ایمان کے پانچ بنیادی لوازم

اب ہم اللہ کے نام سے دوسرے رکوع کا مطالعہ شروع کرتے ہیں. یہ رکوع آٹھ آیات پر مشتمل ہے‘ جن میں سے پہلی پانچ آیات میں ایمان کے پانچ بنیادی نتائج کا ذکر ہے اور بقیہ تین آیات میں ان عملی تقاضوں کو بالفعل ادا کرنے کی تاکیدی دعوت ہے. لہٰذا پہلے ہم ابتدائی پانچ آیات کا مطالعہ کرتے ہیں‘ جن کا متن اور سلیس و رواں ترجمہ حسب ِ ذیل ہے: 

مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱﴾وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّیۡتُمۡ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوۡلِنَا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۲﴾اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۳﴾یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجِکُمۡ وَ اَوۡلَادِکُمۡ عَدُوًّا لَّکُمۡ فَاحۡذَرُوۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تَعۡفُوۡا وَ تَصۡفَحُوۡا وَ تَغۡفِرُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۴﴾اِنَّمَاۤ اَمۡوَالُکُمۡ وَ اَوۡلَادُکُمۡ فِتۡنَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗۤ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱۵

’’نہیں نازل ہوتی کوئی مصیبت مگر اللہ کی اجازت سے.اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کوہدایت دیتا ہے. اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والاہے. اور اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو (اس کے) رسول( ) کی. پھر اگر تم نے روگردانی کی تو (جان رکھو کہ) یقینا ہمارے رسول پر تو صرف صاف صاف پہنچا دینے کی ذمہ داری ہے. اللہ وہ ہستی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ہے‘ پس اہل ایمان کو صرف اللہ پر بھروسہ کرنا چاہیے. اے اہل ایمان! یقیناتمہاری بیویوں اور تمہاری اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ہیں‘ پس ان سے بچ کر رہو‘ اور اگر تم معاف کر دیا کرو اور چشم پوشی سے کام لواور بخش دیا کرو تو بے شک اللہ بھی بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے. بلاشبہ تمہارے مال اورتمہاری اولاد (تمہارے حق میں) فتنہ ہیں‘ اور اللہ ہی ہے جس کے پاس بڑا اجرہے‘‘.

جیسا کہ اس سے قبل عرض کیا جا چکا ہے ‘اس سورۂ مبارکہ کے دوسرے رکوع میں جو آیات ہیں ان میں نہایت جامعیت کے ساتھ ایمان کے مقتضیات و متضمنات ‘ مضمرات و مقدرات اور ثمرات و نتائج کا ذکر ہے. گویا ان مضمرات کو کھولا گیا ہے جو ’’ایمان‘‘ میں بالکل اسی طرح مخفی ہیں جیسے آم کی گٹھلی میں آم کا پورا درخت 
بِالقُوّہ (in potential) موجود ہوتا ہے‘ اس لیے کہ ’’ایمان‘‘ ایک خاص ما بعد الطبیعیاتی فکر کا عنوان ہے جس سے انسان کا ایک خاص زاویۂ نظر بننا چاہیے اور انسان کے اندازِ فکر میں ایک مخصوص تبدیلی پیدا ہونی چاہیے‘ اور زاویۂ نگاہ اور طرزِ فکر کی اس تبدیلی کے نتیجے میں اس کی پوری زندگی میں ایک انقلاب آ جانا چاہیے. اگر یہ انقلاب بالفعل رونما نہیں ہوتا تو اس کا صاف مطلب یہ ہوگا کہ ابھی ایمان کا اقرار صرف نوکِ زبان تک محدود ہے اور اس نے انسان کی فکر میں جڑیں نہیں پکڑیں. اس بات کو اس مثال سے نہایت آسانی کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک تو ایسا ٹُنڈ منڈ درخت ہوتا ہے جس میں نہ پتے ہوتے ہیں‘ نہ پھول نہ پھل. اور ایک ایسا سرسبز و شاداب اور بار آور اور مثمر درخت ہوتا ہے جس میں خوبصورت پتے بھی ہیں اور حسین و دلفریب پھول یا میٹھے اور فرحت بخش پھل بھی. تو معاذ اللہ‘ ایمانِ حقیقی کسی ٹُنڈ منڈ درخت کے مانند نہیں ہوتا‘ بلکہ ایک سر سبز و شاداب اور مثمر و بار آور درخت کے مشابہ ہوتا ہے. چنانچہ جب ایمان اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ سے آگے بڑھ کر تَصْدِیْقٌ بِالْقَلْبِ کی صورت اختیار کرتا ہے اور دل میں راسخ ہو جاتا ہے‘ گویا جب انسان کا باطن نورِ ایمان سے منور ہو جاتا ہے تو اس کے اثرات اور اس کے ثمرات و نتائج انسانی شخصیت میں لازماً ظاہر ہوتے ہیں.

اس بات کو یوں کہہ لیجیے کہ اگر کوئی شخص سلیم الفطرت ہے‘ گویا اس کے قلب کی زمین صالح ہے‘ تو جب اس میں ایمان کا بیج جمتا اور پھوٹتا اور نشوونما پاتا ہے تو وہ رفتہ رفتہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے. اس درخت میں خوبصورت پتے بھی لگتے ہیں اور حسین و جمیل پھول بھی‘ جو وقت آنے پر خوش ذائقہ اور رسیلے پھلوں کی صورت اختیار کر لیتے ہیں. ایمان کے اس شجرۂ طیبہ پر جن ثمراتِ طیبات کا ظہور ہوتا ہے ان میں سے پانچ کا ذکر ان پانچ آیات میں ہے. یعنی: (۱) تسلیم و رضا (۲)اطاعت و انقیاد (۳) توکل و اعتماد (۴) ان خطرات سے متنبہ اور چوکس و چوکنا رہنا جو علائقِ دُنیوی خصوصاً بیویوں اور اولاد کی فطری محبت کے پردے میں انسان کے دین و ایمان اور آخرت و عاقبت کے لیے بالقوہ مضمر ہوتے ہیں اور (۵) مال و اولاد کے بارے میں آگاہ رہنا کہ یہ امتحان اور آزمائش کے ذرائع ہیں!

