سب سے پہلی بات مصائب ِ دُنیوی کے بارے میں فرمائی گئی . فرمایا: مَاۤ اَصَابَ مِنۡ مُّصِیۡبَۃٍ اِلَّا بِاِذۡنِ اللّٰہِ ؕ ’’نہیں نازل ہوتی کوئی مصیبت مگر اللہ کی اجازت سے‘‘. آیت کے اس چھوٹے سے ٹکڑے میں معانی و مفاہیم کا ایک خزینہ پنہاں ہے.اس کی قدرے تشریح و توضیح کی جائے تو وہ یہ ہو گی کہ اگر تم ایک علیم اور حکیم اللہ کو مانتے ہو کہ وہ ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے‘ اور یہ بھی تسلیم کرتے ہو کہ وہی اس کائنات کا اصل حکمران ہے اور اس کے اِذن کے بغیر ایک پتہ تک نہیں ہل سکتا ‘تو اس کا لازمی اور منطقی نتیجہ یہ ہے کہ کوئی مصیبت‘ کوئی تکلیف‘ کوئی نقصان‘ کوئی حادثہ‘ کوئی موت‘ کوئی افتاد اور کسی بھی قسم کے ناخوشگوار واقعات و حوادث اِذنِ خداوندی کے بغیر وارد اور ظہور پذیر نہیں ہو سکتے اب جو چیز اُس اللہ کے اِذن سے ہو جو سمیع بھی ہے اور بصیر بھی‘ علیم بھی ہے اور خبیر بھی اور ان سب پر مستزاد کامل حکیم بھی‘ تو اس پر شکوہ و شکایت کیسی اور اس پر دل میں تکدّر کیوں؟
واضح رہے کہ یہاں اس صدمہ اور ملال کی بات نہیں ہو رہی جس کا فوری اور غیراختیاری اثر طبیعت پر ہوتا ہے ‘بلکہ یہاں اس حقیقت کی جانب رہنمائی ہو رہی ہے کہ بندۂ مؤمن کا قلب ناخوشگوار واقعات و حوادث سے کوئی مستقل تأثر قبول نہیں کرتا.چنانچہ نہ اس کی زبان پر گلہ اور شکوہ آتا ہے اور نہ ہی اس کے دل میں اپنے ربّ کی جانب سے کسی بدگمانی کا شائبہ پیدا ہوتا ہے‘ بلکہ ان مصائب و آلام پر بھی اس کا ردِّعمل بالکل وہی ہوتا ہے جو اس مصرعے میں بیان ہوا ہے کہ ؏ ’’ہر چہ ساقی ٔ ماریخت عین الطاف است‘‘ (میرے ساقی نے میرے پیمانے میں جو بھی ڈال دیا ہے وہ سراسر اس کا لطف و کرم ہے) اس لیے کہ توحید پر ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ انسان کو یہ یقین ہو کہ جملہ واقعات و حوادث خواہ وہ اس عالمِ اسباب و عِلل کے کتنے ہی طول طویل سلسلے کے نتیجے میں ظہور پذیر ہو رہے ہوں‘ چونکہ ان جملہ اسباب و علل کا آخری سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ لہذا مسبّبِ حقیقی اور مؤثرِ حقیقی اس کے سوا اور کوئی نہیں. لہذا ان حوادثِ دُنیوی پرایک بندۂ مؤمن کا ردِّعمل یہی ہونا چاہیے کہ اگر میرے ربّ کو یہی منظور ہے تو میں بھی اس پر راضی ہوں. اسی کو مقامِ تسلیم و رضا کہتے ہیں جس کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا ہے: ؎
بروں کشید ز پیچاکِ ہست و بود مرا
چہ عقدہ ہا کہ مقامِ رضا کشود مرا
یعنی اس مقامِ رضا نے میرے کیسے کیسے عقدے حل کر دیے کہ میں اس پیچ و تاب سے بالکل نجات پا گیا کہ ایسا کیوں ہے اور ویسا کیوں نہیں ہے‘ اور یہ کیوں ہوا ‘ وہ کیوں نہ ہوا؟
چنانچہ اسی کا ذکر ہے آیت کے بقیہ حصے میں کہ : وَ مَنۡ یُّؤۡمِنۡۢ بِاللّٰہِ یَہۡدِ قَلۡبَہٗ ؕ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿۱۱﴾ ’’اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے اللہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے‘ اور اللہ ہر چیز کا علم رکھنے والا ہے.‘‘ یعنی جب انسان قلبی ایمان و یقین کے نتیجے میں اس حقیقتِ نفس الامری کا ادراک حاصل کر لیتا ہے کہ اس کائنات اور عالمِ اسباب و علل میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اذنِ خداوندی سے ہو رہا ہے‘ تو اللہ اس کے دل کو تسلیم و رضا کی ہدایت بخشتا ہے اور اسے قلبی اطمینان و سکون کی دولت سے نوازتا ہے. اور جب انسان اس مقامِ تسلیم و رضا پر پہنچ جاتا ہے تو اس کے احساسات فی الواقع یہ ہو جاتے ہیں کہ مجھے بھی وہی پسند ہے جو میرے ربّ نے میرے لیے پسند کیا ہے‘ وہ میرا مولیٰ ہے‘ آقا ہے‘ پروردگار ہے‘ خالق و مالک ہے اور مزید برآں میرا خیر خواہ ہے‘ جو میری مصلحتوں کو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے لہذا مجھے اس کا ہر فیصلہ بسر و چشم قبول ہے. گویا ؏
’’سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے!‘‘
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ؎
نہ شود نصیبِ دشمن کہ شود ہلاکِ تیغت
سرِ دوستاں سلامت کہ تو خنجر آزمائی!
جب کسی بندۂ مؤمن کے دل میں راضی برضائے ربّ ہونے کی یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو اسے سینکڑوں الجھنوں سے نجات مل جاتی ہے‘ اور اس کے نہاں خانۂ قلب میں نہ حزن و ملال مستقل طو رپر ڈیرہ ڈال سکتے ہیں‘ نہ حسرتوں کے الاؤ سلگتے ہیں اور نہ ہی اسے گوناگوں قسم کی محرومیوں اور دل شکنیوں کے اس کرب سے سابقہ پیش آتا ہے جو بسا اوقات اختلالِ ذہنی کا سبب بنتا ہے اور اگر شدت اختیار کر جائے تو خود کشی تک پر منتج ہوجاتا ہے.