اب میں اپنے موضوع کے دوسرے حصے کی طرف آتا ہوں جس کاتعلق ہمارے موجودہ حالات سے ہے. اس ضمن میں ایک حدیث‘جس کے الفاظ اگرچہ بہت مختصر ہیں‘لیکن یہ ایک بڑی عظیم حقیقت کو بیان کررہی ہے‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے. یہ حدیث صحیح مسلم میں وارد ہوئی ہے. رسول اللہ نے فرمایا: 

اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعْ بِہٖ آخَرِیْنَ (۱

یعنی اللہ تعالیٰ اسی کتاب کی بدولت قوموں کو اُٹھائے گا‘ترقی دے گا‘عروج بخشے گا‘انہیں اس دنیا میں بلندی سے سرفراز فرمائے گا‘اور اسی کتاب کو چھوڑنے کے باعث قوموں کو ذلیل و خوار کرے گا. یہ حدیث بڑی اہم ہے. میں نے جب اس حدیث پر غور کیا تو یہ بات سامنے آئی کہ اس حقیقت کا تعلق بالخصوص مسلمانوں سے ہے. محمدرسول اللہ  کے اس فرمان کے بموجب مسلمانوں کے لیے اللہ تعالیٰ کا مستقل ضابطہ یہ ہے کہ ان میں سے جو قوم بھی قرآن کو لے کر اُٹھے گی اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں عروج و سربلندی اور غلبہ عطا فرمائے گا ‘اور مسلمانوں میں سے جو قوم قرآن کو ترک کر دے گی‘قرآن کو چھوڑ دے گی‘قرآن کی طرف پیٹھ کر لے گی‘اس کو اللہ تعالیٰ ذلیل و رسوا کردے گا. ہمارے موجودہ حالات میں یہ بات ہمارے لیے بڑی قابل توجہ ہے. واقعہ یہ ہے کہ رواں صدی یعنی بیسویں صدی عیسوی ‘ یہ دنیا میں ہماری ذلت و رسوائی کی آخری حد ہے. ویسے تو چند سال قبل مجھے یہ گمان ہوا تھا کہ شاید ہماری ذلت و رسوائی کا دور اب ختم ہو رہا ہے اور شاید اب ہم دنیا میں عروج کی طرف گامزن ہو رہے ہیں . وہ جو مولانا حالی نے کہا تھا ؎ 

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے 
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے 
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد 
دریا کا ہمارے جو اُترنا دیکھے! 

تو یہ قانونِ فطرت ہے کہ جزر کے بعد مدآتا ہے اور مد کے بعد جزر. تو ایک خیال یہ آیا تھا کہ شاید ہمارے زوال کا دور اب ختم ہوگیا ہے اور ہمارے عروج کا دور شروع ہورہا ہے . (۱) صحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب فضل من یقوم بالقرآن ویعلمہ… وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب فضل من تعلم القرآن وعلمہ. ومسند احمد‘ح:٢٢٦ ــ . یہ دن وہ تھے جب ہمارے یہاں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی تھی. ملت اسلامیہ میں بہت جوش اور ولولہ نظر آرہاتھا. اس زمانے میں شاہ فیصل موجود تھے‘جو مسلمانوں کی امیدوں کامرکز بن گئے تھے. عرب حکمرانوں کے اندر بھی اتحاد نظر آرہا تھا اور عربوں نے علامہ اقبال کے الفاظ میں ؏ ’’لڑا دے ممولے کو شہباز سے!‘‘ کے مصداق تیل کا ہتھیار استعمال کرکے امریکہ جیسی طاقت کو ہلا کر رکھ دیا تھا. پھر یہ کہ ترکوں اور عربوں کے درمیان جو دشمنی تھی‘وہ بھی کچھ کم ہورہی تھی. 

چنانچہ بہت سے اعتبارات سے محسوس ہوتا تھا کہ اب شاید اُمت مسلمہ کے دن پھرنے والے ہیں‘ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا. غالباً ابھی ہمارے اوپر اللہ کے عذاب کے مزید کوڑے برسنے والے ہیں. اب تک ہماری پیٹھ پر عذابِ الٰہی کے کئی کوڑے برس چکے ہیں‘ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے ان سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا. ۱۹۱۹ء کا بالشویک انقلاب کوئی معمولی المیہ نہ تھا‘جس کے نتیجہ میں روسی ترکستان کا وسیع و عریض علاقہ‘ تاجکستان‘ ازبکستان اور سمر قند و بخارا جیسے ہماری تہذیب و تمدن کے ایسے بڑے گہوارے سرخ امپریلزم کے شکنجے میں آ گئے اور وہاں کے مسلمانوں کی اس طرح برین واشنگ کی گئی کہ انہیں اپنا مسلمان ہونا بھی یاد نہیں رہا. 
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے کبھی اپنے عروج و زوال کے ادوار کی طرف نظر تک نہیں کی. ہم تو اپنے ماضی سے بالکل منقطع ہو کر رہ گئے ہیں. انگریز کے مسلط کردہ نظامِ تعلیم نے ہمیں اپنے ماضی سے بالکل کاٹ کررکھ دیا ہے. عربی اور فارسی سے تعلق منقطع ہوا تو اپنے ماضی سے تعلق منقطع ہوگیا ہے. کس کو یہ معلوم ہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب بنو امیہ کی فوجیں پورے سپین کو اپنے قدموں تلے روندتی ہوئی عین فرانس کے قلب میں پہنچ گئی تھیں ‘اور ایک وقت وہ بھی آیا تھاکہ ترک افواج پورا مشرقی یورپ فتح کرنے کے بعد اٹلی کے دروازوں پر پہنچی ہوئی تھیں ؎ 

کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تونے!
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا! 

