یہ بات بھی جان لیجیے کہ انکارِ قیامت اور انکارِ آخرت کی متعدد شکلیں قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں. چنانچہ منکرین کا ایک استبعاد اور استعجاب تو وہ ہے جو قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف اسالیب سے بیان ہوا ہے. اس کی صرف دو مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے. سورۂ قٓ میں فرمایا:
ءَاِذَا مِتۡنَا وَ کُنَّا تُرَابًا ۚ ذٰلِکَ رَجۡعٌۢ بَعِیۡدٌ ﴿۳﴾
’’(یہ کافر کہتے ہیں) کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے (تو دوبارہ اٹھائے جائیں گے ؟) یہ لوٹنا بہت دور کی بات ہے.‘‘
سورۂ یٰسٓ میں ‘جسے نبی اکرمﷺ نے قرآن مجید کا قلب قرار دیا ہے‘ ارشاد ہوتا ہے:
اَوَ لَمۡ یَرَ الۡاِنۡسَانُ اَنَّا خَلَقۡنٰہُ مِنۡ نُّطۡفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیۡمٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۷۷﴾وَ ضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّ نَسِیَ خَلۡقَہٗ ؕ قَالَ مَنۡ یُّحۡیِ الۡعِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیۡمٌ ﴿۷۸﴾
’’ کیا انسان نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ہم نے اسے نطفہ سے پیدا کیا‘ بایں ہمہ وہ کھلم کھلا جھگڑالو بن کر کھڑا ہو گیا. اور لگا ہماری نسبت باتیں بنانے اور اپنی تخلیق (اصل حقیقت) کو بھول گیا‘ کہتا ہے کہ کون (آدمی کی) ہڈیوں کو دوبارہ زندہ کرے گا جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں؟‘‘
یہیں پر اگلی آیت میں فرمایا:
قُلۡ یُحۡیِیۡہَا الَّذِیۡۤ اَنۡشَاَہَاۤ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ؕ وَ ہُوَ بِکُلِّ خَلۡقٍ عَلِیۡمُۨ ﴿ۙ۷۹﴾
’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے کہ جس نے ان کو اوّل بار پیدا کیا تھا وہی اِن کو دوبارہ زندہ کرے گا. اور سب خلق اس کے علم میں ہے.‘‘
یہ تو منکرین کا استعجابی انداز سے انکار کا ذکر ہوا. ایک صاف اور صریح انکار بھی ہے کہ مرنے کے بعد کوئی جی اُٹھنا نہیں ہے‘ کوئی آخرت نہیں ہے‘ زندگی بس اس دنیا ہی کی زندگی ہے. اس کو الحاد اور دہریت کہا جاتا ہے. اور یہ نہ سمجھئے کہ یہ صرف عہد ِحاضر کی ضلالت ہے‘ اس خیال کے لوگ اُس وقت بھی موجود تھے جب قرآن مجید نازل ہو رہا تھا ‘ چنانچہ اُن کا قول سورۃ الجاثیہ میں نقل ہوا ہے:
وَ قَالُوۡا مَا ہِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا نَمُوۡتُ وَ نَحۡیَا وَ مَا یُہۡلِکُنَاۤ اِلَّا الدَّہۡرُ ۚ (آیت ۲۴)
’’اور وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہے کوئی زندگی سوائے ہماری اس دنیا کی زندگی کے‘ ہم خود ہی مرتے ہیں اور خود ہی جیتے ہیں اور ہمیں ہلاک کرنے والی کوئی چیز نہیں ہے سوائے گردشِ زمانہ کے.‘‘
اس قول میں انکارِ آخرت ہی نہیں‘ اللہ کا انکار بھی بین السطور موجود ہے. یہ خالص الحاد و دہریت ہے جس کا پورا خلاصہ قرآن حکیم کی اس ایک آیت میں نقل کر دیا گیا ہے.
انکار کی ایک تیسری شکل یہ ہے کہ نہ انکار ہو نہ اقرار‘ لیکن ظاہر ہے کہ اس کا عملی نتیجہ وہی نکلتا ہے جو صریح انکار کاہے! قرآن مجید میں یہ شکل بھی کچھ لوگوں کے اس قول کی صورت میں بیان ہوئی ہے :
...اِنۡ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحۡنُ بِمُسۡتَیۡقِنِیۡنَ ﴿۳۲﴾ (الجاثیۃ)
’’(آخرت کا) کچھ گمان سا تو ہوتا ہے (کہ شاید واقع ہو)‘ لیکن اس پر ہمارا دل نہیں ٹھکتا (یقین حاصل نہیں ہوتا).‘‘
ظاہر بات ہے کہ جب یہ شکل ہوگی تو انسان کا رویہ اور اس کا طرزِ عمل ان ہی لوگوں سے مشابہ اور مطابق ہوگا جو آخرت کو نہیں مانتے ‘ اگرچہ منطقی طور پر یہ نہ صریح انکار ہے نہ واضح اقرار!
