اب میں آپ کے سامنے اس سلسلے کی ایک اور حدیث کا مفہوم پیش کرنا چاہتا ہوں. اس حدیث کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں. میں نے آپ کو ایک روایت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی اور ایک روایت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی سنائی ہے‘ اور اب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کررہا ہوں. حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے خطبہ دیا‘جس میں آپؐ نے فرمایا: اِنَّھَا سَتَکُوْنُ فِتْنَۃٌ ’’عنقریب ایک بہت بڑا فتنہ ظاہر ہوگا‘‘. حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: مَا الْمَخْرَجُ مِنْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ ’’اے اللہ کے رسول! اس فتنے سے نکلنے کا راستہ کیا ہو گا؟‘‘اس سے بچائو کیسے ہوگا‘ اس فتنے سے اپنے آپ کو محفوظ کرنے کا طریقہ کون سا ہے؟ اب اس سوال کے جواب میں حضورﷺ نے فرمایا: کِتَابُ اللّٰہِ یعنی اس فتنے سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے‘ اور وہ ہے اللہ کی کتاب! یہی اس فتنے سے محفوظ کرسکتی ہے. آپؐ نے مزیدفرمایا: فِیْہِ خَبَرُ مَا قَبْلَکُمْ وَنَبَأُ مَا بَعْدَکُمْ کہ اس میں جو تم سے پہلے کے حالات ہیں وہ بھی لکھے ہوئے ہیں اور جو بعد میں آنے والے حالات ہیں ان کا عکس بھی اس کتاب کی آیاتِ بینات میں موجود ہے…یہ حدیث خاصی طویل ہے‘ لیکن اس کا ایک ٹکڑا میں خاص طور پر یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں. فرمایا: ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ (۱) کہ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے!!
موجودہ حالات میں ہر چہار طرف سے مسلمانوں سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ انہیں متحد ہو جانا چاہیے اور انہیں اپنے سارے اختلافات ختم کرلینے چاہئیں. یہ بات اصولی طور پر تو درست ہے‘ لیکن اتحاد کی بات کرنے والے یہ نہیں بتاتے کہ بنائے اتحاد کیا ہو؟ وہ کونسی چیز ہے جس کی بنیاد پر ہم مجتمع ہو سکتے ہیں؟ صرف خطرے کی بنیاد پر جو اتحاد ہوتا ہے وہ منفی اتحاد ہوتا ہے. ہمارے ہاں یہ منفی اتحاد بہت ہوئے ہیں‘ اور آپ کو معلوم ہے کہ آج تک ان منفی اتحادوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا. تو ضرورت مثبت اتحاد کی ہے جس کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد ہو ‘اور قرآن حکیم نے اہل ایمان کے لیے اتحاد کی بنیاد یہ بتائی ہے کہ وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں. سورۃ آلِ عمران میں فرمایا: وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا ۪ (آیت۱۰۳) ’’اللہ کی رسی کو مجتمع ہو کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو!‘‘ اب غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ’’حبل اللہ‘‘ کونسی ہے جسے مضبوطی سے تھاما جائے؟ زیر نظر حدیث میں حضور ﷺ کی طرف سے اسی کی وضاحت ہے : ’’ھُوَ
(۱) سنن الترمذی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب ما جاء فی فضل القرآن. وسنن الدارمی‘ کتاب فضائل القرآن‘ باب فضل من قرأ القرآن. حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ‘‘ کہ یہ قرآن مجید ہی اللہ کی وہ مضبوط رسی ہے جسے تم نے تھامنا ہے. یہی وہ مرکز ہے کہ اس کے قریب تر آئو گے تو ایک دوسرے سے بھی جڑتے چلے جائوگے اور اگر اس سے دور ہٹتے جائو گے تو تمہارے اندر اضطراب‘ اختلاف و انتشار اور تشتت بڑھتا چلا جائے گا.
تو واقعہ یہ ہے کہ ان حالات میں اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن حکیم کی طرف ہمارا رجوع ہو. ہماری تقدیر اس وقت تک نہیں بدلے گی جب تک اس قرآن کے ساتھ ہم اپنے تعلق کو از سرِ نو مضبوط نہیں کرلیتے. جب تک ہم اس قرآن کا حق ادا نہیں کریں گے‘اُس وقت تک صرف سازو سامان ہمارے لیے مفید نہیں ہوگا. سازو سامان دوسروں کے حق میں مفید ہوسکتا ہے‘لیکن اس اُمت کے لیے یہ اس وقت مفید ہوگا جب یہ اپنے مرکز کے ساتھ بھی وابستہ ہو جائے. اور ہمارا مرکز‘ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں‘ قرآن ہے. ہمارے اتحاد کی اگر کوئی بنیاد ہے تو قرآن ہے‘ ہمارے عروج و بلندی کے لیے اگر کوئی زینہ ہے تو قرآن ہے‘ اور ذلت و رسوائی سے نجات کا کوئی راستہ ہے تو قرآن ہے. ہماری قسمت اسی کتاب کے ساتھ وابستہ ہے . اگر کوئی راستہ کھلے گا تو اسی کے ذریعے سے کھلے گا. اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی اس کتاب کو حرزِ جان بنانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے جو جملہ حقوق ہم پر عائد ہوتے ہیں‘ان کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے.
oo اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المسلمین والمسلمات oo