آخرت اور قیامت کے انکار کا دوسرا سبب دُنیا کی حد سے بڑھی ہوئی محبت ہے. چنانچہ ارشاد ہوا:

کَلَّا بَلۡ تُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ ﴿ۙ۲۰﴾وَ تَذَرُوۡنَ الۡاٰخِرَۃَ ﴿ؕ۲۱﴾ 
’’ہرگز نہیں! بلکہ تم لوگ عاجلہ سے محبت رکھتے ہو اور آخرت کو چھوڑ دیتے ہو!‘‘

یعنی تمہاری گمراہی کا اصل سبب یہ ہے کہ تم عاجلہ کی محبت میں گرفتار ہو‘ اور اس کے پرستار بن گئے ہو. لفظ ’’عاجلہ‘‘ عجلت سے بنا ہے‘ اس سے مراد ’’دُنیا‘‘ ہے. اس لیے کہ اس کا نفع بھی فوری اور نقد ہے اور نقصان بھی فوری اور نقد ہے. اس کی لذتیں بھی بالفعل محسوس ہوتی ہیں اور اس کی کلفتیں بھی فوری اثر کرنے والی ہوتی ہیں. تم اس عاجلہ سے دل لگائے ہوئے ہو اور آخرت کی زندگی کو نظر انداز اور فراموش کیے ہوئے ہو. یہاں عاجلہ کا لفظ استعمال کر کے اس حقیقت کی جانب توجہ مبذول کرا دی گئی کہ اس دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ فوری لذتوں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور فوری آسائشوں کو قربان نہیں کر سکتے‘ وہ آگے نہیں بڑھ سکتے. اس کے برعکس جنہیں آگے بڑھنا ہوتا ہے اور جو دُور اندیش اور دُور بین ہوتے ہیں وہ فوری راحت و آرام کو تج دیتے ہیں اور سخت محنت کرتے ہیں‘ یہاں تک کہ راتوں کو جاگتے ہیں تاکہ اپنے دُنیوی کیریئر کو روشن بنا سکیں. بالکل اسی طرح جو لوگ دنیا کی فوری لذت اور عیش و راحت کو قربان کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے‘ جو اس عاجلہ (دُنیا) کی محبت میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور اس عروسِ ہزار داماد کی زلف ِگرہ گیر کے اسیر ہوکر رہ جاتے ہیں‘ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ آخرت سے غافل رہتے ہیں اور اللہ کی جناب میں محاسبہ کے لیے کھڑے ہونے کو فراموش کر دیتے ہیں‘ وہ اُخروی زندگی میں لامحالہ ناکام اور خائب و خاسر ہو کر رہیں گے. لیکن افسوس کہ انسان مختصر سی حیاتِ دُنیوی میں تو مستقبل سے غافل نہیں ہوتا‘ لیکن آخرت کی ابدی زندگی سے غافل رہتا ہے اور حیاتِ دُنیوی کو اِس انداز سے بسر کردیتا ہے کہ : ؎

اب تو آرام سے گزرتی ہے
آخرت کی خبر خدا جانے!

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دو حکیمانہ اشعار میں دنیا میں کامیابی اور ناکامی کا نقشہ نہایت خوبصورتی کے ساتھ کھینچ دیا ہے : ؎ 

یَغُوْصُ الْبَحْرَ مَنْ طَلَبَ اللُّؤَالِی
وَمَنْ طَلَبَ الْعُلٰی سَھِرَ اللَّیَالِی
وَمَنْ طَلَبَ الْعُلٰی مِْن غَیْرِ کَدٍّ
اَضَاعَ الْعُمُرَ فِیْ طَلَبِ الْمَحَالِی

’’جو موتیوں کا طالب ہوتا ہے لامحالہ سمندر میں غوطے لگاتا ہے. اور جو بلند مقام حاصل کرنا چاہتا ہے وہ راتوں کو جاگتا ہے. اس کے برعکس جو شخص بغیر محنت و مشقت کے بلند مقام حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اپنی عمر ناممکن چیز کی خواہش میں ضائع کر دیتا ہے.‘‘
گویا بقول حالی مرحوم : ؎ 

تن آسانیاں چاہیں اور آبرو بھی
وہ قوم آج ڈوبے گی گر کل نہ ڈوبی! 

