اور اب توجہ کو مرتکز کیجیے ان دو قسموں کے نفسِ مضمون پر.ان میں سے پہلی قسم ہے خود قیامت کے دن کی. گویا اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تمہارے ذہنوں میں شبہات و اشکالات ہیں‘ تمہارے دلوں میں وسوسے ہیں کہ دنیا کے آغاز سے لے کر قیامِ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان کیسے دوبارہ اٹھائے جاسکیں گے اور انہیں دوبارہ کیسے زندہ کیا جا سکے گا؟پھر ان سب انسانوں کے جملہ اَعمال و اَفعال اور وہ بھی جملہ تفصیلات کے ساتھ کہاں محفوظ ہوں گے؟ مزید برآں ان اعمال و افعال کی پشت پر کارفرما نیّتیں اور ارادے کس کے علم میں ہوں گے؟ لہذا یہ محاسبہ اور جزا و سزا کا معاملہ کیسے ظہور پذیر ہو سکے گا؟ لیکن یہ وقوعِ قیامت اس قدر یقینی‘ قطعی اور حتمی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’میں اس دن کی قسم کھاتا ہوں‘‘.یہاں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس میں دلیل کون سی ہے ؟ اس لیے کہ اگر کوئی شخص کوئی دعویٰ پیش کرے اور اس سے اس دعوے کے لیے کوئی دلیل طلب کی جائے تو جواب میں وہ اس پر صرف قسم کھانے پر اکتفا کرے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ عقلی اور منطقی اعتبار سے اس نے کوئی دلیل پیش نہیں کی . لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس اسلوب اور اصول میں بھی ایک دلیل مضمر ہے‘ اور وہ دلیل ہوتی ہے خود متکلم کی شخصیت کی. اگر کوئی صاحب ِ کردار انسان جس پر اعتماد کیا جا تا ہو‘ جس کی صداقت کی گواہی دی جاتی ہو‘ جب وہ کوئی بات کہتا ہے اور قسم کھا کر کہتا ہے تو اُس کے قسم کھانے سے اس کی بات میں نمایاں وزن پیدا ہو جاتا ہے جو درحقیقت اور اصلاً اس شخص کی اپنی شخصیت کا ہوتا ہے. اب غور کیجیے کہ یہاں قسم کھانے والا کون ہے! ان لوگوں کے نزدیک جو قرآن مجید کو اللہ کا کلام تسلیم کرتے ہیں‘ قسم کھانے والا خود اللہ ہے.لہذا قرآن مجید کو اللہ کا کلام ماننے والے صاحب ِ ایمان پر تو اس کا لازمی اثر یہ پڑے گا کہ اس کا دل لرز جائے گا اور وہ کانپ اٹھے گا کہ قیامت کا دن اتنا یقینی‘ حتمی اور قطعی ہے کہ خود خالق کون و مکاں نے اس کی قسم کھائی ہے.

رہے وہ لوگ جو قرآن مجید کو اللہ کا کلام نہیں مانتے‘ تو وہ بھی اس قسم کو لامحالہ منسوب کریں گے جناب محمد رسول اللہ  کی طرف. اور اس صورت میں بھی اس قسم کی تاثیر ختم نہیں ہو گی بلکہ باقی رہے گی‘ اس لیے کہ رسول اللہ کی شخصیت ِ مبارکہ اور سیرتِ مطہرہ کا وزن اس کی پشت پر پھر بھی موجود رہے گا کہ یہ قسم وہ کھا رہا ہے جس کی صداقت و امانت کی گواہی اس کے دشمنوں تک نے دی ہے . یہ مضمون اس سے قبل سورۃ التغابن کی آیت ۷ کے الفاظِ مبارکہ 
قُلۡ بَلٰی وَ رَبِّیۡ لَتُبۡعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلۡتُمۡ ؕ ’’(اے نبیؐ !) کہہ دیجیے : کیوں نہیں! اور مجھے میرے ربّ کی قسم ہے کہ تم لازماً دوبارہ اٹھائے جاؤ گے‘ پھر تم لازماً جتلا دیے جاؤ گے جو کچھ تم (دنیا میں) کرتے رہے ہو‘‘ کی تشریح و توضیح کے ضمن میں بیان ہو چکا ہے. چنانچہ سیرتِ مطہرہ کا اہم واقعہ ہے کہ جب نبی اکرم کے بارے میں اسلام کے سب سے بڑے دشمن ابوجہل سے یہ پوچھا گیا کہ ’’کیا تمہارا گمان یہ ہے کہ محمدؐ جھوٹ بولتے ہیں؟‘‘ تو اس نے کہا: ’’ہرگز نہیں! انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا‘‘. پھر جب پوچھنے والے نے پوچھا کہ ’’پھر تم ان کی تصدیق کیوں نہیں کرتے اور ان پر ایمان کیوں نہیں لاتے؟‘‘