سب سے زیادہ خطرناک صورت یہ ہے کہ بظاہر پورے طور پر اقرار موجود ہو لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں مانی گئی ہوں جن کے نتیجے میں یہ اقرار اور یہ ایمان بالآخرت بالکل غیر مؤثر ہو جائے اور اس کا انسان کے عمل اور اس کے اخلاقی رویّے پر کوئی صحت مند اور صالح اثر مترتب نہ ہو. اس کی بھی تین شکلیں قرآن حکیم میں بیان ہوئی ہیں. سب سے پہلے شفاعت ِ باطلہ کا تصور ہے کہ آخرت ہوگی تو سہی‘ لیکن ہماری کچھ دیویاں اوردیوتا ہیں‘ یا کچھ مقربین ِبارگاہِ خداوندی ہیں جو ہمیں وہاں سے چھڑا لیں گے. ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ ؕ (یونس: ۱۸) ’’یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں‘‘. ظاہر ہے کہ اس شکل میں بھی آخرت کا ماننا نہ ماننا برابر ہوگیا. واضح رہے کہ یہاں شفاعت ِ باطلہ کا ذکر کیا جا رہا ہے‘ نہ کہ اُس شفاعت ِحقہ کا جس کا ثبوت قرآن اور حدیث دونوں سے ملتا ہے اور جو تین شرائط سے مشروط ہے یعنی اوّلاً یہ کہ یہ اُسی کی جانب سے ہوگی جسے بارگاہِ خداوندی سے اِذن مل جائے‘ پھر اُسی کے حق میں ہوگی جس کے لیے اجازت ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مبنی برحق و انصاف ہوگی‘ نہ کہ عدل و قسط کے تقاضوں کو پامال کرنے والی.
قرآن حکیم میں آخرت کے اس انکار مع الاقرار کی دوسری شکل یہ بیان ہوئی ہے کہ کچھ مرفہ الحال اور دولت مند لوگ اپنی دولت مندی اور آسودہ حالی کو اپنے اس زعم کی دلیل بنا لیتے ہیں کہ ہم تو اللہ کے چہیتے ہیں‘ اورہم پر اس دنیا میں بھی اللہ کا فضل ہو رہا ہے‘ چنانچہ اس نے ہمیں یہاں دولت دی ہے‘ شرف و عزت سے نوازا ہے‘ لہذا اگر آخرت واقع ہو ہی گئی تو وہاں بھی ہم شرف و عزت پائیں گے‘ قطع نظر اس سے کہ ہمارے اعمال کیا ہیں! سورۃ الکہف میں دو افراد کے مکالمہ کے ضمن میں ایک ایسے ہی برخود غلط شخص کا قول نقل ہوا ہے کہ :
وَّ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّدِدۡتُّ اِلٰی رَبِّیۡ لَاَجِدَنَّ خَیۡرًا مِّنۡہَا مُنۡقَلَبًا ﴿۳۶﴾
’’(اوّل تو) مجھے یقین ہی نہیں ہے کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے‘ اور اگر (بالفرض) مجھے اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ہی دیا گیا تو میں لازماً وہاں پہنچ کر بھی اس سے بہتر پاؤں گا.‘‘
یہی بات سورۂ حٰمٓ السجدۃ میں ایک دوسرے اسلوب سے بیان فرمائی گئی ہے. وہاں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَئِنۡ اَذَقۡنٰہُ رَحۡمَۃً مِّنَّا مِنۡۢ بَعۡدِ ضَرَّآءَ مَسَّتۡہُ لَیَقُوۡلَنَّ ہٰذَا لِیۡ ۙ وَ مَاۤ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَآئِمَۃً ۙ وَّ لَئِنۡ رُّجِعۡتُ اِلٰی رَبِّیۡۤ اِنَّ لِیۡ عِنۡدَہٗ لَلۡحُسۡنٰی ۚ فَلَنُنَبِّئَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا بِمَا عَمِلُوۡا ۫ وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنۡ عَذَابٍ غَلِیۡظٍ ﴿۵۰﴾