افسوس کہ دنیا میں ایسے انسان تو پھر بھی بہت سے مل جاتے ہیں جو دنیا کے حصول کے لیے محنت و مشقت بھی کرتے ہیں او ر راحت و آرام کو بھی تج دیتے ہیں‘ لیکن آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے اس طرزِ عمل کے اختیار کرنے والے بہت ہی کم ہیں!

۳) تکبر و تمرد :

اس سورۂ مبارکہ میں انکارِ قیامت و آخرت کا جو تیسرا اہم سبب بیان کیا گیا ہے وہ تکبر ہے. ارشاد فرمایا گیا:


فَلَا صَدَّقَ وَ لَا صَلّٰی ﴿ۙ۳۱﴾وَ لٰکِنۡ کَذَّبَ وَ تَوَلّٰی ﴿ۙ۳۲﴾ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی ﴿ؕ۳۳﴾ 
’’پس اس نے نہ تصدیق کی اور نہ نماز ادا کی. بلکہ جھٹلایا اور روگردانی کی. پھر اکڑتا ہوا اپنے گھر والوں کی طرف چل دیا.‘‘

یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ تابعین کرامؒ میں سے جن حضرات کو تفسیر قرآن سے خصوصی شغف تھا‘ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ الفاظ عام ہیں اور ان میں ایک عام متکبر انسان کی نقشہ کشی کی گئی ہے‘ لیکن یہاں معین طو رپر ابوجہل مراد ہے. یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ ابوجہل کے اعراض و انکار اور کفر و تکذیب کا سب سے بڑا سبب تکبر تھا. وہ نبی اکرم کے سامنے نیچا ہونے کے لیے تیار نہیں تھا‘ اسی لیے اس نے تصدیق نہیں کی. 
’’فَلَا صَدَّقَ‘‘ میں اس کی اسی روش کا ذکر ہے. اس لیے کہ اگر وہ رسول اللہ کی تصدیق کرتا جو خبر دے رہے تھے وقوعِ قیامت کی اور جو مدعی تھے اللہ کے نبی اور رسول ہونے کے ‘ تو آپؐ کی تصدیق کے لازمی معنی یہ ہوتے کہ وہ آپؐ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتا اور آپؐ کی اطاعت کلی قبول کرتا ہے‘ اور اس کے لیے اس کی متکبرانہ طبیعت آمادہ نہیں تھی. اسی طرح جو شخص نماز پڑھتا ہے وہ ہمہ تن اللہ کے سامنے جھکتا ہے‘ جس کا نقطہ ٔ آغاز ہے ادب کے ساتھ جھک کر کھڑے ہونا‘ اور پھر درمیانی مقام ہے حالت ِرکوع‘ اور اس کی انتہا ہے حالت ِسجدہ. اب بہت سے انسان اتنے سرکش اور متمرد ہوتے ہیں کہ ان کی اکڑی ہوئی گردنیں اللہ تعالیٰ کے سامنے بھی جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوتیں. الغرض تصدیق اور نماز کی راہ میں رکاوٹ اور انکار و تکذیب پر آمادہ کرنے والی اہم چیز ہے تکبر و تمرد‘ جس کا نقشہ کھینچ دیا گیا ان الفاظِ مبارکہ سے کہ : ثُمَّ ذَہَبَ اِلٰۤی اَہۡلِہٖ یَتَمَطّٰی ﴿ؕ۳۳﴾ ’’پھر وہ چل دیا اپنے گھر والوں کی جانب اکڑتا اور اینٹھتا ہوا!‘‘