اب آئیے اس سورۂ مبارکہ کے پہلے رکوع کے پہلے حصے کی جانب جو چار آیات پر مشتمل ہے. ان آیات پر کسی تفصیلی گفتگو سے قبل مناسب ہوگا کہ متن کی تلاوت کے ساتھ ان کا ایک رواں ترجمہ ذہن نشین کر لیا جائے.
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ لَہُ الۡمُلۡکُ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ ۫ وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ فَمِنۡکُمۡ کَافِرٌ وَّ مِنۡکُمۡ مُّؤۡمِنٌ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۲﴾خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ بِالۡحَقِّ وَ صَوَّرَکُمۡ فَاَحۡسَنَ صُوَرَکُمۡ ۚ وَ اِلَیۡہِ الۡمَصِیۡرُ ﴿۳﴾یَعۡلَمُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ یَعۡلَمُ مَا تُسِرُّوۡنَ وَ مَا تُعۡلِنُوۡنَ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ ﴿۴﴾
’’اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے. (واقعہ یہ ہے کہ کُل کائنات کی) بادشاہی بھی اُسی کی ہے اور کُل شکر و سپاس اور تعریف و ثنا کا مستحقِ حقیقی بھی صرف وہی ہے. مزید برآں وہ ہر چیز پر قادر ہے. وہی ہے جس نے تم سب کو تخلیق فرمایا ‘لیکن تم میں سے کچھ (اس کا) انکار کرنے والے ہیں اور کچھ (اس کو) ماننے والے ہیں‘ اور جو کچھ تم (اس دنیا میں)کر رہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے. اس نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا فرمایا اور تمہاری نقشہ کشی کی اور تمہاری بہت ہی اچھی نقشہ کشی ( اور صورت گری) فرمائی‘ اور (تمہیں) اسی کی طرف لوٹنا ہے. وہ جانتا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ تم چھپاتے ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو ‘ اور اللہ سینوں میں پوشیدہ رازوں کا بھی جاننے والا ہے‘‘.
جیسا کہ ترجمہ سے ظاہر ہے‘ ان آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفاتِ کمال کا بیان بڑے پُر جلال انداز میں ہوا ہے. اس موقع پر یہ اصولی بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایمان اصلا ً ایمان باللہ کا نام ہے. اصولی‘ علمی اور نظری اعتبار سے ایمان باللہ ہی ایمان کی اصل جڑ اور بنیاد ہے. ایمان بالرسالت اور ایمان بالآخرت دونوں اصلاً اسی کی فروع ہیں. چنانچہ ایمان بِالوحی‘ ایمان بالنبّوت‘ ایمان بالکتب یا فی الجملہ ایمان بالرسالت اصل میں اللہ تعالیٰ کی صفت ِ ہدایت کا مظہرِ اَتم ہے. اسی طرح بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب و کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ کی تصدیق یا فی الجملہ ایمان بالآخرت یاایمان بالمعاد اللہ تعالیٰ کی صفتِ عدل اور اس کے اسم گرامی ’’الحسیب‘‘ کا مظہرِ اَتم ہے. گویا اللہ حساب لینے والا ہے اور حساب کے مطابق جزا و سزا دینے والا ہے. اور اس کی اسی شان کا کامل ظہور آخرت میں ہوگا. پس معلوم ہوا کہ اصل ایمان‘ ایمان باللہ ہے. یہی وجہ ہے کہ سورۃ التغابن کے پہلے رکوع میں ایمان باللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی توحید اور صفاتِ کمال کا بیان چار آیات میں ہوا ہے‘ جبکہ ایمان بالرسالت اور ایمان بالمعاد دونوں کو تین آیات میں سمو دیا گیا ہے.
ان ابتدائی چار آیات میں ایمان باللہ کا بیان نہایت معجز نما اسلوب میں غایت درجہ اختصار لیکن حد درجہ جامعیت کے ساتھ ہوا ہے. ارشاد ہوتا ہے:
یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ
’’اللہ کی تسبیح کرتی ہے ہر وہ شے جو آسمانوں میں ہے اور ہر وہ شے جو زمین میں ہے‘‘.