آگے ارشاد فرمایا: وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ﴿۱﴾ ’’اور وہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘. اُس کے قبضۂ قدرت اور اختیار و اقتدار سے کوئی چیز باہر نہیں ہے! یہاں پہلی آیت ختم ہوئی. اس سے قبل ایک درس میں عرض کیا جا چکا ہے کہ معرفت ِ الٰہی کے ضمن میں جہاں تک ذاتِ باری تعالیٰ کا تعلق ہے تو وہ ہمارے فہم و ادراک ہی نہیں ہماری قوتِ متخیلہ سے بھی وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے. چنانچہ ہمارا اللہ تعالیٰ کو جاننا اور پہچاننا کُل کا کُل اس کی صفات کے حوالے سے ہے‘ اور ان کے ضمن میں بھی ہمارے فہم وشعور کا دائرہ بہت ہی محدود ہے. یعنی ہم یہ تو جانتے ہیں کہ اللہ سمیع ہے‘ بصیر ہے اور کلام فرماتا ہے‘ لیکن یہ نہیں جان سکتے کہ وہ کیسے سنتا ہے‘ کیسے دیکھتا ہے اور کیسے کلام کرتا ہے. اسی طرح ہم یہ تو جانتے ہیں کہ وہ علیم ہے‘ قدیر ہے اور حکیم ہے‘ لیکن ہم اس کا کوئی تصور تک نہیں کر سکتے کہ وہ کتنا علیم ہے‘ کتنا قدیر ہے اور کس قدر حکیم ہے. گویا صفاتِ باری تعالیٰ کے یہ مختلف پہلو بھی ہمارے ذہن و شعور اور فہم و ادراک سے ماوراء ہیں‘ اور ہمارے ذہن کے چھوٹے سے سانچے میں‘ جو نہایت محدود ہے‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی صفاتِ مطلقہ اپنی پوری شان کے ساتھ سما ہی نہیں سکتیں. لہذا ہمارے لیے واحد پناہ گاہ ایک لفظ ’’کُل‘‘ ہے. جیسے وَ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ(وہ ہر چیز پر قادر ہے) جس پریہ پہلی آیت ِ مبارکہ ختم ہو رہی ہے ‘ اور وَ ہُوَ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ (اور وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے) جس پر اس سورۂ مبارکہ کا پہلا رکوع ختم ہوتا ہے! ہر صاحب ِ ذوق اندازہ کر سکتا ہے کہ ان دونوں مقامات پر اصل زور لفظ ’’کُلّ‘‘ پر ہے.