’’اور(انسان کا حال یہ ہے کہ) اگر ہم اسے اپنی رحمت سے (آسودگی سے) نوازتے ہیں کچھ تکلیف کے بعد جو اسے پہنچی ہو توکہنے لگتا ہے کہ یہ تو میرا حق ہے ہی‘ اور(رہی قیامت‘ تو اوّل تو) مجھے یہ گمان (اور اندیشہ ) ہے ہی نہیں کہ قیامت واقع ہونے والی ہے‘ تاہم اگر میں اپنے ربّ کی طرف لوٹا ہی دیا گیا تو بھی میرے لیے اُس کے ہاں اچھائی ہی اچھائی ہو گی . پس ہم لازماً جتلا دیں گے منکروں کو جو انہوں نے کیا ہے اور ہم انہیں لازماً چکھائیں گے ایک گاڑھا عذاب.‘‘
اس انکار مع الاقرار کی تیسری و آخری شکل جو سب سے زیادہ لطیف لیکن اتنی ہی زیادہ خطرناک بھی ہے‘ یہ ہے کہ شیطان انسان کو اللہ کی شانِ رحیمی اور شانِ غفاری کے حوالے سے دھوکہ دیتا ہے کہ وہ بڑا بخشن ہارہے‘ بڑا نکتہ نواز ہے ‘ لہذا وہ تمہیں معاف کر ہی دے گا. سورۃ الحدید میں تفصیلا ً ذکر ہے کہ آخرت میں منافقین پکار پکار کر اہل ِایمان سے کہیں گے کہ کیا ہم دنیا میں تمہارے ساتھ بحیثیت مسلمان شامل نہ تھے‘ پھر یہاں ہمیں تم سے کیوں جدا کر دیا گیا؟ تو اہل ایمان سے جواب دلوایا جائے گا کہ تم بظاہر تو مسلمان تھے لیکن اعمال کے اعتبار سے اور ایمان‘ بالخصوص ایمان بالآخرت کے لحاظ سے تم نے اپنے آپ کو ریب و تشکک اور تربص و تردّدمیں مبتلا کر رکھا تھا. آیت ِ مبارکہ کے آخری الفاظ ہیں:
وَ غَرَّتۡکُمُ الۡاَمَانِیُّ حَتّٰی جَآءَ اَمۡرُ اللّٰہِ وَ غَرَّکُمۡ بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۱۴﴾ (الحدید)
’’اور تم کو تمہاری تمناؤں (پر مبنی من گھڑت خیالات) نے دھوکے میں ڈال رکھا تھا یہاں تک کہ اللہ کا حکم آ پہنچا (یعنی مہلت ِ عمر تمام ہوئی) اور تمہیں خوب دھوکہ دیا اللہ پر (یعنی اس کی شانِ رحیمی و غفاری کے حوالے سے) اس بڑے دھوکہ باز (یعنی شیطان لعین ) نے!‘‘
مزید برآں آخری پارے کی ایک عظیم سورۃ یعنی سورۃ الانفطار کا تو مرکزی مضمون ہی یہی ہے: یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الۡکَرِیۡمِ ۙ﴿۶﴾ ’’اے انسان! تجھے کس چیز نے اپنے ربِّ کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا ہے؟‘‘ اس لیے کہ جہاں وہ کریم ہے‘ رحیم ہے‘ غفور ہے وہاں وہ عادل و منصف بھی ہے اور ’’قَائِمٌ بِالْقِسْطِ‘‘ بھی ‘اور ’’شَدِیْدُ الْعِقَابِ‘‘ بھی ہے اور ’’سَرِیْعُ الْحِسَابِ‘‘ بھی!حتیٰ کہ ’’عَزِیْــزٌ ذُوانْتِقَامٍ‘‘ بھی ہے‘ یعنی زبردست اور شدید انتقام لینے والا. (اے اللہ! ہم تیری اس شانِ انتقام سے تیری ہی رحمت کے دامن میں پناہ کے طالب ہیں!)
