ہمارے وجود سے صادر ہونے والے افعال و اعمال کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے. چنانچہ اس کو بھی یہاں واضح کر دیا گیا. ارشاد ہوتا ہے : اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ؕ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلۡیَتَوَکَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۱۳﴾ ’’اللہ ہی وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ لہذا اہل ایمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ رکھنا چاہیے!‘‘یعنی ایمان کے نتیجے میں ہمارا سارا بھروسہ‘ سارا تکیہ‘ سارا اعتماد اور سارا توکّل اللہ کی ذات پر ہونا چاہیے‘ اگرچہ ہم اس اسباب و علل کی دنیا میں ساز و سامان اور ذرائع و وسائل سے مستغنی نہیں ہو سکتے اور اپنی امکانی حد تک ہمیں اسباب بھی فراہم کرنے ہوں گے‘ جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا: وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ... (الانفال:۶۰یعنی اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے تیاری کرو اور مقدور بھر جو ساز و سامان فراہم کر سکتے ہو فراہم کرو. اور جیسے نبی کریمنے تعلیم دی کہ ’’پہلے اونٹ کو باندھو‘ پھر اللہ پر بھروسہ کرو‘‘. جس کی بہترین ترجمانی مولانا روم نے اس مصرع میں فرمائی ہے ؏ ’’بر توکّل زانوئے اشتربہ بند!‘‘چنانچہ اپنی استطاعت کے مطابق دُنیوی اور مادی اسباب اور ساز و سامان فراہم کرنا ایمان کے منافی نہیں ہے‘ لیکن اگر یہ خیال ہو گیا کہ مجرد اِن اسباب و وسائل اور ساز و سامان سے کام ہو جائے گا‘ گویا اصل بھروسہ‘ اعتماد اورتکیہ اپنی محنت‘ اپنی تیاری اور اپنے ساز و سامان پر اور اصل توکل مادی اسباب و وسائل پر کیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ کی ذات سے ہماری نگاہیں ہٹ گئیں اور ہم اس سے محجوب ہو گئے‘ اس کی کمالِ قدرت کا یقین دل میں قائم نہیں رہا. حاصلِ کلام یہ کہ اس عالمِ اسباب میں محنت و کوشش اپنی جگہ ضروری ہے اور امکانی حد تک اسباب و وسائل کی فراہمی اور ان کا استعمال بھی لازمی ہے‘ لیکن توکّل صرف اور صرف اللہ کی ذات پر ہو گا. ان تین آیاتِ مبارکہ میں انفرادی سطح پر ایمان کے ثمرات و نتائج کا بیان مکمل ہو گیا.