اس کے بعد ایمان بالآخرۃ یا ایمان بالمعاد کابیان شروع ہوتا ہے‘ اور ساتویں آیت اسی مضمون پر مشتمل ہے. ایمان بالآخرۃ کی عقلی اور منطقی اساس تو ایمان باللہ کے ضمن میں تیسری آیت کے آخر ہی میں ’’وَاِلَـیْہِ الْمَصِیْرُ‘‘ کے الفاظِ مبارکہ میں قائم کر دی گئی تھی. اب یہاں بڑی فصاحت و بلاغت اور بڑے شدّو مد کے ساتھ ایک آیت میں اس کے انکار کی پُر زور نفی اور اس کے وقوع کا نہایت تاکیدی اثبات کردیا گیا . چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: زَعَمَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اَنۡ لَّنۡ یُّبۡعَثُوۡا ؕ ’’مغالطہ ہو گیا ہے اِن کافروں کو کہ ان کو دوبارہ اٹھایا نہ جائے گا‘‘. زعم کا لفظ اردو میں بھی بے بنیاد خیال کے معنوںمیں مستعمل ہے. جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں کو بڑا زعم ہے‘ یعنی اسے اپنے بارے میں مغالطہ ہے اور وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا ہے‘ درآنحالیکہ اس کی اصل حیثیت کچھ نہیں ہے اور وہ محض ایک خیالِ خام اور ایک بے بنیاد ظن میں مبتلا ہے. کفار اسی زعم اور خیالِ خام میں مبتلا تھے کہ مرنے کے بعد اُن کو دوبارہ اٹھایانہ جائے گا. قرآن مجید میں کفار کے اس اعتراض اور استعجاب کو بہت سے مقامات پر مختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے‘ اور خاص طور پر مکی سورتوں میں ان کے اس خیالِ خام کی نفی اور بعث بعدالموت کے اثبات کے لیے آفاق و انفس سے مفصل دلائل دیے گئے ہیں. یہاں ان دلائل و براہین کے اعادے کے بجائے نبی اکرم کو حکم دیا جا رہا ہے کہ: قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ ’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کیوں نہیں‘ اور مجھے اپنے ربّ کی قسم ہے‘ تم لازماً اٹھائے جاؤ گے‘ پھر تم نے (دنیا میں) جو کچھ کیا ہے وہ لازماً تمہیں جتلا دیا جائے گا (تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا)‘‘. اس اسلوب میں جو زور اور تاکید ہے اس کاصحیح اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو عربی زبان سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتے ہوں. عربی زبان میں اس سے زیادہ تاکید کا کوئی اور اسلوب نہیں ہے کہ فعل مضارع سے پہلے لامِ مفتوح اور آخر میں نونِ مشدّد ہو. یہاں تاکید کا یہی اسلوب آیا ہے.

اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا: 
وَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرٌ ﴿۷﴾ ’’اور یہ چیز اللہ پر بہت آسان ہے‘‘. یعنی بظاہر تمہیں بہت مشکل معلوم ہو رہا ہے‘ لیکن جب اللہ کو مان لیا جائے اور یہ بھی تسلیم کر لیا جائے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے تو اس استعجاب کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے؟ جس قادرِ مطلق نے پہلے پیدا کیا تھا اس کے لیے دوبارہ پیدا کرنا بہت آسان ہے.

