اب اس سورۂ مبارکہ کے مضامین کے تیسرے اہم حصے کی جانب توجہ منعطف کیجیے جو تین مواقع کی منظر کشی پر مشتمل ہے‘ جن کی ایسی کامل تصویرِ لفظی پیش کر دی گئی ہے کہ نگاہوں کے سامنے پورا نقشہ آ جاتا ہے. چنانچہ ایک نقشہ ہے ’’اَلسَّاعَۃ‘‘ کا‘ یعنی وہ بڑی ہلچل جو اِس کائنات کے نظام میں آنے والی ہے‘ جس کے بارے میں سورۃ الحج میں ارشاد فرمایا گیا: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ ۚ اِنَّ زَلۡزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیۡءٌ عَظِیۡمٌ ﴿۱﴾ ’’اے لوگو! اپنے پروردگار (اوراپنے آقا )کا تقویٰ اختیار کرو (اور اس کی نافرمانی سے بچو)‘ واقعہ یہ ہے کہ ’اَلسَّاعَۃُ‘ کا زلزلہ بڑی خوفناک چیز (اور بہت ہولناک واقعہ ) ہوگا!‘‘ یہ قیامت کی آمدکا پہلا نقشہ ہے جسے قرآن مجید یہاں ’’اَلسَّاعَۃُ‘‘ سے موسوم کرتا ہے. اسی کو دوسرے مقامات پر اَلْقَارِعَۃُ‘ اَلْحَاقَّـۃُ‘ اَلطَّاغِیَۃُ‘ اَلصَّاخَّۃُ اور اَلطَّامَّۃُ الْـکُبْرٰی بھی فرمایا گیا.اُس ’’اَلسَّاعَۃُ‘‘ کا نقشہ اس سورۂ مبارکہ میں یوں کھینچا گیا:

فَاِذَا بَرِقَ الۡبَصَرُ ۙ﴿۷﴾وَ خَسَفَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۸﴾وَ جُمِعَ الشَّمۡسُ وَ الۡقَمَرُ ۙ﴿۹

’’پس جب نگاہ چندھیا جائے گی‘اور چاند بے نور ہو جائے گا ‘اور سورج اور چاند ایک کر دیے جائیں گے.‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ کششِ ثقل کا جو باہمی نظام ہے‘ اس کا معاملہ درہم برہم ہو جائے گا اور یہ بڑے بڑے کرے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرائیں گے اور چاند سورج میں دھنس جائے گا. تو یہ اس
’’اَلسَّاعَۃ‘‘ کے ابتدائی احوال ہیں. جب یہ کیفیت نظر آئے گی تو یہی انسان جو اِس وقت اکڑ رہا ہے‘ بڑے متکبرانہ انداز میں چیلنج کر رہا ہے کہ : یَسۡـَٔلُ اَیَّانَ یَوۡمُ الۡقِیٰمَۃِ ؕ﴿۶﴾ ’’(تحدی کے ساتھ) پوچھتا ہے کہ کب ہو گا قیامت کا دن؟‘‘ اس روز اس کا یہ حال ہو گا کہ یَقُوۡلُ الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍ اَیۡنَ الۡمَفَرُّ ﴿ۚ۱۰﴾ ’’یہ انسان کہہ رہا ہو گا کہ ہے کوئی جائے فرار؟ (ہے کوئی پناہ گاہ؟)‘‘ جواباً اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد ہو رہا ہے :

کَلَّا لَا وَزَرَ ﴿ؕ۱۱﴾اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمُسۡتَقَرُّ ﴿ؕ۱۲﴾یُنَبَّؤُا الۡاِنۡسَانُ یَوۡمَئِذٍۭ بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ ﴿ؕ۱۳

’’ہرگز نہیں! (اُس روز) کوئی جائے پناہ نہیں ہو گی. اُس روز تو تیرے ربّ ہی کے سامنے جا کر ٹھہرنا ہو گا. (اُس روز) انسان کو جتلا دیا جائے گا جو کچھ اس نے آگے کیا (یا آگے بھیجا) اور جو کچھ پیچھے کیا(یا پیچھے چھوڑا)!‘‘

یہ ایک نقشہ تو 
’’اَلسَّاعَۃ‘‘ کا ہے جو کھینچا گیا ہے. دوسرا نقشہ ہے ’’یَوْمُ الْقِیَامَۃِ‘‘ 