پس انکارِ آخرت کی یہ مختلف شکلیں ہیں. یہاں ان کا اختصار کے ساتھ تجزیہ اس لیے کر دیا گیا ہے کہ ہم بھی اپنے ذہنوں کا بھرپور جائزہ لیں اور اپنے دلوں کو ٹٹولیں . مبادا ہمارے قلوب و اَذہان اور فکر و نظر میں بھی اس قسم کے بے بنیاد وسوسوں اور موہوم خیالات کا عکس موجود ہو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ بظاہر ہم مطمئن ہوں کہ ہم آخرت کے ماننے والے ہیں لیکن غیر محسوس طور پر ہمارے تحت الشعور میں اس قسم کے مغالطے موجود ہوں جن کا اس درس میں ذکر کیا گیا ہے.
یہ تمام باتیں جو اَب تک پیش کی گئی ہیں‘ تمہیدی نوعیت کی ہیں. البتہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور اہم بات بھی اس موقع پر اجمالاً عرض کر دی جائے‘ اور وہ یہ کہ قیامت سے مراد کیا ہے؟ اس دنیا کا خاتمہ یا پوری کائنات کا خاتمہ؟ اس ضمن میں قرآن حکیم میں تین مراحل کا ذکر آتا ہے. ایک اس دنیا اور اس کے نوامیس و قوانین کے خاتمے کا مرحلہ ہے. دوسرا بعث بعد الموت کا مرحلہ ہے جس سے حیاتِ اُخروی کا آغاز ہوگا اور جزا و سزا کے فیصلے نافذ ہوں گے. تیسرا اس پوری کائنات کے آخری انجام کا مرحلہ ہے. تدبر قرآن کے ضمن میں یہ نکتہ بہت اہم ہے کہ قرآن حکیم زیادہ تر گفتگو پہلے دو مرحلوں کے بارے میں کرتاہے. تیسرے مرحلے کے بارے میں کوئی تفصیلی وضاحت قرآن مجید میں موجود نہیں ہے‘ چنانچہ اس کے بارے میں ہم یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے! پہلے مرحلے کو قرآن مجید بہت سے ناموں سے موسوم کرتا ہے. اس کے لیے سب سے زیادہ کثیر الاستعمال لفظ ’’اَلسَّاعَۃُ‘‘ ہے ‘ یعنی وہ متعین گھڑی جب ایک بڑی ہل چل مچے گی‘ ایک بہت بڑی تباہی آئے گی‘ دنیا کا موجودہ نظام درہم برہم ہو جائے گا‘ اجرامِ فلکیہ ایک دوسرے سے ٹکرا جائیں گے اور پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی مانند ہو جائیں گے. یہ نقشہ ہے ’’اَلسَّاعَۃُ‘‘ کا. اسی کو اَلْقَارِعَۃُ‘ اَلْحَآقَّۃُ‘ اَلطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی اور اَلصَّآخَّۃُوغیرہ جیسے الفاظ سے بھی تعبیر کیا گیا ہے. دوسرا مرحلہ ہے بعث بعد الموت کا‘ جس کے بعد تمام اوّلین و آخرین اور کل جن و اِنس عدالت ِ اُخروی میں حساب کتاب کے لیے پیش ہوں گے. قرآن حکیم کے متعدد مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ حشر کا وہ دن نہایت طویل بھی ہوگا اور حد درجہ ہولناک بھی ‘ جیسے سورۃ المزمل میں فرمایا: یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا ﴿٭ۖ۱۷﴾ ’’وہ دن جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا‘‘. اور ہمارے ایک سابقہ درس (سورۃ النور) میں یہ الفاظ آ چکے ہیں : یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ ’’وہ دن ‘جب دل اور نگاہیں سب کے سب اُلٹ جائیں گے!‘‘ اس کے لیے بھی قرآن مجید میں متعدد الفاظ آتے ہیں‘ چنانچہ اسے ’’ یَوْمُ الدِّیْنِ‘‘ بھی کہا گیا ہے اور ’’ یَوْمُ الْفَصْلِ‘‘ بھی‘ پھر اسی کو ’’ یَوْمُ التَّغَابُنِ‘‘ بھی قرار دیا گیا ہے اور ’’یَوْمُ الْحِسَابِ‘‘ بھی‘ لیکن اس کے لیے سب سے زیادہ کثیر الاستعمال نام ’’یَوْمُ الْقِیَامَۃِ‘‘ ہے ‘یعنی کھڑے ہونے کا دن‘ جس کی وضاحت ایک دوسرے مقام پر سورۃ المُطَفّفین میں ان الفاظ سے کی گئی ہے:
یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ؕ﴿۶﴾
’’وہ دن جس میں تمام انسان پروردگارِ عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے!‘‘