لیکن آج ہم ذلت و رسوائی کی چکی میں پس رہے ہیں. ہر طرف سے ہمیں خطرات و خدشات نے گھیرا ہوا ہے. سب سے بڑا خطرہ ہمیں اپنے ہندو ہمسائے سے ہے جو قیام ِ پاکستان کے وقت سے ہماری دشمنی پر کمر بستہ ہے. سقوطِ ڈھاکہ پر اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ چکا دیا ہے‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس سے بھی ان کے سینے میں انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی. ان کے سینے کا اصل ناسور تو سندھ ہے‘جسے ’’بابُ الاسلام‘‘ بننے کا شرف حاصل ہوا. یہیں پر ہندو کو مسلمان کے ہاتھوں سب سے پہلی شکست اُٹھانا پڑی. راجہ داہر یہاں پر بہت بڑے علاقے پر حکمران تھا جسے انتہائی ذلت آمیز شکست ہوئی تھی اور سندھ صرف دارالاسلام ہی نہیں‘اس پورے برعظیم کے لیے باب الاسلام بنا تھا. بے چارے مشرقی پاکستان میں تو بہت دیر بعد کہیں اسلام پہنچا تھا. چنانچہ سندھ سے بدلہ لینے کی امنگیں تو ان کے دل میں اب بھی موجزن ہیں. سقوطِ مشرقی پاکستان کے سانحے پر اندرا گاندھی نے اپنی قوم کو چند ماہ کے اندر ایک اور خوشخبری سنانے کا اعلان بھی کیا تھا اور آپ کو یاد ہوگا کہ اسی زمانے میں یہاں سندھ میں لسانی فسادات کی آگ بھڑک اُٹھی تھی. ان کی طرف سے تو نقشہ تیار تھا‘ یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بچا لیا. 

اس وقت پورے عالم ِ اسلام کے جو حالات ہیں‘ان سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ذلت و رسوائی کے یہ سائے ابھی اور گہرے ہوتے جائیں گے. اللہ تعالیٰ کے عذاب کے کوڑے جو ہماری پیٹہ پر برسے ہیں‘وہ ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار نہیں کرسکے. جو کچھ مشرقی پاکستان میں ہوا‘جیسی کچھ عربوں کو یہودیوں کے ہاتھوں شکست و ہزیمت ہوئی اور مسجد اقصیٰ ہمارے ہاتھ سے نکلی اس کا تو آج ہمارے بہت سے لوگوں کے ذہن میں خیال بھی نہیں رہا ہوگا. جب شروع شروع میں یہ واقعہ ہوا تھا تو بڑی بے چینی تھی‘ بڑے جلسے جلوس تھے‘ قراردادیں پاس کی جاتی تھیں‘عالمی رائے عامہ بیدار کرنے کی کوششیں ہوتی تھیں‘لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ ہم قبلہ ٔاوّل پر یہودیوں کا قبضہ ذہنی طور پر تسلیم کرچکے ہیں. مستقبل کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ اب کیا صورت ہے جو سامنے آنے والی ہے. اگر حالات پر غور کیا جائے تو بڑا ہی تاریک اور بہت ہی مایوس کن نقشہ سامنے آتا ہے. لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے ؟
اس ضمن میں سب سے پہلی بات تو یہ سمجھنے کی ہے کہ ہماری اس ذلت و رسوائی اور 
پستی و زوال کا سبب کیا ہے؟ ؎ 

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں! 

اس کا کوئی جواب ملنا چاہیے. اس کا جواب محمد رسول اللہ  کے اس فرمان میں موجود ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے پیش کیا: اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَیَضَعُ بِہٖ آخَرِیْنَ .ہمیں سزا مل رہی ہے تو اسی بات کی کہ ہم نے اس قرآن کریم سے دُوری اختیار کرلی. حضور کے فرمان کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں. ہمارے لیے سب سے بڑی سند اللہ کا کلام اورمحمد رسول اللہ  کا فرمان ہے‘لیکن مزیدوضاحت کے لیے اس صدی کی دو عظیم ترین شخصیتوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں. آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں اہل ِ علم کے دو حلقے ہیں. ایک حلقہ علماء کا ہے جن کی پوری زندگیاں دارالعلوموں میں ’’قال اللہ وقال الرسول‘‘ کے سیکھنے سکھانے میں گزرتی ہیں. دوسرے ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلنے والے لوگ ہیں. برعظیم پاک و ہند میں دارالعلوموں کا سلسلہ دیوبند سے اور کالجوں یونیورسٹیوں کا سلسلہ علی گڑھ سے شروع ہوا ہے.