دوسری طرف شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ علیہ بھی اسی نتیجے پر پہنچے ہیں. اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے مفتی محمد شفیع صاحبؒ کو جنہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کا واقعہ اپنی کتاب ’’وحدتِ اُمت‘‘میں نقل کردیا‘ ورنہ اتنا بڑا اور اہم واقعہ ہمارے علم میں نہ آسکتا. وہ اس واقعے کے عینی شاہد ہیں. حضرت شیخ الہندؒ جب مالٹا کی جیل سے رہائی پاکر ہندوستان تشریف لائے تو دارالعلوم دیوبند میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا. اس جلسہ میں وہ سب بزرگ موجود تھے جن کے ابھی میں نے نام گنوائے ہیں. یعنی مولانا حسین احمد مدنی‘ مولانا اشرف علی تھانوی‘مولانا شبیر احمد عثمانی اور مولانا انور شاہ کاشمیری وغیرھم رحمہم اللہ . انہی کے ساتھ مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی وہاں موجود تھے. انہوں نے یہ واقعہ بیان کیا کہ حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ ’’ہم نے تو مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں‘‘. یہ الفاظ سن کر سارا مجمع ہمہ تن گوش ہوگیا کہ اس استاذ العلماء درویش نے ۸۰سال علماء کو درس دینے کے بعد آخری عمر میں جو سبق سیکھے ہیں‘وہ کیا ہیں. فرمایا:
’’میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہو رہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے. ایک ان کا قرآن کو چھوڑ دینا‘دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی. اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیا ہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے… اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیا جائے!‘‘
(وحدتِ اُمت‘ص۳۹.۴۰)
اس کے بعد مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے بڑی پیاری بات فرمائی ہے کہ حضرتؒ نے جو دو باتیں فرمائیں اصل میں وہ دو نہیں ایک ہی ہے. درحقیقت ہمارے اختلافات میں شدت اس وجہ سے ہوئی کہ ہم نے قرآن کو چھوڑ دیا. اس لیے کہ قرآن مرکز تھا‘اور جب تک سب مرکز سے جڑے ہوتے تھے تو ایک دوسرے سے بھی جڑے ہوتے تھے. جب اس مرکز سے دور ہوتے چلے گئے تو ایک دوسرے سے بھی دور ہوتے چلے گئے. بالکل سادہ سی بات ہے. تو انہوں نے فرمایا: ’’غور کیا جائے تو یہ آپس کی لڑائی بھی قرآن کو چھوڑنے ہی کا لازمی نتیجہ تھی. قرآن پر کسی درجے میں بھی عمل ہوتا توخانہ جنگی یہاں تک نہ پہنچتی‘‘. پس اس تباہی کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے قرآن کو ترک‘کردینا.