تو اس نے بڑی صفائی کے ساتھ اقرار کیا کہ: ’’اصل معاملہ یہ ہے کہ ہمارے اور بنوہاشم کے مابین ایک مسابقت اور مقابلہ جاری ہے. انہوں نے لوگوں کو کھانے کھلائے تو ہم نے ان سے بڑھ کر کھلائے‘ انہوں نے مہمان نوازیاں کیں تو ہم نے ان سے بڑھ کر کیں‘ ہم اب تک ان کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملائے چلے آ رہے ہیں. اب اگر ہم ان کے ایک فرد کی نبوت کو تسلیم کر لیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم ہمیشہ کے لیے ان کے تابع ہو جائیں گے اور یہ بات مجھے کسی طور پر بھی گوارا نہیں‘‘.معلوم ہوا کہ ابوجہل جیسا دشمنِ خدا و رسول بھی حضرت محمد رسول اللہ پر جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکا. 

یہی وجہ ہے کہ جب رسول کریم  کو حکم ہوا : 
فَاصۡدَعۡ بِمَا تُؤۡمَرُ (الحِجْر:۹۴’’پس اب (اے نبیؐ !) آپ برملا اور ڈنکے کی چوٹ کہیے وہ بات جس کا آپؐ کو حکم ملا ہے‘‘.اور آپؐ پہلے ’’خطابِ عام‘‘ کے لیے کوہِ صفا پر کھڑے ہوئے تو چونکہ اُس زمانے میں رواج تھا کہ اگر کوئی اہم خبر لوگوں کو پہنچانی مقصود ہوتی تھی تو خبر پہنچانے والا کسی بلند مقام پر بے لباس ہو کر کھڑا ہوجاتا تھا اور نعرہ لگاتا تھا’’وَاصَبَاحَاہ‘‘ (ہائے وہ صبح جو آنے والی ہے!)چنانچہ لوگ اس کی آواز سن کر اور جن تک آواز نہیں پہنچتی تھی وہ دور سے یہ دیکھ کر کہ ایک ’’نذیر عریاں‘‘ پہاڑی پر کھڑا ہے‘ اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے. لہذا رسول اللہ نے اس رواج میں یہ ترمیم فرماتے ہوئے کہ کپڑے نہیں اتارے‘ اس لیے کہ یہ بات کسی طرح بھی آپؐ کے شایانِ شان نہ تھی اور آپؐ تو حیا کا پیکر اعظم تھے‘ باقی سارا معاملہ معمول کے مطابق کیا اور کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر بآواز بلند فرمایا: ’’وَاصَبَاحَاہ‘‘ . اور جب آپؐ کی یہ ندا سن کر اور آپؐ کو کوہِ صفا پر کھڑا دیکھ کر لوگ آپؐ کے گرد جمع ہو گئے تو آپؐ نے دعوت پیش کرنے سے پہلے لوگوں سے سوال کیا: ’’لوگو! تم نے مجھے کیسا پایا؟‘‘ مجمع نے بیک زبان تسلیم کیا کہ آپؐ سچے بھی ہیں اور امانت دار بھی! لہذا جو لوگ قرآن مجید کو منزل من اللہ نہیں مانتے اور اُن کے نزدیک اس کلام کے متکلم خود محمد ( ) ہیں‘ ان کے لیے رسول اللہ کی شخصیت کا پورا وزن اور پورا زور اس قَسم کی پشت پر موجود ہے کہ لَاۤ اُقۡسِمُ بِیَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۙ﴿۱﴾ ’’ نہیں!مجھے قسم ہے قیامت کے دن کی‘‘. یعنی میں قیامت کے وقوع کو اتنا یقینی‘ قطعی اور حتمی مانتا ہوں کہ اس کے یقینی اور شدنی ہونے پر خود اسی کی قسم کھاتا ہوں!

جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘ سورۃالتغابن کی آیت ۷ میں نبی اکرم سے جو قَسم کہلوائی گئی تھی اس کا بھی یہی مفاد اور انداز تھا. اصطلاح میں اس کو ’’دلیل ِخطابی‘‘ کہا جاتا ہے جس میں دلیل کی حیثیت متکلم کے اپنے یقین ِواثق اور اس کی اپنی بے داغ شخصیت اور اعلیٰ سیرت کو حاصل ہوتی ہے اور جس کے ذریعے متکلم کا یقین اور اذعان مخاطبین میں منتقل ہوتا اور سرایت کرتا ہے.