جیسے کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ اس آیت مبارکہ میں کوئی عقلی استدلال یا منطقی دلیل موجود نہیں ہے ‘بلکہ یہاں دراصل خطابی اور اذعانی دلیل کا اسلوب ہے. یعنی نبی اکرم سے فرمایا جا رہا ہے کہ آپؐ پورے یقین و و ثوق کے ساتھ اللہ کی قسم کھا کر اور اپنے ربّ کی شہادت پیش کرتے ہوئے ان منکرین سے کہہ دیجیے کہ ایسا لازماً ہو کر رہے گا اور تم لازماً محاسبہ کے لیے دوبارہ اٹھائے جاؤگے. زیادہ گہرائی میں غور کیا جائے تو نظر آتا ہے کہ یہاں دراصل نبی اکرم کی سیرت و شخصیت کا وزن بطورِ دلیل پیش کیا جا رہا ہے کہ غور کرو کہ یہ کون کہہ رہا ہے اور کس کی زبانِ مبارک سے یہ کلمات ادا کرائے جا رہے ہیں ! اس کی سیرت اوراخلاق کا عالم کیا ہے! اس کی صداقت و امانت کے بارے میں تمہاری متفقہ رائے کیا ہے! وہ ’’الصادق‘‘ اور ’’الامین‘‘ شخص ہے جو قسم کھا کر بعث بعد الموت کی خبر دے رہا ہے اور پورے یقین اور اذعان کے ساتھ دے رہا ہے. یعنی وہ فلسفیوں کی طرح یہ نہیں کہہ رہا کہ میر اگمان یہ ہے‘ یا میراخیال یہ ہے‘ یا میری عقل یہ حکم لگاتی ہے‘ یا مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے‘ بلکہ پورے وثوق کے ساتھ خبر دے رہا ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا. گویا یہ فلسفیانہ کلام نہیں ہے کہ جس میں کسی شک و شبہ کا امکان ہو‘ بلکہ اللہ کاکلام ہے جو رسول اللہ کی زبان سے ادا ہو رہا ہے. لہذا اس میں شبہ کا ذرا بھی شائبہ موجود نہیں! 
مزید برآں رسولوں کا معاملہ محض ’’ایمان بالغیب‘‘ کا نہیں ہوتا‘ بلکہ انہیں حیاتِ دُنیوی ہی میں ’’مَلَکُوۡتَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ‘‘ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کا مشاہدہ کرا دیا جاتا ہے تا کہ وہ لوگوں کو احوالِ آخرت کی جوخبریں دیں تو اپنے ذاتی مشاہدہ اور معائنہ کی اساس پر اور کامل یقین و اذعان کے ساتھ دیں. پس معلوم ہوا کہ یہاں اگرچہ کوئی عقلی و منطقی دلیل موجود نہیں ہے ‘لیکن اس اسلوبِ بیان اور اندازِ کلام میں ایک بڑی عظیم اذعانی و ایقانی دلیل مضمر ہے جس میں اصل وزن جناب محمدٌ رسول اللہ کی سورج کے مانند روشن سیرت و شخصیت کا ہے. چنانچہ سیرت کی کتابوں میں ذکر موجود ہے کہ نبی اکرم نے جب کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر اپنا پہلا دعوتی و تبلیغی خطبہ ارشاد فرمایا تو پہلے لوگوں سے دریافت کیا کہ تم نے مجھے کیسا پایا؟ گویا پہلے ان سے اپنی اس صداقت‘ امانت اور دیانت کی تصدیق و توثیق کرا لی جسے وہ بہت پہلے سے تسلیم کر چکے تھے‘ بعد میں دعوت پیش فرمائی. اس کا مقصد یہ تھا کہ مخاطبین یہ سوچیں کہ جس شخص نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو‘ جس کا شعار ہی صداقت و امانت ہو‘ جس نے کبھی کسی کو دھوکہ اور فریب نہ دیا ہو‘ کیا وہ اللہ پر جھوٹ باندھنے لگ جائے گا! کیا وہ پوری نوعِ انسانی کو فریب دینے پر آمادہ ہو جائے گا! پس حضورنبی اکرم کی یہی سیرت و کردار اور آپ کا یہی اخلاقِ حسنہ سورۃ التغابن کی ساتویں آیت کے پس منظر میں بطورِ دلیل پنہاں ہے.

نبی اکرم کی دعوت کے ابتدائی دَور کا ایک خطبہ بھی ملتا ہے جسے 
’’نہج البلاغہ‘‘ میں نقل کیا گیا ہے اور جس میں بالکل وہی انداز‘ وہی اسلوب‘ فصاحت و بلاغت کا وہی معیار اور خطابت کی وہی شان ہے جو اِس آیت ِ مبارکہ کا طرۂ امتیاز ہے. نبی اکرم خود بھی اس کے مدعی ہیں کہ: اَنَا اَفْصَحُ الْعَرَبِ (۱’’میں عرب کا فصیح ترین انسان ہوں‘‘. اور واقعہ یہ ہے کہ آپ کا یہ خطبہ اس دعویٰ کی بہت بڑی دلیل ہے. ارشادفرمایا: 