کا جس روز لوگ اپنے ربّ کے حضور میں کھڑے ہوں گے‘ نتیجہ کا اعلان ہونے والا ہو گا. جیسے کہ آپ نے اسکولوں میں دیکھا ہو گا کہ جس روز سالانہ امتحان کا نتیجہ نکلتا ہے تو طالب علم جب کھڑے ہوتے ہیں تو نتیجہ گویا ان کے چہروں پر پہلے ہی سے لکھا ہوا ہوتا ہے.جو کامیاب ہونے والے ہوتے ہیں ‘ جن کو معلوم ہے کہ ہم امتحان کے پرچے اچھے کر کے آئے ہیں‘ ان کے چہرے تروتازہ ہوتے ہیں‘ انہیں کوئی تشویش نہیں ہوتی. اور جنہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم فیل ہونے والے ہیں‘ وہ نتیجہ کے متعلق خود جانتے ہیں کہ وہ کیا ہو گا! اسی کیفیت کو اس سورۂ مبارکہ کی آیات ۱۴۱۵ میں یوں فرمایا گیا:

بَلِ الۡاِنۡسَانُ عَلٰی نَفۡسِہٖ بَصِیۡرَۃٌ ﴿ۙ۱۴﴾وَّ لَوۡ اَلۡقٰی مَعَاذِیۡرَہٗ ﴿ؕ۱۵﴾ 
’’بلکہ انسان اپنے لیے خود ہی دلیل ہے (ہر انسان کو خوب معلوم ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے اور وہ کہاں کھڑا ہے!) خواہ وہ کتنے ہی بہانے تراشے اور معذرتیں پیش کرے (اور اپنی چرب زبانی سے اعتراض کرنے والوں کی زبانیں بند کر دے).‘‘
لیکن وہ اپنی تمام باطنی کیفیات اور اپنے اصل محرکاتِ عمل کو اچھی طرح جانتا ہے. لہذا جب لوگ بارگاہِ ربّ العزت میں کھڑے ہوں گے تو ان کے چہروں پر ان کا انجام‘ ان کے امتحان کا نتیجہ لکھا ہوا ہو گا. اسی بات کو اگلی آیات (۲۲ تا ۲۵) میں فرمایا گیا:

وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ ﴿ۙ۲۲﴾اِلٰی رَبِّہَا نَاظِرَۃٌ ﴿ۚ۲۳﴾ 

’’اُس روز بہت سے چہرے ہوں گے تروتازہ (اور شاداں و فرحاں) اپنے پروردگار کی رحمت کے امیدوار (یا اپنے پروردگار کی جانب دیکھتے ہوئے)‘‘.
اس کے برعکس کچھ لوگوں کا حال یہ ہو گا: 

وَ وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍۭ بَاسِرَۃٌ ﴿ۙ۲۴﴾تَظُنُّ اَنۡ یُّفۡعَلَ بِہَا فَاقِرَۃٌ ﴿ؕ۲۵﴾ 

’’اور کچھ چہرے ہوں گے اُس دن سوکھے ہوئے (اداس اورافسردہ و پریشان). اس خیال سے (لرز رہے ہوں گے) کہ اب اُن کے ساتھ کمر توڑ دینے والا سلوک ہونے والا ہے.‘‘
تیسرا نقشہ جو کھینچا گیا‘ وہ ہے قیامت صغریٰ یعنی عالم ِنزع کا نقشہ‘ جب اس دنیا سے روانگی کا وقت ہوتا ہے اور انسان کو یقین ہو جاتا ہے کہ اب اپنے اہل و عیال اور مال و منال سے جدائی کی گھڑی آن پہنچی ہے. نبی اکرم کا ارشادِ گرامی ہے : 

مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُـہٗ (۱

’’جو مر گیا تواس کی قیامت تو واقع ہو گئی.‘‘
یعنی دنیا کی مہلتِ عمل ختم ہو گئی‘ جیسا کہ امتحان گاہ میں کہا جاتا ہے کہ وقت ختم ہو گیا‘ لکھنا بند کر دیا جائے اور قلم رکھ دیے جائیں. تو یہ موت درحقیقت مہلتِ عمل کے خاتمے کا نام ہے اور وقوعِ جزا و سزا کا مقدمہ اور پیش خیمہ ہے. اُس وقت کا نقشہ کھینچا گیا: 

