سورۃ التغابن کی روشنی میں
نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
آج ہم اللہ کے نام سے مطالعۂ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کے آٹھویں درس کا آغاز کر رہے ہیں‘ جو اِن صفحات میں سلسلہ وار زیر اشاعت ہے. جیسا کہ اس سے قبل وضاحت کی جا چکی ہے ‘اس منتخب نصاب کا حصہ دوم مباحث ِ ایمانی پر مشتمل ہے‘ اور اس حصہ دوم کا یہ چوتھا درس ہے جو سورۃ التغابن پر مشتمل ہے. یہ سورۂ مبارکہ مصحف کے اٹھائیسویں پارے میں ہے اور دو رکوعوں اور اٹھارہ آیات پر مشتمل ہے. سورۃ العصر کے بعد یہ پہلی مکمل سورت ہے جو اِس منتخب نصاب میں شامل ہے.
سورت کے مضامین کا اجمالی تجزیہ
میرے مطالعے اور غور و فکر کی حد تک قرآن مجید کی چھوٹی سورتوں میں ایمان کے موضوع پر جامع ترین سورت سورۃ التغابن ہے. یہاں اس بات کو دوبارہ ذہن میں مستحضر کر لیجیے کہ ان مباحث میں ایمان سے مراد قانونی اور فقہی ایمان نہیں ہے جس کی بنا پر ہم اس دنیا میں ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہیں‘ بلکہ یہاں ایمانِ حقیقی مراد ہے جو قلبی یقین سے عبارت ہے‘ اور سورۃ النور کی آیات ِ نور کے مطابق یہ ایمان ایک نور ہے جس سے انسان کا باطن روشن اور منور ہو جاتا ہے اور جس کا اصل محل و مقام قلب ہے. یہی وجہ ہے کہ مصحف میں سورۃ التغابن سے متصلاً قبل سورۃ المنافقون واقع ہے‘ اور منافقین کے بارے میں یہ بات سب جانتے ہیں کہ وہ بھی قانوناً مسلمان شمار ہوتے تھے اور دنیا میں ان کے ساتھ بالکل مسلمانوں کا سا سلوک ہوتا تھا‘ اگرچہ وہ ایمانِ حقیقی سے محروم ہوتے تھے. یعنی وہ حقیقتاً کافر تھے. اس طرح قرآن مجید میں سورۃ المنافقون کے فوراً بعد سورۃ التغابن کو لا کر گویا تصویر کے دونوں رُخوں کو یکجا کر دیا گیا‘ یا یوں کہہ لیجیے کہ ’’تُعْرَفُ الْاَشْیَاءُ بِاَضْدَادِہَا‘‘ کے اصول کے مطابق ’’کفرِ حقیقی‘‘ کے بالمقابل ’’ایمانِ حقیقی‘‘ کا آئینہ رکھ دیا گیا.
سورۃ التغابن کی اٹھارہ آیات ہیں جو دو رکوعوں میں منقسم ہیں. یہ بڑی پیاری اور دلکش تقسیم ہے. پہلے رکوع کی دس آیات میں سے پہلی سات آیات میں ایمانیات ِ ثلاثہ کا ذکر ہے. یعنی ایمان باللہ اور صفاتِ باری تعالیٰ‘ ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت یا ایمان بالمعاد. پھر اگلی تین آیات میں ایمان کی نہایت پُر زور دعوت ہے کہ یہ واقعی حقائق ہیں‘ ان کو قبول کرو‘ان کو تسلیم کرو‘ انہیں حرزِ جاں بناؤ اور اِن پر یقین سے اپنے باطن کو منور کرو.
دوسرے رکوع کی کُل آٹھ آیات ہیں. ان میں بھی یہی تقسیم ہے کہ پہلی پانچ آیات میں ایمان کے ثمرات اور ایمان کے نتیجے میں انسان کے فکر و نظر اور اس کی شخصیت میں جو تبدیلیاں رونما ہونی چاہئیں‘ ان کا بیان ہے. یعنی :(۱) تسلیم و رضا (۲)اطاعت و انقیاد (۳) توکل و اعتماد (۴) علائقِ دُنیوی کی فطری محبت کے پردے میں انسان کے دین و ایمان اور آخرت و عاقبت کے لیے جو بالقوۃ خطرہ مضمر ہے‘ اس سے متنبہ اور چوکس و چوکنا رہنا‘ اور (۵) مال اور اولاد کی فتنہ انگیزی سے ہوشیار و باخبررہنا اور آخری تین آیات میں ایمان کے ان تقاضوں کو پورا کرنے کی نہایت زوردار اور مؤثر ترغیب و تشویق ہے‘ اور ان میں تقویٰ‘ سمع و طاعت اور انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت پر بہت زور دیا گیا ہے. اس طرح یہ سورۂ مبارکہ واضح طور پر چار حصوں میں منقسم ہے.