پہلی دو آیات : قیامت کے دن اور نفسِ ملامت گر کی قسم

لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾وَ لَاۤ اُقۡسِمُ بِالنَّفۡسِ اللَّوَّامَۃِ ؕ﴿۲
’’نہیں! میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور نہیں! میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی!!‘‘

سورۃ القیامۃ کی ابتدائی دو آیتوں میں وارد شدہ قسموں میں اللہ تعالیٰ نے اس تمام استدلال کو کمالِ ایجاز و اعجاز کے ساتھ سمو دیا ہے جو اثباتِ آخرت اور وقوعِ قیامت کے ضمن میں طویل مکی سورتوں میں شرح و بسط اور اطناب و تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے.

اِن دونوں قسموں کے نفسِ مضمون پر کلام سے قبل اس حرفِ نفی ’’لَا‘‘ کے بارے میں وضاحت مناسب ہے جو دونوں قسموں سے متصلاً قبل اور دونوں آیتوں کے شروع میں آیا ہے. یہ قرآن حکیم کا ایک خاص اسلوب ہے جو اس سورۂ مبارکہ کے علاوہ قرآن مجید کی چھ مزید سورتوں (اَلْوَاقِعَۃ‘ اَلْحَاقَّـۃ‘ المَعَارِج‘ التَّـکْوِیْر‘ الْاِنْشِقَاق اور اَلْبَلَد) میں بھی وارد ہوا ہے‘ اور اس کے بارے میں اگرچہ بعض دوسری آراء اور تاویلات بھی موجود ہیں ‘ تاہم بہترین رائے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگرچہ یہ رسم الخط کے اعتبار سے تو ’’لاءِ متصل‘‘نظر آتا ہے‘ لیکن واقعتاً ’’لاءِ منفصل‘‘ ہے‘ یعنی حرفِ نفی ’’لَا‘‘علیحدہ ہے اور ’’اُقْسِمُ‘‘ علیحدہ. تاہم عربی زبان میں چونکہ انگریزی کی طرح علامتیں اور اوقاف نہیں ہیں لہذا یہ فرق اسلوبِ بیان اور مضمون کے سیاق و سباق پر غور کرنے ہی سے سمجھ میں آتا ہے. اسے یوں بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ جب ایک خطیب خطبہ شروع کرتا ہے تو اس کے سامنے اس کے جو سامعین ومخاطبین ہوتے ہیں‘ ان کے ذہنوں میں کچھ اشکالات‘ اعتراضا ت اور سوالات ہوتے ہیں. چنانچہ خطیب ان کی تردید سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتا ہے اور کہتا ہے ’’لَا‘‘ یعنی ہرگز نہیں! تمہارے خیالات غلط ہیں‘ تمہارے اشکالات باطل ہیں‘ تمہارے اعتراضات بے وزن ہیں اور پھر اپنے موقف کو بیان کرنے سے قبل اپنے یقین واِذعان کے اظہار کے لیے کوئی قسم کھاتا ہے جس کے لیے لفظ ’’اُقْسِمُ‘‘ استعمال کرتا ہے‘ جیسے یہاں قسم کھائی گئی. یعنی ’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی‘‘. گویا قیامت اتنی یقینی‘ اتنی حتمی اور اتنی قطعی ہے کہ میں اس کی قسم کھا رہا ہوں. اسی طرح دوسری آیت پڑھئے : ’’اور نہیں! میں قسم کھاتا ہوں نفس ملامت گر کی‘‘. یہ آغاز خود بتا رہا ہے کہ یہ انداز و اسلوب خطیبانہ ہے. جیسے ایک خطیب پہلے سے جانتا ہے کہ اس کے سامنے جو سامعین و حاضرین موجود ہیں اور اس کے جو مخاطبین ہیں‘ ان کے ذہنوں میں کیا کیا وسوسے‘ کیا کیا اشکالات اور کیا کیا اعتراضات ہیں ‘ اور وہ کن کن وجوہ اور اسباب کی بنیاد پر قیامِ قیامت اور وقوعِ آخرت کو بالکل ناممکن اور بعید از قیاس سمجھ رہے ہیں. لہذا خطیب ان کے تمام اشکالات‘ اعتراضات اور وسوسوں کی نفی و تردید کے لیے لاء نفی سے اپنے خطبے کا آغاز کر رہا ہے.