الغرض اگر کسی انسان کے دل میں ایمانِ حقیقی راسخ ہو جائے اور اس سے اس کا باطن منور ہو جائے تو اس کے نتیجے میں اس کی پوری شخصیت میں ایک تغیر اور انقلاب واقع ہو جاتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال نے فرمایا : ؎
چوں بجاں در رفت جاں دیگر شود
جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود 

حضرت علامہ نے تو یہ بات قرآن مجید کے بارے میں کہی ہے‘ لیکن چونکہ قرآن منبعِ ایمان ہے‘ لہذا یہی بات ایمان کے بارے میں کہی جا سکتی ہے کہ جب ایمان انسان کے باطن میں سرایت کر جاتا ہے تو اس کے باطن میں ایک انقلاب آجاتا ہے‘اس کی سوچ بدل جاتی ہے‘ اس کا نقطۂ نظر تبدیل ہو جاتا ہے‘ اس کا زاویۂ نگاہ بدل جاتا ہے‘ اس کی اَقدار تبدیل ہو جاتی ہیں. الغرض اس کی پوری سیرت و شخصیت‘ اس کاہر فعل و عمل‘ اس کی پسند و ناپسندکا معیاراور اس کی سعی و جُہد کا رُخ سب بدل کر رہ جاتے ہیں‘اور فی الواقع ایک بالکل نیا انسان وجود میں آجاتا ہے. علامہ اقبال کے محولہ بالا شعر کا دوسرا مصرع بہت معنی خیز بلکہ ذو معنی ہے‘ اس لیے کہ اس میں جہاں ایک جانب اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ جب انسان میں یہ باطنی تبدیلی آجاتی ہے تو اس کے لیے تو کُل جہاں ہی تبدیل ہو جاتا ہے‘ وہاں اس عظیم حقیقت کی جانب بھی راہنمائی موجود ہے کہ افرادِ نوعِ انسانی کا یہ باطنی انقلاب ہی ایک عالمی انقلاب کا پیش خیمہ بنتاہے!

سورۃ التغابن کی جو پانچ آیات اس وقت زیر مطالعہ ہیں‘ اِن میں اللہ تعالیٰ نے نہایت معجز نما اسلوب میں ان پانچ بنیادی تبدیلیوں کی نشاندہی کر دی ہے جو ایمان کے نتیجے میں انسان کے نقطۂ نظر ‘اس کے اندازِ فکر اور اس کے عملی رویے اور روش میں نمایاں اور ظاہر ہو جانی چاہئیں. اس طرح ان آیات کے ذریعے ہمیں ایک کسوٹی مہیا ہو جاتی ہے جس پر اپنے ایمان کو پرکھ سکیں. چنانچہ اگر یہ اثرات و ثمرات ہماری شخصیتوں میں ظاہر ہو گئے ہوں تو ہمیں اللہ کا شکر ادا کرناچاہیے کہ ایمانِ حقیقی کا نور ہمارے دلوں میں موجود ہے‘ اور اگر یہ ظاہر نہیں ہو رہے ہیں تو گویا یہ ایک تنبیہہ ہے کہ ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کہیں ایمانِ حقیقی کی روشنی سے محروم تو نہیں ہیں!

ایمان کے پانچ اساسی ثمرات کا بیان ان آیات ِ مبارکہ میں جس حکیمانہ ترتیب 
کے ساتھ ہوا ہے اس کے صحیح فہم و شعور کے لیے پہلے اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ اوّلاً ہر انسان اپنی انفرادی حیثیت میں انسانی معاشرے کی مکمل اکائی کا درجہ رکھتا ہے‘ اور ثانیاً اس کا اپنے معاشرے اور ماحول کے ساتھ گہرا ربط و تعلق ہوتا ہے. پھر ایک فرد کی حیثیت سے بھی انسان کی شخصیت کے دو رُخ ہیں. یعنی ایک تو وہ خارجی حالات و واقعات اور تغیرات و حوادث ہیں جو اس پر اثر انداز ہوتے ہیں اور دوسرے وہ افعال و اعمال ہیں جو اس کے اعضاء و جوارح اور فی الجملہ پورے وجود سے ’’صادر‘‘ ہوتے ہیں. اسی طرح ہر فرد اپنے گردوپیش اور معاشرے و ماحول سے دو قسم کے بندھنوں میں بندھا ہوا ہے‘ ایک علائقِ دُنیوی اور دوسرے مال و اسبابِ دُنیوی‘ جنہیں علامہ اقبال مرحوم نے نہایت خوبصورتی سے اس شعر میں سمو دیا ہے کہ: ؎

یہ مال و دولتِ دنیا‘ یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں‘ لا الٰہ الاّ اللہ!

پھر دو آیات میں انسان سے صادر ہونے والے اعمال و افعا ل کے ضمن میں دوپہلوؤں سے ایمان کے اثرات کا بیان ہے اور آخری دو آیات میں ’’مال ودولتِ دنیا‘‘ اور ’’رشتہ و پیوند ِ دُنیوی‘‘ کے ضمن میں ایک مؤمن کے نقطۂ نظر کو واضح کیاگیا ہے.