ ﴿٪۲۲﴾ (البروج) 

ایک دوسری جگہ فرمایا: 
فِیۡ کِتٰبٍ مَّکۡنُوۡنٍ ﴿ۙ۷۸﴾لَّا یَمَسُّہٗۤ اِلَّا الۡمُطَہَّرُوۡنَ ﴿ؕ۷۹﴾ (الواقعہ) 
کہ یہ کتاب تو ’’ مکنون‘‘ ہے ‘جیسے کسی بہت ہی قیمتی ہیرے کو ڈبیہ میں بند کرکے ڈبیہ کو کسی بکس میں رکھا جاتا ہے. ساتھ ہی فرمایا کہ اسے صرف وہی چھوتے ہیں جو انتہائی پاک و طیب ہیں‘یعنی فرشتے. اس وقت ان سب آیات کی تشریح ممکن نہیں ہے. میں صرف سورۃ عبس کی آیات کا ترجمہ کررہا ہوں. ان باعزت صحیفوں کے بارے میں فرمایا:

مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ ﴿ۙ۱۴﴾ 
’’بہت ہی رفیع الشان اور بہت ہی پاک کیے ہوئے (صحیفے ہیں).‘‘
اور کن کے ہاتھوں میں ہیں؟ 

بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃٍ ﴿ۙ۱۵﴾کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾ 
’’ان لکھنے والوں کے ہاتھوں میں‘جو بڑے بلند مرتبہ اور نیکو کار ہیں.‘‘

اب ان آیات سے متعلق ایک حدیث سن لیجیے. سورۃ الرحمن کی چار آیات کا خلاصہ بھی میں نے آپ کو حدیث شریف سے سنایا ہے اور ان چار آیات کا خلاصہ بھی حدیث میں ہے. اُمّ المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اس کی راویہ ہیں. فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: 

اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ (۱

حضور فرماتے ہیں کہ جو شخص قرآن کا ماہر ہوجائے‘اس کو صحیح طور پر پڑھتا ہو‘اس کو سمجھتا ہو‘اس کا رتبہ بھی ان فرشتوں کا سا ہے جن کے لیے سورۃ عبس میں ’’سَفَرَۃٍ کِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ ﴿ؕ۱۶﴾‘‘ کے الفاظ آئے ہیں. یعنی لوحِ محفوظ میں قرآن کو لکھنے والے بلند مرتبہ نیکو کار فرشتوں کا جو مقام و مرتبہ ہے‘وہی رتبہ ہے ان لوگوں کا جو قرآن کے پڑھنے پڑھانے والے ہیں‘سمجھنے سمجھانے والے ہیں‘قرآن کی مہارت رکھتے ہیں‘پڑھتے ہیں تو صحیح پڑھتےہیں‘اس کے (۱) صحیح البخاری‘ کتاب تفسیر القرآن‘ باب عبس وتولی … وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فضل الماھر فی القرآن والذی یتتعتع بہ. واللفظ للمسلم. 

مفہوم کو سمجھتے ہیں‘اور اسی کے تعلیم و تعلّم میں شب و روز لگے ہوئے ہیں.