میں آپ کو وہ حدیث سنا چکا ہوں جس میں یہ قانونِ خداوندی بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم کو اُٹھائے گا تو اسی قرآن کی وجہ سے اُٹھائے گا اور جب گرائے گا تو اسی قرآن کو ترک کرنے کے باعث گرائے گا. آج ہم اسی قانونِ خداوندی کی زد میں ہیں. قرآن کے معاملے میں اپنا جو حال ہے وہ کسی کو نظر نہیں آرہا ہے. آج سے تیس چالیس سال پہلے مسلمانوں کے محلوں میں سے گزرتے ہوئے ہر گھر سے قرآن پڑھنے کی آواز تو آتی تھی. یہ الگ بات ہے کہ لوگ ٹھیک سے سمجھتے نہیں تھے‘لیکن تلاوت تو بہرحال ہوتی تھی. اب تو تلاوت بھی نہیں ہے. غور وفکر اور سوچ بچار کا تو سوال ہی نہیں. عربی کون سیکھے‘کون پڑھے؟ عربی سے ہمارا کوئی دنیوی مفاد وابستہ ہو تو ہم سیکھیں.ہم انگریزی پڑھیں گے اور ایسی پڑھیں گے کہ انگریزوں کو پڑھا دیں‘لیکن عربی سیکھنے کے لیے کوئی بھی وقت نکالنے کے لیے تیار نہیں. ہم نے کئی جگہ عربی کلاس کا اجراء کیا. شروع میں بڑا ذوق و شوق ہوتاہے‘ پچاس ساٹھ افراد شریک بھی ہوجاتے ہیں‘ لیکن چند دنوں کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ سب چھٹی کرگئے. پابندی کے ساتھ وقت نکالنا آسان نہیں جب تک کہ دین کی لگن نہ ہواور ایک فیصلہ نہ ہو کہ یہ کام مجھے کرنا ہے. اور اس طرح کے فیصلے ہم دنیا کے لیے تو کرتے ہیں‘ دین کے لیے نہیں. 

اس وقت ہمارے جو حالات ہیں‘ان میں جگانے کی ضرورت ہے‘ہوش میں آنے کی ضرورت ہے. بھانت بھانت کی بولیاں بولی جارہی ہیں کہ وہ ہونا چاہیے‘ یہ کرنا چاہیے‘ اس طرح کام ہونا چاہیے. میں ان میں سے کسی کی تردید یا تضحیک نہیں کررہا ہوں. ٹھیک ہے‘ اسلحہ بھی فراہم کرنا ہوگا. اس کے لیے حکم ربانی ہے: 
وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ (الانفال:۶۰کہ جس قدر ممکن ہو جمع کیا جائے. پھر ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر بھی نظر کرنا ہوگی‘ دوست و دشمن کی تمیز کرنا ہوگی. یہ سارے کام کرنے ہوں گے. دعا کریں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت ملک کی زمامِ کار ہے‘ اللہ تعالیٰ انہیں صحیح رائے پر پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے. ان میں سے کسی شے کی نفی نہیں ہے‘ لیکن میں جو بات بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ کے ہاں مسلمان کا معاملہ خاص ہے. ؏ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ؐ ہاشمی‘‘اس کا معاملہ عام دنیا والوں کی طرح کا نہیں ہے. جیسا کہ قرآن مجید میں حضور  کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنھن سے بایں الفاظ خطاب فرمایا گیا: لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (الاحزاب:۳۲کہ تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو. تم اگر نیکی کرو گی تو اس کا دُگنا اجر ملے گا اور اگر کوئی غلط حرکت کرو گی تو سزا بھی دُگنی ملے گی. کیونکہ تمہاری نیکی اُمت کی لاکھوں عورتوں کے لیے نمونہ بننے والی ہے‘ اور تمہاری لغزش اُمت ِمسلمہ کی کروڑہا عورتوں کے لیے لغزش کی بنیاد بن سکتی ہے. یہی معاملہ اُمت مسلمہ کا ہے. ہمارے پاس تو اللہ کی کتاب ہے اور اس کو دنیا تک پہنچاناہمارے ذمے لگایا گیا ہے. اگر ہم ہی اس میں کوتاہی کرتے ہیں تو دوسروں کے پاس تو عذر موجود ہے کہ اے اللہ‘ہمیں تو انہوں نے یہ کتاب پہنچائی ہی نہیں. یہ بدبخت اس کے اوپر خزانے کا سانپ بن کر بیٹھے رہے‘نہ خود پڑھا ‘نہ ہمیں پڑھنے دیا‘نہ خود عمل کیا‘نہ اسے ہمارے سامنے رکھا. لہٰذا یہ دوہرے مجرم ہیں‘ان کو سزا بھی دُگنی ملنی چاہیے. چنانچہ یہ وہ سزا ہے جو ہمیں دنیا میں مل رہی ہے اور یہی ہے اس سوال کا جواب کہ ؎ 

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیٔ فرشتہ ہماری جناب میں! 

ہمارے نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ غیر مسلم اقوام دنیا میں سربلند کیوں ہیں؟ ہم کتنے ہی گئے گزرے سہی‘پھر بھی ہم میں سے کوئی نماز پڑھتاہے‘کوئی روزہ رکھتا ہے‘کوئی نہ کوئی قرآن بھی پڑھتا ہے‘لیکن علامہ اقبال کے الفاظ میں ؎ 

رحمتیں ہیں تری اغیار کے کاشانوں پر
برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر! 

والا معاملہ کیوں ہے؟ اس کا جواب یہی ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ یہ دوہری سزا کے مستحق ہیں. اگر یہ اپنا فرضِ منصبی انجام دیں اور جس پیغام کے یہ علمبردار اور امین بنائے گئے تھے‘ اس پیغام کو دُنیا میں پیش کریں اور پھیلائیں تو دوہرا اجر ملے گا. اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے : وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾ (آل عمران) ’’اور تم ہی غالب رہو گے اگر تم حقیقی مومن ہوئے‘‘.اور اگر یہ اس میں کوتاہی کریں گے تو اوّلین سزا کے مستحق بھی یہی ہوں گے. ان کی پیٹھ پر اللہ کے عذاب کے کوڑے دوسروں سے زیادہ برسیں گے. اور آج ہم اسی قانونِ خداوندی کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں.