یہاں پہلے لفظ ’’تسبیح‘‘ پر غور کر لیا جائے . اگرچہ فوری طور پر اس کے جو عام معنی ذہن میں آتے ہیں وہ یہ اقرار ہے کہ اللہ پاک ہے. لیکن اس کا حقیقی مفہوم کیا ہے ‘ اسے جاننا ضروری ہے. ’’سَبَحَ‘ یَسْبَحُ‘‘ فعل لازم ہے اور اس کا مطلب ہے کسی چیز کا تیرنا‘ خواہ وہ چیز پانی کی سطح پر تیر رہی ہو‘ خواہ فضا یا خلا میں اپنے مدار پر اپنی سطح کو برقرار رکھتے ہوئے حرکت کر رہی ہو. چنانچہ آپ کو قرآن مجید میں یہ الفاظ ایک سے زائد مقامات پر ملیں گے کہ : کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ ﴿۳۳﴾ (الانبیاء) ’’یہ تمام (اجرامِ سماویہ خلا میں) اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں‘‘. اس سے فعل متعدی بنتا ہے سَبَّحَ یُسَبِّحُ جس کا مطلب ہے کسی شے کو ’’تیرانا‘‘ یا اسے اس کی سطح پر برقرار رکھنا. اس کا مصدر ’’تسبیح‘‘ ہے. گویا لفظ تسبیح کے لغوی معنی ہیں ’’کسی کو اس کی اصل سطح پر برقرار رکھنا‘‘. چنانچہ اللہ کی تسبیح یہ ہے کہ اس کا جو مقامِ بلند ہے‘ اس کی جو اعلیٰ و ارفع شان ہے‘ اسے اس پر برقرار رکھا جائے‘ اور اس کی ذاتِ اقدس‘ صفاتِ اکمل اور شانِ ارفع کے ساتھ کوئی ایسا تصور شامل نہ کیا جائے جو اس کے شایانِ شان نہ ہو. گویا کسی بھی درجے کے ضعف‘ عجز‘ نقص‘ عیب یا محدودیت کا کوئی بھی تصور اُس کی ذات و صفات کے ساتھ شامل کرنے کے معنی یہ ہیں کہ انسان اسے ا س کے مقام ِ رفیع سے نیچے گرا رہا ہے. معاذ اللہ! پس تسبیح باری تعالیٰ کا مفہوم یہ ہوگا کہ اس بات کا اقرار و اعتراف کیا جائے کہ اللہ ہر عیب سے ‘ ہر نقص سے‘ ہر ضعف سے‘ ہر احتیاج سے منزہ و ماوراء اور اعلیٰ و ارفع ہے‘ گویا فی الجملہ ’’اللہ پاک ہے‘‘. واضح رہے کہ یہ معرفت ِ الٰہی کا سلبی پہلو ہے کہ ہم نے یہ جان لیا کہ اللہ میں کوئی نقص نہیں‘ کوئی عیب نہیں‘ اسے کوئی احتیاج نہیں. وہ ان سب سے منزہ اور پاک ہے. معرفتِ الٰہی کے مثبت پہلو کا بیان ’’ وَ لَہُ الۡحَمۡدُ‘‘ کے الفاظ میں آئے گا جو آگے آ رہے ہیں!
اب قابل غور امر یہ ہے کہ کائنات کی ہر شے کس معنی و مفہوم میں اللہ کی تسبیح کر رہی ہے! یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو کوئی زبان دی ہو. جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ پرندوں کی بھی زبان ہے اور ان کی اپنی اپنی بولیاں ہیں. اسی طرح شجر و حجر میں بھی حس موجود ہے اورکوئی عجب نہیں کہ وہ بھی آپس میں مبادلۂ احساس کرتے ہوں. چیونٹی جیسی حقیر مخلوق کی گفتگو کاذکر سورۃ النمل میں موجود ہے: قَالَتۡ نَمۡلَۃٌ یّٰۤاَیُّہَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰکِنَکُمۡ ۚ (آیت ۱۸) ’’ایک چیونٹی نے کہا کہ اے چیونٹیو! اپنے بلوں میں گھس جاؤ‘‘. لہذا یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کو کوئی زبان عطا کی ہو‘ کیونکہ قرآن مجید میں ایک مقام پر یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: اَنۡطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیۡۤ اَنۡطَقَ کُلَّ شَیۡءٍ (حٰم السجدۃ:۲۱) ’’(قیامت میں انسان کے اعضاء کہیں گے کہ) اُس اللہ نے ہمیں بھی گویائی عطا فرما دی ہے جس نے ہر شے کو گویائی بخشی‘‘. میدانِ حشر میں انسان کے اعضاء جب اس کے خلاف گواہی دیں گے تو انسان پکار اٹھے گا کہ تم ہمارے جسم کا حصہ ہوتے ہوئے ہمارے خلاف گواہی کیوں دے رہے ہو؟ تو وہ جواب میں مذکورہ بالا بات کہیں گے. لیکن ظاہر بات ہے کہ کائنات کی ہر شے جو تسبیح لسانی کررہی ہے وہ ہمارے فہم سے ماوراء ہے. چنانچہ سورۂ بنی اسراء یل میں ارشادفرمایا:
تُسَبِّحُ لَہُ السَّمٰوٰتُ السَّبۡعُ وَ الۡاَرۡضُ وَ مَنۡ فِیۡہِنَّ ؕ وَ اِنۡ مِّنۡ شَیۡءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمۡدِہٖ وَ لٰکِنۡ لَّا تَفۡقَہُوۡنَ تَسۡبِیۡحَہُمۡ ؕ (آیت۴۴)
’’اُس (اللہ) کی تسبیح تو ساتوں آسمان اور زمین اور وہ ساری چیزیں کر رہی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں.اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اُس کی تحمید کے ساتھ تسبیح نہ کر رہی ہو ‘لیکن تم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے‘‘.
البتہ اس کائناتی اور آفاقی تسبیح کا ایک پہلو ایسا بھی ہے جو ہماری سمجھ میں آتا ہے جسے تسبیحِ حالی قرار دینا مناسب ہوگا. یعنی یہ کہ ہر شے اپنے وجود سے اعلان کر رہی ہے‘ گویا زبانِ حال سے اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ میرا خالق‘ میرا مالک‘ میرا صانع‘ میرا مصوّر‘ میرا موجد‘ اور میرا مدبّر ایک ایسی ہستی ٔ کامل ہے جس کے نہ علم میں کوئی کمی ہے‘ نہ قدرت میں کوئی کمی ہے اور نہ حکمت میں کوئی کمی ہے. آپ کو معلوم ہے کہ اگر کوئی تصویر نہایت اعلیٰ ہے‘ فن مصوری کا شہ پارہ ہے تو درحقیقت وہ تصویر اپنے وجود سے اپنے مصور کے کمالِ فن کو ظاہر کرتی ہے. تخلیق اگر کامل ہے تو اس سے اس کے خالق کا کمال ظاہر ہو رہا ہے. لہذا یہ کُل کائنات‘ یہ جملہ مصنوعات اور یہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی صفتِ تخلیق کے حد درجہ اکمل و اَتم اور صفتِ ’’تصویر‘‘ یعنی صورت گری کے نہایت حسین و جمیل مظاہر ہیں. سورۃ الحشر کی آخری تین آیاتِ مبارکہ میں اللہ تعالیٰ کے سولہ اسمائے حسنیٰ آئے ہیں. اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کا ایسا حسین اور اتنا عظیم گلدستہ کسی اور مقام پر نہیں آیا ہے. ان سولہ اسمائے حسنیٰ میں سے تین الخالق‘ الباری اور المصور ہیں. یعنی اللہ تخلیق کی منصوبہ بندی فرمانے والا ہے‘ اس کو خارج میں ظاہر فرمانے والا ہے‘ اور اس کی آخری صورت گری اور نقشہ کشی کرنے والا ہے. پس معلوم ہوا کہ کُل کائنات اور کُل موجودات کا الخالق‘ الباری اور المصور اللہ سبحانہ کی ذاتِ اقدس ہے. اور یہ تخلیق و تصویر کامل ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ الملک میں چیلنج کے انداز میں ارشاد فرمایا:
مَا تَرٰی فِیۡ خَلۡقِ الرَّحۡمٰنِ مِنۡ تَفٰوُتٍ ؕ فَارۡجِعِ الۡبَصَرَ ۙ ہَلۡ تَرٰی مِنۡ فُطُوۡرٍ ﴿۳﴾ثُمَّ ارۡجِعِ الۡبَصَرَ کَرَّتَیۡنِ یَنۡقَلِبۡ اِلَیۡکَ الۡبَصَرُ خَاسِئًا وَّ ہُوَ حَسِیۡرٌ ﴿۴﴾
’’تم رحمن کی تخلیق میں کوئی نقص تلاش نہ کر سکو گے. ذرا (چاروں طرف) نظر دوڑاؤ‘ کیا تمہیں کوئی رخنہ نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ‘ تمہاری نگاہ ناکام اورتھک ہار کر لوٹ آئے گی (اور تم ہماری اس تخلیق میں کوئی نقص و عیب نہ نکال سکو گے).‘‘
تو سوچو کہ عیب و نقص سے مبرا و منزہ کون ہے؟ وہ ہستی کہ جس نے ان سب کی تخلیق فرمائی اور جو اِس پوری کائنات کی خالق و مصور بھی ہے اور محافظ و مدبر بھی! الغرض یہ ہیں معانی و مفاہیمیُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ۚ کے!