اِنَّ الرَّائِدَ لَا یَکْذِبُ اَھْلَـہٗ ‘ وَاللہِ لَوْ کَذَبْتُ النَّاسَ جَمِیْعاً مَا کَذَبْتُـکُمْ‘ وَلَوْ غَرَرْتُ النَّاسَ جَمِیْعاً مَا غَرَرْتُـکُمْ‘ وَاللہِ الَّذِیْ لَا اِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ اِنِّیْ (۱) تلخیص الحبیر لابن حجر العسقلانی۴/۱۲۹۸لَرَسُوْلُ اللہِ اِلَـیْـکُمْ خَاصَّۃً وَاِلَی النَّاسِ کَافَّـۃً‘ وَاللہِ لَتَمُوْتُنَّ کَمَا تَنَامُوْنَ‘ ثُمَّ لَتُبْعَثُنَّ کَمَا تَسْتَیْقِظُوْنَ‘ ثُمَّ لَتُحَاسَبُنَّ بِمَا تَعْمَلُوْنَ‘ ثُمَّ لَتُجْزَوُنَّ بِالْاِحْسَانِ اِحْسَانًا وَبِالسُّوْءِ سُوْءً‘ وَاِنَّھَا لَجَنَّــۃٌ اَبَداً اَوْ لَنَارٌ اَبَداً (۱

’’لوگو! تم جانتے ہو کہ رائد (قافلہ کا رہبر و رہنما) اپنے قافلے کو کبھی دھوکہ نہیں دیتا. اللہ کی قسم! اگر (بفرضِ محال) میں تمام انسانوں سے جھوٹ کہہ سکتا تب بھی تم سے کبھی نہ کہتا‘ اور اگر تمام انسانوں کو فریب دے سکتا تب بھی تمہیں کبھی نہ دیتا. اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں! میں اللہ کا رسول ہوں تمہاری طرف خصوصاً اور پوری نوعِ انسانی کی طرف عموماً اللہ کی قسم! تم سب یقینا مر جاؤ گے جیسے (روزانہ) سو جاتے ہو‘ پھر یقینا اٹھائے جاؤگے جیسے (ہر صبح) بیدار ہو جاتے ہو. پھر لازماً تمہارے اعمال کا حساب کتاب ہوگا اور پھر لازماً تمہیں پور اپورا بدلہ ملے گا‘ اچھائی کا اچھا اور برائی کا برا‘ اور وہ جنت ہے ہمیشہ کے لیے یاآگ ہے دائمی‘‘.

اب تک کے مطالعے پر ایک نگاہِ بازگشت ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سات آیات میں ایمانیات ِ ثلاثہ یعنی توحید‘ رسالت اور آخرت کا بیان ہو گیا. چنانچہ توحید اور صفات ِ باری تعالیٰ کے ضمن میں چار آیات‘ رسالت کے موضوع پر دو آیات‘ اور آخرت یا معاد کے بارے میں ایک آیت وارد ہوئی. ان ایمانیات ِ ثلاثہ بالخصوص ایمان بالآخرت کی مزید تشریح ایک خطبہ ٔ نبویؐ سے بھی ہمارے سامنے آگئی. اب اگلی یعنی آٹھویں آیت سے ایمان کی پُر زور دعوت دی جا رہی ہے. ارشاد ہوتا ہے: 
فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ النُّوۡرِ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلۡنَا ؕ ’’پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول( ) پر اور اس نور پر جو ہم نے نازل کیا (یعنی قرآن مجید)‘‘ ان الفاظ میں اوّلاً اللہ پر ایمان کی دعوت دی گئی اور پھر ایمان بالرسولؐ کے ساتھ اس نورِ ہدایت پر ایمان کو بھی شامل کر لیا گیا جو وحی اور کتاب کی صورت میں رسولؐ پر نازل کیا گیا. اور چونکہ بعد کی دو آیات (۹ اور ۱۰) میں ایمان بالآخرت کی زوردار دعوت آ رہی ہے لہذا آیت ۸ کے اختتام پر ایک بار (۱) بحوالہ جمھرۃ الخطب‘ ص۵. وفقہ السیرۃ للالبانی‘ ص۹۷پھر اللہ کی صفت ِ علم کا حوالہ دے دیا گیا کہ: وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرٌ ﴿۸﴾ ’’اور جوکچھ تم کر رہے ہو اللہ اس سے باخبر ہے!‘‘ یعنی وہ تمہاری ہر ہر حرکت‘ ہر ہر عمل اورہرہرفعل ہی نہیں‘ تمہاری نیتوں اور ارادوں سے بھی باخبر ہے‘ یہاں تک کہ تمہارے تحت الشعور اور لاشعور بھی اس پر بالکل عیاں ہیں!