کَلَّاۤ اِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَ ﴿ۙ۲۶﴾وَ قِیۡلَ مَنۡ ٜ رَاقٍ ﴿ۙ۲۷﴾ (۱) تخریج الاحیاء للعراقی ۴/۷۹. وسلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی:۱۱۶۶’’ہرگز نہیں! جب جان ہنسلیوں میں آن پھنسے گی‘ اور کہا جائے گا (یعنی تیمار دارکہیں گے) ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا؟‘‘
یعنی اب تو ساری تدبیریں ناکام ہو چکیں اور معالج جو اب دے چکے. آپ نے دیکھا ہو گا کہ اس موقع پر بسا اوقات بڑے سے بڑا عقلیت پرست بھی اس تگ و دو میں لگ جاتا ہے کہ کوئی ٹونا ٹوٹکا ہی کام کر جائے اور کسی تیر تکے ہی سے کام چل جائے.

وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ ﴿ۙ۲۸﴾وَ الۡتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِ ﴿ۙ۲۹

’’اوراسے یقین ہو جائے گا کہ اب جدائی کا وقت آن پہنچا ہے‘ اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹی ہو گی.‘‘
اگلی آیت میں جو حالت بیان فرمائی گئی ہے وہ دنیا سے آخرت کی جانب انتقال (نقل‘مکانی) کے مختلف مراحل کی نہایت جامع اور فصیح و بلیغ تعبیر ہے‘ یعنی :
اِلٰی رَبِّکَ یَوۡمَئِذِۣ الۡمَسَاقُ ﴿ؕ٪۳۰

’’(اُس روزکہا جائے گا) آج تو تجھے اپنے ربّ کی طرف ہی جانا ہے (چار و ناچار‘ کشاں کشاں).‘‘
الغرض یہ تین نقشے ہیں جن کو پیش کرنے سے مطلوب و مقصود یہ ہے کہ جو لوگ آخرت اور قیامت کے منکر ہیں‘ جو کبوتر کی مانند اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں‘ جو اپنی فطرت کی گواہی پر غور نہیں کر رہے‘ اپنے ضمیر کی پکار کو نہیں سن رہے‘ اس کی خلش پر دھیان نہیں دے رہے‘ نفس ملامت گر کی پروا نہیں کر رہے‘ جو عقل و خرد اور فہم و ادراک نیز شعور سے کام نہیں لے رہے‘ ان کے باطن کی بصیرت شاید اِن واقعات و حالات کی تذکیر سے جاگ جائے جن کا وقوع پذیر ہونا یقینی‘ قطعی اور حتمی ہے ‘ جیسا کہ سورۃ الذّٰریٰت میں فرمایا گیا:
اِنَّمَا تُوۡعَدُوۡنَ لَصَادِقٌ ۙ﴿۵﴾وَّ اِنَّ الدِّیۡنَ لَوَاقِعٌ ؕ﴿۶

’’بلاشبہ تم سے جو وعدہ کیا جا رہا ہے وہ سچا ہے( حق ہے) اور یقینا جزا و سزا واقع ہوکر رہے گی‘‘.
گویا جو لوگ ان حقائق کو اپنے شعو ر و ادراک سے دُور رکھے ہوئے ہیں اور ان کی طرف 
سے اپنی نگاہیں بند کیے ہوئے ہیں‘ اور جو خوابِ غفلت میں مدہوش ہیں‘ ان نیند کے متوالوں کو اس سورۂ مبارکہ میں مؤثر ترین اسالیب سے جگایا جا رہا ہے. اور جو اس کے باوجود نہ جاگیں‘ بلکہ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے رہیں ان کے لیے سورۂ مبارکہ کی آیات ۳۴۳۵ میں فرمایا:

اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ﴿ۙ۳۴﴾ثُمَّ اَوۡلٰی لَکَ فَاَوۡلٰی ﴿ؕ۳۵﴾ 

’’(اے غفلت شعار!) تیرے لیے افسوس اور ہلاکت ہے. پھر تیرے لیے افسوس اور بربادی ہے!‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اِس انجامِ بد سے بچائے اور ہمارے دلوں میں آخرت کا یقین بھی پیدا فرمادے اور 
’’زَلْزَلَۃُ السَّاعَۃ‘‘ اور ’’أھوالُ القیامۃ‘‘ کی سختیاں آسان فرما کر جنت الفردوس میں داخل فرمائے‘ آمین!